HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ریحان احمد یوسفی

یہ رقت آمیز اجتماعی دعائیں

اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا اعلیٰ ترین عمل ہے۔دعا مانگنا توحید کا اعتراف اس سطح پر جاکر کرنا ہے جس سے زیادہ بلند سطح کا تصور بھی مشکل ہے۔بندہ رب سے مانگ کر شرک سے اپنی بے زاری اور توحید پر ایمان کا عملی ثبوت دیتا ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر اس یقین اور اعتماد کا اظہار ہے کہ وہی ہر نفع و نقصان کامالک ہے؛ وہ نفع ونقصان جس کی نسبت جب غیر اللہ کی طرف کی جاتی ہے تو شرک کی نت نئی اقسام وجود میں آجاتی ہیں۔چنانچہ قرآن و حدیث اللہ ہی سے مانگنے اور تنہا اسے ہی پکارنے کی تاکید سے بھرے ہوئے ہیں۔ اپنی اس اہمیت کی بنا پر دعا تمام انبیا اور صالحین کا وظیفہ رہی ہے۔دیگر انبیا کی دعاؤں کا ذکر تو قرآن میں اختصار سے ہوا ہے ، لیکن رسول اللہ کی دعاؤں کی جو تفصیلات احادیث میں ملتی ہیں ، ان سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک بندۂ مومن دعا کے ذریعے سے کس درجہ خداسے قربت حاصل کرسکتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں جہاں دیگر بہت سے دینی امور میں افراط و تفریط کا رویہ عام ہوگیا ہے وہیں دعا جیسی عظیم عبادت میں بھی ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے بہت دور آگئے ہیں۔خاص طور پر لمبی لمبی اجتماعی دعائیں، جن میں بے جا رقت در آتی ہے ، آج کل بہت عام ہوچکی ہیں۔ایسے اجتماعات میں حاضرین کی کثیر تعداد، خاص طور پر کی جانے والی رقت آمیز دعا میں شریک ہونے کے لیے دور دور سے آتی ہے، بلکہ اب تو ٹیلی وژن پر گھر بیٹھے ’’رقت آمیز ‘‘ دعا سننے اور کرنے کا چلن بہت مقبول ہوتا جارہا ہے۔

بظاہر ان باتوں میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی۔دعا، جیسا کہ ہم نے بیان کیا، اپنی ذات میں ایک انتہائی پاکیزہ اور اعلیٰ عبادت ہے۔دین میں نہ اجتماعی دعا پر پابندی ہے نہ کسی خاص وقت یا عبادت کے موقع پر دعا کی حرمت وارد ہوئی ہے۔ اجتماعات کے بارے میں لوگوں کا یہ خیال بھی غلط معلوم نہیں ہوتا ہے کہ ایسے میں بعض مخلصین اور مقبولین بھی موجود ہوں گے۔ دعا کرانے والے افراد بالعموم بہت تیاری سے ڈھیر ساری دعائیں بااہتمام یاد کرکے آتے ہیں۔ اس لیے ان دعاؤں میں جامعیت کا پہلو بھی ہوتا ہے اور الفاظ و اسالیب کا انتخاب بھی موثر اور دل پزیر ہوتا ہے۔بلکہ بعض افراد تو اللہ میاں کو ’متاثر‘ کرنے کے لیے اچھے ادیبوں سے موثر اسالیب میں دعائیں لکھواکر ساتھ لاتے ہیں۔پھر رونے اور رلانے کی گارنٹی تو گویا وہ نسخہ ہے جس کے بعد دعاکی قبولیت کم وبیش یقینی ہوجاتی ہے۔

تاہم اجتماعی دعا کا جو طریقہ ہمارے ہاں رائج اور مقبول ہوتا جارہا ہے ، وہ اکثر و بیش تر دعا کی اس روح کو مجروح کردیتا ہے جو قرآن و حدیث سے ہمارے سامنے آتی ہے۔اس راہ میں بعض ایسے خطرات پوشیدہ ہیں جن سے لوگوں کی غلط نفسیاتی اور ذہنی تربیت ہی نہیں ہوتی ، بلکہ وہ غارت گر ایمان بھی ہوسکتے ہیں۔تاہم ان کے بیان سے قبل ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا طریقہ لوگوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ اس یاددہانی کے ساتھ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین دیا ، اس پر عمل کا بہترین نمونہ بھی آپ خود قائم کرکے گئے ہیں۔

