ہم اپنا یوم آزادی ۱۴ اگست کو مناتے ہیں۔ اگست ۱۹۴۷ کے دنوں میں قمری تقویم کے اعتبار سے رمضان کا مہینا تھا۔ رمضان وہ مہینا ہے جس میں اہل ایمان اپنااحتساب اور اپنے ایمان کی تجدید کرتے ہیں۔اس اعتبار سے اگر اس ماہ مقدسہ میں ہم بحیثیت قوم کچھ دیر ٹھہر کر اپنا احتساب کرلیں تو ایسا کرنا فائدے سے خالی نہ ہوگا۔
قیام پاکستان سے لے کر جو حالات آج تک ہمیں پیش آئے ہیں ، اس میں صدمات و سانحات کا عنصر بلاشبہ بہت زیادہ ہے۔بالخصوص جب ہم اپنا موازنہ اپنے ساتھ یا اپنے بعد آزادی حاصل کرنے والی ان اقوام سے کرتے ہیں جو قدرتی اور انسانی وسائل کے اعتبار سے ہم سے بہت کم تھیں تو صورت حال کی سنگینی اور واضح ہوجاتی ہے۔یہ موازنہ نہ بھی کیا جائے تب بھی ملک کے دولخت ہونے کا سانحہ ، سیاسی نظام کی باربار شکست و ریخت کا سانحہ،معاشی طور پر غیر ملکی قوتوں پر انحصار کا سانحہ، جاگیردارانہ نظام کی موجودگی کا سانحہ،غربت و جہالت کے تنگ ہوتے شکنجے کا سانحہ،بڑھتے ہوئے اخلاقی انحطاط کا سانحہ، قوم کے رگ و پے میں کینسر کی طرح پھیلتی بدعنوانی کا سانحہ، قومی عصبیت کی جگہ لسانی اور علاقائی عصبیتوں کے فروغ کا سانحہ اور ان جیسے کتنے سانحات ہیں جو ہماری بیلنس شیٹ کو خسارے کی ایک داستان بناکر رکھ دیتے ہیں۔ تاہم ، جیسا کہ ہم نے اوپر لکھاہے ، رمضان کا مہینا مر ثیہ گوئی کا نہیں، احتساب ، تجدید اور عزم نو کا مہینا ہوتا ہے، اس لیے ہم اس داستان زیاں کو طول دینے کے بجائے پہلے حالات کے تجزیے اور پھر لائحۂ عمل کی طرف آتے ہیں۔
ایک معاشرہ اور ایک قوم ، انسانی وجود کی طرح اپنی زندگی کے متعین ادوار میں بٹی ہوتی ہے۔قوم کے رویے، اس کے عروج و زوال اور اس کے ضعف و قویٰ کے بیش تر عناصرکا تعلق قوم کے مرحلۂ زندگی سے ہوتا ہے۔ہم پاکستانی قوم کو جب تاریخ کے آئینے میں دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم اپنی زندگی کے دوسرے مرحلے یعنی تعمیر وشناخت کے مرحلے میں ہے۔ اس مرحلے تک آتے آتے قوم کا ایک اجتماعی خمیر تیار ہوچکاہوتا ہے جسے ہم قومی مزاج سے تعبیر کرسکتے ہیں۔بالکل اس بچے کی طرح جس کی شخصیت کے خط وخال لڑکپن تک نمایاں ہوکر سامنے آنے لگتے ہیں۔تاہم یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب والدین اور بزرگ اپنی تربیت کے ذریعے سے شخصیت کے منفی عناصر کی تعدیل کرکے اس کی خوبیوں کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
ٹھیک یہی کچھ قومی زندگی کے اس دوسرے مرحلے میں ہوتا ہے۔تاہم قوم کے معاملے میں رہنمائی کا کام بزرگوں کے بجائے فکری قیادت سر انجام دیتی ہیں۔فکری قیادت کیا ہوتی ہے ، اسے اگر اختصار سے سمجھنا ہے تو اقبال کا وہ شعر کافی ہے جو انھوں نے کہا تو مسلمان کے بارے میں تھا، مگر سچ یہ ہے کہ یہ شعر ایک فکری قائد کی خصوصیات کا بڑا جامع بیان بھی ہے:
بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے
یہ ہے نہایتِ اندیشہ و کمالِ جنوں
