HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ساجد حمید

شرح موطا امام مالک

اللہ علیم و خبیر کے بابرکت نام سے ، جس کی عنایتیں بے پناہ اور جس کی شفقتیں ابدی ہیں ، ہم نے موطا کی شرح کے لیے قلم اٹھایاہے۔ یہ قلم اٹھاتے وقت اللہ سے دعا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کے ساتھ موطا میں دین اور اس کے احکام کی جو تعبیر ہم تک پہنچی ہے، اسے سمجھیں اور جو حق بات ان احادیث سے سمجھ میں آئے ،اسے دین کے طالبوں کے لیے بے کم و کاست بیان کریں۔ اور یہ بھی دعا ہے کہ اللہ ہمیں اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے۔اور ہمیں اس سارے کام کے دوران میں شیطانی وسوسوں اورنفس کی اکساہٹوں سے بچائے۔

یہ شرح میں علمی دنیا میں اپنی کوتاہ قامتی کے باوجود لکھنے کی جو جسارت کررہا ہوں، تو صرف اس سہارے کی وجہ سے ، جو مجھے استاد گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی کی نہایت مشفقانہ رہنمائی کی صورت میں حاصل ہے۔میری خواہش ہے کہ اس شرح کی تکمیل تک ہر ہر حدیث کی شرح ان کی نظر سے گزرے، تاکہ یہ شرح زیادہ سے زیادہ بہتر اور غلطیوں سے پاک ہو سکے۔

اس شرح سے پہلے فہم حدیث کے اصولوں پر مقدمات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ،لیکن میں یہ مقدمات ان شاء اللہ اگر زندگی رہی تو اس شرح کی تکمیل کے بعد لکھوں گا۔بنیادی اصولوں کی حد تک میرا طرز فکر وہی ہے ، جو استاد گرامی نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کے پہلے باب اصول ومبادی میں پوری جامعیت کے ساتھ بیان کردیا ہے۔

کتاب وقوت الصلوٰۃ

نماز کے اوقات

موطا میں پہلی کتاب نماز کے اوقات سے متعلق ہے۔ اس کے آٹھ ابواب ہیں۔اس کتاب کا نام امام مالک رحمہ اللہ نے کتاب وقوت الصلوٰۃ رکھا ہے۔ وقوت جمع کثرت ہے ،مگر یہاں یہ کثرت کے مفہوم سے مجرد ہو کر محض جمع کے معنی میں استعمال ہوئی ہے۔

_______

پہلا باب

باب وقوت الصلوٰۃ

پنج وقتہ نماز کے اوقات

اس باب میں کل بارہ روایتیں ہیں۔ چار احادیث نبوی ہیں اور باقی آثار ہیں۔

[۱] قال حدثني یحیی بن یحیی اللیثی عن مالک بن أنس عن بن شھاب:
اَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیْزِ اَخَّرَ الصَّلَاۃَ یَوْمًا، فَدَخَلَ عَلَیْہٖ عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ، فَاَخْبَرَہُ: اَنَّ الْمُغِیْرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَ اَخَّرَ الصَّلاَۃَ یَوْمًا ،وَھُوَ بِالْکُوْفَۃِ.فَدَخَلَ عَلَیْہٖ اَبُوْ مَسْعُوْدٍ الْاَنْصَاريُّ فَقَالَ: مَا ھَذَا یَا مُغِیْرَۃُ ؟ اَلَیْسَ قَدْ عَلِمْتَ: اَنَّ جِبْرِیْلَ نَزَلَ فَصَلَّی فَصَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّی فَصَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّی فَصَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّی فَصَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّی فَصَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ. ثُمَّ قَالَ بِھَذَا اُمِرْتُ.
فَقَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ: اَعْلَمْ مَا تُحَدِّثُ بِہِ یَا عُرْوَۃُ .اَوَ اِنَّ جِبْرِیْلَ ھُوَ الَّذِیْ اَقَامَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقْتَ الصَّلَاۃِ؟
قَالَ عُرْوَۃُ: کَذَلِکَ کَانَ بَشِیْرُ بْنُ اَبِیْ مَسْعُوْدٍ الْاَنْصَارِيُّ یُحَدِّثُ عَنْ اَبِیْہِ.
[۲] قَالَ عُرْوَۃُ: وَلَقَدْ حَدَّثَتْنِیْ عَاءِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجُ النَّيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّی الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِیْ حُجْرَتِہَا قَبْلَ اَنْ تَظْہَرَ.
[۱] ’’ابن شہاب کہتے ہیں کہ عمر بن عبد العزیز نے ایک دن (عصر کی )نمازمیں تاخیر کردی۔ عروہ بن زبیر ان کے پاس آئے اور انھوں نے بتایا کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ایک دن، کوفہ کے زمانۂ (اقتدار) میں نماز میں تاخیر کردی تو ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور کہا: کیوں مغیرہ یہ کیا معاملہ ہے!
پھر کہا: کیا تمھیں معلوم نہیں ہے کہ جبریل امین آئے اور انھوں نے (ظہرکی)نماز پڑھی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ پڑھی۔پھر انھوں نے (عصر کی) نماز پڑھی اور آپ نے ان کے ساتھ پڑھی، پھر انھوں نے (مغرب کی) نماز پڑھی تو آپ نے ان کے ساتھ پڑھی۔ پھر انھوں نے (عشا کی) نماز پڑھی تو آپ نے ان کے ساتھ پڑھی۔ پھر انھوں نے (فجرکی)نماز پڑھی تو آپ نے ان کے ساتھ پڑھی۔پھر جبریل امین نے آپ سے کہا: مجھے انھی اوقات کاحکم دیا گیا ہے۔
(یہ حدیث سن کر )عمر بن عبد العزیز نے کہا: اے عروہ جو حدیث آپ مجھے سنایا چاہتے ہیں، وہ مجھے بتائیے ۔ اور یہ بھی بتائیے آیا یہ جبریل امین تھے ، جنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اوقات نماز کا تعین فرمایا؟
عروہ نے (جواب میں) کہا: ہاں بشیر بن مسعود اپنے والد سے ایسے ہی بیان کرتے تھے(کہ جبریل علیہ السلام نے آکر نمازیں اس طرح تعیین وقت کے لیے پڑھائیں)۔‘‘
[۲] ’’عروہ نے یہ بھی کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھانے مجھے بتایا کہ آپ عصر اس وقت پڑھا کرتے جب دھوپ ابھی میرے حجرے میں ہوتی، اس سے پہلے کہ وہ دیواروں پرچڑھتی۔‘‘
دیگر متون

ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت صحاح ستہ میں سے صرف بخاری اور سنن ابی داؤد میں آئی ہے ۔ابو داؤد کی روایت میں بعض تفصیلات زیادہ ہیں ۔ جس کا پورا متن ہم آگے بیان کریں گے۔البتہ دوسرے الفاظ کے ساتھ یہی روایت جس میں جبریل علیہ السلام کے دو دن تک نمازپڑھانے کاذکر ہے، وہ ابوداؤد کے علاوہ نسائی اور ترمذی میں بھی آئی ہے۔ البتہ مسلم کی روایت نہایت مختصر ہے۔ دو دن امامت جبریل والی روایت یوں ہے:

عن بن عباس قال قال رسول اللّٰہ امنی جبریل علیہ السلام عند البیت مرتین فصلی بی الظہر حین زالت الشمس وکانت قدر الشراک وصلی بی العصر حین کان ظلہ مثلہ وصلی بی یعنی المغرب حین افطر الصائم وصلی بی العشا ء حین غاب الشفق وصلی بی الفجر حین حرم الطعام والشراب علی الصائم فلما کان الغد صلی بی الظہر حین کان ظلہ مثلہ وصلی بی العصر حین کان ظلہ مثلیہ وصلی بی المغرب حین افطر الصائم وصلی بی العشاء الی ثلث اللیل وصلی بی الفجر فاسفر ثم التفت الی فقال یا محمد ہذا وقت لانبیاء من قبلک والوقت ما بین ہذین الوقتین . (ابو داؤد ، رقم ۳۹۳)
’’ابن عباس کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بیت اللہ کے پاس جبریل نے میری دو دفعہ امامت کی ۔ انھوں نے مجھے ظہر سورج کے تسمہ برابر ڈھلنے پرپڑھائی ۔ اورعصرمثل سایہ پر پڑھائی، مغرب افطار کے وقت پرپڑھائی۔ اور عشا شفق کے غائب ہوتے ہی پڑھائی ۔ اور فجر اس وقت پڑھائی جب روزہ دار پر کھانا پینا حرام ہو جاتاہے۔ تو دوسرے دن ظہر مثل سایہ پر پڑھائی اور عصر دو مثل سایہ پراور مغرب افطار کے وقت پر، اور عشا ایک تہائی رات کو پڑھائی۔ اور دوسرے دن کی صبح پڑھائی تو روشنی ہو چکی تھی۔ پھر جبریل میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا : اے محمدیہ آپ سے پہلے انبیا کا وقت رہاہے۔ اور آپ کے لیے بھی انھی دونوں کے درمیان کا وقت ہے۔‘‘

اس روایت میں مضمون زیادہ واضح اور صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ موطا کی روایت ہی کے مانند الفاظ پر مبنی ایک روایت سنن ابی داؤد میں وارد ہوئی ہے۔ اس میں اوقات الگ سے ابو مسعود رضی اللہ عنہ کے مشاہدہ کے طور پر بیان ہوئے ہیں۔ باقی قصہ وہی عمر بن عبد العزیز کی نماز میں تاخیر ہی کا زیر بحث ہے:

