HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ساجد حمید

شرح موطا امام مالک باب و قوت الصلوٰۃ نماز کے اوقات

[۴] وحدثنی یحیی عن مالک عن یحیی بن سعید عن عمرۃ بنت عبد الرحمن عن عائشۃ زوج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم انہا قالت :
اِنْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیُصَلِّی الصُّبْحَ، فَیَنْصَرِفُ النِّسَاءُ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوْطِہِنَّ مَا یُعْرَفْنَ مِنَ الْغَلَسِ.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھاتے ،(نمازپڑھنے کے بعد) عورتیں چادریں اوڑھے ہوئے جب لوٹتیں تو اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں۔

شرح

مفہو م ومدعا

اس روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فجر کا معمول یہ تھا کہ آپ فجر کی نماز اندھیرے ہی میں ادا کرلیتے تھے۔نماز سے فراغت کے بعد بھی اندھیرا اس قدر ہوتاکہ عورتوں کا باہم پہچان لینا آسان نہیں تھا۔لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آپ فجر کا وقت ہوتے ہی نماز ادا کرلیتے تھے۔بلکہ آپ کا عمل یہ تھا کہ آپ اتنی تاخیر کرتے کہ گھپ اندھیرا نہ ہو۔جیسا کہ دوسری روایتوں سے معلوم ہوتا ہے ، اسے ہم آگے چل کردرایت کی فصل میں تفصیل سے دیکھیں گے۔

ہماری مراد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دین بتانے میں ایک متوازن اور معتدل رویہ اختیار کرتے تھے،وہ ایسا طریقہ کبھی اختیار نہیں کرسکتے تھے ، جو عامۃ المسلمین کے لیے تکلیف دہ ہو۔ آپ نے نماز میں تعجیل ضرور کی ہے، مگر آپ نے عام نمازی کا بھی خیال رکھا ۔ اس لیے ہمارے خیال میں فجر کی نماز میں آپ کا معمول یہ تھا کہ نہ بہت جلدی پڑھتے اور نہ بہت تاخیر کرتے۔ آپ کی نماز یقیناً اندھیرے میں شروع ہوتی ،لیکن فجر کے طلوع ہوتے ہی نماز کھڑی نہیں کردی جاتی تھی۔ بلکہ صحیح تر بات یہ ہے کہ آپ اندھیرے کے آخری لمحات میں فجر ادا کرتے۔

یعنی آپ کا وقت ایسا رہا کہ غلس کے آخری اور اسفار کے ابتدائی وقت میں آپ نماز پڑھتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر آپ لمبی قرأت کرتے تو اجالا ہوجاتا اور اگر قدرے کم قرأت کرتے تو اندھیرے ہی میں نمازسے فارغ ہوجاتے ۔ ہمارے خیال میں اس روایت کا یہی مدعا ہے جو اس باب کی تمام روایتوں کوقابل فہم بناتا ہے۔

اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نمازفجر میں خواتین بھی شرکت کرتی تھیں،اور وہ چادریں اوڑھ کر آتی تھیں۔یہ مسلم معاشرت کا ایک پہلو ہے کہ خواتین بھی نیکی کے اجتماعی کاموں میں شریک ہوں تاکہ وہ اسلام ، اس کے پیغام اور اس کے اعمال سے آگاہ رہیں۔

لغوی مسائل

إن کان... لیصلی میں ’اِنْ‘ ثقیلہ سے مخففہ ہے ، اس کا اسم ’ضمیرِ شان ‘محذوف ہے اور ’ لیصلی‘ پر لگا لام مفتوح ’إن‘ نافیہ اور ’إن‘ مخففہ میں فرق کرنے کے لیے لگایا جاتاہے۔البتہ کوفیوں کی رائے میں یہ ’إن‘ نافیہ ہے، اور ’لیصلی ‘کا لام اِلاَّ کے معنی میں آتا ہے۔

متلفعات: لپیٹنے ، پہننے اور ڈھانپنے کے لیے بولا جاتا ہے۔ کعب بن زہیر کا مصرع ہے:

