HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

قانون عبادات (۱۳)

حج و عمرہ


  وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ، یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ، یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ، لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ، وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَارَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ، فَکُلُوْا مِنْھَا، وََاَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ ، ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَھُمْ ، وَلْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ ، وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ. (الحج۲۲:۲۷۔۲۹)
    ’’اور لوگوں میں حج کی منادی کرو، وہ دور دراز کے گہرے پہاڑی راستوں سے چلتے ہوئے تمھارے پاس پیدل بھی آئیں گے اوراُن اونٹوں پر سوار ہو کر بھی جو سفر کی وجہ سے دبلے ہوگئے ہوں تاکہ اپنے لیے منفعت کی جگہوں پرپہنچیں اور چند متعین دنوں میں اپنے اُن چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے اُن کو بخشے ہیں۔ (تم اِن کو ذبح کرو) تو اِن میں سے خود بھی کھائو اورتنگ دست فقیروں کو بھی کھلائو۔ پھر چاہیے کہ یہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اوراپنی نذر یں پوری کریں اوراِس قدیم گھر کا طواف کریں۔‘‘

    یہ صداہے جو صدیوں پہلے بلند ہوئی اور جس کے جواب میں ’لبیک لبیک‘کہتے ہوئے ہم ام القریٰ مکہ میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بنائی ہوئی اس مسجد کے لیے عزم سفر کرتے ہیں جسے بیت الحرام کہا جاتا ہے۔یہ وہی بیت عتیق ہے جوامام فراہی کے الفاظ میں اس وادیِ بطحا میں خدا کا پہلا گھر تھا اورجس کے حق میں ازل سے طے کردیا گیا تھا کہ توحید سے انحراف کرنے والوں کو دورپھینکتا رہے۔ چنانچہ اس کے باشندوں نے جب بت پرستی اختیار کرلی اوراس کے جوارسے منتشر ہوئے تو پرستش کی غرض سے اس معبد کے پتھر بھی ساتھ لیتے گئے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام بابل سے ہجرت کے بعد اس کو تلاش کرتے ہوئے یہاں پہنچے تو اس کی پرانی تعمیر کا صرف ایک چمکتا ہوا پتھر باقی رہ گیا تھا۔اسمٰعیل کی قربانی کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ اس معبد کو دوبارہ تعمیر کریں۔ چنانچہ باپ بیٹے، دونوں نے مل کر اسی یادگا ر پتھر کے نیچے زمین کھودنا شروع کی۔ پرانی بنیادیں کچھ تگ ودو کے بعد نکل آئیں تو انھیں بلند کیا اوراس پتھر کو عمارت کے ایک گوشے میں نصب کردیا۔ اسمٰعیل اسی گھر کی نذر کیے گئے تھے، لہٰذا وہ اس کے خادم مقرر ہوئے اوراللہ کے حکم سے یہ صدا بلند کردی گئی کہ لوگ اب خداوند کی نذر چڑھانے کے لیے آئیں اوریہاں آکر توحید پرایمان کا جو عہد انھوں نے باندھ رکھا ہے، اُسے تازہ کریں۔ اصطلاح میں اس عمل کا نام حج و عمرہ ہے۔ یہ دونوں عبادات دین ابراہیمی میں عبادت کا منتہاے کمال ہیں۔ قرآن نے صاف اعلان کیا ہے کہ اسلام درحقیقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک معاہدۂ بیع وشرا ہے جس میں ہم اپنا جان ومال اس بہشت بریں کے عوض بیچ دیتے ہیںجو پروردگار نے ہمارے لیے تیار کررکھی ہے۔ : ’ان اللّٰہ اشتری من المومنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنۃ‘۔ ۳۸۳؎ چنانچہ فرمایا ہے کہ :’ فاستبشرواببیعکم الذی بایعتم بہ، وذلک ھوالفوزالعظیم‘۔ ۳۸۴؎ (سو اس سودے پر خوشی منائو جو تم نے اپنے پروردگارسے کیا ہے اور یہی دراصل بڑی کامیابی ہے )۔ اپنے معبودکے لیے جذبۂ پرستش کا یہ آخری درجہ ہے کہ اس کے طلب کرنے پر بندہ اپنا جان ومال، سب اُس کے حضور میں نذر کردینے کے لیے حاضر ہوجائے۔ حج وعمرہ اسی نذر کی تمثیل ہیں۔ یہ دونوں ایک ہی حقیقت کو ممثل کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عمرہ اجمال ہے اور حج اس لحاظ سے اس کی تفصیل کردیتا ہے کہ اس میں وہ مقصد بھی بالکل نمایاں ہو کرسامنے آجاتا ہے جس کے لیے جان ومال نذر کردینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

    اللہ تعالیٰ نے بتایاہے کہ آدم کی تخلیق سے اس کی جواسکیم دنیا میں برپا ہوئی ہے، ابلیس نے پہلے دن ہی سے اس کے خلاف اعلان جنگ کررکھا ہے : ’قال: فبما اغویتنی، لاقعدن لہم صراطک المستقیم، ثم لاٰتینہم من بین ایدیھم، ومن خلفہم، وعن ایمانہم، وعن شمآئلھم، ولا تجد اکثرہم شٰکرین‘۳۸۵؎ (بولا: اچھا تو چونکہ تونے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے، اس لیے میں بھی اب تیری سیدھی راہ پران کی گھات لگا کر بیٹھوں گا، پھر آگے اورپیچھے، اور دائیں اوربائیں سے ان پر تاخت کروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو اپنا شکر گزار نہ پائے گا)۔ قرآن کا بیان ہے کہ ابلیس کا یہ چیلنج قبول کرلیاگیا ہے اور اللہ کے بندے اب قیامت تک کے لیے اپنے اس ازلی دشمن اور اس کی ذریت کے ساتھ برسرجنگ ہیں۔ ۳۸۶؎ یہی اس دنیا کی آزمایش ہے جس میں کامیابی اورناکامی پرہمارے ابدی مستقبل کا انحصار ہے ۔ اپنا جان ومال ہم اسی جنگ کے لیے اللہ کی نذر کرتے ہیں۔ انبیا علیہم السلام نے’یایھا الذین اٰمنوا،کونوا انصار اللّٰہ‘ ۳۸۷؎ کی صدا تاریخ میں بارہا اسی مقصد سے بلند کی ہے۔ ابلیس کے خلاف اس جنگ کو حج میں ممثل کیا گیا ہے۔ یہ تمثیل اس طرح ہے :

    اللہ کے بندے اپنے پروردگار کی ندا پر دنیا کے مال ومتاع اوراس کی لذتوں اورمصروفیتوں سے ہاتھ اٹھاتے ہیں،

    پھر’لبیک لبیک‘ کہتے ہوئے میدان جنگ میں پہنچتے اوربالکل مجاہدین کے طریقے پر ایک وادی میں ڈیرے ڈال دیتے ہیں،

    اگلے دن ایک کھلے میدان میں پہنچ کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ،اس جنگ میں کامیابی کے لیے دعا ومناجات کرتے اور اپنے امام کا خطبہ سنتے ہیں،

    تمثیل کے تقاضے سے نمازیں قصر اورجمع کرکے پڑھتے اور راستے میں مختصر پڑائو کرتے ہوئے دوبارہ اپنے ڈیروں پرپہنچ جاتے ہیں،

    پھر شیطان پرسنگ باری کرتے، اپنے جانوروں کی قربانی پیش کرکے اپنے آپ کو خداوند کی نذر کرتے، سرمنڈاتے اورنذر کے پھیروں کے لیے اصل معبد اورقربان گاہ میں حاضر ہوجاتے ہیں۔