عن ابن شہاب ان عمر بن عبد العزیز کان قاعدا علی المنبر فأخر العصر شیئا فقال لہ عروۃ بن الزبیر: أما ان جبریل علیہ السلام قد اخبر محمدا صلی اللّٰہ علیہ وسلم بوقت الصلاۃ .فقال لہ عمر: اعلَم ما تقول فقال عروۃ: سمعت بشیر بن ابی مسعود یقول سمعت ابا مسعود الانصاری یقول سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: نزل جبریل علیہ السلام فاخبرنی بوقت الصلاۃ فصلیت معہ ثم صلیت معہ ثم صلیت معہ ثم صلیت معہ ثم صلیت معہ یحسب باصابعہ خمس صلوات فرایت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی الظہر حین تزول الشمس وربما اخرہا حین یشتد الحر ورایتہ یصلی العصر والشمس مرتفعۃ بیضاء قبل ان تدخلہا الصفرۃ فینصرف الرجل من الصلاۃ فیاتی ذا الحلیفۃ قبل غروب الشمس ویصلی المغرب حین تسقط الشمس ویصلی العشاء ’’حین یسود الافق وربما اخرہا حتی یجتمع الناس وصلی الصبح مرۃ بغلس ثم صلی مرۃ اخری فاسفر بہا ثم کانت صلاتہ بعد ذلک التغلیس حتی مات ولم یعد الی ان یسفر... وعن جابر قال ثم جاء ہ للمغرب حین غابت الشمس یعنی من الغد وقتا واحدا .(ابو داؤد ، رقم ۳۹۴)
’’ابن شہاب سے روایت ہے کہ عمر بن عبد العزیز منبر پر بیٹھے (تقریر کررہے )تھے کہ انھوں نے عصر کی نماز میں کچھ تاخیر کردی،تو عروہ بن زبیر نے ان سے کہا: سنیے ، جبریل علیہ السلام نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کا وقت سکھایا تھا۔عمر بن عبد العزیز نے ان سے کہا، جو آپ کہنا چاہتے ہیں مجھے بتائیے۔تو عروہ نے کہا میں نے بشیر بن ابی مسعود کو یہ کہتے سنا ہے کہ ان کے والد ابو مسعود یہ بتاتے تھے کہ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سناکہ جبریل زمین پر آئے، مجھے نماز کے اوقات سکھائے، چنانچہ میں نے ان کے ساتھ ایک(تیسری) نماز پڑھی، پھر (چوتھی) نماز پڑھی، پھر (پانچویں )نماز پڑھی، آپ فرما رہے تھے اور انگلیوں پر پانچ نماز یں شمار کر رہے تھے۔پھر یہ کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ ظہر اس وقت پڑھتے جب سورج نصف النہار سے جھکتا، اور جب کبھی گرمی زیادہ ہوتی تو اسے تھوڑا مؤخر کردیتے۔اور میں نے آپ کو عصر اس وقت پڑھتے دیکھا ہے، جبکہ سورج ابھی اونچا ہوتا اور اس کی روشنی سفید ہوتی، یعنی زردی آنے سے پہلے۔ چنانچہ ایک آدمی عصر کی نماز سے واپس جاتا اور سورج ڈوبنے سے پہلے ذوالحلیفہ پہنچ جاتا۔ آپ مغرب سورج کی ٹکیا کے منظر سے ہٹتے ہی پڑھ لیتے۔عشا اس وقت پڑھتے جب افق سیاہ ہو جائے۔ کبھی اسے تاخیر سے پڑھتے تاکہ سب لوگ اکٹھے ہو جائیں۔ صبح کی نماز ایک دفعہ آپ نے اس وقت پڑھی جب ابھی تاریکی تھی۔ پھر دوسری دفعہ اس وقت جب اجالا ہو چکا تھا۔ لیکن اس کے بعد آپ صبح کی نماز ہمیشہ اپنی وفات تک منہ اندھیرے پڑھتے رہے پھرکبھی اجالا کرکے فجر نہیں پڑھی ...حضرت جابر کہتے ہیں کہ پھر حضرت جبریل اگلے دن بھی مغرب کے لیے اسی وقت آئے جب سورج غروب ہوا۔‘‘

شرح

قرآن و سنت سے تعلق

قرآن مجید کا فرمان ہے:

اِنَّ الصَّلوٰۃَ کَانَتْ عَلَی المُوؤمِنِیْنَ کِتَابًا مَوْقُوْتًا.(النساء ۴: ۱۰۳)
’’بلاشبہ ، نماز مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔‘‘

اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز ذکر کثیر کی طرح جب چاہیں کے اصول پر فرض نہیں کی گئی ہے ،بلکہ اس کے اوقات متعین ہیں۔اس لیے شریعت اسلامی میں اوقات نماز کایہ موضوع ہمیشہ موجود رہا ہے۔زیربحث روایت اوقات نمازسے تعلق رکھتی ہے۔ نماز کے اوقات سنت متواترہ کی صورت میں چلے آتے ہیں۔ سنتِ متواترہ کے تحت ان کے اوقات جو ہم تک تواتر سے پہنچے ہیں، ان کے بارے میں استاد گرامی جاوید احمد صاحب غامدی لکھتے ہیں:

’’نماز مسلمانوں پر شب و روز میں پانچ وقت فرض کی گئی ہے ۔ یہ اوقات درج ذیل ہیں:
فجر، ظہر ، عصر ، مغرب اور عشا۔
صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ ہو جائے تو یہ فجر ہے ۔
ظہر سورج کے نصف النہار سے ڈھلنے کا وقت ہے ۔
سورج مرأی العین سے نیچے آ جائے تو یہ عصر ہے ۔
سورج کے غروب ہو جانے کا وقت مغرب ہے ۔
شفق کی سرخی ختم ہو جائے تو یہ عشا ہے ۔
فجر کا وقت طلوع آفتاب تک ؛ ظہر کا عصر ، عصر کا مغرب ، مغرب کا عشا اور عشا کا وقت آدھی رات تک ہے ۔ سورج کے زمانۂ پرستش میں طلوع و غروب کے وقت اس کی عبادت کے باعث یہ دونوں وقت نماز کے لیے ممنوع قرار دیے گئے ہیں ۔ نماز کے اعمال و اذکار کی طرح اس کے یہ اوقات بھی اجماع اور تواتر عملی سے ثابت ہیں۔‘‘ (قانون عبادات ، اشراق ۲۳، شمارہ دسمبر ۲۰۰۳)

