بسم اللہ الرحمن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰٓی اٰدَمَ وَنُوْحًا، وَّاٰلَ اِبْرٰاھِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ{۳۳} ذُرِّیَّۃً بَعْضُھَا مِنْ بَعْضٍ، وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ{۳۴}
اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ : رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا، فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ، اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ{۳۵} فَلَمَّا وَضَعَتْہَا، قَالَتْ: رَبِّ اِنِّیْ وَضَعْتُھَآ اُنْثٰی، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ، وَلَیْسَ الذَّکَرُکَالْاُنْثٰی، وَاِنِّیْ سَمَّیْتُھَا مَرْیَمَ، وَاِنِّیْٓ اُعِیْذُھَا بِکَ وَذُرِّیَّتَھَا مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ {۳۶} فَتَقَبَّلَھَا رَبُّھَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ، وَّاَنْبَتَھَا نَبَاتًا حَسَنًا، وََّکَفَّلَھَا زَکَرِیَّا،کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْھَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ، وَجَدَ عِنْدَھَا رِزْقًا، قَالَ یٰمَرْیَمُ: اَنّٰی لَکِ ھٰذَا، قَالَتْ: ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ، اِنَّ اللّٰہَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ{۳۷}
(یہ ۵۸ اہلِ کتاب تم سے بحث کرنا چاہتے ہیں )۔ اِ س میں شبہ نہیں کہ اللہ نے آدم اور نوح، اور ابراہیم اور عمران کے خاندان ۵۹ کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر اُن کی رہنمائی کے لیے منتخب فرمایا۔۶۰ یہ ایک دوسرے کی اولاد ہیں اور(جو کچھ کہتے اورکرتے رہے ہیں ، اللہ اُس سے واقف ہے، اِس لیے کہ )اللہ سمیع وعلیم ہے۔۳۳۔۳۴
اِنھیں یاددلاؤ وہ واقعہ جب عمران کی بیوی نے دعا کی کہ پروردگار، یہ میرے پیٹ میں جو بچہ ہے، اُس کو میں نے ہرذمہ داری سے آزاد کرکے تیری نذر کردیا ہے ۔ ۶۲ سو تو میری طرف سے اِس کو قبول فرما۔ بے شک تو سمیع و علیم ہے۔پھر جب اُس نے جنا تو بولی کہ پروردگار ، یہ تو میں نے لڑکی جن دی ہے۶۳ ــــــ اور جو کچھ اُس نے جنا تھا، اللہ کو اُس کا خوب پتا تھا۶۴ ــــــــــــــــــ اور (بولی کہ) لڑکا لڑکی کی طرح نہیں ہوتا ۔ ۶۵ (خیر اب یہی ہے ) اور میں نے اِس کا نام مریم رکھ دیا ہے اوراِس کو اور اِس کی اولاد کو میں شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ (اُس کے احساسات یہی تھے)، تاہم اُس کے پروردگارنے اِس (لڑکی ) کو بڑی خوشی کے ساتھ قبول فرمایا اور نہایت عمدہ طریقے سے پروان چڑھایا اور زکریا ۶۶ کو اُس کا سرپرست بنادیا ۔ (چنانچہ ) جب کبھی زکریا محراب ۶۷ میںاُس کے پاس جاتا ۶۸ تو وہاںاللہ کی عنایت دیکھتاتھا۔۶۹ (اِسی طرح کے ایک موقع پر ) اُس نے پوچھا : مریم، یہ کہاں سے پاتی ہو؟ ۷۰ اُس نے جواب دیا : یہ اللہ کے پاس سے ہے۷۱ ۔ (اُس لڑکی پریہ تمھارے پروردگار کا کرم تھا)۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ جس کو چاہتا ہے، بے حساب دیتا ہے۔ ۷۲ ۳۵۔ ۳۷
۵۸؎ سورہ کی تمہید یہاں ختم ہوئی ۔ ان آیتوں سے اب نصاریٰ پر اتمام حجت کا مضمون شروع ہوتا ہے ۔
۵۹؎ ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ عمران کے خاندان کا ذکر یہاں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ عمران بن ماتان سیدہ مریم کے والد ماجد کا نا م ہے۔ یہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے جد مادری ہیں۔ آگے کا مضمون چونکہ اُس دعا سے شروع ہورہا ہے جو سیدہ مریم کی والدہ نے اُن کی پیدایش کے موقع پر کی تھی، اس لیے یہاں بھی انھیں نمایاں کردیا ہے۔
۶۰؎ اشارہ ہے نبوت ورسالت اورشہادت علی الناس کے اس منصب کی طرف جو آدم اور نوح کو اُن کی انفرادی حیثیت میں اور ذریت ابراہیم کو بحیثیت جماعت عطا کیا گیا۔ ابراہیم اورعمران کے بجائے ’آل ابراہیم‘اور’آل عمران ‘ کے الفاظ یہاں اسی حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔
۶۱؎ مطلب یہ ہے کہ ان بزرگوں کے علم وعمل اوران کی دعوت کے بارے میں جو لوگ اللہ او راس کے رسول سے بحث کرنا چاہتے ہیں، وہ سوچ لیں کہ کس سمیع و علیم ہستی کو وہ اپنی طرف سے کچھ بتانے کی جسارت کررہے ہیں۔