    پھر وہاں سے لوٹتے اوراگلے دویا تین دن اسی طرح شیطان پر سنگ باری کرتے رہتے ہیں۔

     اس لحاظ سے دیکھیے تو حج وعمرہ میں احرام اس بات کی علامت ہے کہ بندۂ مومن نے دنیا کی لذتوں، مصروفیتوں اورمرغوبات سے ہاتھ اٹھالیا ہے اور دو ان سلی چادروں سے اپنا بدن ڈھانپ کر وہ برہنہ سر اور کسی حد تک برہنہ پابالکل راہبوں کی صورت بنائے ہوئے اپنے پروردگار کے حضور میں پہنچنے کے لیے گھر سے نکل کھڑا ہوا ہے۔

    تلبیہ اس صدا کا جواب ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بیت الحرام کی تعمیر نو کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک پتھر پر کھڑے ہوکر بلند کی تھی۔ ۳۸۸؎ اب یہ صدا دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچ چکی ہے اوراللہ کے بندے اس کی نعمتوں کا اعتراف اور اس کی توحید کا اقرار کرتے ہوئے اس صدا کے جواب میں ’ لبیک ،اللّٰہم لبیک‘ کا یہ دل نواز ترانہ پڑھتے ہیں۔

    طواف نذر کے پھیرے ہیں۔ دین ابراہیمی میں یہ روایت قدیم سے چلی آرہی ہے کہ جس کی قربانی کی جائے یا جس کو معبد کی خدمت کے لیے نذر کیا جائے، اسے معبد یا قربان گاہ کے سامنے پھرایا جائے۔ تو رات کے مترجموں نے اسی بات کو جگہ جگہ ہلانے کی قربانی اور خداوند کے آگے گزراننے سے تعبیر کیا ہے۔ مثال کے طور پر گنتی میں ہے:

’’ اورتو لاویوں کو خداوند کے آگے لا۔ اوربنی اسرائیل اپنے ہاتھ اُن پررکھیں۔ اور ہارون لاویوں کو بنی اسرائیل کی طرف سے ہلانے کی قربانی کی طرح خداوند کے آگے گزرانے، تب وہ خداوند کی خدمت کے لیے مخصوص ہوں گے۔ تب لاوی اپنے ہاتھ دونوں بیلوں کے سروں پر رکھیں۔ تب تو اُن میں سے ایک کو خطا کی قربانی کے لیے اوردوسرے کو خداوند کی سوختنی قربانی کے لیے لاویوں کے کفارے کے لیے گزران۔ اور تو لاویوں کو ہارون اور اس کے بیٹوں کے سامنے کھڑا کر اورخداوندکی ہلانے کی قربانی کی طرح اُن کو گزران ،کیونکہ وہ بنی اسرائیل کے درمیان سے مجھے نذر کردیے گئے ہیں۔ میں نے بنی اسرائیل کے سب پہلوٹوں کے بدلے جو رحم کے کھولنے والے ہوں، اُن کو اپنے لیے لیا ہے۔‘‘ (۸: ۱۰۔۱۶)

    بائیبل کے عربی ترجمے میں اس کے لیے ’ ترددھم للرب‘ یا ’ امام الرب‘کی تعبیر اختیار کی گئی ہے جس سے یہ مفہوم بالکل واضح ہوجاتا ہے۔

    حجراسود کا استلام تجدید عہد کی علامت ہے۔ اس میں بندہ اس پتھر کوتمثیلاً اپنے پروردگار کا ہاتھ قرار دے کر اس ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتا اورعہد ومیثاق کی قدیم روایت کے مطابق اس کو چوم کر اپنے اس عہد کی تجدید کرتا ہے کہ اسلام قبول کرکے وہ جنت کے عوض اپنا جان ومال ، سب اللہ تعالیٰ کے سپرد کرچکا ہے۔

    سعی اسمعیٰل علیہ السلام کی قربان گاہ کا طواف ہے۔ سیدنا ابراہیم نے صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہوکر اس قربان گاہ کو دیکھا تھا اورپھر حکم کی تعمیل کے لیے ذرا تیزی کے ساتھ چلتے ہوئے مروہ کی طرف گئے تھے۔ بائیبل میں یہ واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے:

’’تیسرے دن ابراہیم نے نگاہ کی اور اُس جگہ کو دور سے دیکھا۔ تب ابراہیم نے اپنے جوانوں سے کہا: تم یہیں گدھے کے پاس ٹھیرو۔ میں اور یہ لڑکا ، دونوں ذرا وہاں تک جاتے ہیں اور سجدہ کرکے پھر تمھارے پاس لوٹ آئیں گے۔‘‘        (پیدایش ۲۲: ۴۔۵)        

    چنانچہ صفا ومروہ کا یہ طواف بھی نذر کے پھیرے ہی ہیں جو پہلے معبد کے سامنے اور اس کے بعد قربانی کی جگہ پر لگائے جاتے ہیں۔ تورات سے معلوم ہوتاہے کہ یہ جس طرح قربانی سے پہلے لگائے جاتے تھے، اسی طرح قربانی کے بعد بھی اس کا کوئی حصہ ہاتھ میں لے کر لگائے جاتے تھے۔ خروج میں ہے:

’’اورتو ہارون کے تخصیصی مینڈھے کا سینہ لے کر اُس کو خداوند کے روبرو ہلانا تاکہ وہ ہلانے کا ہدیہ ہو۔ یہ تیرا حصہ ٹھیرے گا۔‘‘ (۲۹: ۲۶)

    عرفات معبد کا قائم مقام ہے، جہاں شیطان کے خلاف اس جنگ کے مجاہدین جمع ہوتے، اپنے گناہوں کی معافی مانگتے اور اس جنگ میں کامیابی کے لیے دعا ومناجات کرتے ہیں۔

    مزدلفہ راستے کا پڑائو ہے، جہاں وہ رات گزارتے اور صبح اٹھ کر میدان میں اترنے سے پہلے ایک مرتبہ پھر دعاومناجات کرتے ہیں۔

    رمی ابلیس پر لعنت اور اس کے خلاف جنگ کی علامت ہے ۔ یہ عمل اس عزم کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ بندۂ مومن ابلیس کی پسپائی سے کم کسی چیز پر راضی نہ ہوگا۔ یہ معلوم ہے کہ انسان کا یہ ازلی دشمن جب وسوسہ انگیزی کرتا ہے تو اس کے بعد خاموش نہیں ہوجاتا، بلکہ یہ سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ تاہم مزاحمت کی جائے تو اس کی تاخت بتدریج کمزور ہوجاتی ہے۔ تین دن کی رمی اوراس کے لیے پہلے بڑے اور اس کے بعد چھوٹے جمرات سے اسی بات کو ظاہر کیا گیا ہے۔

    قربانی جان کا فدیہ ہے اور سر کے بال مونڈنا اس بات کی علامت ہے کہ نذرپیش کردی گئی ہے اور اب بندہ اپنے خداوند کی اطاعت اور دائمی غلامی کی اس علامت کے ساتھ اپنے گھر لوٹ سکتا ہے۔ یہ دین ابراہیمی کی ایک قدیم روایت ہے۔ چنانچہ تورات میں یہ قانون بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نذر کیا جائے، وہ اپنے سر کے بال اُس وقت تک نہ منڈوائے، جب تک نذر کے دن پورے نہ ہوجائیں۔ گنتی میں ہے:

’’اوراس کی نذارت کی منت کے دنوں میں اُس کے سر پر استرہ نہ پھیرا جائے، جب تک وہ مدت جس کے لیے وہ خداوند کا نذیر بنا ہے، پوری نہ ہو تب تک وہ مقدس رہے اور اپنے سر کے بالوں کی لٹوں کو بڑھنے د ے ۔ ‘‘(۶: ۵)
’’اورنذیر کے لیے شرع یہ ہے کہ جب اُس کی نذارت کے دن پورے ہوجائیں تو وہ خیمۂ اجتماع کے دروازے پر حاضر کیا جائے ...پھر وہ نذیرخیمۂ اجتماع کے دروازے پراپنی نذارت کے بال منڈوائے۔‘‘(۶: ۱۳، ۱۸)

    اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کس قدر غیر معمولی عبادت ہے جو ہر صاحب استطاعت مسلمان پرزندگی میں کم سے کم ایک مرتبہ فرض قرار دی گئی ہے ۔چنانچہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے یہود ونصاریٰ کو تنبیہ فرمائی ہے کہ اس سے بے پروائی کا نتیجہ کفر ہے اور وہ اگر اپنے اس رویے پراصرار کریں گے تو پھر اللہ کو بھی ان کی کو ئی پروا نہ رہے گی۔ ارشاد فرمایا ہے:

وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً ، وَمَنْ کَفَرَ ، فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ. (آل عمران ۳: ۹۷)
   ’’اورجوسفر کی استطاعت رکھتے ہوں، اُن لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ بیت الحرام کا حج کریں اورجس نے انکار کیا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ دنیا والوںسے بے پروا ہے۔‘‘

    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک موقع پر ایمان اور جہاد کے بعد اسی کی فضیلت بیان کی ہے۔ ۳۸۹؎ نیزفرمایا ہے کہ جو شخص اللہ کے لیے حج کرے، پھر اس میں کوئی شہوت یا نافرمانی کی بات نہ کرے تو وہ حج سے اس طرح لوٹتا ہے، جس طرح اس کی ماں نے اسے آج جنا ہے۔ ۳۹۰؎ اسی طرح آپ کا ارشاد ہے: عمرے کے بعدعمرہ ان کے درمیان میں ہونے والے گناہوں کے لیے کفارہ ہے اور سچے حج کا بدلہ تو صرف جنت ہی ہے۔ ۳۹۱؎


حج وعمرہ کی تاریخ

    حج وعمرہ کی تاریخ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اس منادی سے شروع ہوتی ہے جس کا ذکر ہم اوپر جگہ جگہ کرچکے ہیں۔ اس کے بعد یہ سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی عرب کے لوگ ہر جگہ سے گروہ در گروہ حج و عمرہ کے لیے آتے تھے اور آپ کی بعثت کے بعد بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس کے مناسک اور رسوم و آداب میں بعض بدعتیں ان لوگوں نے داخل کردی تھیں، لیکن روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انھی میں سے بعض لوگ ان بدعتوں پرپوری طرح متنبہ بھی تھے اور اپنا حج ابراہیمی طریقے کے مطابق ہی کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں منقول ہے کہ بعثت سے پہلے جبیر بن مطعم نے آپ کو عرفات میں دیکھا تو اسے حیرت ہوئی کہ قریش کے لوگ تو مزدلفہ سے آگے نہیں جاتے اور بنی ہاشم کا یہ فرزند وقوف عرفہ کے لیے یہاں حاضر ہے۔ اس کا بیان ہے:

اضللت بعیرا لی، فذھبت اطلبہ یوم عرفۃ، فرأیت النبی واقفا بعرفۃ، فقلت: ھٰذا، واللّٰہ من الحمس، فما شأنہ ھاھنا؟ (بخاری،رقم ۱۶۶۴)
   ’’میرا اونٹ کھو گیا۔ عرفہ کے دن میں اسے تلاش کرتا ہوا گیا تو میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میدان عرفات میں کھڑے ہیں۔ ۳۹۲؎ میں نے خیال کیا، بخدا یہ تو قریش میں سے ہیں، پھر یہ یہاں کیا کررہے ہیں؟‘‘

    اس سے واضح ہے کہ قرآن نے جب حج کا حکم دیا تو اس کے مخاطبین کے لیے یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ وہ دین میں اس کی اہمیت اور اس کے رسوم وآداب سے پوری طرح واقف تھے اور ہر سال نہایت اہتمام کے ساتھ اس کے لیے حاضر ہوتے اور اس کے مناسک ادا کرتے تھے۔ چنانچہ قرآن نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا کہ ان کی بدعتوں اور انحرافات کو ختم کرکے حج وعمرہ ، دونوں کو ان کے اصل ابراہیمی طریقے پربحال کردیا۔ یہ اس عظیم عبادت کی تاریخ کا آخری باب ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے رقم ہوا ہے۔ اس کے بعد اب اس کے تمام مناسک مسلمانوں کے اجماع اور تواتر عملی سے نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہورہے ہیں، ان میں کسی نوعیت کی کوئی ترمیم وتغیر یا اضافہ نہیں ہوا۔ قرآن نے جو اصلاحات، البتہ اُس وقت کی تھیں اوراب قرآن کی آیات میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کردی گئی ہیں، وہ ہم یہاں بیان کیے دیتے ہیں۔

    ۱۔بیت الحرام کے متولی ہونے کی وجہ سے قریش اپنا یہ حق سمجھتے تھے کہ وہ جس کو چاہیں حج وعمرہ کے لیے حرم میں آنے دیں اور جس کو چاہیں، اس کی حاضری سے محروم کردیں۔ قرآن نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور واضح کیا کہ یہ کسی خاندان کا اجارہ نہیں ہے۔ ہر شخص جو اللہ کی عبادت اور حج وعمرہ کے لیے اس گھر کا قصدکرے، وہ قریشی ہویا غیر قریشی، عربی ہو یا عجمی، شرقی ہو یا غربی ، اس پر کسی کو کوئی پابندی عائد کرنے کا حق نہیں ہے۔مقیم اورآفاقی، سب کے حقوق اس میں بالکل برابر ہیں۔ قریش کی حیثیت اس کے حکمرانوں اوراجارہ داروںکی نہیں ہے، بلکہ اس کے پاسبانوں اور خدمت گزاروں کی ہے۔ ان کا فرض ہے کہ اسمٰعیل علیہ السلام کی طرح وہ بھی اسے تمام دنیا کے لیے عبادت کا مرکز بنائیں اور تمام انسانوں کو دعوت دیں کہ اس کی برکتوں سے بہرہ یاب ہونے کے لیے اس آستا نۂ الہٰی پرحاضر ہوں:

اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا، وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنٰہُ لِلنَّاسِ سَوَآئً الْعَاکِفُ فِیْہِ وَالْبَادِ، وَمَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِاِلْحَادٍ بِظُلْمٍ، نُّذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ.(الحج ۲۲: ۲۵)
   ’’(اِس کے برخلاف )جو لوگ منکر ہوئے اوراب اللہ کی راہ سے اور اُس مسجد حرام سے روک رہے ہیں جس کو ہم نے اُس کے شہریوں اورباہر سے آنے والوں کے لیے یکساں ٹھیرایا ہے،(وہ یقینابڑے ظلم کا ارتکاب کررہے ہیں )۔اور(اِس مسجد کا معاملہ تو یہ ہے کہ )جو اِس میں کسی بے دینی، کسی شرک کے ارتکاب کا ارادہ کریں گے، اُن کو ہم ایک دردناک عذاب کا مزا چکھائیں گے۔‘‘