فجر سے عشا تک نمازوں کے یہ نام دراصل ان کے اوقات کے نام ہیں۔ نمازوں کو ان اوقات سے موسوم کرنے میں ان کا وقت بتانا ہی پیش نظر تھا۔ اور سنت نے ان کا یہ نام رکھ کر ان کے اوقات کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا ہے۔ اب ان کی تلاش کے لیے کسی چیز کی اصلاً ضرورت نہیں ہے۔عرب جس وقت کو عصر کہتے تھے ،وہی وقت عصر کا ہے اور جس کو ظہر کہتے تھے ،اسی میں ظہر پڑھی جائے گی۔

قرآن مجید نے اس سنت کا ذکر کیا، اور اسے اپنے الفاظ میں جا بجا بیان کیا ہے۔ مثلاً سورۂ بنی اسرائیل کی آیت میں یہ پانچوں وقت بالصراحت بیان ہو گئے ہیں:

اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّلیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ، اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُوْدًا. وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ عَسآی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا .(بنی اسرائیل ۱۷: ۷۸۔ ۷۹)
’’سورج کے ڈھلنے پر رات کے چھانے تک نماز کا اہتمام کرو۔ اور بالخصوص فجر کی قرأت کا، اس لیے کہ فجر کی قرأت روبرو ہوتی ہے۔ اور رات میں بھی کچھ دیر کے لیے اٹھو، (اورتہجدپڑھو) یہ تمھارے لیے اضافی ہے۔اس توقع کے ساتھ کہ تمھارا رب تمھیں، (قیامت کے دن) اس طرح اٹھائے کہ تم ممدوح خلائق ہو۔‘‘

یعنی اس آیت میں’ دلوک‘ پر نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور ’دلوک‘ وہی ہیں جن کو ہم ظہر، عصر، مغرب اور عشا کے ناموں سے اوپر بیان کر آئے ہیں۔ عشا کو اگر دلوک نہ بھی مانیں تو اس کا وقت ’غسق اللیل‘کے الفاظ میں بیان ہو گیا ہے۔ فجر کا وقت بھی اس میں بتا دیا گیا ہے۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اضافی نماز تہجد کا وقت بھی۔

اس روایت میں انھی اوقات میں سے افضل اوقات کا تعین کیا گیا ہے۔ کسی چیز کی فضیلت یا شارع براہ راست بیان کرتا ہے یا پھروہ شارع کے بیان کردہ کسی اصول یا عقلی مسلمہ سے پھوٹتی ہے۔یہاں حضرت جبریل نے نمازوں کے افضل اوقات بتائے ہیں۔ جیسا کہ انھوں نے بتایا کہ یہ انبیا کے پسندیدہ اوقات نماز ہیں۔ اوقات کی یہ فضیلت جیسا کہ تعجیل کے اصول سے واضح ہے ،قرآن مجید کے اس اصول :’یسارعون فی الخیرات‘کہ’ وہ نیکی میں سبقت کرنے والے ہیں ‘(آل عمران۳: ۱۱۴)، کی روشنی میں بنی ہے۔ سبقت کا یہ جذبہ امتثال امر کو ان کے اول وقت میں کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔یعنی جب ہمارے رب کا حکم آگیا کہ اب ظہر پڑھنی ہے تو بلاوجہ تاخیر کیوں کر ہو،چنانچہ انبیا علیہم السلام نے اسی اصول (تعجیل)کو نمازوں میں اپنایا اور اسی کی تلقین جبریل امین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کی ۔

نماز چونکہ ایک اجتماعی عمل بھی ہے ،اس لیے یہاں مصالح کو بھی پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ اس اصول کو قرآن مجید نے بھی جگہ جگہ بیان کیا ہے کہ’یرید بکم الیسر ولا یرید بکم العسر‘(البقرہ ۲ : ۱۸۵) ۔ یعنی اللہ تمھارے ساتھ آسانی چاہتا ہے مشکل نہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ ’یسروا ولاتعسروا ‘(بخاری ،رقم۶۹)یعنی لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرو مشکل نہ پیدا کرو۔ اس اصول پر جماعت کے وقت کا تعین ایسے کرنا ہوگا کہ جو لوگوں کے لیے تنگی اور حرج کا باعث نہ ہو۔ جیسا کہ اگلی روایتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہی معلوم ہو گا کہ آپ نے جماعت کے اوقات میں دونوں چیزوں (سبقت الی الخیر اور عوام کی سہولت) کو نبھایا۔

مفہوم و مدعا

یہ حدیث عمر بن عبد العزیز کی عصر میں تاخیر پر عروہ کے احتجاج کرنے کے واقعہ سے شروع ہوتی ہے ، جسے ابن شہاب زہری نے آنکھوں دیکھے واقعے کی حیثیت سے بیان کیا ہے۔ یہ واقعہ یوں پیش آیا کہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے نماز عصر افضل وقت سے مؤخر کردی، جس پر عروہ نے احتجاج کرتے ہوئے مغیرہ اور ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہما کے مابین ہونے والے واقعے کی تفصیلات بتائیں۔ اسی ضمن میں انھیں ابو مسعود کی زبانی وہ حدیث سنائی جس میں جبریل امین کی امامت کا ذکر ہے۔

اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو مختصراً بیان کیا گیا ہے۔ اور ان اوقات کا ذکر نہیں کیا گیا ہے ، جن میں جبریل امین نے یہ نماز پڑھائی ۔سنن ابی داؤد کی روایت میں ان اوقات کا ذکر کیا گیا ہے:

ظہر

پہلے دن جبریل علیہ السلام نے ظہر اس وقت پڑھائی، جب سورج نصف النہار سے تسمہ برابرنیچے آیا۔ دوسرے دن انھوں نے ظہر اس وقت پڑھائی جب ان کا سایہ ان کے برابر تھا۔

عصر

پہلے دن انھوں نے عصراس وقت پڑھائی جب ان کے سائے کی لمبائی ابھی ان کے قد کے برابر تھی۔ دوسرے دن عصر انھوں نے اس وقت پڑھائی جب ان کا سایہ ان سے دو گنا تھا۔ عصر کی نماز کے حوالے سے عروہ نے سیدہ عائشہ کا ایک قول بھی نقل کیا ہے۔آپ عصر اس وقت ادا کرتے جب ابھی دھوپ ان کے صحن میں فرش پربھی ہوتی ۔

اس جملے سے عروہ نے جلدی عصر پڑھنے پر استدلال کیا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تک دیواروں کی صحیح اونچائی اور صحن کی وسعت کا اندازہ نہ ہو، اس وقت تک اس سے یہ مفہوم نکالنا صحیح نہ ہو گا کہ یہ جلدی ہے یا تاخیر۔ اس لیے کہ دیوار اگر چھوٹی ہو تو گھرکی مشرقی دیوار پر اس کا سایہ کافی دیرتک نہیں چڑھ سکے گا۔البتہ اتنی بات ضرور نکلتی ہے کہ سورج ابھی سفید روشن ہوتا، جب آپ عصر پڑھا کرتے۔لیکن دو مثل سایہ پر بھی سورج سفید روشن ہوتا ہے۔

مغرب

پہلے دن انھوں نے مغرب اس وقت پڑھائی جب روزہ کھولنے والا روز ہ کھولتا ہے۔دوسرے دن بھی مغرب انھوں نے اسی وقت پڑھائی جب روزہ دار روزہ کھولتا ہے۔

عشا

پہلے دن عشا انھوں نے اس وقت پڑھائی جب شفق جاتا رہا۔ دوسرے دن انھوں نے عشا ایک تہائی رات گزر جانے پر پڑھائی۔

فجر

پہلے دن فجر اس وقت پڑھائی جب روزہ دار پر کھانا پینا ممنوع ہو جاتا ہے۔دوسرے دن فجر اس وقت پڑھائی جب ابھی اجالا تھا۔ (ابو داؤد ، رقم ۳۹۳)

یہ حدیث اوقات بتانے کے لیے نہیں ہے ،بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ نماز کے سبقت الی الخیر والے اوقات کا تعین کردیا جائے۔ یہ وہ اوقات ہیں جو انبیاکے منتخب اوقات ہیں۔ان میں نماز پڑھنے والے نے اپنے ایسے اوقات میں نماز پڑھی ہے کہ جس کے بعد وہ تساہل اورسستی وغیرہ کے الزام سے بچ جاتاہے۔استاد گرامی اس روایت کے اسی محل کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’...اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ نماز بغیر کسی عذر کے بالکل آخری وقت تک موخر کر دی جائے ۔ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ جبریل امین نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو دن نماز پڑھائی اور فرمایا کہ انبیا علیہم السلام کی نماز کا وقت انھی دو وقتوں کے درمیان میں ہے تو فجر کو اسفار سے ، عشا کو ایک تہائی رات سے ، مغرب کو روزہ کھولنے کے وقت سے ، اور ظہر و عصر کو اس سے زیادہ موخر نہیں کیا کہ کسی شخص کا سایہ نماز ظہر کے وقت اس کے برابر اور عصر کے وقت اس سے دوگنا ہو جائے ۔‘‘(قانونِ عبادات، اشراق ۲۵، شمارہ دسمبر۲۰۰۳)

ہماری یہ رائے کہ یہ انبیا کے پسندیدہ اوقات ہیں روایت کے اندر موجود چند قرائن کی وجہ سے بنی ہے۔

ایک یہ کہ موطا کے الفاظ : ’فقال: أمرت بہذا‘ کے بجائے دوسری روایتوں کے یہ الفاظ کہ ’فقال: یا محمد ہذا وقت لانبیا ء من قبلک والوقت ما بین ہذین الوقتین ‘،یعنی جبریل علیہ السلام نے کہا : اے محمد آپ سے پہلے انبیا کا یہی وقت رہا ہے۔ اور انھی دونوں کے مابین آپ کے لیے نمازوں کے اوقات ہیں۔ مرادیہ ہے کہ انبیا نے نماز کی اہمیت کے پیش نظر سبقت الی الخیر کے جذبے کے تحت جن اوقات میں پڑھی ہے، وہ اوقات یہی رہے ہیں اور یہی اوقات آپ کو ملحوظ رکھنے ہوں گے۔

دوسرے یہ کہ بعض روایتوں کے مطابق جس نے عصر کی ایک رکعت سورج ڈوبنے سے پہلے پا لی ، اس نے عصر کی نماز پالی۔ اس سے معلوم ہو ا کہ عصر کا آخری وقت غروب آفتاب ہے ۔ جبکہ حدیث جبریل میں اس کا آخری وقت دو مثل سایہ بیان ہواہے۔ دونوں کو اگر جمع کریں تو یہی تاویل بہترہے کہ حدیث جبریل دراصل ان اوقات کا تعین کررہی ہے جن میں نماز پڑھنا اس کے اعلیٰ اوقات میں پڑھنا ہے ۔یعنی ان اوقات میں نماز پڑھنے والا سستی اور کاہلی کے الزام سے بچ جائے گا۔

