HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: آل عمران ۳: ۴۲-۴۴ (۱۰)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)  


وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِکَۃُ: یٰمَرْیَمُ، اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰکِ وَطَہَّرَکِ وَاصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَآئِ الْعٰلَمِیْنَ{۴۲}یٰمَرْیَم،ُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ، وَاسْجُدِیْ، وَارْکَعِیْ مَعَ الرّٰکِعِیْنَ{۴۳} 
ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَآئِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ، وَمَا کُنْتَ لَدَیْھِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ اَیُّھُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ، وَمَاکُنْتَ لَدَیْھِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ{۴۴}  
  اور وہ واقعہ بھی اِنھیں یاد دلاؤ، جب فرشتوں نے (مریم سے) کہا : اے مریم، اللہ نے تجھے برگزیدہ کیاہے اور پاکیزگی عطا فرمائی ہے۸۳ اور دنیا کی تمام عورتوں پر ترجیح دے کر (اپنی ایک عظیم نشانی کے ظہور کے لیے )منتخب کر لیاہے۔ ۸۴  (اِس لیے )اے مریم، اب اپنے پروردگار کی فرماں برداری میں لگی رہو اور اُس کے حضور میں جھکنے والوں کے ساتھ رکوع وسجود کرتی رہو۔ ۸۵  ۴۲۔۴۳
یہ ۸۶ غیب کی خبریں ہیں، (اے پیغمبر)جو ہم تمھیں وحی کررہے ہیں، اور (حقیقت یہ ہے کہ) جب ہیکل کے خدام یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ اُن میں سے کون مریم کی سرپرستی کرے گا، اپنے اپنے قرعے ڈال رہے تھے تو تم اُس وقت اُن کے پاس موجود نہ تھے، اور نہ اُس وقت اُن کے پاس موجود تھے جب وہ (اِس معاملے میں) ایک دوسرے سے جھگڑرہے تھے۔۸۷  ۴۴

۸۳؎   یعنی لوگوں سے الگ کرکے تمھاری خاص تربیت کردی ہے تاکہ آنے والے مراحل میں حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تم اپنے آپ کو تیار کرلو۔

۸۴؎    یعنی سیدنا مسیح علیہ السلام کی ولادت کے لیے منتخب کر لیا ہے جو بنی اسرائیل پر اتمام حجت کے لیے فی الواقع اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نشانی بن کر آئے تھے ۔ اس میں شبہ نہیں کہ سیدہ مریم کے لیے یہ ایک ایسا شرف ہے جس میں ان کا کوئی شریک و سہیم نہیں ہے ۔

۸۵؎   اپنے پروردگار کی فرماں برداری میں لگے رہنے کی جوہدایت اس سے پہلے ہوئی ہے، یہ اس کے اجمال کی تفصیل بھی ہے اور اس نماز باجماعت کی تصویر بھی جس کی سعادت سیدہ مریم کو ہیکل میں معتکف ہونے کی وجہ سے ہمہ وقت حاصل تھی۔ پھر یہ بھی ملحوظ رہے کہ نماز کویہاں رکوع وسجود سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس سے اگر غور کیجیے تو استغراق وانہماک اورتبتل الی اللہ کی وہ کیفیت سامنے آتی ہے جو نماز کا اصلی حسن ہے۔ قرآن نے یہ اسلوب جگہ جگہ نماز کے اسی پہلو کو نمایاں کرنے کے لیے اختیار کیا ہے۔

۸۶؎   اثناے کلام میں یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف التفات ہے اور مقصود اس سے مخاطبین کو اس بات کی طرف توجہ دلانا ہے کہ وحی والہام کے بغیر آپ یہ واقعات اس صحت و صداقت کے ساتھ ہرگز نہیں سنا سکتے تھے، اس لیے کہ اہل کتاب کی تاریخ کا یہ حصہ بائیبل میں بھی تقریباً غائب ہی ہے۔

۸۷؎   بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ ہیکل میں ذمہ داریوں کا فیصلہ بالعموم قرعے ہی سے کیا جاتا تھا، لیکن اس موقع پر جھگڑے کی وجہ غالباً یہ ہوئی کہ سیدہ مریم کے بارے میں قبولیت کے جو آثار پہلے دن سے نمایاں تھے، انھیں دیکھ کر ہیکل کے خدام میں سے کوئی بھی اس سعادت سے محروم نہیں رہنا چاہتا تھا۔

[باقی]  

 ـــــــــــــــــــ

B