وقد تلفع بالقور العساقیلُ
’’ سراب ٹیلوں سے ڈھک گئے۔‘‘

عرفہ کے خطبہ کے موقع پر آپ کے بارے میں آتا ہے کہ ’علیہ برد متلفع بہا‘ ۔ یعنی آپ ایک چادر میں ملبوس تھے، جسے آپ نے لپیٹ رکھا تھا ۔یعنی جس طرح حاجی لپیٹتے ہیں۔یا جیسے ام سلمی کے گھر میں آپ کی نماز کا ذکر یوں ہوا ہے : ’یصلی فی ثوب متلفعا‘، وہ ایک کپڑے میں ملبوس نماز پڑھ رہے تھے۔

لپیٹنے کے معنی میں اس کی ہیئت متعین معلوم نہیں ہوتی۔ کبھی جسم کا کوئی حصہ اور کبھی پورا جسم، ڈھانپنے کا مفہوم قرائن سے متعین ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے ساتھ کبھی ہیئت کی توضیح کردی جاتی ہے اور کبھی نہیں۔یعنی اگر ہیئت نہ بتائی گئی ہو تو سب صورتیں لپیٹنے کی مراد ہو سکتی ہیں، اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ سر بھی ڈھانپا گیا ہو۔

زیر بحث حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ’ متلفعات بمروطہن ما یعرفن من الغلس‘ وہ چادروں میں لپٹی ہوئی نکلتیں کہ اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتیں۔ یوں لپٹے ہونے سے یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چادریں لپیٹنے کی وجہ سے وہ پہچانی نہیں جارہی تھیں یا کہ غلس (تاریکی) کی وجہ سے؟ حدیث کے الفاظ یہ بتا رہے ہیں کہ پہچاننے میں رکاوٹ چادریں نہیں، بلکہ تاریکی تھی۔

چنانچہ ’متلفعات‘ کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ چادریں اسی طرح لپیٹے ہوئے تھیں جس طرح اوپر حج والی صورت کا ذکر ہوا ہے، یا بس بکل مار لی ہوئی تھی، اور سر اور چہرہ کھلا ہوا تھا۔لیکن چونکہ اس میں سر ڈھانپے ہونے کے معنی بھی ہو سکتے ہیں، اس لیے شارحین نے بالعموم اس کے معنی یہی لیے ہیں کہ انھوں نے یہ چادریں سر پر بھی اوڑھ رکھی تھیں۔

اس معنی میں لے کر ایک بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ حضرت عائشہ کی غالباً مراد یہ ہو کہ روشنی اتنی ہوتی تھی کہ اگر وہ چادریں اوڑھ کر ادناے جلباب نہ کیے ہوتیں (گھونگھٹ نہ نکالے ہوتیں)تو پہچانی جاتیں۔ چونکہ اس وقت فضا میں روشنی زیادہ نہ ہوتی تھی اس کی وجہ سے گھونگھٹ کے نیچے تاریکی بڑھ جاتی اور وہ پہچانی نہ جاتی تھیں۔ اس معنی میں اس جملے کو لینے میں کوئی مانع نہیں ہے اور میرے خیال میں اسفار والی روایتوں سے اس کے اختلاف کو دور کرنے میں یہ معنی زیادہ معاون ہیں۔

ایک طریقے میں ’متلفعات‘کو نماز پڑھنے سے متعلق کیا گیا ہے کہ وہ نماز چادریں اوڑھ کر پڑھتی تھیں۔ پھر یہ سوال قائم نہیں رہتا کہ وہ اندھیرے کی وجہ سے پہچاننی مشکل تھیں یا چادروں کی وجہ سے ۔لیکن زیادہ تر طرق میں موطا کے الفاظ ہی کی تائید ہوتی ہے۔

مروط: مرط کی جمع ہے۔ اس کے معنی موٹی اور دبیز چادر کے ہوتے ہیں ، جو اون یا ریشم کی بنی ہوتی ہے۔یہ ان سلی ہوتی تھی۔ اس کے دبیز ہونے اور ان سلا ہونے کا اشارہ امرؤالقیس کے اس شعر میں بھی ہے:

خرجت بہا امشی تجر ورائنا
علی اثرینا ذیل مرط مرحل
’’میں اسے لے کر نکلا، پیدل چلتے ہوئے، جبکہ وہ ہمارے نقش قدم پر ہمارے پیچھے کجاوے کی تصویروں والی دبیزچادر (مرط) کا پلو (لٹکائے )گھسیٹ رہی تھی(تاکہ پاؤں کے نشان مٹ جائیں اور کھوجی تعاقب نہ کرسکیں)۔‘‘

