[مسلم، کتاب الایمان ۱۳]
حدثنی أبو أیوب أن أعرابیا عرض لرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم وہو فی سفر. فأخذ بخطام ناقتہ أو بزمامہا. ثم قال: یارسول اﷲ أو یا محمد، أخبرنی بما یقربنی من الجنۃ وما یباعدنی من النار. قال: فکف النبی صلی اﷲ علیہ وسلم. ثم نظر فی أصحابہ. ثم قال: لقد وفق أو لقد ہدی. قال: کیف قلت؟ قال: فأعاد. فقال النبی صلی اﷲ علیہ وسلم تعبد اﷲ لا تشرک بہ شیئا وتقیم الصلاۃ وتؤتی الزکاۃ وتصل الرحم. دع الناقۃ.
’’حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر کر رہے تھے کہ ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا۔ اس نے آپ کی اونٹنی کی نکیل یالگام پکڑ لی۔ پھر بولا: یارسول اللہ، یا یا محمد، مجھے وہ چیز بتائیے جو مجھے جنت کے قریب کرتی ہو اور جہنم سے دور کرتی ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے پھر آپ نے صحابہ کی طرف دیکھا ۔ قدرے توقف کے بعد (غالباً یہ) کہا کہ اسے (صحیح بات) کی توفیق دی گئی ہے یا (یہ) فرمایاکہ اسے ہدایت دی گئی ہے اور اس سے کہا:تم کیا کہہ رہے تھے؟اس نے (اپنا سوال) دہرایا۔ سوال سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اللہ کی اس طرح عبادت کرے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائے۔ نماز کا اہتمام کرے ۔ زکوٰۃ ادا کرے۔ اورصلہ رحمی کرے۔ ناقہ کو چھوڑ دو۔‘‘
خطام أو زمام: ہم نے ایک لفظ کا ترجمہ نکیل کیا ہے اور دوسرے کا ترجمہ لگام کیا ہے۔ لیکن یہ دونوں مترادف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔مسلم کے شارح نووی نے ان کے فرق کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: خطام وہ چیز ہے جس سے اونٹ کو (ہانکنے کے لیے) باندھا جاتا ہے۔یعنی کھجور کی چھال، یا بالوں، یا السی کی رسی لی جاتی ہے۔ اس رسی کے ایک سرے پر ایک حلقہ بنایا جاتا ہے، اس حلقے سے دوسرا سرا گزار کر ایک بڑا حلقہ بنا لیتے ہیں۔اس سے اونٹ کو قلادہ ڈال دیتے ہیں۔ پھر اسے اس کے ناک پر دو بار لپیٹ دیتے ہیں۔ یہاں ایک چمڑے کی پٹی ہوتی ہے جسے جریر کہتے ہیں۔ جو چیز اونٹ کی ناک میں کس کر ڈالی جاتی ہے ، وہ زمام ہے۔
وفق أو ھدی : راوی نے حضور کے جملے کے بارے میں تردد ظاہر کیا ہے۔ یعنی حضور نے ’ وفق ‘بولا ہے یا ’ ہدی‘ کہا ہے۔ ’ وفق‘ کا مطلب ہے توفیق دیا گیا۔ توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق کے معاملے میں پیدا کردہ ساز گاری ہے۔ ’ہدی‘ کا مطلب ہے رہنمائی دیا گیا۔ یہاں اس سے مرادہے: صحیح بات سجھائی گئی۔
تعبد اللّٰہ: اس کا لفظی ترجمہ ہوگا: تو عبادت کرتا ہے۔ لیکن یہ خبر امر کے معنی میں ہے۔ہمارا ترجمہ اسی توجیہ کے مطابق ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مصدر کے محل پر فعل استعمال ہو گیا ہے۔گویا جملہ یہ ہے :’ ہو عبادتک اللّٰہ‘ ۔ اس کی مثال قرآن مجید میں بھی ہے: ’ ومن آیاتہ یریکم البرق‘(الروم۳۰: ۲۴)۔
تصل الرحم: صلہ رحمی عربی محاورہ ہے ۔ اس سے رشتہ داروں سے تعلق قائم رکھنا اور ان کے حقوق ادا کرتے رہنا مراد ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل کے سوال کو خوب سراہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل دعوت یہی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبروں کی دعوت کا مرکزی نکتہ آخرت کی یاددہانی ہے۔ روایات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین کو بہت اچھے طریقے سے واضح تھی۔ اس بات کا ایک مظہر یہ روایت بھی ہے۔ یہ ایک دیہاتی مسلمان ہے، جو غالباً پہلی دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مل رہا ہے۔ لیکن اس کے سوال سے واضح ہے کہ اس کا نمایاں ترین مسئلہ اخروی فلاح ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ نے اسے نہ صرف یہ کہ صحیح سوال کرنے پر داد دی، بلکہ صحابہ کو بھی اس کی طرف متوجہ کیا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کے جواب میں چار باتوں کا ذکر کیا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس میں دوسری بعض روایات کی طرح حج اور روزے کا ذکرکیوں نہیں ہے۔اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اس روایت کے دوسرے متون میں ان کا ذکر بھی ہے۔ لیکن ان میں صلہ رحمی کا ذکر نہیں ہے۔ یعنی ممکن ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کا ذکر کیا ہو اور بعض راویوں نے کچھ بیان کردیے اور بعض نے کچھ دوسرے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی باتوں کا ذکر کیا ہو جو اس روایت میں آئی ہیں۔ لیکن راویوں نے اپنے فہم سے کسی روایت میں کچھ چیزیں ڈال دیں اور کچھ نکال دیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ روایات میں مضمون میں کیا کیا تبدیلیاں واقع ہو جاتی ہیں۔
اس روایت کی ایک اہم بات یقینی نجات کا بیان ہے۔قرآن مجید میں جیسا کہ سورۂ عصر سے واضح ہے ، یقینی نجات کے لیے ایمانیات کی صحت، تمام اعمال صالحہ اور اپنے ماحول میں نیکی کی تلقین کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔لیکن قرآن مجید کے دوسرے مقامات پر سیاق وسباق کے مطابق کہیں ایک چیز اور کہیں دوسری کا ذکر کیا گیا ہے ۔ مثلاًسورۂ کہف کی آیت (۱۱۰) ’فمن کان یرجوا لقاء ربہ فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ أحدا‘ میں تواصی کا ذکر نہیں ہے۔ اس سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ ایمان اور عمل صالح کی حیثیت بنیادی عنوانات کی ہے۔ روایات اور قرآن مجید میں مختلف مقامات پر انھی میں سے کسی چیز کو نمایاں کرنے کے لیے اس کا ذکر الگ کر دیا جاتا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس نوع کی تمام روایات میں مخاطب کی رعایت سے یہی اسلوب اختیار کیا ہے۔
اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بھی ایک دل پزیر پہلو سامنے آتا ہے۔ سائل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری روکی۔ لیکن آپ نے کوئی ناگواری ظاہر نہیں کی۔ سوال کیا تو اس میں موجود خوبی کی پوری طرح داد دی۔ جب بات مکمل ہوئی تو محض اتنا کہا: ناقہ کو چھوڑ دو۔ حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے یہی پہلو ہیں جن کی بنا پر آپ کو صحابہ کی غیر معمولی عقیدت اور محبت حاصل ہوئی۔
مسلم کی اگلی روایت بھی اسی روایت کا ایک متن ہے۔ اس کے حوالے سے ہم آگے بات کریں گے۔ اس روایت کے بعض متون میں یہ راستے میں روکنے کاذکر نہیں ہے ۔ روایت براہ راست سوال اور اس کے جواب پر مشتمل ہے۔ بعض روایات میں نماز کے ساتھ مفروضہ اور مکتوبہ کا اضافہ بھی ہے۔ بعض روایات میں اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو روکنے پر لوگوں کے اظہار تعجب کا بیان بھی موجود ہے۔ایک روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ یہی سائل حج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی ملاقات کا احوال بیان کر رہا تھا۔لیکن اس روایت میں توحید کا ذکر نہیں ہے اور آخری حصہ میں یہ بات بیان کی ہے کہ رسول اللہ نے یہ بھی کہا : دوسروں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو اور وہی ناپسند کرو جو اپنے لیے ناپسند کرتے ہو۔بعض روایات میں ’ لا ازید علی ہذا ولا أنقص‘ کا جملہ بھی روایت ہوا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی نقل کیا گیا ہے کہ اگر کسی کو کوئی جنتی دیکھنا ہو تو اسے دیکھے۔ان کے علاوہ کچھ لفظی فرق بھی ہیں ۔
بخاری، رقم۱۳۳۲، ۱۳۳۳، ۵۶۳۷۔ مسلم،رقم۱۳، ۱۴۔ نسائی، رقم۴۶۸۔ احمد، رقم۸۴۹۶، ۲۵۹۲۶، ۲۳۵۸۵، ۲۳۵۹۶۔ ابن حبان، رقم۴۳۷، ۳۲۴۵، ۲۳۴۶۔ السنن الکبریٰ، رقم۳۲۸، ۵۸۸۰۔ بیہقی، رقم۷۰۲۹۔ المعجم الکبیر، رقم ۳۴۴۳، ۳۹۲۴ ، ۳۹۲۵، ۳۹۲۶، ۵۴۷۸، ۷۲۸۴۔
عن أبی أیوب قال جاء رجل الی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم. فقال: دلنی علی عمل أعملہ یدنینی من الجنۃ ویباعدنی من النار. قال: تعبد اﷲ لا تشرک بہ شیئا وتقیم الصلوٰۃ وتؤتی الزکوٰۃ وتصل ذا رحمک. فلما أدبر قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: ان تمسک بما أمر بہ دخل الجنۃ.