    ۲۔شرک کی غلاظت توحید کے اس سب سے بڑے اور قدیم ترین مرکز میں بھی داخل کردی گئی تھی۔ قرآن نے متنبہ کیا کہ ابراہیم واسمٰعیل کو جب اس گھرکی تولیت عطا ہوئی اورانھیں یہاں آباد ہونے کے لیے کہا گیاتھا تو اللہ تعالیٰ نے پہلی ہدایت یہ فرمائی تھی کہ اس طرح کی غلاظتوں سے اس گھر کو بالکل پاک رکھا جائے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ قریش کو بھی یہی کرنا چاہیے ، ورنہ یہ عظیم امانت ان سے چھین کرا س کے اصل حق داروں کے سپرد کر دی جائے گی:

وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰھِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ اَنْ لاَّ تُشْرِکْ بِیْ شَیْئًا، وَّطَھِّرْبَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ، وَالْقَآئِمِیْنَ، وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ. (الحج۲۵: ۲۶)
   ’’اور یا دکرو ، جب ابراہیم کے لیے اِس گھر کی جگہ کو ہم نے ٹھکانا بنایا، (اس ہدایت کے ساتھ ) کہ کسی چیز کوہمارے ساتھ شریک نہ کرو اور میرے اس گھر کو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں اور رکوع وسجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔‘‘

    ۳۔ اپنے بتوں کے تعلق سے بعض جانور قریش نے حرام قرار دے رکھے تھے، ۳۹۳؎ چنانچہ وہ ان کی قربانی بھی نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح اس گھرسے متعلق سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مقدس روایات بھی اپنے دنیوی مفادات کی خاطر انھوں نے بڑی حد تک بدل ڈالی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر انھیں تنبیہ کی اوربتایا کہ جانور وہی حرام ہیں جن کی وضاحت قرآن میں کردی گئی ہے، اس لیے اس ’افتراء علی اللّٰہ‘سے بچو اور اللہ کی قائم کردہ تمام حرمتوں کی تعظیم بجا لائو۔ یہی تمھارے حق میں بہتر ہے:

ذٰلِکَ، وَمَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰہِ فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ، وَاُحِلَّتْ لَکُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَایُتْلٰی عَلَیْکُمْ، فَاجْتَنِبُوْا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ، وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ، حُنَفَآئَ لِلّٰہِ غَیْرَ مُشْرِکِیْنَ بِہٖ، وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ، فَکَاَنَّمَا خَرَّمِنَ السَّمَآئِ، فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ اَوْتَھْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ. ذٰلِکَ، وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ، فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الَقُلُوْبِ. (الحج۲۲: ۳۰۔۳۲)
   ’’ان چیزوں کا اہتمام کرو، اور (یاد رکھو کہ ) جو اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کی تعظیم کرے گا تو یہ اُس کے پروردگار کے نزدیک اُس کے لیے بہتر ہے۔ اور تمھارے لیے چوپائے حلال کیے گئے ہیں ،سوائے اُن کے جو تمھیں سنا دیے گئے ہیں ۔ سوبتوں کی غلاظت سے اجتناب کرو اور اُس جھوٹ سے اجتناب کرو ، (جو تم خدا پر باندھتے ہو)، ایک اللہ کی طرف یک سو ہو کر ، اُس کے شریک بنا کر نہیں، اور (یاد رکھو کہ) جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرائے گا تو گویا وہ آسمان سے گر گیا ، پھر پرندے اُس کو اچک لے جائیں گے یا ہوا اُس کو کسی دور دراز جگہ میں لے جاکر پھینک دے گی۔ ان چیزو ں کا اہتمام کرو، اور (یاد رکھو کہ ) جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کی تعظیم کرے گا تو(اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ )یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔‘‘

    ۴۔ قربانی کے جانوروں سے کوئی فائدہ اٹھانا بالعموم ممنوع سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے خاص کردینے کے بعد لوگ نہ ان کا دودھ استعمال کرتے تھے اورنہ ان سے باربرداری کا کوئی کام لیتے تھے۔ ۳۹۴؎ قرآن نے وضاحت فرمائی کہ ان شعائر کی تعظیم کے لیے یہ چیز ضروری نہیں ہے۔ قربانی کا وقت آجانے تک ان جانوروں سے ہر طرح کا فائدہ اٹھانا بالکل جائز ہے :

لَکُمْ فِیْھَا مَنَافِعُ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًی، ثُمَّ مَحِلُّھَآ اِلَی الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ. (الحج ۲۲: ۳۳)
   ’’(قربانی )کے اِن (جانوروں)سے تم ایک وقت مقرر تک فائدے اٹھا سکتے ہو، پھر ان کو اِسی قدیم گھر تک پہنچنا ہے۔‘‘

    ۵۔ عرب میں یہود بھی تھے اور ایک کمزور روایت کی بنا پر انھوں نے اونٹ کو حرام قرار دے رکھا تھا۔ ۳۹۵ ؎ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ محض واہمہ ہے، لہٰذا اونٹ کی قربانی بھی بغیر کسی تردد کے کی جائے گی۔ بلکہ عربوں کو یہ جانور چونکہ نہایت عزیز ہے، لہٰذاوہ اگر اپنے پروردگار کی خوشنودی کے لیے اس کی قربانی کریں گے تو ان کے لیے یقینا یہ اللہ کے تقرب کابہت بڑا ذریعہ ہوگی:

وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ، لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ، فَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْھَا صَوَآفَّ ، فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا، فَکُلُوْا مِنْھَا، وَاَطْعِمُواالْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ، کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰھَا لَکُمْ، لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ. (الحج۲۲: ۳۶)
  ’’اور قربانی کے اونٹوں کوبھی ہم نے تمھارے لیے اللہ کے شعائرٹھیرایا ہے۔ ان میں تمھارے لیے بھلائی ہے۔ سو ان کی قطار بنا کر ان پراللہ کا نام لو۔ پھر جب وہ اپنے پہلووں پر گر پڑیں تو اُن میں سے خود بھی کھائو اور اُن کو بھی کھلائو جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور اُن کو بھی جو مانگنے کے لیے آجائیں۔ اسی طرح ہم نے اِن (جانوروں) کو تمھاری خدمت میں لگادیا ہے تاکہ تم شکرگزار بنو۔‘‘

    ۶۔قربانی کے بارے میں خیال کیا جاتا تھاکہ اللہ تعالیٰ اس کے گوشت اور خون سے محظوظ ہوتا ہے۔ قرآن نے متنبہ کیا کہ یہ محض حماقت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے نہیں، بلکہ اس تقویٰ سے محظوظ ہوتا ہے جو ان قربانیوں سے ان کے پیش کرنے والوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے:

لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَادِمَاؤُھَا، وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ،کَذٰلِکَ سَخَّرَھَالَکُمْ، لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَاھَدٰکُمْ، وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ. (الحج۲۲: ۳۷)
  ’’اللہ کو نہ ( تمھاری ) اِن (قربانیوں ) کا گوشت پہنچتا ہے، نہ خون، بلکہ صرف تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اُس نے اِسی طرح اِن کو تمھاری خدمت میں لگا دیا ہے تاکہ اللہ نے جو ہدایت تمھیں بخشی ہے، اُس پرتم اُس کی تکبیر کرو۔ (یہی طریقہ ہے اُن کا جو خوبی کا رویہ اختیار کریں ) اور (اے پیغمبر)اِن خوب کاروں کو بشارت دو۔‘‘