تیسرے یہ کہ سنت ثابتہ کے ساتھ اس حدیث کی مطابقت اسی صورت میں ہوتی ہے کہ جب ہم انھیں پسندیدہ اوقات کی تعیین کے معنی میں لیں۔ورنہ ان کا تعین بلاوجہ ہے، بالخصوص عصر کے وقت کا تعین۔

چوتھے یہ کہ عروہ کا عمر بن عبد العزیز کے ساتھ اور ابومسعود کا مغیرہ کے ساتھ نمازکی تاخیر کا جو قصہ اس روایت میں بیان ہوا ہے ، اس میں ان کا احتجاج اس بات پر ہے کہ آپ نے نمازمؤخر کردی ہے، نہ کہ اس بات پر کہ آپ نے نماز قضا کردی ہے۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ ابو مسعود رضی اللہ عنہ نے اس روایت کو افضل اوقات کے تعین ہی کے معنی میں لیا ہے۔ اور پھر عروہ نے اسے اسی محل میں عمر بن عبد العزیز کے سامنے تاخیر ہی پر احتجاج کرتے ہوئے مغیرہ کا قصہ سنایاہے۔

اس لیے ہمارے نزدیک یہ حدیث جبریل انبیا کے معمول بہ اوقات سے آگاہ کرتی ہے نہ کہ نمازوں کے اوقات سے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سائل کو جب یہ اوقات بتائے تو اوقات تبدیل کردیے۔ اس لیے کہ اب آپ دراصل اس شخص کونماز کے پسندیدہ نہیں ،بلکہ متعین اوقات بتا رہے تھے:

عن ابن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ عنہ سئل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن وقت الصلوات فقال وقت صلوۃ الفجر ما لم یطلع قرن الشمس الاول ووقت صلوۃ الظہر اذا زالت الشمس عن بطن السماء ما لم یحضر العصر ووقت صلاۃ العصر ما لم تصفر الشمس ویسقط قرنہا الاول ووقت صلاۃ المغرب اذا غابت الشمس ما لم یسقط الشفق ووقت صلاۃ العشاء الی نصف اللیل. (مسلم ، رقم ۲۱۶)
’’ابن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازوں کے اوقات کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا کہ فجر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک سورج کاایک کنارہ طلوع نہ ہوجائے۔ ظہر سورج کے وسط آسمان سے جھک جانے سے عصر تک ہے۔ اور عصر کا وقت سورج کے زرد ہونے تک ہے، جب اس کا ایک کنارہ غروب ہو جائے۔ مغرب کا وقت سورج ڈوبنے سے شروع ہو کرشفق کے خاتمہ تک ہے ۔ اور عشا آدھی رات تک ہے۔‘‘

یہاں حدیث جبریل اور حدیث بریدہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔صرف دونوں کے پس منظر میں فرق ہے، ایک میں اوقات نماز کی حد بندی کی جارہی ہے اور دوسری میں انبیا کے پسندیدہ اوقات بتائے جارہے ہیں۔

اس روایت کے دو حصے ہیں۔ ’قال عروۃ: ولقد حدثتنی‘ سے الگ روایت ہے ، اس لیے بعض نسخوں میں انھیں دو روایتیں قرار دیا گیا ہے۔لیکن میرے خیال میں یہ پہلی روایت کا ہی حصہ ہے، اس لیے کہ اس کی سند بیان نہیں ہوئی۔ یعنی عروہ نے مغیرہ بن شعبہ ہی کو دونو ں باتیں بتائیں حضرت عائشہ والی بھی اور جبریل والی بھی۔

درایت

اس میں جو واقعہ مذکور ہو اہے۔ اس میں ایک حیرت انگیز بات یہ موجود ہے کہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے لیے یہ بات اجنبی تھی کہ جبریل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امامت کرائی ہے۔اس سے یہ واقعہ کمزور سا معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ عمر بن عبد العزیز بذات خود دین کے ایک اچھے جاننے والے تھے۔ یہ بات تو کہی جاسکتی ہے کہ انھوں نے یہ حدیث نہ سنی ہو۔ مگر یہ بات مشکل ہے کہ انھیں اس کی بھی خبر نہ ہو کہ جبریل علیہ السلام نے ایسا کیا تھا۔عروہ سے ان کا یہ سوال کہ کیا جبریل نے آپ کے لیے اوقات مقرر کیے تھے، حیرت انگیز ہے۔اس واقعہ کی کمزوری پر رجال حدیث کے تحت گفتگو ہوگی۔ یہاں یہ واضح رہے کہ امامت جبریل کے واقعہ کی کمزوری یہاں زیر بحث نہیں ہے، بلکہ عمر بن عبد العزیز اور عروہ کے مابین ہونے والے واقعے کی کمزوری پر یہ سوال دلالت کر رہا ہے۔

