مصنف: ڈاکٹر صاحب زادہ انوار احمد بگوی
ضخامت: ۹۱۰ صفحات
قیمت: ۵۵۰ روپے
ناشر: مجلس مرکز یہ حزب الانصار پاکستان،بھیرہ
ملنے کے پتے: شعبۂ نشر و اشاعت ،مجلس حزب الا نصار بھیرہ۔
ادارۂ تدبر قرآن و حدیث ،رحمن سٹریٹ ،مسلم کالونی ،سمن آباد ، لاہور۔
دریائے جہلم کے کنارے واقع ’’بھیرہ ‘‘ ضلع سرگودھا کا ایک تاریخی قصبہ ہے ۔اس کا شمار پنجاب کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جو قدیم زمانے سے بر صغیر پر حملہ آوروں کی گزر گاہ اور قیام گاہ رہے ہیں۔۳۲۶ق م میں یونان کے ظالم فاتح سکندر اعظم کا اس وقت کے حکمران راجہ پورو(یونانی تلفظ پورس)سے فیصلہ کن معرکہ اسی قصبے کے قرب و جوار میں ہوا تھا ۔مشہور چینی سیاح ہیون سانگ نے بھیرہ کا ذکر ’’علم و فنون ‘‘ کے مرکز کی حیثیت سے کیا ہے ۔سلطان محمود غزنوی ہندوستان پر حملہ آور ہونے کے لیے آیا تو اس نے بھیرہ میں بھی قیام کیا ۔ مغلوں نے جب ہندوستان پر قسمت آزمائی شروع کی تو ان کی گزرگاہ میں بھی بھیرہ ایک اہم قیام گاہ تھا ۔تزک بابری میں ظہیر الدین بابر نے بھیرہ میں اپنے دو ہفتوں کے قیام کا ذکر کیا ہے ۔ ۱۵۴۰ء میں ایک فوجی مہم کے دوران میں شیر شاہ سوری بھی کچھ عرصے کے لیے بھیرہ میں مقیم رہا ۔اسی قیام کے دوران میں شیرشاہ سوری یا اس کے کسی جانشین نے یہاں ایک عالی شان مسجد تعمیر کی ۔اپنی وسعت ، خوب صورتی اور عمارتی شکوہ کے لحاظ سے یہ مسجد مسلمانوں کی شان و شوکت کا شان دار مظہر تھی ۔جب مغلوں کے زوال کے بعد پنجاب پر سکھوں کی حکومت قائم ہوئی تو بادشاہی مسجد لاہور کی طرح یہ بھی ان کی سکھا شاہی سے محفوظ نہ رہی۔ انھوں نے مسجد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ ۸۵۷اء کی جنگ آزادی کے بعد جب ہندوستان کی حکومت کا نظم و نسق ایسٹ انڈیا کمپنی سے لے کر حکومت برطانیہ نے اپنے ہاتھوں میں لیا تو مقامی لوگوں سے بہتر تعلقات استوار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اسی کے نتیجے میں مقبوضہ مساجدکوواگزار کیا جانے لگا۔ چنانچہ اسی دور میں ۱۸۶۰ ء کے لگ بھگ بھیرہ کی اس تاریخی مسجد کی دوبارہ تعمیر ہوئی ۔ اس تعمیر کا سہر ااپنے دور کے ایک ممتاز اورجید عالم دین علامہ احمد الدین بگوی کے سر ہے جنھوں نے یہ کارنامہ کسی حکومتی سرپرستی کے بغیر عوام میں اپنی غیر معمولی مقبولیت کے باعث مقامی مسلمانوں کی مدد سے سر انجام دیا۔ یہ علامہ احمد الدین بگوی وہی عالم دین ہیں جوبادشاہی مسجد لاہور کی واگزاری کے بعد اس کے پہلے ا مام و خطیب مقرر ہوئے ۔ زیر نظر کتاب اسی بگویہ خانوادے کے علماو مشائخ کے علمی، ملی اور سماجی کارناموں کے تذکرے پر مشتمل ہے ۔کتا ب کے مصنف ڈاکٹر صاحب زادہ انوار احمد بگوی اسی بگویہ خاندان کے چشم وچراغ ہیں۔ انھوں نے کتاب کی اس جلد اول میں خاندان بگویہ کے مورث اعلیٰ مولانا حافظ نور حیات بگوی سے اپنے دادا مولانا ظہور احمد بگوی تک کے علما و مشائخ کے کارناموں کا تذکرہ کیا ہے ۔اس تذکرے میں مصنف کا طرز تحریر محض ایک عقیدت مند کا سا نہیں ، بلکہ کتاب کے دیباچہ میں لکھے ان الفاظ کے مطابق ہے :