بدقسمتی سے ہمارے ہاں فکری قیادت کے نام پر جو لوگ معروف رہے ہیں ، ان کا جنوں بے علم اور ان کا اندیشہ بے یقیں رہا ہے۔یہ لوگ ،الا ما شاء اللہ ، ان تمام اوصاف سے متصف ہیں جو ایک فکری قیات کو پنپنے ہی نہیں دیتے مثلاً جذباتیت، انتہاپسندی، تقلید ، مرعوب ذہنیت، حالات سے باخبر مگر غیر متاثر رہ کر تجزیہ کرنے کی صلاحیت کا فقدان ،اور ان سب کے ساتھ ماضی اور حال کے اس علم سے محرومی جو انسان کو مستقبل میں دیکھنے کے قابل بناتا ہے۔
ہمارے نزدیک موجودہ حالات میں ایک حقیقی فکری قیادت کے نہ ابھرنے کا سبب یہ ہے کہ فکری رہنمائی کے اس کام میں بہت کچھ سب و شتم برداشت کرنا پڑتا ہے۔لوگوں کی قدیم سے وابستگی اتنی شدید ہوتی ہے کہ وہ آسانی کے ساتھ نئے افکار و خیالات کو قبول نہیں کرتے۔ہمارے معاملے میں صورت حال کو سنگین تر بنانے والا عنصر ہمارے قومی مزاج میں جذباتی انداز فکر کا غلبہ ہے جس کے نتیجے میں کسی ایسے نقطۂ نظر کو جس کا واحد اثاثہ دلیل ہو،قبولیت ملنا آسان نہیں۔
قیام پاکستان سے قبل ہماری فکری قیادت کو یہ سہولت حاصل تھی کہ ہندووں کے بالمقابل ہونے کی بنا پر انھیں اپنی قوم میں کچھ نہ کچھ پزیرائی مل جایا کرتی تھی۔ پھر یہ بھی کہ ہندو غلبے کے پس منظر میں انھیں بہرحال اس بات کا یقین کامل ہوتا تھا کہ ان کی رہنمائی پر قوم کی موت و زندگی کا انحصار ہے ، جس کے لیے گالیاں کھانا کوئی بڑی قیمت نہیں ، مگر اب صورت حال بہت مختلف ہے ۔ نہ صرف وہ رویے جو فکری قیادت کے لیے زہرِ قاتل ہیں، عام ہیں ، بلکہ قوم کو ’خوش کرکے ‘ جو عزت و تکریم اور پزیرائی حاصل ہوتی ہے ،اس کی محرومی کو جھیلنا اور کفر و گمراہی کے فتاویٰ کو سہہ جانا وہ چوٹی ہے جسے سر کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔
پاکستانی قوم کے سانحات کی جو فہرست ہم نے اوپر بیان کی ہے ، ہمارے نزدیک اس میں سب سے اوپر بیان کرنے کی چیز یہی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد قوم میں کسی طاقت ور ، موثر اور حالات سے بلند ہوکر سوچنے اور رہنمائی کرنے والی قیادت کا فقدان رہا ہے۔ہمارے نزدیک قوم کا اصل مسئلہ یہی ہے۔ باقی جو دیگر مسائل ہیں ، وہ اسی سبب سے پیدا ہورہے ہیں۔ جو کچھ کشمکش و پریشانی نظر آتی ہے ، وہ فکری قیادت کی غلط رہنمائی کی بنا پر ہے۔ ہم اس کو اپنی تاریخ کی ایک مثال سے واضح کرتے ہیں۔
قیام پاکستان سے قبل برصغیر کی مسلم قومیت کو ،جو ابھی اپنے ارتقا کے ابتدائی دور یعنی تشکیل کے مرحلے میں تھی، یہ چیلنج پیش آگیا کہ ان کی خارجی طاقت اورنگ زیب کے بعد زوال پزیر ہوگئی ۔۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعدوہ اس نام نہاد حکومتی تحفظ سے بھی محروم ہوگئے۔اس وقت برصغیر کے مسلمانوں کے لیے سب سے اہم مسئلہ حکومتی چھتری سے محرومی کے بعد اپنے تحفظ و بقا کا تھا۔اس چیلنج کا جو جواب اس وقت کی ہماری فکری قیادت نے دیا ، اس کا نتیجہ پاکستان کی شکل میں آج دنیا کے نقشے پر موجود ہے ۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہندو غلبے کا خارجی چیلنج بڑی حد تک باقی نہ رہا ، مگر ایک دوسرا زیادہ پیچیدہ مسئلہ پیدا ہو گیا۔ یہ مسئلہ چھوٹی عصبیتوں کے باہمی تعامل و انجذاب کا تھا۔یہ چیلنج قومی زندگی کے دوسرے مرحلے یعنی مرحلۂ تعمیر و شناخت میں لازماً پیش آتا ہے ، مگرہمارے معاملے میں ہندو اکثریت کے خوف اور اقتدار سے محرومی نے اسے دبادیاتھا۔قیام پاکستان کے بعد یہ مسئلہ پوری سنگینی کے ساتھ سامنے آگیا۔