امرؤالقیس نے جس طرح اس کا ذکر کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ’ مرط‘ کا غالب تصور یہی ہے کہ یہ اتنی بھاری ضرور ہوتی تھی کہ ریت پر اس کا ایک پلو گھسٹنے سے قدموں کے نشان مٹ جاتے تھے۔کپڑے کا بھاری ہونا اس کے دبیز ہونے کی واضح دلیل ہے۔

درایت

قرآن وسنت سے تعلق

سنت متواترہ میں فجر کا وقت لفظ فجر سے متعین کیا گیا ہے ۔ یہ روایت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ اسی سنت پر عمل کا بیان ہے ، جسے آپ نے نماز کے حکم کی بجا آوری میں اختیار کیا۔ یہ عمل ہمارے لیے اسوۂ حسنہ کی حیثیت رکھتا ہے۔آپ نے افق میں سفیدی ظاہر ہونے پر بھی فجر ادا کی ہے ،مگر روایتوں سے یہی معلوم ہوتاہے کہ عموم میں آپ نماز فجر سپیدۂ صبح کے غالب آنے سے پہلے ہی ادا کرلیتے تھے۔یعنی نماز فجرمیں آپ کا پسندیدہ وقت وہ ہے جب روشنی نہ ہوئی ہو۔

دیگر متون

اس روایت کے متون اصلاً ایک جیسے ہی ہیں۔ صرف تین جگہ پر فرق ہے:

ایک فرق یہ ہے کہ ان روایتوں میں سے بعض میں یہ بتایا گیا ہے کہ نماز پڑھنے والی عورتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات تھیں، (سنن الکبری ،رقم ۱۵۲۷)بعض میں یہ ہے کہ وہ بنی عبدالاشہل کی خواتین تھیں(مسند الشامیین، رقم۲۷۱)، بعض میں ہے کہ صرف ہجرت کرکے آنے والی عورتیں تھیں(مسندا لطیالسی ، رقم ۱۴۵۹) بعض میں ’ نساء المومنین‘کا ذکر ہے (احمد بن حنبل ، رقم ۲۶۲۶۵)،اور بعض میں مطلقاً ’ النساء ‘کا ذکر ہے جیسے کہ موطا کی زیر بحث روایت میں ہے۔ان اختلافات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک روایت کن کن تبدیلیوں سے گزر کر ہم تک پہنچتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ تمام روایتیں سیدہ عائشہ ہی سے ہیں اور پھر بھی ا ن میں یہ اتنا فرق پیداہوگیا!

اس بات سے کہ وہ عورتیں ازواج مطہرات تھیں یا بنی عبدالاشہل کی عورتیں تھیں ،اوقات نماز کے پہلو سے حدیث کے مفہوم و مدعا میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا، اس لیے اس باب میں یہ اختلافات حدیث میں باعتبار مضمون کوئی خرابی پیدا نہیں کرتے۔ البتہ اگر یہ روایت خواتین کے پردے کے باب میں زیر بحث آئے تو اس کے مفہوم و مدعا میں یہ اختلاف مشکلات پیدا کرے گا۔

چادریں اوڑھنے کا یہ عمل ، سورۂ احزاب کے نزول کے بعد ہوا یا پہلے، اسی طرح یہ سردیوں کے دنوں کی بات ہے یا گرمیوں کے دنوں کی، ان پہلو وں پر حدیث کے الفاظ سے کچھ روشنی نہیں پڑتی۔ لیکن اگر وہ روایت جس میں ازواج النبی کا ذکر ہے پیش نظر رکھیں تو پھر ایک قرینہ پیدا ہوجاتا ہے کہ یہ شاید سورۂ احزاب کے بعد کا واقعہ ہو۔اور اگر مہاجرات والی روایت بھی پیش نظر رکھیں تو پھر یہ سورۂ .ممتحنہ کے نزول کے وقت کاواقعہ ہے۔ اور ان مہاجرات کی آمد صلح حدیبیہ کے بعد ہوئی ہے۔ غزوۂ احزاب کے بعد سورۂ احزاب نازل ہوئی ہے۔ دو روایتوں کی گواہی سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ نمازوں میں شرکت کا یہ واقعہ گمان غالب یہی ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعدکا ہے۔ چنانچہ اس اعتبار سے یہ چادریں احزاب میں بیان کیے گئے احکام کے پیش نظر اوڑھی گئی تھیں۔ جن میں ازواج مطہرات کو فتنہ کے زمانے کے لیے کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیاگیا تھا۔ اس لیے اس روایت میں ’ متلفعات‘ کے مفہوم میں ادناے جلباب کے معنی بھی شامل ہوں گے۔