ہمارے فقہا کے مابین اصلاً صرف عصر کے وقت میں اختلاف ہے۔ ہمارے خیال میں یہ اختلاف ان انبیاکے پسندیدہ اوقات کو بیان کرنے والی رواتیوں اور وقت بیان کرنے والی روایتوں کو الگ نہ کرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ اسی طرح اس اختلاف کا سبب یہ بھی بنا ہے کہ نمازوں کے نام جنھیں تواتر حاصل ہے کو بھی پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ یعنی عصر کا لفظ اصل میں صرف نماز کا نام ہی نہیں ہے ،بلکہ اس کا وقت بھی بتا رہا ہے ۔ہماری مراد یہ ہے کہ عصر سے مراد دن کا آخری حصہ ہے اور بس یہی وقت عصرہے۔اس کی وضاحت جب طلب کی گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیتعیین بھی کردی۔

سورج کے بلند ہونے اور سفید ہونے کے بیان سے یہ غلط تاثر نہیں لینا چاہیے کہ وہ بہت بلند تھا۔ یہاں اصل میں غروب ہونے کے متضاد اور زرد ہونے کے الٹ مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔اس کے یہ معنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے خط سے واضح ہوتے ہیں، ان کے الفاظ تھے:

والعصر، والشمس مرتفعۃ بیضاء نقیۃ قدر ما یسیر الراکب فرسخین او ثلاثۃ قبل غروب الشمس. (موطا ، رقم ۵)
’’عصر اس وقت پڑھو، جب سورج ابھی روشن بلند اور صاف ہو، اتنا کہ ایک سواردو یا تین فرسخ کا فاصلہ سورج ڈوبنے سے پہلے طے کرلے۔‘‘

سوار تین فرسخ کا فاصلہ ایک ڈیڑ ھ گھنٹے میں آرام سے طے کر لیتا ہے۔

لغوی مسائل

اس حدیث میں ایک ہی لسانی مشکل ہے اور وہ سیدہ عائشہ کے اس جملے ’قبل ان تظھر‘ میں ہے۔یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم عصر سورج کے ’’ظہور کرنے ‘‘سے پہلے پڑھتے تھے ۔ ظہور کرنے کے معنی میں بہت اختلاف ہے کہ اس کے معنی چڑھنے اور ظاہر ہونے کے ہیں یا زوال کے ہیں۔ اسی طرح چڑھنے سے مراد کیا ہے۔ دیواروں پر چڑھنا ہے یا دیواروں سے اٹھ جانا ہے۔

جیسے زرقانی نے لکھا ہے:

قال عیاض المراد تظہر علی الجدر و قیل ترتفع کلہا عن الحجرۃ و قیل تظہر بمعنی تزول عنہا... و فی روایۃ ابن عیینۃ عن ابن شہاب فی الصحیین کا ن یصلی صلاۃ العصر والشمس طالعۃ فی حجرتی لم یظہر الفئ و فی روایۃ مالک جعلہ للشمس و جمع الحافظ بأن کلا من الظہور غیر الآخر فظہور الشمس خروجہا من الحجرۃ و ظہور الفئ انبساطہ فی الحجرۃ فی الموضع الذی کانت الشمس فیہ بعد خروجہا.(شرح الرزقانی علی موطا۱: ۱۶)
’’قاضی عیاض نے کہا ہے اس کے معنی دھوپ کے دیواروں پر چڑھنے کے ہیں، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد دھوپ کا حجرے سے جاتے رہنا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ’ تظھر‘سے مراد زوال پانا یا زائل ہونا ہے۔... ابن شہاب سے ابن عیینہ کی روایت میں جو صحیحین میں ہے، میں یہ بات یوں ہے کہ آپ عصر اس وقت پڑھتے، جبکہ سورج میرے حجرے میں روشن ہوتا، اور اس کا سایہ بلندنہ ہوا ہوتا۔جب کہ مالک کی روایت میں’ظہر ‘کا فعل ’الشمس‘ کے لیے آیا ہے ،البتہ حافظ ابن حجر نے اسے جمع کردیا ہے ۔ ان کے نزدیک ہردو کا ظہور دوسرے سے مختلف ہے۔ چنانچہ دھوپ کا ظہور حجرے سے نکلنا ہے اور سایے کے ظہور سے مراد دھوپ کے بعد حجرے میں اس کا اسی جگہ پھیلنا ہے جہاں دھوپ تھی۔‘‘

اشفاق الرحمن کاندھلوی صاحب نے ’تظہر‘کا فاعل سیدہ عائشہ کو بنایا ہے ۔ اور یہ کہا ہے:

والضمیر إلی عائشۃ عبرت عن نفسہا بغائب قبل ان تظہرای ترتفع.

’’تظہر کی ضمیر سیدہ عائشہ کی طرف راجع ہے، انھوں نے اپنے آپ کو غائب کے صیغے میں تعبیر کیا ہے، اس سے پہلے کہ آپ اٹھتیں، یعنی آپ اٹھ آتیں۔‘‘