دعاؤں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ نماز جیسی اہم عبادت کے بعد بھی آپ اجتماعی دعا نہیں کرتے تھے۔آپ کی زندگی میں متعدد رمضان اور شب قدر آئیں، مگر آپ نے کسی موقع پر لوگوں کو اکٹھا کرکے ’’صلوٰۃ تسبیح‘‘ اور اس کے بعد ’’رقت آمیز‘‘ دعا کا اہتمام نہیں کیا۔حج جیسے عظیم اجتماع کے موقع پر بھی کوئی اجتماعی دعا آپ سے ثابت نہیں۔ اجتماعی دعا آپ کسی اجتماعی مسئلے کے موقع پر کراتے تھے۔صلوٰۃکسوف، خسوف، استسقاء، قنوت اور جمعہ کے خطبۂ آخر کے موقع پر کی جانے والی دعائیں اس کی مثالیں ہیں۔اجتماعی دعا کے برخلاف آپ کی انفرادی زندگی سر تا سر دعا تھی۔روزمرہ زندگی کا کوئی ایسا معمول نہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا منقول نہ ہو۔ہر روز تہجد میں آپ کی نماز حمد، تسبیح،تلاوت کے علاوہ دعا ہی پر مشتمل ہوتی تھی۔آپ کی رقت ،خدا کے آگے زاری، اس کے حضور گڑگڑانے کی جو روایات ہمیں ملتی ہیں ، وہ رسول اللہ کی انفرادی دعاؤں سے متعلق ہیں ۔ آپ کی ذات چونکہ امت کے لیے ایک نمونۂ کامل ہے ، اس لیے ازواج مطہرات اور دیگر صحابہ نے بڑے اہتمام سے ان انفرادی دعاؤں اور اذکار و معمولات کو امت تک منتقل کیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اجتماعی دعا کی کمی اور انفرادی دعا کی کثرت کوئی ایسی راز کی بات نہیں۔ یہ قرآن کے اس حکم کی تعمیل ہے جس میں کہا گیا:

’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے۔ بے شک وہ حدود سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘(الاعراف۷: ۵۵)

آپ کی پوری زندگی اسی کا نمونہ ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہی طریقہ ہر مسلمان کے لیے نمونۂ کامل ہونا چاہیے۔ ایک مسلمان کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ دعا اگر قبول ہوگی تو اسی طریقے سے ہوگی کیونکہ جس سے دعا مانگی جاتی ہے اور جو دعا قبول کرتا ہے ، اس نے تو یہی طریقہ سکھایا ہے۔

رہا ہمارے ہاں رائج اجتماعی دعا کا معاملہ تو اس کے بیان کردہ سارے فضائل ، جن میں سے کچھ شروع میں ہم نے بیان بھی کیے ،قبولیت دعا کی شرط نہیں ہیں۔قرآن تو تنہا خدا کو پکارنے اور اسی کے حضور گڑگڑانے کی شرط لگاتا ہے۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسان گڑگڑاتا اس وقت ہے جب اس کا اپنا مسئلہ ہو۔ کوئی انسان کسی دوسرے کے مسئلے کے لیے دعا تو کرسکتا ہے تڑپ کر خدا کو نہیں پکارسکتا۔ ایک مصیبت زدہ انسان تنہائی میں بڑی بے کسی اور بے بسی سے خدا کو اپنا واحد سہارا سمجھ کر جب پکارتا ہے تو اس کی بات سننا خدا کی غیرت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اس دعا کی قبولیت اتنی ہی یقینی ہوتی ہے کہ اس پر شک کرنا خدا کے وجود سے انکار کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ کبھی اس دعا کو بعینہٖ قبول کرتا ہے اور کبھی اپنی حکمت اور مصلحت کے پیش نظر دعا کے نتائج کسی ایسی شکل میں نکالتا ہے جو شایدداعی کی مرضی کے عین مطابق نہ ہو ،لیکن اس کی بہتری میں ضرور ہوتے ہیں۔

اب ذرا ان مسائل کاذکر ہوجائے جو اجتماعی دعا میں پوشیدہ ہیں۔ ہم نے ابتدا میں بیان کیا ہے کہ دعا توحید کی اعلیٰ ترین سطح ہے، مگر اجتماعی دعا وہ بھی اگر رقت آمیز ہوجائے تو اس چیز کا شدید اندیشہ پیدا کردیتی ہے کہ انسان تصنع، بناوٹ اور ریاکاری کا شکار ہوجائے۔ ریاکاری اپنی نوعیت کے اعتبار سے شرک ہے۔ چنانچہ توحید کے اظہار کے ساتھ شرک کے امکانات کو جمع کرنا عقل مندی نہیں۔ہماری رقت آمیز دعاؤں میں داعی خود بھی روتا ہے اور لوگوں کو بھی رلاتا ہے۔لوگوں کو رلانا اصلاً وہ ’’فن‘‘ ہے جس کی مہارت پر داعی کی مقبولیت اور اجتماع کی کثرت کا انحصار ہوتا ہے۔چنانچہ اس بات کا پورا امکان رہتا ہے کہ داعی کے قلب کی ساری توجہ دل کا حال جاننے والے مالک کے بجائے خود رونے اور لوگوں کو رلانے پر رہے۔جس دعا میں دل کی حضوری نہ ہو، ساری توجہ الفاظ، اسالیب، سامعین پر ہو، اس کی قبولیت کے امکانات کتنے رہ جاتے ہیں ، یہ بیان کرنے کی حاجت نہیں ہے۔

اجتماعی دعا میں شریک ہونے والے لوگ نہ صرف خود ریاکاری کے خطرے کی زد میں رہتے ہیں، بلکہ دوسرے لوگوں کی موجودگی کے احساس کی بنا پروہ بسا اوقات اس رقت سے محروم ہوجاتے ہیں جو تنہائی میں لازماًظاہر ہوتی۔کیونکہ حساس لوگ اسے ریاکا ری خیال کرتے ہیں۔جبکہ تنہائی میں نہ صرف یہ مسئلہ نہیں ہوتا،بلکہ اس وقت طاری ہونے والی رقت اللہ تعالیٰ کی ایک غیر معمولی نعمت ہے۔ تنہائی کی ہر عبادت کی طرح دعا کی بھی یہ خوبی ہے کہ خدا سے قربت کا وہ ذائقہ انسان کو نصیب ہوتا ہے جو اور کسی شے میں نہیں۔یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے جسے شاعر نے بڑی خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے:

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

اجتماعی دعا کا ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ بڑی طویل ہوجاتی ہے اور بعض اوقات تو کئی گھنٹے جاری رہتی ہے جس کے نتیجے میں سامعین کے ہاتھ دکھنے لگ جاتے ہیں۔ دعا کی طرف ان کی توجہ رہتی ہے نہ اس میں وہ کوئی رغبت محسوس کرتے ہیں۔ آدمی اگر تنہا ہو تو بے رغبتی کی صورت میں دعا ختم کرسکتا ہے ، مگر اجتماعی دعا میں انسان بے زاری بھی محسوس کرتا ہے اور وہاں سے ہٹ بھی نہیں سکتا ۔ بے حضوری اور بے زاری کی یہ کیفیت خدا سے قربت کے بجائے دوری پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔

اجتماعی دعا کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو اس میں ’’مزہ‘‘ محسوس ہونے لگتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ رونے کا عمل انسان کو بڑی حد تک ذہنی دباؤ وغیرہ سے دور کردیتا ہے۔جس کے بعد انسان خود کو بڑا ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے۔چنانچہ اسے اس رقت آمیز دعا میں سرور آنے لگتا ہے۔اس قسم کا سرور مسلمانوں ہی کو نہیں غیر مسلموں کو بھی بتوں کے سامنے رونے دھونے میں محسوس ہوجاتا ہے۔انسان اس سرور کو اپنی قبولیت کے آثار میں سے سمجھ لیتا ہے۔پھر جس روز دعا میں اسے یہ’ سرور ‘نہ ملے ، اس دن اسے دعا کی قبولیت کا امکان محسوس نہیں ہوتا۔یہ واضح طور پر ایک غلط تصور ہے۔

ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ گناہوں میں مبتلا ایک عام انسان اس اجتماع میں داعی کی پیدا کردہ ایک خاص نفسیاتی کیفیت کی بنا پر دعا کے وقت روتا ہے اور اس رونے کو اپنی معافی کی علامت سمجھ لیتا ہے ۔حالانکہ معافی کے لیے بنیادی شرط اپنی غلطی کو غلطی سمجھ کر نادم ہونااور آیندہ اس سے بچنے کا عزم ہے۔ اس احساس اور عزم کے بغیر ’’اجتماعی معافی‘‘پانے والے لوگ عملاًَ َ معصیت کی روش نہیں چھوڑتے ۔اس طرح کے لوگ ظاہری اعمال کے معاملے میں تو کچھ محتاط ہوجاتے ہیں ، مگر حقوق العباد کے سلسلے میں انھیں گویااب ایک لائسنس مل جاتا ہے کہ جتنا چاہیں خدا کے بندوں کے حقوق غصب کریں ، خدا بہرحال ان پر ہاتھ نہیں ڈالے گا۔اس لیے کہ وہ اس کے خوف سے آنسو بہاکر جنت کا پروانہ پہلے ہی حاصل کرچکے ہیں۔

ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کی اجتماعی دعاؤں سے لوگوں کو یہ غلط تاثر ملتا ہے کہ دعا تو ایسے ہی بابرکت اجتماعات میں قبول ہوگی ۔کچھ خاص لوگ جو بہت مشہور ہوجاتے ہیں یا اپنی اعلیٰ تقریری صلاحیتوں کی بنا پر دعا میں بھی خطابت کے جوہر دکھاکر لوگوں کے دل موہ لیتے ہیں، لوگوں کے لیے بے حد پرکشش ہوجاتے ہیں۔لوگ ٹی وی پر یا اجتماعات میں با اہتمام ان کی دعاؤں میں شریک ہوتے ہیں۔ کیونکہ ایسے بابرکت اجتماع ، رقت آمیز ماحول اور باکمال مقرر کی موجودگی میں دعا کی قبولیت ، لوگوں کے خیال میں یقینی ہوجاتی ہے جس سے دعا کی توحیدی روح سخت متاثر ہوتی ہے ، کیونکہ اب مانگنے اور دینے والے کے بیچ میں ایک دلانے والا بھی آجاتا ہے۔ یہ بات دعا ہی کے نہیں، دین کے فلسفے کے بھی خلاف ہے۔

ان سب مسائل کے ساتھ ہمیں یہ اندیشہ بھی ہے کہ کچھ عرصے میں یہ اجتماعی دعائیں بذات خود ایک مقدس دینی فریضہ بن جائیں گی۔ان سے دور رہنے والے کو شقی و بدبخت سمجھا جائے گا۔لوگ انھی اجتماعی دعاؤں پر قانع ہوکر بیٹھ جائیں گے اورانبیا اور صالحین کی وہ روایت ختم ہوجائے گی جس میں وہ سب سے کٹ کر اپنے رب کے سامنے روتے اور گڑگڑاتے ہیں۔

ان سارے مسائل کی بنا پر اہل علم کے لیے لازم ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے صحیح بات رکھیں۔انھیں بتائیں کہ دین کا اصل زور انفرادی دعا پر ہے ۔ وہ انھیں انبیا اور صلحا کے طریقے سے دعا مانگنے کی تلقین کریں۔انھیں بتائیں کہ دعا معاملات کی نوعیت کی چیز نہیں جس میں اجتہاد کی ضرورت پیش آجائے ، بلکہ یہ عبادات میں شامل ہے ۔اور عبادات میں اجتہاد نہیں تقلید واجب ہوتی ہے۔

____________

B