’’حالات بیان کرتے ہوئے راقم نے پوری کوشش کی ہے کہ غیر ضروری طوالت نہ ہو ۔رسمی اور ثقیل القابات سے گریز کیا جائے۔ جو بیان ہو وہ سادہ اور عا م فہم زبان میں ہو ۔ہر واقعہ صحیح اور مستند ہو ۔مطالعہ کرنے والوں کے لیے تذکار ان کی دلچسپی، معلوما ت اور ہدایت کا ذریعہ ہے ۔ ‘‘( ۳۰)
کتاب میں جن شخصیات کا تفصیلی تذکرہ ہے ، ان کا تعلق ایسے دور سے ہے جب مسلمانان ہند انگریزوں سے آزادی کی مسلح جدو جہد میں ناکامی کے بعد سیاسی تگ و دو میں مصروف تھے ۔اس کتاب میں مصنف نے اس باشعور طبقے کی ایک زندہ تصویر سامنے رکھ دی ہے ۔چنانچہ قاری تاریخ خلافت ،فتنۂ قادیانیت ،کا نگرس ،مسلم لیگ اور خاک سار تحریک سے تعلق رکھنے والے علماو مشائخ کے اختلافات اور تحریک پاکستان میں علما کی جدوجہد کے مختلف مراحل کو اپنی آنکھوں کے سامنے گزرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مصنف نے مشائخ بگویہ کے حالات زندگی کے ساتھ ساتھ ان کی منتخب تحریریں ، ان کی تعریف و موافقت میں لکھے گئے مضامین، ان کے متعلق اخبار و جرائد کے تجزیے وتبصرے، ہندوستان بھر کے جید علما اور ہندو مسلم رہنماؤں کے ساتھ ان کی خط کتابت کا ریکارڈ، ان کے پیغامات اور ان سے متعلق مختلف واقعات پر اس دور کے شعراکا فارسی، اردو اور پنجابی کلام بھی کتاب میں شامل کردیا ہے ۔ اس سے کتاب میں بڑی معنویت اور وسعت پیدا ہو گئی ہے اور اسے ایک مستند تاریخی اور قیمتی دستاویز کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے ۔مصنف کا طرز تحریر اس قدر دلچسپ اور تاریخی دستاویز اور تحریروں کے انتخاب کا ذوق اس قدر ہمہ جہت ہے کہ قاری اس ضخیم کتاب کو جہاں سے بھی پڑھنا شروع کرتا ہے، اس کے سحر میں گرفتار ہو جاتا ہے ۔
تذکار بگویہ اگرچہ خاندان بگویہ کے صاحب علم و عزیمت اسلاف کی دینی، روحانی ،سماجی اور سیاسی خدمات کا احاطہ کرتی ہے ، لیکن اس کے مصنف و مرتبین نے اس قدر محنت ، ذہانت اور دیانت سے کام لیا ہے کہ یہ ایک خانوادے ہی کی نہیں ، بلکہ برصغیر پاک و ہند میں علما و مشائخ کی تاریخ کا ایک مستند باب بن گئی ہے جو تاریخ کے اس شعبے سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ۔ اس اعلیٰ علمی و تاریخی دستاویز مرتب کرنے پر مصنف اور ان کے معاون مولانا ابرار احمد بگوی ، خطیب و امام شیر شاہی مسجد بھیرہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔
____________