مختلف عصبیتوں اور معاشرے کے طبقات کے حقوق و فرائض کے تعین اور وسائل کی تقسیم کا یہ چیلنج اپنے حل کے لیے وہ تاریخی شعور چاہتا تھا جس کی طرف صرف ایک فکری قائد ہی توجہ دلاسکتا ہے۔ فکری قیادت کی ذمہ داری تھی کہ وہ عملی سیاست سے دور رہ کر سیاسی قیادت کو یہ باور کرائے کہ اس مسئلے کو حل کیے بغیر ایک اجتماعی عصبیت وجود میں آنے سے پہلے ہی منتشر ہوجاتی ہے۔اور یہ کہ یہ محض ایک سیاسی مسئلہ نہیں تھا ، بلکہ اپنی گہرائی میں یہ ایک ایسا بنیادی مسئلہ ہے جس پر قوم کی موت و زندگی کا انحصار ہوتا ہے۔ ہماری فکری قیادت نہ صرف اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ، بلکہ اس نے اسلامی نظام کے نفاذ کے نام پر ایک نئی کشمکش کا آغاز کر دیا یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس وقت مسلمانوں کی اخلاقی حالت اور ان کے فقہی ذخیرے کی علمی حیثیت کیا ہے ۔ انھیں یہ غلط فہمی ہوگئی (اور بدقسمتی سے آج کے دن تک ہے) کہ خلافت راشدہ کی کامیابی کسی قسم کے نظام کی مرہونِ منت تھی۔وہ یہ نہ جان سکے کہ خلافت راشدہ کسی نظام کا نہیں ، بلکہ اعلیٰ ترین سیرت و اخلاق کے لوگوں کے اقتدار اور انتظام میں آنے کا نام ہے۔اسی طرح وہ اس حقیقت سے بے خبر رہے کہ جس فقہی ذخیرے کو وہ اسلامی نظام کے نام پر پیش کررہے ہیں(اور اب نافذ کراچکے ہیں) ، وہ کس طرح عصر حاضر میں غیر متعلق ، بلکہ غیر موزوں ہوچکا ہے۔ان کے نزدیک چونکہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل ہوا ، اس لیے عوام کا اصل مسئلہ انھیں اسلام کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ اس سطحی انداز فکر کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی قوم خلیج بنگال اور اسلامی نظام آئین پاکستان کی نذر ہوکر دنیا کی نگاہ میں مذاق بن گئے۔
ہماری جدید تاریخ کی یہ مثال بہت اچھی طرح واضح کرتی ہے کہ ہماری فکری قیادت کی ذہنی سطح اور اس کا سرماےۂ ہنر کیا ہے۔فکری قیادت تو حقائق کے وجود میں آنے سے پہلے ہی انھیں دیکھ لیتی ہے ، مگر بدقسمتی سے یہ قوم ایسی ’فکری قیادت ‘سے آزمائی گئی ہے جسے بر سر زمین حقائق بھی نظر نہیں آتے۔اس صورت حال کا بہت کچھ سبب ، جیسا کہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں،ہمارے قومی مزاج میں جذباتیت اور غیر عقلی انداز فکر کی جڑوں کا بہت مضبوط ہونا ہے۔ان حالات میں قوم کی فکری رہنمائی کے لیے اٹھنے والوں کے سامنے بنیادی نصب العین قومی مزا ج کی اصلاح ہونی چاہیے۔ دور تشکیل سے ہمارا قومی مزاج اور اجتماعی انداز فکر عقلیت کے بجائے جذباتیت پر استوار ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ یہاں کا ہر مذہبی اور سیاسی لیڈر ،جو دلوں کے تار چھیڑ سکتا ہو، بآسانی لوگوں کی عقل ماؤف کردیتا ہے۔