اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دنیامیں انسان کو آزمایشکی غرض سے پیدا کیا ہے۔اس آزمایش کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ دنیا کی آلایشوں میں رہ کر اپنے نفس کو پاک رکھنے والے لوگ کون ہیں۔یہی پاکیزہ لوگ آخرت میں پروردگار کی ابدی جنت کاانعام پائیں گے۔اللہ تعالیٰ کی مشیت کا یہ تقاضا تھا کہ انسان کی اس آزمایش کا بڑا حصہ اس کی معاشرتی حیثیت سے متعلق ہو۔چنانچہ انسانوں کی فطرت میں معاشرتی زندگی کا ایک بھرپور احساس ودیعت کیا گیا ۔اسی لیے انسان ، جانوروں کے برعکس، اس دنیا میں تنہا نہیں ،بلکہ اجتماعیت کی شکل میں زندگی گزارتے ہیں اور تاریخ کے ہر دور میں وہ کسی ایسے گروہ کی شکل ہی میں رہے ہیں جس پر معاشرے کا اطلاق کیا جاسکے۔
اللہ تعالیٰ نے اس اجتماعیت کی بنا خاندان کے ادارے کو قرار دیا ہے۔حضرت آدم سے لے کر آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک اس کی ہدایت کا ایک بڑا حصہ خاندان کے استحکام سے متعلق رہا ہے۔زنا کی حرمت کا اصل سبب یہی ہے کہ وہ خاندان کی جڑ کاٹ پھینکتا ہے۔چنانچہ ہر شریعت زنا کی بیخ کنی کو اپنے اہداف میں شامل کرتی رہی ہے۔آخری رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں بھی اخلاقی اور قانونی ،دونوں پہلووں سے ایسے احکام دیے گئے ہیں جو جبلت میں موجود حیوانی جذبوں کو بے لگام ہونے سے روکتے ہیں۔ اس پر فطرت میں موجود حیا کا جذبہ مستزاد ہے جو انسان کے سرکش جذبات کو پابند سلاسل نہ سہی پابند اقدار ضرور کردیتا ہے۔ انسانی زندگی کا تمام تر حسن اس اجتماعیت سے عبارت ہے جو میاں بیوی کے تعلق سے جنم لینے والے خاندان پر مبنی ہے۔جہاں ان دو کے علاوہ ہر تعلق میں اصل اساس حیا، حمیت، ہمدردی اور خیرخواہی کے وہ جذبات ہیں جو انسان کو جانوروں سے ممتاز کرتے ہیں۔انھی احساسات کے ہونے یا نہ ہو نے کی بنیاد پر انسانوں کے پرچۂ امتحان کا ایک بڑا حصہ تشکیل پاتا ہے۔
دورجدید میں الحاد پر مبنی مغربی تہذیب نے جہاں دیگر فطری تصورات پر ضرب لگائی ہے ،وہاں خاندان کے اداروں کی اساسات کو بھی زمین بوس کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔وحی کی رہنمائی کا انکار کرنے کے بعد یہ تہذیب انسان کو ایک ایسے حیوان کے روپ میں دیکھتی ہے جس نے اتفاقاًدو ٹانگوں پر چلنا سیکھ لیا ہے۔انسانی وجود کو مادیت کی تنہا آنکھ سے دیکھنے کا یہ نقطۂ نظر طے کردیتا ہے کہ یہ محسوس دنیا اس دو پایہ مخلوق کی تمناؤں اور حوصلوں کی تکمیل کا آخری میدان ہے۔اس تہذیب کے باشعور عناصر اس یقین پر کھڑے ہیں کہ آج کا ارتقا یافتہ فرد معاشرے کی وہ اساس ہے جس کی آزادی اور جس کا مفاد ہر اخلاقی ضابطے کی بنیاد ہے۔ چنانچہ انفرادیت (Individualism) اور مادیت (Materialism) کی اس سوچ کے تحت قرار پاتا ہے کہ فرد کو ہر لطف ،ہر نعمت، ہر ذائقہ، ہر جلوہ اور ہر لمس شیریں اسی دنیا میں حاصل کرنا ہے۔ہر ترقی، ہر کامیابی، ہر منزل ، ہر عروج اور ہر بڑائی صرف اسی دنیا میں دیکھنا ہے۔ہر نظم، ہر پابندی، ہر ضابطہ، ہر اصول اور ہر قانون جو فرد کی آزادی اور مفاد کے خلاف ہو ،باطل ہے۔مغرب کی اشرافیہ انفرادیت کی اسی اساس پر اپنا ضابطۂ حیات ترتیب دیتی اور نظم اجتماعی چلاتی ہے اور مادیت پر مبنی یہی اہداف اپنے عوام کے سامنے رکھتی ہے۔دنیا پرستی اور لطف و سرورکے یہ اہداف غیر شعوری طور پر فرد کے لیے خاندان کو ایک بوجھ بناکر اس ادارے کی بنا ڈھادیتے ہیں جو قربانی،ضبط نفس اور حیا کے اعلیٰ انسانی جذبات کی بنیاد پر کھڑا ہے۔جہاں ہر تعلق بے غرض اور ہر محبت پاکیزہ ہوتی ہے۔جہاں بچوں کی معصومیت اور بزرگوں کی ناتوانی ایک محفوظ حصار میں زندگی کی صبح و شام دیکھتی ہے۔