دوسرا فرق یہ ہے کہ بعض روایتوں میں چادریں اوڑھنے کا عمل نماز پڑھنے سے متعلق کیا گیا ہے اور کچھ میں موطا کے ساتھ موافقت ہے کہ واپس نکلتے ہوئے چادریں اوڑھی ہوتیں۔مثلا بیہقی کی روایت یوں ہے:

إن نساء من المؤمنات کن یشہدن صلاۃ الفجر مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم متلفعات فی مروطہن ثم ینقلبن الی بیوتہن حین یقضین الصلاۃ ولا یعرفہن احد من الغلس.(سنن البیہقی ، رقم ۱۹۷۲)
’’مسلم خواتین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھا کرتی تھیں، چادریں اوڑھے ہوئے، جب وہ نماز پڑھ کر واپس آتیں تو انھیں اندھیرے کی وجہ سے کوئی پہچان نہ پاتا تھا۔‘‘

تیسرا فرق یہ ہے کہ بعض روایتوں میں یہ آیا ہے کہ وہ عورتیں آپس میں ایک دوسرے کو نہیں پہچان پاتی تھیں ’لا یعرف بعضہن بعضا‘۔ (مسنداحمد، رقم ۲۶۲۶۵)اس سے تاریکی کی شدت کو اورزیادہ ماننا پڑے گا، اس لیے کہ عورتیں اگر باہم ایک دوسرے کو نہیں پہچان پاتیں تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ قریب ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو نہیں پہچان پاتی تھیں۔