ہمارے خیال میں ، ’الشمس‘ سے مراد دھوپ ہے، اور دھوپ کا چڑھنا،ایک مظہر کا بیان ہے۔ یعنی اگر آپ عصرکے وقت صحن میں بیٹھے ہوں تو دیواروں کا سایہ لمبا ہوتا جائے گا اور سورج کے سامنے والی (مشرقی)دیوار پر آپ کو ایک وقت یہ نظر آئے گا کہ صحن میں چھاؤں ہوگی اور دھوپ صرف اس دیوارپر رہ جائے گی۔ جس سے ایسے لگے کا کہ دھوپ چلتے چلتے فرش سے دیوار پر چڑھ گئی ہے۔اسی مظہر کو سیدہ عائشہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ، اس سے پہلے کہ دیواروں پر دھوپ چڑھ جائے۔یہ مجاز کا اسلوب ہے۔ یعنی دھوپ پہلے ہی دیوار پر چڑھی ہوئی تھی۔ اب صرف دیوار پر باقی رہ گئی۔ جس سے لگا کہ گویا دھوپ فرش چھوڑ کر دیوار پر چڑھ گئی ہو۔زرقانی کے اوپر کے اقتباس میں ’لم یظہر الفیء ‘کے جو الفاظ آئے ہیں ،ان کا بھی یہی مطلب ہے کہ سایہ ابھی دیوار پر نہیں چڑھا ہوتاتھا،فرش پر ہی ہوتا تھا۔

رجال حدیث

اس روایت کی سند اور روایت کے کرداروں میں درج ذیل لوگوں کو فہم حدیث کے لیے جاننا ضروری ہے :

اس روایت کی سند میں یحی بن یحی کا نام امام مالک سے اس لیے پہلے ہے کہ موطا کا یہ نسخہ جس کی شرح ہم لکھ رہے ہیں ، یہ امام مالک کے تلمیذ رشید یحی اللیثی کا مدون کردہ ہے۔یہ موطا کے چودہ نسخوں میں سے سب سے زیادہ متداول ہے۔ ’قال حدثنی‘ میں ’قال‘کے فاعل انھی یحی کے بیٹے عبید اللہ ہیں۔جنھوں نے اپنے باپ سے موطا کے اس نسخے کی روایت کی۔

ابن شہاب کا فن حدیث میں بہت بڑا مقام ہے مگر تدلیس اور شیعہ طرف داری کا الزام بھی ان پر لگایا گیاہے۔ یہ ایلہ کے رہنے والے تھے، جمع حدیث کے سلسلے میں مدینہ اور کوفہ وغیرہ کا سفر بھی کیا۔ جمع حدیث انھوں اور دوسرے لوگوں نے عمر بن عبدالعزیز کے حکم ،جو انھوں نے والی مدینہ کو دیا کے بعد ہی کی۔ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں :

واول من دون الحدیث بن شہاب الزہری علی راس الماءۃ بامر عمر بن عبد العزیز ثم کثر التدوین ثم التصنیف وحصل بذلک خیر کثیر فللّٰہ الحمد .(فتح الباری۱: ۲۰۸)
’’سب سے پہلے ابن شہاب زہری نے پہلی صدی کے آغاز پر عمر بن عبد العزیز کے جمع حدیث کے حکم دینے پر تدوین حدیث کا کام کیا۔ بعد میں پھرتدوین کا کام عام ہوگیا ، پھر حدیث کی تصنیف کا کام شروع ہوا اوراللہ کا شکر ہے اس سے خیر کثیر اکٹھا ہوا۔‘‘

اس اعتبار سے عروہ اور عمر بن عبد العزیز کی گفتگو کے گواہ ہونے کا امکان کم ہے۔ جبکہ انھوں نے واقعہ یوں سنایا ہے کہ جیسے وہ اس گفتگو کو براہ راست سن رہے تھے اور اس سارے واقعہ کے عینی شاہد تھے۔ محدثین یہ بھی کہتے ہیں کہ عروہ سے لقا و سماع ہی ثابت نہیں ہے:

... لا یثبت لہ السماع من عروۃ وان کان قد سمع ممن ھو اکبر منہ غیر ان اھل الحدیث قد اتفقوا علی ذلک واتفاقہم علی الشیء یکون حجۃ.(تہذیب التہذیب ۹: ۳۹۸)
’’عروہ سے زہری کا سماع روایت ثابت نہیں ہے اگرچہ زہری نے عروہ سے عمر میں بڑے لوگوں سے بھی حدیث کا سماع کیا ہے، مگرعروہ وغیرہ سے ان کی روایت کے قبول کرنے پر محدثین کا اتفاق ہے ، ان کا کسی بات پراتفاق دلیل و حجت ہے‘‘۔

اس لیے میرے خیال میں یہ روایت زہری کی مرسلات میں سے ہے۔ بخاری میں بھی یہ روایت ایسے ہی آئی ہے ،اور محدثین کا یہی اتفاق جس کا ذکر ابن حجر نے کیا ہے ،بخاری کے ہاں اس کی قبولیت کا سبب بنا ہے۔

عروہ تابعین میں سے ہیں۔ سیدہ عائشہ کے بھانجے ہیں۔ان کا شمار فقہاے سبعہ میں ہوتا ہے ۔حضرت عائشہ کی احادیث کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ابو مسعود رضی اللہ عنہ صحابی ہیں۔ایک رائے کے مطابق بدرمیں شریک ہوئے۔ان کا تعلق انصار مدینہ سے ہے۔

اس حدیث میں عمربن عبد العزیز اور مغیرہ بن شعبہ کا ذکر بھی آیا ہے۔ عمربن عبد العزیز ،سلیمان بن عبد الملک کے بعد خلافت کے منصب پر فائز ہوئے۔ ۱۰۱ ہجری میں وفات پائی۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں، صلح حدیبیہ سے پہلے ایمان لائے۔ پہلے بصرہ اور پھر کوفہ کے والی رہے۔۵۰ ہجری میں وفات پائی۔ ابومسعود کی ان کے ساتھ گفتگو کوفہ کی امارت ہی کے زمانے کی ہے۔

____________

B