یہ مغربی اشرافیہ، میڈیا کی مہربانی سے ،ہمارے عوام و خواص ،دونوں کے امام بن چکے ہیں۔ چنانچہ یہی اقداراور تصورات اب ہمارے ہاں بھی عام ہورہے ہیں۔ ایک طرف جنسی بے راہ روی پر مبنی ان کے خیالات ہمارے نوجوانوں میں پھیل رہے ہیں تو دوسری طرف دنیاپرستی کی لہر ہمارے ہر گھر میں داخل ہورہی ہے۔ دور دراز کے رشتوں کو نبھانے کی روایت کے بعد قریبی اعزہ کی دل داری کی ریت بھی اب مٹ رہی ہے۔خاندان اب محض فرد اور اس کی بیوی بچوں پر مشتمل رہ گیا ہے۔جہاں ہر شخص مال کمانے اور اسے خرچ کرنے کے نت نئے طریقے دریافت کرنے کو مقصد زندگی بنائے بیٹھا ہے۔ والدین اولاد کی تربیت سے بے پروا ہوکر صرف مال کمانے میں مگن ہیں۔ ان کی توجہ بچوں کے اچھے کپڑوں، اچھے سکول، کھانے پلانے اورسیر و تفریح تک محدود ہے۔وہ نہیں جانتے کہ ان کی غیر موجودگی میں ان کے بچے انٹرنیٹ پر کیا دیکھتے ہیں۔ کیبل پر ان کے پسندیدہ پروگرام کیا ہیں۔ان کے دوستوں میں زیر بحث پسندیدہ موضوعات کیا ہیں۔وہ ویڈیو اور سی ڈی پرکون سی فلمیں دیکھتے ہیں۔ ان سب کے نتیجے میں ان کے بچوں کے لباس ، ان کی سوچ، ان کے رویوں اور ترجیحات میں کس طرح کی تبدیلی آرہی ہے۔ان کے بچے حیا، ادب، تہذیب ،یہاں تک کہ رشتوں کے تقدس سے بھی کیسے بے نیاز ہوتے جارہے ہیں،انہیں اس کا کچھ اندازہ نہیں۔
یہ بچے اور نوجوان لڑکے لڑکیاں جب اگلے خاندانوں کا آغاز کریں گے تو معاشرتی زندگی کا جو نمونہ سامنے آئے گا، وہ اسلامی نہیں ،بلکہ مغربی ہوگا۔اس زندگی میں اپنا مفاد اور اپنا بچاؤ ہر قدر سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔زندگی صرف مزے کرنے کا نام ہوتی ہے۔نوجوان لڑکے لڑکیوں کا باہم دوستی کرنا عین فطرت اور اس سے رکنا فطرت سے انحراف کے مترادف ہوتاہے۔جہاں برٹنڈ رسل کے الفاظ میں جنس کو میاں بیوی کے تعلق سے الگ کرنا نوجوانوں کی ضروت بن جاتاہے۔اس پاکیزہ رشتے اور اولاد کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب شباب ڈھلنے لگتا ہے۔اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ بوڑھے والدین ایک بے فائدہ بوجھ بن جاتے ہیں ۔ جس کے بعد زندگی کے ڈھلتے سورج کو تنہا دیکھناان کا مقدر ہوتا ہے۔
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ہم نے اس راہ پر قدم رکھ دیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس سمت میں ہماری رفتار بڑھتی چلی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں ایک عام فرد کیا لائحۂ عمل اختیار کرے۔ہمارے نزدیک سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ والدین میں اس بات کا شعور پیدا کرنا ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کو اپنا مسئلہ بنائیں۔اس تربیت کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی تربیت کا اہتمام کریں۔ تربیت کی اساس قرآن کریم کو ہونا چاہیے،کیونکہ قرآن ہی ہے جو انسانوں کو زندگی کے مادی پہلو کے ساتھ اس کی روحانی اور اخلاقی اساسات سے متعارف کرتا ہے۔ یہی ہے جو دلوں سے دنیا کا زنگ اتارکر آخرت کا رنگ چڑھاتا ہے۔یہ انسانوں سے جنت کا وعدہ کرکے ان اخلاقی ذمہ داریوں کا اٹھا نا آسان کردیتا ہے جو دوسری صورت میں آج کے فرد اور اگلی نسلوں کو پاؤں کی بیڑیاں محسوس ہوں گی ۔یہ جہنم کی وعید دے کر ان حدود میں داخلے سے فرد کو روکتا ہے جس کے چپے چپے پر فرد کے لیے لذت اور اجتماعیت کے لیے موت کا پیغام ثبت ہے۔
قرآن کی بنیاد پر فرد کی تربیت، قرآن کی بنیاد پر اولاد کی تربیت،کرنے کا کام آج کوئی ہے تو بس یہی ہے۔یہی کام دنیا میں ہمارے معاشرے کو انتشار سے محفوظ رکھے گا۔ یہی کام آخرت میں افراد کو جنت کی ابدی، بے مثل اور پر لطف بادشاہی کا حق دار بنائے گا۔
____________