احادیث باب پر نظر

اس روایت کا مضمون بظاہر کچھ دوسری روایتوں سے ٹکراتا ہے۔ ان روایتوں کے اختلاف کی وجہ سے امام مالک اور شافعی رحمہمااللہ تغلیس کی فضیلت کے قائل ہیں اور فقہاے کوفہ اس کی فضیلت کے قائل نہیں ہیں۔ ابن رشد اس اختلاف کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’فقہا نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ فجر کا وقت صبح صادق کے طلوع سے شروع ہوتا اور سورج کے طلوع پر ختم ہوتا ہے۔سوائے اس اختلاف کے جو ابن قاسم اور بعض شوافع سے منقول ہوا ہے کہ اس کا آخری وقت اسفار ہے۔پسندیدہ وقت کے باب میں فقہا کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔ فقہاے کوفہ، ابو حنیفہ ، احناف، امام ثوری اور عراقی فقہا کی اکثریت اسفار کی فضیلت کی قائل ہے۔ البتہ مالک ، شافعی، شوافع، احمدبن حنبل، ابو ثور اور داؤدتغلیس کی فضیلت کے قائل ہیں۔
ان کے اختلاف کا سبب ظاہری معنی میں مختلف احادیث کو جمع کرنے میں اختلاف کی وجہ سے ہے۔ آپ سے رافع بن خدیج کے طریقے سے یہ روایت آئی ہے کہ ’ اسفروا بالصبح فکلما اسفرتم فہواعظم للأجر ‘، صبح کی نماز روشن کرکے پڑھو، جب بھی روشنی میں نماز پڑھو گے تو وہ اجر میں سب سے بڑھ کر ہوگی۔جیسے یہ بھی کہ آپ سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے بہتر ہے، آپ نے فرمایا: ’الصلوٰۃ لأول میقاتہا‘’’اول وقت میں نماز‘‘، یہ بات بھی آپ سے ثابت ہے کہ جب آپ نماز ختم کرتے تو عورتیں چادریں اوڑھ کر نکلتیں تو اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتیں تھیں۔ اس حدیث کے الفاظ کا ظاہر یہ بتا رہا ہے کہ آپ کا اکثر عمل اسی پر تھا۔
جس نے رافع کی حدیث کو خاص کردیا ،اور’ الصلوٰۃ لأول میقاتہا‘ کو عام مانا تو مشہور بات یہ ہے کہ خاص عام سے مستثنیٰ ہو گا، چنانچہ جب اس نے فجر کو اس عموم سے مستثنیٰ کیا ، اور حدیث عائشہ کو جواز پرمحمول کیا ، اور یہ بھی کہ ان روایتوں میں آپ کے عمل کا جو بیان ہے وہ محض وقوع کا بیان ہے ، نہ کہ آپ کے غالب معمول کا، تو اس نے یہ رائے بنائی کہ اسفار تغلیس کے مقابلے میں افضل ہے۔
جس نے عموم والی روایت کو ترجیح دی ، اس لیے کہ سیدہ عائشہ کی روایت اس کی تائید کرتی ہے، اور رافع والی روایت ذو معنی ہے، کیونکہ اس میں اسفار کے معنی فجر کو واضح اور متحقق کرنے کے بھی ہو سکتے ہیں،اس اعتبار سے عموم بیان کرنے والی روایت ، حدیث عائشہ اور رافع کی روایت میں کوئی تعارض نہیں ہے۔یہ نظریات رکھنے والے نے یہ رائے اختیار کی کہ تغلیس ہی افضل وقت ہے۔
وہ لوگ جنھوں نے یہ رائے اختیار کی تھی کہ فجر کا آخری وقت اسفار ہے، تو انھوں نے ’من ادرک رکعۃ من الصبح قبل ان تطلع الشمس‘ والی روایت کی یہ تاویل کی کہ یہ مضطرکی سہولت کے لیے ہے۔
ان کی یہ رائے ٹھیک وہی ہے جو جمہور نے فجر کے معاملے میں اختیار کی ہے ، لیکن تعجب ہے کہ انھوں نے فجر کے معاملہ میں عصر والا طریقہ کیوں اختیار نہیں کیا اور اہل ظاہر کی موافقت کرلی، اس لیے یہ وہ مسئلہ ہے جس میں اہل ظاہر کو ان سے پوچھنا چاہیے کہ آخر دونوں میں کیا فرق ہے؟ ‘‘(بدایۃ المجتہد، فی معرفۃ اوقات الصلوٰۃ ، المسئلۃ الخامسۃ)

یہ فقہا کے اختلافات کا خلاصہ ہے جو ابن رشد نے بیان کیا ہے۔حضرت عائشہ کی روایت جس کی ہم شرح کررہے ہیں ، اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بظاہر تغلیس بتایا گیا ہے۔لیکن ابو برزہ کی روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ بتایا گیا ہے:

عن ابی برزۃ الاسلمی... وکان ینفتل من صلاۃ الغداۃ حین یعرف الرجل جلیسہ ویقرا بالستین الی الماءۃ.(بخاری ، رقم ۵۲۲)
’’ابو برزہ اسلمی سے روایت ہے ... کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے اس وقت سلام پھیرتے جب نمازی اپنے ساتھ والے کو پہچان سکتا تھا، آپ ساٹھ سے سو آیتیں (فجر میں) پڑھتے تھے۔‘‘

اس روایت میں موطا کی روایت کے برعکس آپ کا معمول یہ بتایا گیا ہے کہ آپ اس وقت نماز سے فارغ ہوتے تھے کہ نمازی اپنے ساتھی کو پہچان پاتے تھے ۔ان دونوں روایتوں میں بظاہر اختلاف کے باوجود اصلاًکوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس اختلاف کے نہ ہونے کے دو پہلو ہیں:

ایک یہ کہ یہ دراصل اسلوب بیان کامسئلہ ہے۔ یعنی جب بھی کوئی شخص دو تین دفعہ کوئی واقعہ دیکھے گا وہ یہی کہے گا ’’ایسا ہوا کرتا تھا‘‘۔ چنانچہ اگر کوئی شخص دو تین دفعہ یہ دیکھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو ئے اورسپیدہ ظاہر ہو چکا تھا اور لوگوں کے چہرے دکھائی دینے لگے تھے تو یہ شخص بھی انھی الفاظ میں بیان کرے گا ، اور حضرت عائشہ بھی یہی کہیں گی کہ ’’ایسا ہوا کرتا تھا‘‘۔

چنانچہ یہ ممکن ہے کہ معمول ابو برزہ والی روایت کے مطابق ہو اور سیدہ عائشہ والاواقعہ تین چاردفعہ ہی ہوا ہو، یا صورت اس کے برعکس ہو۔ لیکن دونوں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ نماز کا آغاز اندھیرے میں ہوتا تھا۔ خاتمۂ .نماز کے معاملے میں دونوں میں اختلاف ہے تو اگر دونوں روایتوں کو جمع کردیا جائے تو صورت یہ سامنے آئے گی کہ کبھی فراغت کے وقت سپیدہ نمودار ہو چکا ہوتا تھا اور کبھی نہیں اور یہی بات فطری اور طبعی ہے۔

اس لیے ہمارے خیال میں دونوں روایتوں میں تطبیق کے لیے ان توضیحات کی ضرورت نہیں ہے ، جو مختلف شارحین نے بیان کی ہیں۔

دوسرے یہ کہ جیسا ہم نے ذکر کیا ہے کہ سیدہ عائشہ کی روایت کے الفاظ اس بات کا احتمال رکھتے ہیں کہ ان کی مراد یہ ہو کہ ’غلس‘ میں تاریکی بس اتنی ہوتی تھی کہ ویسے تو چہرے پہچانے جاتے تھے ،مگر چادریں لپٹے ہونے کی وجہ سے انھیں پہچاننا ممکن نہیں تھا۔یعنی دونوں چیزیں مل کر پہچاننے میں رکاوٹ تھیں۔ اس لیے اس سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی کہ کچھ نہ کچھ روشنی پھیلی ہوئی ہو۔ ابوبرزہ کی روایت میں مردوں کے پہچاننے کا جو ذکر ہے، وہ اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے عورتوں کی طرح چادریں نہیں اوڑھی ہوتی تھیں۔چنانچہ ہمارے خیال میں دونوں روایتیں ایک ہی بات کہہ رہی ہیں کہ جب آپ نماز سے فارغ ہوتے تو اتنی روشنی ہوتی کہ لوگ ایک دوسرے کو پہچان سکتے تھے۔

اس لیے ہم نے اوپر جو بات کہی ہے وہ درست معلوم ہوتی ہے کہ نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں غلس کے آخری اور اسفار کے ابتدائی لمحات میں ادا کی جاتی تھی۔ اسی طرح اس روایت کا معاملہ ہے کہ:

عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ قال: ما رأیت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی صلاۃ بغیر میقاتہا الا صلاتین جمع بین المغرب والعشاء وصلی الفجر قبل میقاتہا. (بخاری ، رقم ۱۵۹۸)
’’عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی اپنے مقررہ وقت سے پہلے نماز پڑھتے نہیں دیکھا، سوائے (مزدلفہ میں )دو نمازوں کے ایک جب آپ نے مغرب اور عشاء کو جمع کیا، اور دوسرے اسی دن کی فجر جسے آپ نے وقت سے پہلے پڑھا۔‘‘

احناف نے بخاری و مسلم میں واردابن مسعود کی اس روایت سے یہ استدلال کیا ہے کہ فجر کو چونکہ آپ کسی نماز کے ساتھ جمع نہیں کررہے تھے، اس لیے یہاں ’قبل میقاتہا‘ سے مراد وہ وقت ہے جس پر آپ عموماً نماز پڑھتے ۔ یعنی آپ نے مزدلفہ کی رات کو طلوع فجر سے پہلے نہیں ،بلکہ اپنے معمول سے پہلے فجرپڑھی۔ بخاری کی اس سے اگلی روایت (رقم ۱۵۹۹) سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ فجر ٹھیک طلوع فجر کے وقت ادا کرلی۔ اس لیے کہ اسی میں حاجیوں کے لیے سہولت تھی۔

اس سے ہماری رائے کو تقویت ملتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول ایسا تھا کہ آپ نماز اس وقت شروع کرتے جب اندھیرا ہوتا ،یہ وقت غلس کا آخری وقت ہوتا ۔ اگر آپ معمول سے لمبی تلاوت کرتے تو نماز کے خاتمہ تک روشنی ہو جاتی،اور اگر آپ قدرے کم تلاوت کرتے تو اندھیرے ہی میں لوگ نماز سے فارغ ہو جاتے تھے۔ گویا آج کل کی زبان میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسفار سے پندرہ بیس منٹ پہلے نماز کھڑی کر لی جاتی تھی۔

بخاری کی درج ذیل روایت سے یہ معلوم ہوتاہے کہ نماز سے پہلے اور دوران میں بھی کبھی اتنا اجالا ہوتا تھا کہ صحابہ ایک دوسرے کو پہچان لیتے تھے ۔

عن ابی برزۃ رضی اللّٰہ عنہ ، کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلی الصبح واحدنا یعرف جلیسہ ویقرأ فیہا ما بین الستین الی الماءۃ. ( بخاری ، رقم۶۱۵)
’’ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے تو ہم میں سے ہر اپنے ساتھ بیٹھنے والے کو پہچان سکتا تھا۔ او رفجر میں ساٹھ سے سو کے درمیان آیات کی تلاوت کی جاتی تھی۔‘‘

ہمارے نزدیک یہی صحیح طریقہ ہے۔ ایک اس پہلو سے کہ غلس کا آخری وقت اختیار کرنے سے سبقت الی الخیر کے اصول کے مطابق نماز کاافضل وقت بھی ہاتھ سے نہیں نکلتا۔ دوسرے اس پہلو سے کہ عامۃ الناس بالخصوص بوڑھوں اور کمزور لوگوں کی نماز میں شرکت کے لحاظ سے تنگی اور حرج بھی رفع ہو جاتا ہے:

عن رافع بن خدیج یقول قال: رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لبلال: یا بلال نور بصلاۃ الصبح حتی یبصر القوم مواقع نبلہم من الاسفار .(مسند الطیالسی،رقم ۹۶۱۔ تحفۃ الاحوذی۱: ۴۰۹)
’’رافع بن خدیج کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال سے فرمایا: اے بلال نماز فجر کو روشن کرو، یہاں تک کہ لوگ اجالے کی وجہ سے اپنے (استنجے کے) ڈھیلوں کی جگہوں کو دیکھ سکیں۔‘‘

یہ ٹھیک وہی علت ہے جسے ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ عامۃ الناس کی سہولت کے پیش نظر بہت اندھیرے میں نماز نہیں پڑھائی جاتی تھی۔ تاریکی بلاشبہ ہوتی تھی مگرسہولت عامہ کا خیال رکھاجاتا تھا۔

روایتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس عمومی طریق کار کے ساتھ ساتھ موسم کی تبدیلی کی وجہ سے بھی فجر کے وقت میں تعجیل اور تاخیر کے ضابطہ میں تبدیلی کردی جاتی تھی۔ہماری اس رائے کی تائید معاذ بن جبل کی اس روایت سے ہوتی ہے جودرج ذیل الفاظ میں وارد ہے :

قال معاذ بعثنی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الی الیمن فقال: اذا کان فی الشتاء فغلس بالفجر واطل القراء ۃ قدر ما یطیق الناس ولا تملہم واذا کان فی الصیف فاسفر بالفجر فان اللیل قصیر والناس نیام .(تحفۃ الاحوذی۱: ۴۰۹)
’’حضرت معاذ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن (کاحاکم بنا کر) بھیجا، تو کہا سردیوں میں صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھنا، اور قرآت بس اتنی ہی لمبی کرنا کہ لوگ برداشت کرسکیں، اور ان میں اکتاہٹ پیدا نہ کرے ۔ اور جب گرمیاں ہوں تو فجر کو سویرا کرکے پڑھنا، اس لیے کہ راتیں چھوٹی ہوتی ہیں اور لوگ سوئے ہوتے ہیں۔‘‘

ابوداؤد کی روایت میں ہے:

عن رافع بن خدیج قال قال رسول اللّٰہ اصبحوا بالصبح فإنہ أعظم لأجورکم.(ابوداؤد ، رقم ۴۲۴)
’’رافع بن خدیج کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز فجر کو روشن کرو، کیونکہ اس میں تمھارے لیے سب سے بڑا اجرہے۔‘‘