جس کے بعد قوم کولھو کے بیل کی طرح لیڈر کے پیچھے گھومتی رہتی ہے اور سمجھتی ہے کہ ا س نے ترقی کی راہ میں بڑا سفر طے کرلیا ہے۔ چنانچہ جذباتیت کے بجائے حقیقت پسندانہ انداز فکر کا فروغ اس قوم کی ترقی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔جذباتیت کے بعد قومی مزاج کی اصلاح کا دوسرا اہم پہلو اس میں مذہب اور اس کی اساسات کی تشکیل نو ہے۔ یہ بات ذرا اہم ہے ، اس لیے اس کی کچھ تفصیل ہم ذیل میں بیان کیے دیتے ہیں۔
ہماری قوم کے اجتماعی مزاج میں مذہب کی جو اہمیت ہے ، برصغیر میں مسلم قومیت کے ارتقا پر نگاہ رکھنے والاکوئی شخص اس کاانکار نہیں کرسکتا ، مگر مسئلہ یہ ہوا ہے کہ پچھلے دو سو سال میں دنیا ایک گاؤں بن چکی ہے۔ اس جدید دنیا میں مغرب کو امام کی حیثیت حاصل ہے۔ مغرب نے جو کچھ ترقی حاصل کی اور بلاشبہ یہ انسانی تاریخ کی عظیم ترین ترقی ہے وہ مذہب سے دامن چھڑا کر کی ہے۔آج اقوام عالم میں سے کوئی بھی مذہب کو اجتماعی زندگی میں فیصلہ کن مقام دینے کے لیے تیار نہیں۔ایسے میں ہم اپنے مذہبی تشخص پر اصرار کرکے ایک بہت بڑا چیلنج قبول کرتے ہیں۔
اس چیلنج کے جواب میں ہمارے اہل فکر نے تین نقطۂ نظرپیش کیے ہیں۔پہلا حل یہ پیش کیا گیا کہ اسلام جن عقائد و اعمال کو پیش کررہا ہے ، انھیں مغربی معیارات کی کسوٹی پر پرکھا جائے اور جو اس بارگاہ میں غیر معتبر ٹھہرے ، اسے رد تو نہ کیا جائے ، مگر تاویل کی گنگا سے اشنان کراکے جدید ذہن کے لیے قابل قبول بنادیا جائے۔اس حل کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ مذہب قومی مزاج میں موجود بھی رہتا تھا اور زمانے کی عقلیت اس پر سوال بھی نہیں اٹھاپاتی تھی۔انگریزوں سے متاثر ہماری نومولود اشرافیہ میں اس حل کو بڑی پزیرائی ملی ، کیونکہ ’رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی ‘ پر مبنی اس حل میں ان کے لیے بڑی سہولت تھی۔تاہم تاویل کی یہ گنگا علمی سطح پر اتنی آلودہ تھی کہ کسی معقول اور سلیم الفطرت آدمی کے لیے اس کو حلق سے نیچے اتارنا بڑا مشکل تھا۔پھر اہل علم کی تنقیدوں نے تاویل کے اس طریقے کو ریت کی دیوار کی طرح ڈھیر کردیا۔ سب سے بڑھ کر جن لوگوں نے اسے قبول کیا تھا ، ان کی اگلی نسلوں کے لیے یہ مسئلہ ہی نہ رہا کہ اسلام کو قوم کے اجتماعی مزاج میں باقی رکھا جائے۔ آج بھی یہ حل کچھ خواتین و حضرات کی طرف سے سامنے آتا رہتا ہے ، مگر اس کی بنیاد میں جو کمزوری ہے یعنی مغربی معیارات پر اسلام کو عصر حاضر کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش میں تاویل کی سان پر چڑھانا ، اسے معاشرے میں قبولیت عام حاصل نہیں کرنے دیتا ۔