’’حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: مجھے ایسا عمل بتائیے جسے میں کروں تو وہ مجھے جنت سے قریب کردے اور جہنم سے دور کر دے۔ آپ نے فرمایا: تو اللہ کی عبادت کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، نماز کا اہتمام رکھے، زکوٰۃ ادا کرے اور صلہ رحمی کرے ۔ یہ سن کر جب وہ آدمی لوٹ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس نے اس بات کو پکڑ لیا جو اسے کہی گئی ہے تو جنت میں چلا گیا۔‘‘
تعبد اللّٰہ: مضارع کے امر کے محل پر استعمال کی پچھلی روایت میں وضاحت ہو چکی ہے۔ یہ اسلوب امر کے مقابلے میں زیادہ بلیغ ہے۔
ذا رحمک: اس کے بارے میں نووی میں سوال اٹھایا ہے کہ ’ ذو‘کی اضافت واحد کی طرف خلاف قاعدہ ہے ۔ مگر یہ بیان کر دیا ہے کہ یہ جائز ہے۔
عن أبی ہریرۃ رضی اﷲ عنہ أن أعرابیا جاء إلی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم. فقال: یا رسول اﷲ دلنی علی عمل إذا عملتہ دخلت الجنۃ. قال:تعبد اﷲ ولا تشرک بہ شیئا وتقیم الصلاۃ المکتوبۃ وتؤدی الزکوٰۃ المفروضۃ وتصوم رمضان قال: والذی نفسی بیدہ لا أزید علی ہذا شیئا أبدا ولا أنقص منہ. فلما ولی، قال النبی صلی اﷲ علیہ وسلم من سرہ أن ینظر الی رجل من أہل الجنۃ فلینظر الی ہذا.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بدو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے پوچھا: یا رسول اللہ، مجھے اس عمل کی رہنمائی فرمائیے، جسے میں کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ نے فرمایا: تو اللہ کی عبادت کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔واجب نمازکا اہتمام رکھے ، فرض زکوٰۃ ادا کرتا رہے اور رمضان کے روزے رکھے۔ اس نے کہا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میں نہ اس پر کوئی اضافہ کروں گا اور نہ اس میں کوئی کمی کروں گا۔جب وہ شخص واپس چلا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جسے یہ بات بھاتی ہو کہ وہ اہل جنت میں سے ایک آدمی کو دیکھے تو وہ اسے دیکھ لے۔‘‘
روایات (۱۴، ۱۵) اوپر مذکور روایت (۱۳) ہی کے دوسرے متن ہیں ۔ اس متن سے متعلق اہم مباحث اوپر زیر بحث آچکے ہیں۔
متون کے اختلافات بھی ان سے پہلے کی روایت کے تحت زیر بحث آچکے ہیں ۔ یہاں ہم ایک روایت کو نقل کرنے پر کفایت کریں گے جو سائل کے اپنے الفاظ میں الآحاد والمثانی کے مصنف نے روایت کی ہے:
لقیت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بین عرفۃ والمزدلفۃ. فأخذت بخطام ناقتہ. فقلت ما ذا یقربنی من الجنۃ ویباعدنی من النار. قال: أما واﷲ لئن کنت أوجرت فی المسئلۃ لقد أعظمت وأطولت، أقم الصلوٰۃ المکتوبۃ وأد الزکوٰۃ المفروضۃ وحج البیت وما أحببت أن یفعلہ بک الناس. فافعل بہم. وما تکرہ أن یأتی الناس إلیک فدع الناس. خل سبیل الناقۃ. (رقم۱۲۵۹)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے عرفہ اور مزدلفہ کے مابین ملاقات کی۔میں نے حضور کی اونٹنی کی لگام پکڑ لی اور آپ سے پوچھا : کیا (چیز) مجھے جنت کے قریب اور آگ سے دور کرے گی؟ آپ نے فرمایا: بخدا، اگر تمھیں سوال کرنے پر اجر دیا جاتا تو تمھیں بہت بڑا اجر دیا جاتا۔ فرض نماز کا اہتمام رکھو، واجب زکوٰۃ ادا کرو، بیت اللہ کا حج کرو اور جو تم پسند کرتے ہو کہ لوگ تمھارے ساتھ کریں ، وہ لوگوں کے ساتھ کرو، جو تم ناپسند کرتے ہو کہ لوگ تمھارے سامنے لے کر آئیں تو لوگوں کے معاملے میں اسے چھوڑ دو۔ اونٹنی کا راستہ چھوڑ دو۔‘‘
صاحب فتح الملہم نے اس راوی کے نام کے بارے میں درج ذیل نوٹ لکھا ہے:
’’یہ قیس کا ایک آدمی ہے جسے ابن منتفق کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ بغوی اور طبرانی کی ایک روایت میں تصریح کی گئی ہے۔ صیرفی نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اس ابن منتفق کا نام لقیط بن صبرہ ہے اور یہ بنی منتفق کی طرف سے حضور سے ملنے کے لیے آیا تھا۔طبرانی میں یہی سوال صخر بن قعقاع باہلی کے حوالے سے بھی نقل ہوا ہے۔‘‘(۱/ ۱۷۷)
یہ روایت اوپر مذکور حوالوں کے علاوہ دیگر کتب میں بھی آئی ہے۔ دیکھیے: الآحاد والمثانی،رقم ۱۲۵۹، ۱۶۹۶۔ مسند احمد ، رقم ۱۵۲۹۲۶۔ المعجم الاوسط، رقم۸۲۴۴۔
____________