اس روایت میں ’ اصبحوا بالصبح‘ کے الفاظ ہیں جبکہ بعض روایتوں میں ’ اسفروا بالصبح‘کے ۔ ہمارے فقہا نے اس روایت کے درج ذیل معنی مراد لیے ہیں :

وزعموا انہ یحتمل ان یکون اولئک القوم لما امروا بتعجیل الصلاۃ جعلوا یصلونہا بین الفجر الاول والفجر الثانی طلبا للاجر فی تعجیلہا ورغبۃ فی الثواب فقیل لہم صلوہا بعد الفجر الثانی واصبحوا بہا اذا کنتم تریدون الاجر فان ذلک اعظم لاجورکم . وقد قیل ان الامر بالاسفار انما جاء فی اللیالی المقمرۃ وذلک ان الصبح لا یتبین فیہ جدا وامرہم فیہا بزیادۃ التبیین استظہارا بالیقین فی الصلاۃ . قال الطحاوی : معنی قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اسفروا بالفجر ای طولوہا بالقراء ۃ الی الاسفار وہواضاء ۃ الصبح.(عون المعبود ۲:۶۶)
’’فقہا نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ تعجیل کا حکم آنے کے بعد لوگوں نے صبح کی نماز اس اجر وثواب کے حصول کے لیے فجر اول اور فجر ثانی کے درمیان پڑھنی شروع کردی، جو تعجیل سے فجر پڑھنے میں بیان کیا گیاتھا۔اس لیے ان سے کہا گیاکہ نماز، فجرثانی کے بعد پڑھا کرو، اور اگر تم اجر کے طالب ہو تو اس کو خوب متعین کر لیا کرو، کیونکہ اسی میں سب سے زیادہ اجر ہے۔یہ رائے بھی دی گئی ہے کہ اسفار کا حکم صرف چاندنی راتوں کے لیے تھا، اس لیے کہ ان میں وقت فجر کا تعین اچھی طرح نہیں ہو سکتا تھا، اس لیے انھیں یہ حکم دیا گیا کہ وہ صبح کو واضح تر ہونے دیں اور صبح کے طلوع کو یقینی کرلیں۔طحاوی نے کہا ہے کہ ’ اسفروا بالفجر ‘ کے معنی ہیں کہ فجر میں قرأت اسفار تک لمبی کرو، اسفارصبح کی روشنی ہے۔‘‘

درج بالا روایت کا مضمون ہمارے خیال میں ’اسفار‘کی فضیلت بتانے کا نہیں ہے، بلکہ نماز فجر کی اہمیت بتانے کا ہے۔ فقہا نے غالباً اس روایت کے ان الفاظ ’ اسفروا بالصبح‘ کی وجہ سے یہ معنی مراد لے لیے کہ صبح کو خوب روشن کرو۔ ان کے معنی بلاشبہ صبح کو روشن کرنے ہی کے ہیں۔لیکن ہمارے خیال میں اس کے صحیح تر الفاظ وہی ہیں ، جو ابوداؤد نے اختیار کیے ہیں: ’اصبحوا بالصبح‘ ۔’ اصبح یا رجل‘ کے معنی ہوتے ہیں ’چوکنے رہویا بیدارہو جاؤ‘۔ ’ بالصبح‘ میں ’ باء ، الصبح ‘ کو ’ اصبحوا‘سے متعلق کرنے کے لیے آئی ہے۔ اس صورت میں روایت کے معنی یہ ہو ئے کہ ’صبح کی نماز کے بارے میں چوکنے رہو، اس لیے کہ یہ اجر میں سب (نمازوں)سے بڑھ کر ہے‘۔فجر کی سب فرض نمازوں پر فضیلت قرآن سے بھی واضح ہوتی ہے ۔اس لیے کہ صرف فجر ہی کی نماز ہے جس کے بارے میں قرآن نے کہا ہے کہ وہ مشہود ہوتی ہے۔ (بنی اسرائیل ۱۷: ۷۸) یعنی اللہ اور ملائکہ کے رو برو ہوتی ہے۔

____________

B