دوسرا حل یہ سامنے آیا کہ اس چیلنج کا جواب نہیں دیا جاسکتا ۔ہمیں مغرب کی طرح مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے کر اسے اپنے اجتماعی نظم سے غیر متعلق کردینا چاہیے۔ پچھلی ربع صدی میں مذہبی حلقوں کی قوت کی بنا پر اس حل کے پیش کرنے والے اگرچہ کھل کر سامنے نہیں آتے ، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ اور دیگر فعال طبقات عملی طور پر نہ صرف اس حل سے متاثر ہیں، بلکہ عملاً اسے اختیار کرچکے ہیں۔خاص طور پر مغرب نے مذہب کے معاملے میں پچھلی نصف صدی میں اپنے موقف میں جو نرمی پیدا کی یعنی فرد کا ذاتی معاملہ ہونے کے ساتھ یہ ایک ثقافتی مظہر ہے اور اس سے وابستگی حماقت نہیں ، ثقافت کا نام ہے، اس کے بعد ہمارے ہاں اس حل کی قبولیت کے امکانات سب سے زیادہ روشن ہوچکے ہیں۔
چیلنج کا تیسرا جواب جو ہم نظری طور پر ہی نہیں بڑی حد تک عملاً بھی دے چکے ہیں ، یہ ہے کہ دین کے نام پر جو کچھ بھی فقہی ذخیرہ موجود ہے ، اسے فرد و معاشرے پر بالجبر ٹھونس دیا جائے۔اس طرح ہم نظری طور پر مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر مذہبی بھی ہوجائیں گے ۔ہمارا آئین و قانون بڑی حد تک اس اعتبار سے مذہبی ہوچکا ہے۔ہمارے عوام الناس کو جو پہلے ہی اپنے قومی مزاج کی بنا پر مذہبی ہوتے ہیں، جب باور کرادیا جاتا ہے کہ مذہب میں سوال اٹھانا کفر ہے تو ان کی ایک بڑی تعداد بھی اپنی عقل کو کانوں تک محدود کرکے دین کی مروجہ اور مبینہ تعبیر کو اختیار کرلیتی ہے۔تاہم عملی دنیا میں یہ تعبیرفرد و اجتماع کو باربار ایسے اندھیرے غار تک پہنچادیتی ہے جہاں کوئی روشنی اگر رہ جاتی ہے تو وہ صرف ایمان کی ہوتی ہے بلا عقل وہ ایمان جو ایک مسلمان ہی کے پاس نہیں یہودی، عیسائی، ہندو اور بدھ مت کے ماننے والوں کے پاس بھی ہوتا ہے۔
ان تینوں جوابات کا جائزہ لے لیجیے۔ابتدائی دو کو دین کے تا قیامت ہدایت ہونے کا ہمارا یقین رد کردیتا ہے، جبکہ تیسرے حل کو ہماری عقل اور عملی زندگی کے مسائل قبول نہیں کرنے دیتے۔یہ ہمارا مخمصہ ہے جس سے ہم نکل نہیں پا رہے۔ ہمارے مقتدر طبقات ابتدائی دو حلوں کی طرف مائل ہیں جس کے بعد مذہب عملاً ہمارے قومی خمیر سے نکل جائے گا۔ یہ بات کسی اور قوم کے لیے تو قابل قبول ہوسکتی ہے ، مگر ہمارے قومی وجود کے لیے اس کا مطلب موت ہوگا۔ جبکہ مذہبی قیادت اور ان کے زیر اثر مڈل کلاس تیسرے حل کو اختیار کرنا چاہتے ہیں، مگر یہ مبالغہ نہیں ایک حقیقت ہے کہ یہ حل ناقابل عمل ہے۔ دین کے نام پر پیش کیا جانے والا ہمارا اکثر فقہی سرمایہ عصر حاضر میں بالکل غیر متعلق ہوچکا ہے۔اس کے کئی اجزا پہلے بھی غلط تھے اور آج بھی ہیں۔ زمانی حالت کی بنا پر پہلے وہ قابل عمل تھے ، مگر آج وہ قابل عمل بھی نہیں رہے اور مستقبل میں تو قابل توجہ بھی نہیں رہیں گے۔تاہم چونکہ ابھی تک مسئلے کا کوئی واضح حل سامنے نہیں آیا ، اس لیے معاشرے میں ایک کشمکش جاری ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے ۔اسی کشمکش کی دوانتہاؤں کا نام انتہا پسندی اور مغرب پرستی ہے۔