    ۷۔ مروہ سیدنااسمٰعیل علیہ السلام کی قربان گاہ ہے۔ یہود چونکہ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے، اس لیے صفا ومروہ کے طواف کے بارے میں بھی طرح طرح کے شبہات پیدا کرتے رہتے تھے۔ قرآن نے اس کتمان حق پر انھیں تنبیہ کی اور صاف واضح کردیاکہ یہ دونوں پہاڑیاں اللہ کے شعائر میں سے ہیں اوران کا طواف ایک نیکی کا کام ہے۔ کسی مسلمان کو اس معاملے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے :

اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ، فَمِنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِاعْتَمَرَ، فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا، وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ، اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِِّنٰتِ وَالْھُدٰی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِ، اُولٰٓئِکَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰہُ، وَیَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُوْنَ. (البقرہ۲: ۱۵۸۔۱۵۹)
  ’’صفا اور مروہ یقینا اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔ چنانچہ وہ لوگ جواس گھر کا حج یا عمرہ کرنے کے لیے آئیں ، اُن پرکوئی حرج نہیں کہ وہ ان کا طواف بھی کرلیں، (بلکہ یہ ایک نیکی کا کام ہے ) اورجس نے اپنے شوق سے نیکی کاکوئی کام کیا، اللہ اُسے قبول کرنے والا ہے، اُس سے پوری طرح باخبر ہے۔ (اِس معاملے میں)جو حقائق ہم نے نازل کیے اور جو ہدایت بھیجی تھی ،اُسے جو لوگ چھپاتے ہیں ،اس کے باوجود کہ اِن لوگوں کے لیے اپنی کتاب میں ہم نے اُسے کھول کر بیان کر دیا تھا ، یقیناوہی ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے او رلعنت کرنے والے بھی جن پر لعنت کریں گے۔‘‘

    ۸۔ حج کے سلسلے میں ایک بدعت یہ بھی ایجاد کرلی گئی تھی کہ حج سے واپسی پراور احرام کی حالت میں لوگ اپنے گھروں میں ان کے دروازوں سے نہیں، بلکہ پیچھے سے داخل ہوتے تھے۔ ۳۹۶ ؎ اس عجیب وغریب حرکت کا محرک غالباًیہ وہم تھا کہ جن دروازوں سے گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے نکلے ہیں، پاک ہو جانے کے بعد بھی انھی سے گھروں میںداخل ہونا اب خلاف تقویٰ ہے ۔ قرآن نے اس احمقانہ حرکت سے روکا اورفرمایا کہ یہ ہرگز کوئی نیکی کا کام نہیں ہے، اس لیے اب اس کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے :

وَلَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِھَا، وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی، وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِھَا، وَاتَّقُوا اللّٰہَ، لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ. (البقرہ۲: ۱۸۹)
 ’’یہ ہرگز کوئی نیکی نہیں ہے کہ (احرام کی حالت میں اور حج سے واپسی پر ) تم گھروں کے پیچھے سے داخل ہوتے ہو، بلکہ نیکی تو اصل میں اس کی ہے جو تقویٰ اختیار کرے۔ اور گھروں میں اُن کے دروازوں ہی سے آئو، اوراللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تمھیں فلاح نصیب ہوجائے۔‘‘

     ۹۔ زمانۂ جاہلیت میں حج نے عبادت سے زیادہ ایک ـنیم مذہبی میلے کی صورت اختیار کرلی تھی۔ چنانچہ لوگ اس کے لیے ہر طرح کا اہتمام کرتے، لیکن اس بات کو بہت کم اہمیت دیتے تھے کہ اس سفرمیں اصل زادراہ تقویٰ کا زادہ راہ ہے اور وہ حج کے لیے نکلے ہیں تو انھیں اب کوئی شہوت یا نافرمانی یا لڑائی جھگڑے کی بات نہیں کرنی چاہیے۔ یہ اس عظیم عبادت کی روح کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ اس سفر کے لیے آدمی کوسب سے زیادہ اسی تقویٰ کے زادہ راہ کا اہتمام کرنا چاہیے :

 اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ، فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ، فَلاَ رَفَثَ، وَلَا فُسُوْقَ، وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ، وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ، یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ، وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ تَّقْوٰی، وَاتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ. (البقرہ ۲: ۱۹۷)
   ’’حج کے متعین مہینے ہیں۔ سو ان میں جو شخص بھی (احرام باندھ کر ) حج کا ارادہ کر لے، اُسے پھرحج کے اس زمانے میں نہ کوئی شہوت کی بات کرنی ہے ، نہ خدا کی نافرمانی کی اورنہ لڑائی جھگڑے کی کوئی بات اُس سے سرزد ہونی چاہیے۔ اور(یادرہے کہ ) جونیکی بھی تم کرو گے ، اللہ اُسے جانتا ہے۔ اور (حج کے اس سفر میں تقویٰ کا ) زادراہ لے کر نکلو، اس لیے کہ بہترین زادراہ یہی تقویٰ کا زادراہ ہے۔ اورعقل والو، مجھ سے ڈرتے رہو۔‘‘

     ۱۰۔ حج کے بارے میں اسی غفلت کا نتیجہ تھا کہ لوگ مزدلفہ پہنچتے تووہاں تسبیح وتہلیل اور ذکر وعبادت کے بجائے بیع وشرا، تجارت اور اس طرح کے دوسرے کاموں کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے۔ قرآن نے بتایا کہ اس میں تو کوئی مضایقہ نہیں کہ حج کے ساتھ آدمی بیع وشرا کی نوعیت کا کوئی کام کرلے، لیکن حج کے مقامات ان چیزوں کی جگہ نہیں ہیں، علم ومعرفت کی یہ جلوہ گاہیں تو صرف اللہ کی یاد کے لیے خاص رہنی چاہییں:

لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ، فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرََفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ، وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدٰکُمْ، وَاِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ. (البقرہ ۲: ۱۹۸)
  ’’اس میں کوئی حرج نہیں کہ (حج کے اس سفر میں ) تم اپنے پروردگار کا فضل تلاش کرو، لیکن (یاد رہے کہ مزدلفہ کوئی کھیل تماشے اورتجارت کی جگہ نہیںہے،اس لیے) جب عرفات سے چلو تو مشعرالحرام کے پاس اللہ کو یاد کرو اور اسی طرح یاد کرو ، جس طرح اس نے تمھیں ہدایت فرمائی ہے۔ اور اس سے پہلے تو بلاشبہ تم لوگ گمراہوںمیں سے تھے۔‘‘

     ۱۱۔ قریش نے اپنے لیے یہ امتیاز قائم کرلیا تھاکہ مزدلفہ سے آگے نہیں جاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بیت اللہ کے پروہت اورمجاور ہیں، لہٰذا ان کے لیے حدودحرم سے باہر نکلنا مناسب نہیں ہے۔ ۳۹۷؎ اللہ تعالیٰ نے یہ توجیہ قبول نہیں کی اورحکم دیا کہ انھیں بھی عرفات میں اسی طرح حاضر ہونا چاہیے، جس طرح دوسرے سب لوگ ہوتے ہیں:

ثُم اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ، وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ، اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ. (البقرہ ۲: ۱۹۹)
  ’’پھر (یہ بھی ضروری ہے کہ ) جہاں سے اورسب لوگ پلٹتے ہیں، تم بھی (قریش کے لوگو)، وہیں سے پلٹو اور اللہ سے مغفرت چاہو۔ یقینا اللہ بخشنے والا ہے، اس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘

    ۱۲۔ منٰی کے ایام بھی زیادہ تر قصیدہ خوانی، داستان گوئی اور مفاخرت کی مجلسوں میں گزرتے تھے۔ ۳۹۸؎ پھریہی نہیں، بعض لوگ حج جیسی عظیم عبادت کو بھی اپنے دنیوی مفادات کے حوالے ہی سے دیکھتے تھے اوراس موقع پر بھی اللہ سے اگر کچھ مانگتے تو اسی دنیا کے لیے مانگتے تھے۔ قرآن نے اس پرتنبیہ کی اورفرمایا کہ اس طرح کے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہوگا:

فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ، فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآئَکُمْ، اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا، فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ: رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا، وَّمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ. وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ: رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً، وَّفِی الْاٰخِرَۃً حَسَنَۃً، وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ، اُولٰٓئِکَ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْا، وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ. (البقرہ ۲: ۲۰۰)
  ’’اس کے بعد جب حج کے مناسک پورے کر لو تو جس طرح پہلے اپنے باپ دادا کو یاد کرتے رہے ہو، اسی طرح اب اللہ کو یاد کرو، بلکہ اُس سے بھی زیادہ ۔ (یہ اللہ سے مانگنے کا موقع ہے )، مگر لوگوں میں ایسے بھی ہیں کہ وہ (اس موقع پر بھی) یہی کہتے ہیں کہ پروردگار، ہمیں دنیا میں دے دے، اور(اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پھر ) آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں رہتا۔ اور ایسے بھی ہیں کہ جن کی دعا یہ ہوتی ہے کہ پروردگار، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی ، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔ یہی ہیں جو اپنی کمائی کا حصہ پالیں گے، اور اللہ کو حساب چکاتے کبھی دیر نہیں لگتی۔‘‘

    ۱۳۔ منٰی میں قیام کے بارے میں ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ اس کے دن ۱۳ ؍ ذوالحجہ تک ہیں یا آدمی اگر ۱۲ کو بھی واپس چلا آئے تو اس میں کوئی حرج نہ ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ دونوں ہی صورتوں میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ اصل اہمیت اس کی نہیں کہ لوگ کتنے دن ٹھیرے، بلکہ اس کی ہے کہ جتنے دن بھی ٹھیرے، خدا کی یاد میں او راس سے ڈرتے ہوئے ٹھیرے:

وَاذْ کُرُوا اللّٰہَ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ، فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ، وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَا ٓاِثْمَ عَلَیْہِ لِمَنِ اتَّقٰی، وَاتَّقُوا اللّٰہَ، وَاعْلَمُوْٓ اَنَّکُمْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ.(البقرہ ۲: ۲۰۳)
  ’’اور(منٰی کے ) چند متعین دنوں میں اللہ کو یاد کرو۔ پھر جس نے جلدی کی اور دو ہی دنوں میں چل کھڑا ہوا، اُس پر بھی کوئی گناہ نہیںاور جو دیر سے چلا اُس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔ (ہاں، مگر ) اُن کے لیے جو اللہ سے ڈریں اورتم بھی اللہ سے ڈرتے رہو، اورخوب جان لو کہ (ایک دن ) تم اُسی کے حضور میں اکٹھے کیے جائو گے۔‘‘

    ۱۴۔ اس سلسلہ کی بدترین چیز عریاں طواف کی بدعت تھی۔ بیت اللہ میں اس غرض سے لکڑی کا ایک تختہ رکھا ہوا تھا جس پر لوگ کپڑے اتار اتار کر رکھ دیتے تھے۔ پھر صرف قریش کی فیاضی ہی ان کی ستر پوشی کرتی تھی۔ اُن کے مرد مردوں کو اور عورتیں عورتوںکو کپڑے مستعار دیتی تھیں،لیکن جو لوگ محروم رہ جاتے تھے، وہ برہنہ طواف کرتے اوراسی کو نیکی سمجھتے تھے۔ ۳۹۹؎ قرآن نے اسے ممنوع قرار دیا اورفرمایا کہ عبادت کی ہر جگہ پر آدمی کو ستر چھپا کر اور پورا لباس پہن کر جانا چاہیے:

یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ،خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ. (الاعراف ۷: ۳۱)
  ’’آدم کے بیٹو، ہر مسجد کی حاضری کے وقت اپنے لباس سے آراستہ رہو۔‘‘

 

حج وعمرہ کا مقصد

    حج وعمرہ کا مقصد وہی ہے جو اس کی حقیقت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف، اس کی توحید کا اقرار اوراس بات کی یاد دہانی کہ اسلام قبول کر کے ہم اپنے آپ کو پروردگار کی نذر کرچکے ہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جن کی معرفت اور دل و دماغ میں جن کے رسوخ کو قرآن نے مقامات حج کے منافع سے تعبیر کیا ہے۔ چنانچہ سورۂ حج کی جو آیت ابتدا میں نقل ہوئی ہے، اس میں حج کے مناسک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :’لیشہدوا منافع لھم‘(تاکہ وہ اپنے لیے منفعت کی جگہوں پر حاضر ہوں) ۔ یہ مقصد ذکر کے ان الفاظ سے نہایت خوبی کے ساتھ واضح ہوتا ہے جو اس عبادت کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسی مقصد کو نمایاں رکھنے اور ذہنوں میں پوری طرح راسخ کردینے کے لیے منتخب کیے گئے ہیں۔ چنانچہ احرام باندھ لینے کے بعد یہ الفاظ ہر شخص کی زبان پر مسلسل جاری رہتے ہیں:

لبیک، اللّٰھم لبیک؛ لبیک لاشریک لک، لبیک؛ ان الحمد والنعمۃ لک، والملک؛ لاشریک لک.
’’میں حاضر ہوں، اے اللہ، حاضر ہوں؛ حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں؛ میں حاضر ہوں،حمد تیرے لیے ہے، سب نعمتیں تیری ہیں اوربادشاہی بھی تیرے ہی لیے ہے؛ تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘


حج وعمرہ کے ایام

    عمرہ کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ یہ پورے سال میں لوگ جب چاہیں، کرسکتے ہیں۔ حج کے لیے، البتہ ۸ ؍ ذوالحجہ سے ۱۳ ؍ ذوالحجہ تک کے ایام مقرر ہیں اور یہ انھی ایام میں ہو سکتا ہے۔ لوگوں کو اس عبادت کے لیے چونکہ اقصاے عالم سے سرزمین عرب کے شہر مکہ پہنچنا ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے سفر کو محفوظ رکھنے کی غرض سے چار مہینے لڑنے بھڑنے اورجنگ وجدال کے لیے ممنوع قرار دیے ہیں۔ یہ مہینے رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اورمحرم ہیں۔ ان میں سے رجب کا مہینا عمرے کے لیے اور باقی تین حج کے لیے خاص کیے گئے ہیں۔ ان مہینوں کی یہ حرمت ہمیشہ سے قائم چلی آرہی ہے، اس معاملے میں کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

اِنَّّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ، یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ، مِنْھَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ، ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ، فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْھِنَّ اَنْفُسَکُمْ. (التوبہ ۹: ۳۶)
  ’’اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد نوشتۂ الٰہی میں اُس دن سے بارہ ہی ہے، جب اُس نے آسمان وزمین کو پیدا کیا۔ ان میں چار مہینے حرام ہیں۔ یہی دین قیم ہے، لہٰذا اِن میںتم اپنی جانوں پرظلم نہ کرو۔‘‘

 

حج وعمرہ کے مقامات

    حج وعمرہ کے مقامات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے شعائر قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:’ان الصفا والمروۃ من شعائر اللّٰہ‘ (صفا مروہ یقینا اللہ کے شعائر میں سے ہیں)۔ یہ ’شعیرۃ‘ کی جمع ہے جس کے معنی علامت کے ہیں۔ اصطلاح میں اس سے مراد وہ مظاہر ہیں جو کسی حقیقت کا شعور ذہنوں میں قائم رکھنے کے لیے اللہ و رسول کی طرف سے بطور ایک نشان کے مقرر کیے گئے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے تو یہ دلوں کا تقویٰ ہے۔ ۴۰۰؎    

    ان کا تعارف درج ذیل ہے:

مواقیت

    حج وعمرہ کی غرض سے آنے والوں کے لیے حدود حرم سے کچھ فاصلے پر بعض جگہیں متعین کردی گئی ہیں، جن سے آگے وہ احرام کے بغیر نہیں جاسکتے۔ ان پر یاان کے برابر کسی بھی جگہ پر پہنچ کر ضروری ہے کہ احرام باندھ لیا جائے۔ اصطلاح میں انھیں میقات کہا جاتا ہے۔ یہ جگہیں پانچ ہیں: مدینہ سے آنے والوں کے لیے ذوالحلیفہ، یمن سے آنے والوں کے لیے یلملم، مصروشام سے آنے والوں کے لیے حجفہ، نجد سے آنے والوں کے لیے قرن اور مشرق کی طرف سے آنے والوں کے لیے ذات عرق۔

بیت الحرام

    یہ وہی معبد ہے جسے قرآن میں ’ البیت‘ ، ’البیت العتیق‘اور ’المسجدالحرام‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ ۴۰۱؎ اس کی عمارت چونکہ مکعب بنائی گئی ہے، اس لیے اسے خانۂ کعبہ بھی کہتے ہیں۔ یہ سرزمین عرب کے شہر مکہ میں واقع ہے۔ قرآن میں اس شہر کا نام ’بکۃ‘آیا ہے ۴۰۲؎ جس کے معنی آباد جگہ کے ہیں۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی تقریباً ۲۷۷ میڑ ہے اوریہ چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی آمد سے پہلے مکہ غیر آباد تھا۔ قدیم عربوں کا ایک قبیلہ جرہم، البتہ اس علاقے کا حکمران تھا اورمکہ ہی کے قرب وجوار میں رہتا تھا۔ اسمٰعیل علیہ السلام کی شادی اسی قبیلہ کی ایک لڑکی سیدہ بنت مضاض سے ہوئی تھی۔ ۴۰۳؎ ان کے فرزند نابت کی وفات کے بعد اس شہر کا اقتدار اسی قبیلہ کے ہاتھ میں چلا گیا اور وہ کئی سوسال تک اس پر حکومت کرتے رہے۔ پھر بنو خزاعہ اور بنو بکر نے اس شہر پرقبضہ کر لیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے کم و بیش ایک صدی پہلے خزاعہ کے سردار حلیل بن حبشیہ کی وفات ہوئی تو قصی بن کلاب نے اسے دوبارہ حاصل کیا اور بنی اسمٰعیل کی حکومت ایک مرتبہ پھر اس شہر پرقائم ہوگئی۔ ۴۰۴؎

    سیدناابراہیم علیہ السلام تقریباً چار ہزار سال پہلے جب اللہ کے حکم سے یہاں آئے تو بیت الحرام امتداد زمانہ اور سیلاب کی ستم رانیوں سے گر چکا تھا اوراس کا کوئی نام ونشان بھی باقی نہیں رہا تھا۔ پروردگار سے الہام پاکر انھوں نے اس کی پرانی بنیادیں دریافت کیں اور اپنے فرزنداسمٰعیل کی مدد سے ایک بے چھت کی عمارت کھڑی کردی۔۴۰۵؎ ان کے مقدس ہاتھوں کی یہ تعمیر بھی گردش ایام سے محفوظ نہ رہی اوربالآخر منہدم ہوگئی۔ اس کے بعدپہلے عمالقہ نے اور پھرقبیلۂ جرہم نے اسے تعمیر کیا۔ ۴۰۶؎ بعض حوادث کی وجہ سے جرہم کی بنائی ہوئی عمارت بھی گر گئی تو قریش نے اس کی تعمیر نو کا بندوبست کیا، لیکن سرمایہ کم پڑجانے کی وجہ سے یہ عمارت اصل ابراہیمی بنیادوں پر قائم نہ ہو سکی۔ یہ واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پانچ سال پہلے پیش آیا۔ چنانچہ آپ بھی تعمیر کے اس کام میں شریک رہے، بلکہ مورخین کا بیان ہے کہ حجراسود کے دوبارہ نصب کرنے کا قضیہ آپ ہی کے حسن تدبیر سے طے ہوا۔ ۴۰۷؎

    روایتوں میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر سیدہ عائشہ کے سامنے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ قریش کی تالیف قلب ملحوظ نہ ہوتی تو اس کا جو حصہ عمارت سے باہر رہ گیا ہے اورحطیم کہلاتا ہے، آپ اسے عمارت میں شامل کر کے بیت اللہ کو اس کی اصل ابراہیمی بنیادوں پر استوار کردیتے۔ ۴۰۸؎ عبد اللہ بن زبیر نے آپ کی اسی خواہش کے پیش نظر قریش کی بنائی ہوئی عمارت کو گرا کر اپنے زمانۂ خلافت میں اسے ازسرنو تعمیر کیا تھا ، لیکن حجاج نے جب اُن کے خلاف جنگ میں سنگ باری کی تو یہ عمارت بھی ٹوٹ گئی۔ اُن کی شہادت کے بعد اس نے عبدالملک بن مروان کے حکم سے اس کو منہدم کرکے ایک مرتبہ پھر قریش کی قائم کی ہوئی بنیادوں پرتعمیر کردیا۔ ۴۰۹؎ اس کے بعد سے یہ اسی طرح قائم ہے۔

    حجر اسود اس عمارت کے کونے میں نصب ہے۔ اس سے آگے عمارت کا شمالی کونا رکن عراقی، مغربی کونا رکن شامی اور جنوبی کونا رکن یمانی کہلاتا ہے۔ بیت الحرام کا دروازہ زمین سے کوئی دو میڑ اونچا ہے۔ اس کے اور حجر اسود کے درمیان کی دیوار کو ملتزم کہا جاتا ہے۔ یہ گویا آستانۂ الٰہی کی دہلیز ہے جس سے چمٹ کر لوگ دعائیں کرتے ہیں۔ عمارت پرسیاہ کپڑے کا ایک غلاف پڑا رہتا ہے جسے ہر سال تبدیل کردیا جاتا ہے۔ عمارت کے صحن میں سفید رنگ کا ایک پتھر رکھا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اسی پر کھڑے ہوکر اس کی دیواریں بلند کی تھیں۔ ۴۱۰؎ اس پتھر سے کچھ فاصلے پرایک قدرتی چشمہ ہے جسے زمزم کہتے ہیں۔ بیت الحرام کی زیارت کے لیے آنے والے اس سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔

    اس کے حدود چاروں طرف کئی کلومیٹر تک وسیع او رہمیشہ سے معلوم اورمتعین ہیں۔ یہ پور ا علاقہ حرم کہلاتا ہے،جس میں کسی انسان یا جانور ،حتیٰ کہ آپ سے آپ اگنے والی نباتات کو بھی نقصان پہنچانا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ قرآن نے ’حرماآمنا‘ ۴۱۱؎ اور ’مثابۃ للناس وامنا‘۴۱۲؎ کے الفاظ میں اس کی یہی حیثیت بیان فرمائی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