۶۲؎ بنی اسرائیل میں کسی بچے کو اللہ تعالیٰ کی نذر کرنے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اسے بیت المقدس کی خدمت کے لیے خاص کردیا جائے گا اور اس پر کھلانے کمانے اور گھردر کی کوئی ذمہ داری نہ ہوگی۔
۶۳؎ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ مریم کی والدہ لڑکے کی ولادت کی توقع کررہی تھیںاو راسی توقع پرانھوں نے اسے معبد کی خدمت کے لیے وقف کردینے کا ارادہ کیا تھا۔
۶۴؎ یہ ان کی بات کے بیچ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک جملۂ معترضہ ہے۔ استاذ امام اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’والدۂ مریم کا یہ کہنا کہ ’انی وضعتھا انثٰی‘ (میں تو یہ لڑکی جنی ہوں ) نو مولود سے متعلق ایک کمتری کے احساس کی غمازی کررہا تھا اور انھیں اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنا یہ ہدیہ بہت حقیر محسوس ہورہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی غایت درجہ رافت و رحمت سے یہ واضح فرمایا کہ والدۂ مریم تو مریم کو ایک لڑکی ہونے کی بنا پر نہایت حقیر چیز سمجھ رہی تھیں، لیکن اللہ کو خوب علم تھا کہ لڑکی کی صورت میں اُن کے پیٹ سے کیسی عظیم اور بابرکت ہستی ظہور میں آئی ہے۔ ‘‘(تدبرقرآن ۲/ ۷۷)
۶۵؎ یہ سیدہ کی والدہ نے اپنے تردد کا اظہار کیا ہے کہ کہاں وہ لڑکا جس کے بارے میں میں نے سوچا تھا کہ اسے اللہ تعالیٰ کی نذر کروں گی اور کہاں یہ لڑکی جو پیدا ہوئی ہے۔ اس تردد کی وجہ یہ تھی کہ بنی اسرائیل میں معبد کی خدمت کے لیے لڑکیوں اور عورتوں کے لینے کا رواج نہیں تھا۔
۶۶؎ یہ زکریا جن کا ذکر یہاں ہوا ہے، سیدنا ہارون علیہ السلام کے خاندان سے اورسیدہ مریم کے خالو تھے۔ بنی اسرائیل میں کہانت کا جونظام قائم کیا گیا تھا، اس کی رو سے لاوی بن یعقوب کا گھرانا مذہبی خدمات کے لیے خاص تھا۔ پھر بنی لاوی میں سے بھی مقدس میں خداوند کے آگے بخور جلانے اور پاک ترین چیزوں کی تقدیس کی خدمت سیدنا ہارون کے خاندان کے سپردتھی۔دوسرے بنی لاوی مقدس کے اندر نہیں جاسکتے تھے، بلکہ صحنوں اور کوٹھڑیوں میں کام کرتے تھے، سبت کے دن اور عید وں کے موقع پر سوختنی قربانیاں چڑھاتے تھے اور مقدس کی نگرانی میں بنی ہارون کی مدد کرتے تھے۔ زکریا بنی ہارون کے خاندان میں سے ابیاہ کے سربراہ تھے۔ چنانچہ اپنے خاندان کی طرف سے یہی معبد کی خدمت انجام دیتے تھے۔
۶۷ ؎اس سے مراد وہ محراب نہیں ہے جو ہماری مسجدوں میں امام کے کھڑے ہونے کے لیے بنائی جاتی ہے۔ بیت المقدس میں جو حجرے اورگوشے عبادت گزاروں کے لیے بنائے گئے تھے، انھیں محراب کہا جاتا تھا ۔ یہاں اس سے مراد وہ خاص گوشہ اور حجرہ ہے جس میں بیٹھ کر سیدہ مریم ذکر و عبادت میں مشغول ہوتی تھیں۔
۶۸؎ اس سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں : ایک یہ کہ حضرت زکریا سیدہ کی نگہداشت اور دیکھ بھال کے لیے اکثر ان کے پاس جاتے رہتے تھے، دوسری یہ کہ سیدہ اپنا تمام وقت اسی محراب میں، ذکر و عبادت میں گزارتی تھیں ۔
۶۹؎ اصل میں ’و جد عندھا رزقاً‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں رزق سے مراد وہ حکمت ومعرفت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی شخص کو عطا ہوتی ہے۔ قرآن نے یہ لفظ ایک سے زیادہ مقامات میں وحی وہدایت کے لیے استعمال کیا ہے۔ قدیم صحیفوں میں بھی یہ تعبیر اس مفہوم کے لیے اختیار کی گئی ہے۔
۷۰؎ یہ محض استفہام نہیں، بلکہ اظہار تحسین کے لیے استعجاب کا جملہ ہے۔ یعنی تمھارے پاس آتا ہوں تو روحانی کمالات کے جونفحات محسوس کرتا ہوں، یہ تمھیں کہاں سے حاصل ہوتے ہیں؟
۷۱؎ سیدہ مریم کا یہ جواب کم سنی کے باوجود اُن کے پختہ علم اورفہم و بصیرت پر دلالت کرتا ہے کہ انھوں نے اسے اپنے زہدوریاضت کا کرشمہ قرار نہیں دیا، بلکہ اللہ کی عنایت اور اس کا فضل قرار دیا ہے۔
۷۲؎ یہ جملہ، جیسا کہ استاذ امام نے لکھا ہے، سیدہ مریم کے جواب کا حصہ نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیدہ کی تحسین اور اُن پراپنے بے پایاں فضل کا اظہار ہے۔ شان کلام اس سے ابا کرتی ہے کہ اسے سیدہ کے جواب کا حصہ قرار دیا جائے ۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــ