HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: آل عمران ۳: ۴۵-۵۱ (۱۱)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)

  

إِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِکَۃُ: یَا مَرْیَمُ، إِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ، وَجِیْہاً فِیْ الدُّنْیَا، وَالاٰخِرَۃِ، وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ{۴۵} وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِیْ الْمَہْدِ وَکَہْلاً، وَّمِنَ الصَّالِحِیْنَ{۴۶} قَالَتْ: رَبِّ أَنّٰی یَکُونُ لِیْ وَلَدٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ، قَالَ: کَذٰلِکِ اللّٰہُ یَخْلُقُ مَا یَشَآء ُ، إِذَا قَضٰٓی أَمْراً فَإِنَّمَا یَقُوْلُ لَہُ: کُنْ فَیَکُوْنُ{۴۷} وَیُعَلِّمُہُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ، وَالتَّوْرَاۃَ وَالإِنْجِیْلَ{۴۸} وَرَسُوْلاً إِلٰی بَنِیْٓ إِسْرَآئِ یْلَ، أَنِّیْ قَدْ جِئْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ: أَنِّیْٓ أَخْلُقُ لَکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ کَہَیْْئَۃِ الطَّیْْرِ، فَأَنْفُخُ فِیْہِ، فَیَکُوْنُ طَیْْرًا بِإِذْنِ اللّٰہِ، وَأُبْرِئُ الأَکْمَہَ وَالأَبْرَصَ، وَأُحْـیِ الْمَوْتٰی بِإِذْنِ اللّٰہِ، وَأُنَبِّئُکُمْ بِمَا تَأْکُلُوْنَ، وَمَا تَدَّخِرُوْنَ فِیْ بُیُوْتِکُمْ. إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ، إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ{۴۹} وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَیْْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ، وَلِأُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْْکُمْ، وَجِئْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ، فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْنِ{۵۰} إِنَّ اللّٰہَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ، ہٰـذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ {۵۰} 
اِنھیں یاد دلاؤ، جب فرشتوں نے کہا: اے مریم، اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک فرمان کی بشارت دیتا ہے۔ ۸۸ اس کا نام مسیح ۸۹ عیسیٰ ابن مریم ہوگا۔ ۹۰  وہ دنیا اور آخرت، دونوںمیں صاحب وجاہت ا۹ اور مقربین میں سے ہو گا، (اپنی نبوت کا کلام ) لوگوں سے گہوار ے میں بھی کرے گا ۹۲ اوربڑی عمر کو پہنچ کربھی، ۹۳ اور صالحین میں شمار کیا جائے گا۔ وہ بولی :پروردگار، میرے ہاں بچہ کہاں سے ہوگا، مجھے تو کسی مرد نے چھوا تک نہیں۔ فرمایا: اِسی طرح اللہ جو چاہے ،پیدا کرتا ہے۔ وہ جب کسی معاملے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اتنا ہی کہتاہے کہ ہوجا، پھر وہ ہوجاتاہے۔ ۹۴ (چنانچہ اِسی طرح ہوگااور) اللہ اُسے قانون اورحکمت سکھائے گا، یعنی تورات وانجیل کی تعلیم دے گا ۹۵اوراِس کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گا۔ ۹۶  (چنانچہ یہی ہوا اوراُس نے بنی اسرائیل کو دعوت دی کہ ۹۷) میںتمھارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں۔ ۹۸ وہ یہ کہ میں تمھارے لیے مٹی سے پرندے کی ایک صورت بناتا ہوں، پھر میں اس میں پھونکتا ہوں تو اللہ کے حکم سے وہ فی الواقع پرندہ بن جاتی ہے ؛ اور اندھے اورکوڑھی کومیں اللہ کے حکم سے اچھا کرتا ہوں؛ اورمردوں کو زندہ کردیتا ہوں؛ اورمیں تمھیں بتا سکتا ہوں جو کچھ تم کھا کر آتے ہواورجو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو۔ اِس میں تمھارے لیے یقینا ایک بڑی نشانی ہے، اگرتم ماننے والے ہو۔ اور میں تورات کی تصدیق کرنے والا بن کر آیا ہوں ۹۹  جو مجھ سے پہلے آچکی ہے، اور اس لیے آیا ہوں کہ تمھارے لیے بعض اُن چیزوں کو حلال ٹھیراؤں جوتم پر حرام کردی گئی ہیں، ۰۰ا اور (دیکھو) میں تمھارے پروردگار کی طرف سے تمھارے پاس نشانی لے کر آیا ہوں۔ سو اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو ۔ یقینا اللہ ہی میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی ، ا۰ا لہٰذاتم اُسی کی بندگی کرو۔ یہی سیدھی راہ ہے۔ ۴۵۔ا۵

۸۸؎  سیدہ مریم کے لیے یہ بغیر کسی مرد کی ملاقات کے بچے کی پیدایش کی بشارت ہے۔ لیکن صرف لفظ فرمان کے ساتھ اس بشارت کی ابتدا اس لیے کی گئی ہے کہ معاملے کی نوعیت بھی ان پر واضح رہے، اور ایک کنواری اور شرم وحیا کی پیکر خاتون اس بات کو سننے کے لیے بھی تیار ہوجائے جو اسے کہنا پیش نظرہے۔

 ۸۹؎  یہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا لقب ہے۔ بنی اسرائیل کے یہاں روایت تھی کہ نبیوں اوربادشاہوں کو ان کے منصب پرمامور کرنے کا اعلان بالعموم ا ن کے سر پر ایک قسم کا مقدس تیل مل کر کیا جاتا تھا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے لیے یہ اعلان ان کی پیدایش کے فوراً بعد گہوارے ہی میں گویا براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا۔ چنانچہ مسیح کا یہ لقب انھی کے لیے خاص ہوگیا۔ انجیل میں اسی بنا پرانھیں ’’خداوندکا مسیح‘‘کہا گیا ہے۔

۹۰؎  یعنی وہ کسی باپ کا بیٹا نہیں ہوگا۔ استاذ اما م کے الفاظ میں سیدنا مسیح علیہ السلام کو ابن مریم کہہ کر یہ قرآن نے ان لوگوں کے لیے گفتگوکی ہر گنجایش ختم کردی ہے جو کمزور تاویلات کے ذریعے سے قرآن کے نہایت واضح نصوص میں تحریف کرنا چاہتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’...اگر حضرت عیسیٰ کسی باپ کے بیٹے تھے تو آخر قرآن کو مسیح بن مریم کہنے کے بجائے ان کے باپ کی طرف ان کی نسبت کرنے میں کیا رکاوٹ تھی؟قرآن بھی مسیح بن یوسف کہہ سکتا تھا ، لیکن اس نے ایسا نہیں کہا۔ آخر کیوں نہیں کہا؟‘‘(تدبرقرآن۲/ ۹۳)         

ا۹؎  یہ وہی وجاہت ہے جس کاذکر اس سے پہلے سیدنا یحییٰ علیہ السلام کے بیان میں ہوچکا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کے مختلف پہلووں کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے :

’’لوقا کی روایت سے معلوم ہوتاہے کہ ۲اسال کی عمر میں حضرت مسیح نے پہلی بارہیکل میںتعلیم دی ، لیکن اس کم سنی کے باوجود ان کی تعلیم کی حکمت و معرفت، کلام کی بلاغت و جزالت اور لب ولہجہ کی عظمت وجلالت کا عالم یہ تھا کہ فقیہ اورفریسی، سردار کاہن اورہیکل کا تمام عملہ دم بخود رہ گیا۔ وہ حیرانی کے عالم میں ایک ایک سے پوچھتے پھرتے تھے کہ یہ کون ہے جو اس شکوہ سے بات کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے اس کو اختیار ملاہوا ہے۔ یہود یہ کی بستیوں میں جب انھوں نے تبلیغ شروع کی تو ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہلچل مچ گئی۔ خلقت ان پر ٹوٹ پڑتی تھی۔ فقیہ اورفریسی سب پر ایک سراسیمگی کا عالم تھا، وہ ان کو زچ کرنے اورعوام میں ان کی مقبولیت کم کرنے کے لیے ان سے طرح طرح کے سوالات کرتے، لیکن سیدنا مسیح دو دو لفظوں میں ان کو ایسے دندان شکن جواب دیتے تھے کہ پھر ان کو زبان کھولنے کی جرات نہ ہوتی۔ تھوڑے ہی د نوں میں ان کی وجاہت کا یہ غلغلہ ہوا کہ عوام ان کو اسرائیل کا بادشاہ کہنے اوران کی بادشاہی کے گیت گانے لگے، یہاں تک کہ رومی حکام  ـــــ ہیرو دیس اورپیلاطوس  ــــــ کے سامنے بھی یہ مسئلہ ایک نہایت اہم مسئلہ کی حیثیت سے آگیا ، لیکن وہ بھی اپنی تمام قوت و جبروت کے باوجود سیدنا مسیح کی عظمت وصداقت اور ان کی بے پناہ مقبولیت سے مرعوب ہوگئے۔
اس وجاہت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ باوجود یکہ سیدنا مسیح بن با پ کے پیدا ہوئے اوربن باپ کے پیدا ہونے والے کسی بچے کے لیے عام حالات میں کسی عزت ووجاہت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ، لیکن سیدنا مسیح چونکہ اللہ تعالیٰ کے کلمہ’ کن‘ سے پیدا ہوئے تھے اس وجہ سے اس کا معجزانہ اثر یہ ظاہر ہوا کہ روز اول سے ان کو خلق کی نگاہوں میں وہ وجاہت حاصل رہی جو اس عہد میں کسی کو بھی حاصل نہیں ہوئی۔ وہ زندگی بھر اپنے جانی دشمنوں میں گھرے رہے ، لیکن اس پہلو سے کسی کو ان پر طعن کرنے کی جرات نہیں ہوئی ۔ یہود کے ایک گروہ نے اگر جسارت بھی کی تو بعد کے زمانوں میں کی، ان کے عہد مبارک میں کسی کو بھی اس قسم کی جرات نہ ہوسکی۔ ان کی اس وجاہت کی بشارت ان کی ولادت کی بشارت کے ساتھ ہی حضرت مریم کو اس لیے دی گئی کہ ان کو اس پہلو سے کوئی خلجان نہ ہو کہ بن باپ کے پیدا ہونے کے سبب سے بچے کی یا خود ان کی وجاہت پر کوئی اثر پڑے گا۔
اس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اس سے ان تمام خرافات کی تردید ہورہی ہے جو انجیلوںمیں مذکورہیں کہ یہودیوں نے سیدنا مسیح کے نعوذ باللہ طمانچے لگائے، ان کا مذاق اڑایا، ان کو گالیاں دیں، ان کے منہ پرتھوکا۔ ان خرافات کا اکثر حصہ، جیسا کہ ہم آگے واضح کریں گے،غلط ہے۔ اللہ کے رسولوں کے دشمن ان کی توہین و تحقیر کی جسارت تو کرتے ہیں اوراس سلسلے میں ایک حد تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ڈھیل بھی مل جاتی ہے ، لیکن یہ ڈھیل بس ایک خاص حد تک ہی ہوتی ہے ، جب کوئی قوم اس حد سے آگے بڑھنے کی جسارت کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو اپنی حفاظت میں لے لیتا ہے اوراس ناہنجار قوم کا بیڑا غرق کر دیا جاتا ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۹۲)      

۹۲؎  مسیح علیہ السلام کے معاملے میں یہ غیر معمولی واقعہ اس لیے ہوا کہ سیدہ مریم پرکسی تہمت کی گنجایش نہ رہے اورانھیں یہ بشارت اسی موقع پر اس لیے دی گئی کہ وہ مطمئن ہوجائیں کہ لوگوں کے ان کے خلاف زبان کھولنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ ایک ایسی زبان ان کے حق میں کھول دے گاجو سب کی زبانیں بند کردے گی۔  

۹۳؎  یعنی اس کے بعد وہ بڑی عمر کو پہنچے گا اورنبوت کا یہی کلام اپنی قوم سے کرے گا۔

۹۴؎  یہ اس فرمان کی وضاحت ہے جس سے سیدنا مسیح علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔

۹۵؎  اس سے تورات وانجیل کا باہمی تعلق بھی قر آن نے بتادیا ہے اور یہ بات بھی واضح کردی ہے کہ انجیل ایمان و اخلاق کے انھی حقائق کو بے نقاب کرنے کے لیے نازل کی گئی تھی جنھیں بنی اسرائیل فراموش کربیٹھے تھے۔ اس سے مقصود تورات کے احکام میں کو ئی تغیر وتبدل کرنا نہیں تھا، بلکہ انھی کوپورا کرنا تھا تاکہ ان کی روح اوران کی حکمت ہر لحاظ سے نمایاں ہو اورخداکی شر یعت لوگوں کے لیے زندگی سے خالی محض ایک بوجھ بن کر نہ رہ جائے۔

۹۶؎  اصل میں ’رسولا الی بنی اسرائیل ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ ان سے پہلے ایک فعل محذوف ہے۔ یعنی ’یبعثہ رسولا‘۔ سیدنامسیح علیہ السلام حضرت یحییٰ کی طرح صرف ایک نبی نہیں تھے، بلکہ اس کے ساتھ رسالت کے منصب پربھی فائز تھے۔ آیت سے واضح ہے کہ ان کی رسالت بنی اسر ائیل کے لیے خاص تھی اوراس کے ماننے یا جھٹلانے کے نتائج بھی دنیا میں انھی کو بھگتنا تھے۔ چنانچہ ان پر ایمان لانے کے بجائے بنی اسرائیل جب ان کے قتل کے درپے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے رسولوں سے متعلق اپنے قانون کے مطابق ان کے اس جرم کی یہ سزا ان پر نافذ کردی کہ اب وہ قیامت تک کے لیے مسیح علیہ السلام کے ماننے والوں کے محکوم بن کر دنیا میں رہیں گے۔

۹۷؎  سیدنا مسیح علیہ السلام کی سرگزشت کا ایک بڑا حصہ اپنے اسلوب کے مطابق حذف کرکے یہ قرآن نے گویا انھیں ایک داعی کی حیثیت سے بنی اسر ائیل کے سامنے کھڑا کردیا ہے کہ انھوں نے اس طریقے سے اپنی دعوت انھیں پیش کی او راس کے لیے یہ معجزات انھیں دکھائے۔

۹۸؎  اصل میں ’ جئتکم بآیۃ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ لفظ ’آیۃ‘ کی تنکیر ان میں وحدت کے لیے نہیں، بلکہ تعمیم کے لیے ہے ۔ یعنی میں اپنے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کرآیاہوں۔ اس سے قطع نظر کہ وہ ایک ہی صورت میں سامنے آئے یا ایک سے زیادہ صورتوں میں۔

 ۹۹؎  اصل الفاظ ہیں: ’مصدقا لما بین یدی من التوراۃ‘۔ان میں ’مصدقا‘ حال ہے جو ’انی قدجئتکم بآیۃ‘ کے جملے پرآیا ہے اورمحض مشابہت کی وجہ سے پچھلے جملے پر عطف ہوگیا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ میںتورات کی تردید کرنے نہیں، بلکہ اسی کو قائم کرنے اور اس کی ان پیشین گوئیوں کو سچا کردینے کے لیے آیا ہوں جو آنے والے نبیوں کے بارے میں تم اس میں پڑھتے رہے ہو۔

۰۰ا؎  یعنی تمھارے علما کے غلو اور اس کے نتیجے میں ان کی طرف سے صادر ہونے والے من گھڑت فتووں کی وجہ سے حرام کردی گئی ہیں۔

ا۰ا؎  انجیل میں اللہ تعالیٰ کے لیے میرا باپ اور تمھارا باپ کی جو تعبیر جگہ جگہ آئی ہے ، یہ قرآن نے اس کی تصحیح کردی ہے کہ سیدنا مسیح نے جو بات فرمائی تھی، وہ درحقیقت یہ تھی ، لیکن عبرانی زبان میں اب اور ابن کے الفاظ چونکہ باپ اوربیٹے اوررب اور بندے کے معنی میں مشترک تھے، اس لیے نصاریٰ نے سیدنا مسیح کی الوہیت کا عقیدہ ایجاد کیا تو اس اشتراک سے فائدہ اٹھاکر انھیں یہ صورت دے دی۔

                                                                                                                                                                                                                          [باقی] 

 ـــــــــــــــــــ

B