ان ھذا البلد حرمہ اللّٰہ یوم خلق السمٰوات والارض ، فھو حرام بحرمۃ اللّٰہ الی یوم القیٰمۃ، وانہ لم یحل القتال فیہ لاحد قبلی، ولم یحل لی الا ساعۃ من نھار، فھو حرام بحرمۃ اللّٰہ الی یوم القیٰمۃ، لایعضد شوکہ، ولا ینفر صیدہ، ولایلتقط الامن عرفھا، ولایختلیٰ خلاھا. (مسلم ، رقم ۱۳۵۳)
  ’’یہ وہ شہر ہے جسے اللہ نے اُس دن سے حرام ٹھیرایا ہے،جب اُس نے زمین وآسمان پیدا فرمائے تھے۔ لہٰذا اللہ کی قائم کردہ اسی حرمت کی وجہ سے یہ قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ مجھ سے پہلے کسی شخص کو اس میں قتال کی اجازت نہیں دی گئی۔ میرے لیے بھی یہ دن کی ایک گھڑی ہی کے لیے حلال کیا گیا ۔ چنانچہ اللہ کی قائم کردہ اسی حرمت کی وجہ سے یہ اب بھی قیامت تک حرام ہی رہے گا، نہ اس کے کانٹوں والے درخت کاٹے جائیں گے ، نہ اس کے شکار کو بھگایا جائے گا ، نہ اس میں گری ہوئی کوئی چیز اٹھائی جائے گی ، الا ّیہ کہ کو ئی اسے مالک تک پہنچانے کے لیے اٹھائے ، اور نہ اس کی گھاس کاٹی جائے گی۔‘‘

صفا و مروہ    

    یہ دو پہاڑیاں ہیں جوبیت اللہ کے بالکل قریب واقع ہیں۔ سیدنا اسمٰعیل کی قربانی کا واقعہ انھی میں سے ایک پہاڑی مروہ پر پیش آیا تھا۔ اس لحاظ سے یہی اصل قربان گاہ ہے جسے لوگوں کی سہولت کے لیے منٰی تک وسعت دے دی گئی ہے۔ اس قربان گاہ کے طواف میں ہر پھیرا صفا سے شروع ہوکر مروہ پر ختم ہوتا ہے۔ اصطلاح میں اسے سعی کہتے ہیں۔

منٰی

    دوپہاڑیوں کے درمیان یہ ایک وسیع میدان ہے جس کا فاصلہ مکہ سے تقریباً پانچ کلو میڑ ہے۔ ۸ ؍ ذوالحجہ کو مکہ سے آنے کے بعد اور۱۰ ؍ ذوالحجہ کو عرفات سے واپس آکر حجاج یہیں قیام کرتے اور حج کے باقی مناسک پورے کرتے ہیں۔

عرفات

    منٰی سے تقریباً دس کلو میڑ کے فاصلے پریہ بھی ایک وسیع میدان ہے جہاں ۹ ؍ ذوالحجہ کو مسلمانوں کا امام خطبہ دیتا اور اس کے بعد حجاج غروب آفتاب تک وقوف کرتے ہیں۔

مزدلفہ

    منٰی کے راستے میں یہ ایک دوسرا میدان ہے جہاں عرفات سے واپسی کے بعد حجاج رات گزارتے ہیں۔ یہ منٰی اور عرفات کے تقریباً درمیان میں واقع ہے۔ حدودحرم یہاں سے شروع ہوتے ہیں، اس لیے اسے ’المشعرالحرام‘بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن میں اس کا یہی نام آیا ہے۔ ۴۱۳؎

جمرات

    منٰی کے میدان میں یہ تین ستون ہیں جنھیں شیطان کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک ستون سب سے بڑا ہے، اسے جمرۂ عقبہ یا جمرۃالاخریٰ کہتے ہیں۔ دوسرے دو ستون جمرۃالاولیٰ اورجمرۃالوسطیٰ کے نام سے موسوم ہیں۔ عرفات سے واپس آکر حجاج انھی ستونوں پرسنگ باری کرتے ہیں۔

[باقی]

ــــــــــــــــــ

۳۸۳؎ التوبہ ۹: ۱۱۱۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کے جان ومال اُن کے لیے جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔‘‘

۳۸۴؎ التوبہ ۹: ۱۱۱۔

۳۸۵؎ الاعراف ۷: ۱۶۔ ۱۷۔

۳۸۶؎ الاعراف ۷: ۱۳ ـــ۱۴۔

۳۸۷؎ الصف۶۱: ۱۴۔ ’’ایمان والو، اللہ کے مددگار بنو۔‘‘

۳۸۸؎ تفسیرالقرآن العظیم، ابن کثیر۳/ ۲۱۶۔

۳۸۹؎ بخاری، رقم ۲۶۔ مسلم، رقم۱۳۵۔

۳۹۰؎ بخاری، رقم ۱۷۲۳۔ مسلم، رقم ۱۳۵۰۔

۳۹۱؎ بخاری، رقم ۱۶۸۳۔ مسلم، رقم ۱۳۴۹۔

۳۹۲؎ یہ بعثت سے پہلے کا واقعہ ہے، لیکن اس کو چونکہ جبیر بن مطعم نے مسلمان ہونے کے بعد بیان کیا ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اس میں اس طریقے سے ہوا ہے۔

 ۳۹۳؎ الانعام۶: ۱۳۸۔۱۵۰۔

۳۹۴؎ بخاری، رقم ۱۶۰۴۔ مسلم، رقم ۱۳۲۲۔

۳۹۵؎ استثنا۱۴: ۷۔

۳۹۶؎ المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، جواد علی ۶/ ۳۷۱۔

۳۹۷؎ المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، جواد علی۶/ ۳۸۲۔

۳۹۸؎ المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، جواد علی۶/ ۳۹۰۔

۳۹۹؎ المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، جواد علی۶/ ۳۵۹۔

۴۰۰؎ الحج۲۲: ۳۲۔

۴۰۱ ؎ الحج۲۲: ۲۵۔۲۹۔

۴۰۲؎ آل عمران۳: ۹۶۔

۴۰۳؎ الروض الانف ، السہیلی ۱/ ۱۲۔

۴۰۴؎ السیرۃالنبویۃ، ابن ہشام ۱/ ۹۳ ـــ ۱۰۴۔

۴۰۵؎ اخبار مکۃ، الازرقی ۱/ ۵۸ ـــ ۶۶۔

 ۴۰۶؎ شرح المواہب اللدنیہ، الزرقانی ۱/ ۲۰۶۔

۴۰۷؎ السیرۃالنبویۃ، ابن ہشام ۱/ ۱۶۰۔

۴۰۸؎ بخاری، رقم ۱۵۰۶،۱۵۰۸۔ مسلم ، رقم ۱۳۳۳۔

۴۰۹؎ بخاری، رقم ۱۵۰۹۔ مسلم، رقم۱۳۳۳۔

۴۱۰؎ اخبار مکۃ، الازرقی۱/ ۵۹۔

۴۱۱؎ القصص۲۸ : ۵۷۔ العنکبوت۲۹: ۶۷۔

۴۱۲؎ البقرہ۲: ۱۲۵۔

۴۱۳؎ البقرہ۲: ۱۹۸۔

____________

B