مصعب اسکول سسٹم کا قیام۱۹۹۴ء میں عمل میں لایا گیا۔ جدید تعلیم بہترین وسائل کے ساتھ مہیا کرنے والے اسکولوں کی موجودگی میں ایک نئے اسکول کا قیام بظاہر ایک درست اقدام معلوم نہیں ہوتا تھا، لیکن مصعب کو قائم کرنے والوں کے پیش نظر یہ مقصد تھا کہ بچے مناسب دینی ماحول کے اندر رہ کر جدید تعلیم حاصل کریں تاکہ وہ جدید تعلیم کے ساتھ منسلک بے خدا تہذیب کے مفاسد سے محفوظ رہ سکیں اور ان کے اندر اسلامی اقدار سے وابستگی کا جذبہ نہ صرف زندہ رہے، بلکہ پروان چڑھ سکے۔
جناب جاوید احمد غامدی کی سرپرستی میں ان اہداف کو پیش نظر رکھ کر اسکول نے دستیاب وسائل کے ساتھ پہلی جماعت سے تدریس کا آغاز کیا۔ اسکول کے یہ اولین طلبہ جب نویں دسویں تک پہنچے تو انتظامیہ نے میڑک کے بجائے ’’اولیول ‘‘کا بین الاقوامی نظام اختیار کر نے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ اس اعتماد کا آئینہ دار تھا کہ انتظامیہ نے پچھلے برسوں کے دوران میں اپنے طالب علموں کی تدریس اس نہج پرکی ہے کہ وہ کیمبرج یونیورسٹی میں رائج جدید ترین نصاب کو نہ صرف سمجھ سکتے ہیں، بلکہ اس کے امتحانات میں نمایاں کارکردگی کے ساتھ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ او لیول کی کلاس تک پہنچتے ہوئے اسکول کے ان اولین طلبہ پر اگر چہ کچھ تجربات بھی کیے گئے اور وسائل کی کمی بھی مثالی سطح پرتدریس میں رکاوٹ بنی رہی، لیکن اس سب کے باوجود اسکول انتظامیہ طلبہ کی بہترین کارکردگی کے لیے پر اعتماد رہی۔ مناسب افراد کار کی عدم فراہمی اوروسا ئل کی کمی کے باوجود دو ران تدریس میں طلبہ کی تعلیم وتربیت کے ان پہلووں کا بہرحال خاص خیال رکھا گیا کہ:
۱۔ عربی زبان اورقرآن مجیدکی تدریس اگرچہ اولیول کے نصاب کا حصہ نہیں ہے ، لیکن اس کی تدریس کاجاری سلسلہ برقرار رکھا گیا۔
۲۔ اسباق کو بغیر سمجھے یاد کرنے کی شدید حوصلہ شکنی کی گئی ،اس کے بجائے طلبہ میں فہم وشعور کے ساتھ اپنی علمی استعداد کو بڑھانے کی عادت ڈالی گئی۔
۳۔ اسکول میں تدریس کا معیار اس قدر کڑا رکھاجائے کہ کسی طالب علم کو اضافی ٹیوشن کی ضرورت محسوس نہ ہو ۔ اگر کہیں اس کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس کمی کو پور ا کرنے کے لیے اسکول انتظامیہ نے خود اضافی کلاسوں کا اہتمام کیا۔
۴۔ غیر نصابی سرگرمیوں میں ان طلبہ کی شرکت کویقینی بنایا گیا۔ چنانچہ او لیول کے طلبا وطالبات ، سکول کے زیر اہتمام ہونے والے تمام مقابلوں،تقریبوں اور دوسری ہم نصابی سرگرمیوں میں ہر اول دستے کے طور پرنمایا ں رہے۔
۵۔ طلبا وطالبات کے اندر آگے بڑھنے اور اعلیٰ نصب العین کے حصول کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے انھیں معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کر نے والے دانش وروں ا و رصاحب علم لوگوں کی محافل میں لے جانے کا بھی اہتمام کیا جاتا رہا۔
چنانچہ اس نہج پر تعلیم حاصل کر نے کے بعد مصعب اسکول سسٹم کا پہلا بیج والدین، اساتذہ اور انتظامیہ کی دعاؤں کے ساتھ امتحانات میں شامل ہوا۔ جون۲۰۰۴ میں منعقد ہونے والے ان امتحانات کے نتائج کا اعلان اگست ۲۰۰۴ میں کیا گیا۔ ان نتائج کے مطابق تمام طلبہ امتحانات میں کامیاب قرار دیے گئے۔ تمام مضامین میں طلبہ نے82.13% نمبر حاصل کیے، جبکہ مختلف مضامین کے اعتبار سے طلبہ کی کارکردگی کا تناسب یہ رہا :
انگریزی80%، اسلامیات 77.56%، مطالعۂ پاکستان 76%، اردو 91.67%، ریاضی 89.11%، ایڈمیتھ 91%، فزکس 82.11%، کیمسٹری80.22%، بیالوجی 83%۔
اول پوزیشن حاصل کرنے والے طالب علم خضر رشید شیخ نے 90.75% نمبر حاصل کیے ،جبکہ سب سے کم نمبر حاصل کر نے والے طالب علم کے نمبروں کا فی صد تناسب 69.88 رہا۔
یوں یہ نتائج ہر اعتبار سے بہت شان دار رہے۔ تمام طلباوطالبات، ان کے والدین، اساتذہ اور اسکول انتظامیہ اس شان دار کارکردگی پر مبارک باد کی مستحق ہے ۔ اور یہ توقع رکھنی چاہیے کہ اسکول کی انتظامیہ بچوں کی اعلیٰ تعلیم وتربیت کے اس معیار کو برقرار رکھے گی تاکہ طلبہ اگلے مرحلے یعنی اے لیول میں اس سے بھی بہتر کارکردگی کا مظاہر ہ کرسکیں۔
______________