ہمارے نزدیک اس مسئلے کا حل قومی مزاج کی مذہبی اساسات کو بدل دینا ہے۔یہ اساسات ہمارے نزدیک توہم پرستی، تصوف، قدیم فقہ اور روایت پرستی ہیں۔اس قوم کی مذہبیت میں قرآن کو کوئی حیثیت حاصل نہیں، بلکہ قرآن کی بے وقعتی کا عالم یہ ہے کہ کوئی قصہ، کوئی فتویٰ، کوئی روایت سنادیجیے ، لوگ قرآن کو پیٹھ پیچھے پھینک دینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔بعض دوسرے لوگوں نے بھی اس حقیقت کو محسوس کیا اور اس کے بعد وہ معاشرے میں قرآن کی دعوت لے کر کھڑے ہوئے ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ اس دعوت کا حق تو کیا ادا کرتے انھوں نے قرآن کی ایسی نامعقول تاویلات کیں جن کے بعد عوام و خواص کا یہ عقیدہ مزید پکا ہوگیا کہ قرآن وہ بھاری پتھر ہے جسے چوم کر رکھ دینے ہی میں عافیت ہے۔اس کے ساتھ سنت کے انکار اور حدیث کے رد نے اس راہ میں وہ کانٹے بوئے ہیں کہ آج قرآن کی بنیاد پر دین سمجھنے کی دعوت لے کر اٹھنا بڑے حوصلے کا کام بن چکا ہے۔
قرآن کو چھوڑ کر ان بنیادوں پر بننے والا مذہبی ذہن اور تشکیل پانے والامذہبی سرمایہ عصر حاضر میں بلاشبہ قطعاً غیر موزوں ہو گا۔یہ اگر بن سکتے ہیں تو فرد کا ذاتی مسئلہ یا قوم کا ثقافتی سرمایہ بن سکتے ہیں۔دور جدید میں فرد و اجتماع کے عملی معاملات ان کے سہارے نہیں چل سکتے ، لیکن رب العالمین کا نازل کردہ کلام وہ ابدی رہنمائی ہے جو ہر دور میں قابل عمل ہے۔ہم سے یہ کوتاہی ہوئی ہے کہ ہم نے قرآن کو قابل اعتنا ہی نہیں سمجھا۔اللہ تعالیٰ نے ہماری اس کوتاہی کے باجود ان لوگوں کو پیدا کیا جنھوں نے راہ کے سب سے بھاری پتھر یعنی دین پر علمی تحقیق کا بار اٹھالیا ۔پچھلی ایک صدی میں امام فراہی اور ان کے تلامذہ نے قرآن کی بنیاد پر دین پر غور و غوض کی طرح ڈالی اور اب کم و بیش اس ابدی دین کو سامنے رکھ دیا ہے جو آج کے دور میں بھی اتنا ہی قابل عمل ہے جتنا چودہ سو برس قبل تھا۔اس دین میں نہ قرآن کی تاویلات کی جاتی ہیں نہ سنت کا انکار۔ نہ حدیث کو فراموش کیا جاتا ہے نہ اسلاف کی خدمات کا انکار ہوتا ہے۔تاہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ کام ابھی محض علمی کام ہے۔کسی قوم کا اجتماعی مزاج بدلنا کسی علمی کام کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔جب تک یہ ایک فکری تحریک میں نہیں بدلتا ، اس وقت تک برگ و بار نہیں لا سکتا ۔ بہترین اذہان ،اعلیٰ ترین استدلال کے ساتھ برسوں جہاد کرتے اور گالیاں کھاتے ہیں تب کہیں جاکر کوئی نتیجہ نکلتا ہے۔
ہم نے یہ حقائق سوچنے والے اذہان کے سامنے رکھ دیے ہیں۔ہمیں یقین ہے کہ ہماری اس صدا پر کان نہ دھرے گئے تو آنے والے دنوں میں یہ بات یقینی ہے کہ مذہب اسی طرح ہمارے قومی مزاج سے خارج ہوجائے گا جس طرح مغرب میں ہوا تھا۔ اس لیے ضروری ہے کہ قوم کے سنجیدہ اور باشعور عناصر اس کام کی غیر معمولی اہمیت کو محسوس کریں اور اس کے ابلاغ کو اپنا مسئلہ بنائیں۔ اسی طرح جذباتی انداز فکر کے بجائے استدلال اور خطابت وانشاپردازی کے بجائے تعلیم وتدریس کے طریقے پر قوم کی تربیت ہمارا مسئلہ بننا چاہیے۔ہمیں یقین ہے کہ ہماری فلاح کا کوئی راستہ ان گھاٹیوں کو عبور کیے بغیر سامنے نہیں آسکتا۔
____________