مصنف: سیموئیل پی ہنٹنگٹن ،
مترجم: سہیل انجم ،
ضخامت: ۵۷۴صفحات ،
قیمت: ۳۲۵ روپے ،
ناشر: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، ۵ بنگلور ٹاؤن شارع فیصل، کراچی۔
دور جدید کی تاریخ کے دو مراحل گزر چکے ہیں۔دور جدید کی تاریخ کا پہلامرحلہ وہ تھاجب اقوام عالم قومی ریاستوں کی بنیاد پر تقسیم تھیں۔اس دور میں مغرب کی طاقت ور اقوام نے کمزور ممالک اور ان کے وسائل پرقبضہ کرکے ان پر تسلط جمالیا۔ بعد میں جنگ عظیم اول اور دوم کے نتیجے میں سامراجی ممالک کی قوت ختم ہوگئی۔نوآبادیاتی ریاستیں ایک ایک کرکے آزاد ہو گئیں۔ تاہم اس کے بعد اقوام عالم ایک نئی کشمکش کا شکار ہوگئیں۔یہ کشمکش نظریاتی بنیادوں پر تھی جس میں جدید دنیا کے اہم اور طاقت ور ترین ممالک کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد پر،امریکہ اور سوویت یونین کے زیر سایہ، دو حصوں میں تقسیم ہوگئے۔ یوں بیسویں صدی کا نصف آخر دو عظیم سپر پاورز کی باہمی چپقلش سے عبارت رہا۔ یہ وہ دور تھا جب بظاہر غیر جانب دار کہلائے جانے والے ممالک بھی کسی نہ کسی اعتبار سے دو سپر پاورز سے متعلق تھے۔ ان ممالک کی یہ کشمکش صرف نظریاتی بنیادوں تک محدود نہ تھی ، بلکہ اس عرصے میں دنیا حقیقی معنوں میں ایٹمی جنگ کے خطرے سے دوچار رہی۔دور جدید کی تاریخ کا یہ دور سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ تمام ہوا۔
کمیونزم کے زوال کے نتیجے میں سوویت یونین ختم ہوا تھا، دنیا نہیں۔چنانچہ سرد جنگ کے فاتح اہل مغرب کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہونا شروع ہوا کہ اب دنیا کے معاملات کس اصول پر چلیں گے؟ اقوام عالم کی نئی صف بندی کن اساسات پر ہو گی ؟ نیا عالمی نظام کن بنیادوں پر استوار ہوگا؟ ان سوالات کے نتیجے میں بہت سے جوابات سامنے آئے ، مگر جس نقطۂ نظر نے دنیا بھر کے اہل علم و دانش کی توجہ حاصل کی وہ سیموئیل پی ہنٹنگٹن کے شہرۂ آفاق مضمون ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ میں پیش کیا گیا۔ یہ مضمون ۱۹۹۳ء میں ’فارن افیئرز ‘نامی جریدے میں شائع ہوا۔ بعد میں مصنف نے اسی عنوان سے ایک کتاب میں اپنے نقطۂ نظر کو تفصیلی دلائل کے ساتھ موید کرکے پیش کیا۔
اس کتاب کی ا شاعت پر قریباً ایک عشرہ گزرچکا ہے اوراس دوران میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہ چکا ہے۔ خصوصاً ۱۱ ستمبر کے واقعے کے بعد دنیا کی سیاست نے ایک خاص رخ اختیار کرلیا ہے ، جس میں امریکہ اپنی بے پناہ طاقت کے بل بوتے پر جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں اس وقت جو کچھ ہورہا ہے ، اس کی سب سے بہتر تفہیم بلاشبہ اسی خاکے کی بنیاد پر کی جاسکتی ہے جو ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘میں پیش کیا گیاتھا۔یہی وجہ ہے کہ آج تک اس کتاب کے تراجم دنیا بھر میں ہورہے ہیں اور کتاب کے قارئین کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔ہمارے پیش نظر کتاب کا وہ ترجمہ ہے جو حال ہی میں آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا ہے۔
یہ کتاب اپنے صفحات کے اعتبار سے تو بے حد ضخیم ہے ، مگر مرکزی خیال کے اعتبار سے بہت مختصر۔یعنی سرد جنگ کے بعد کی دنیا ثقافتی بنیادوں پر تقسیم ہوگی اور یہی تقسیم مستقبل کی جنگ و امن کے سلسلے میں فیصلہ کن ہوگی۔مگر چونکہ یہ کتاب ایک خاص نقطۂ نظر کی تنقید میں لکھی گئی ہے ، اس لیے اس میں اعداد و شمار، تحلیل وتجزیے، حالات و واقعات اور پس و پیش منظر وغیرہ کے بیان میں بڑی جز رسی اور تفصیل سے کام لیا گیا ہے۔
یہ کتاب جس بنیادی نقطے کے اردگرد گھومتی ہے وہ مصنف کے اپنے الفاظ میں کچھ یوں ہے:
’’اس کتاب کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ثقافت اور ثقافتی شناخت، جو وسیع ترین سطح پر تہذیبی شناخت ہوتی ہے، مابعد سرد جنگ دنیا میں اتحاد، انتشار اور تصادم کے تانے بانے بن رہی ہے۔‘‘ (۲۰۔۲۱)
کتاب کے پانچ حصے ہیں جس میں مصنف نے اپنے اسی بنیادی مقدمے کودلائل و براہین سے ثابت کیا ہے اور اس کی بنیاد پر نئے عالمی نظام کے مختلف پہلووں کو واضح کیا ہے۔پہلے حصے میں مصنف بتاتے ہیں کہ موجودہ عالمی سیاست کی بنیاد تہذیب ہے نہ کہ قوم یا نظریہ۔ وہ واضح کرتے ہیں کہ دنیا اگر مغرب کے اثرات قبول کررہی ہے تو یہ لوگوں کے جدید (Modern) ہونے کی علامت ہے نہ کہ مغربی(Westernize) ہونے کی۔یہ اثرات کسی عالمی مغربی تہذیب کو پیدا نہیں کرتے ، بلکہ مختلف تہذیبوں کے جدید ہونے کی علامت ہیں۔
دوسرے حصے میں مصنف بیان کرتے ہیں کہ مغرب کی طاقت زوال پزیر ہے۔ ایشیائی تہذیبیں اپنی بڑھتی ہوئی معاشی اور فوجی طاقت جبکہ مسلمان اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کی بنا پر مغرب کے لیے چیلنج پیدا کردیں گے۔ تیسرے حصے میں مصنف بتاتے ہیں کہ نیا عالمی نظام تہذیبی بنیادوں پر جنم لے رہا ہے اور لوگ تہذیب و ثقافت کی بنیاد پر ہی جڑ اور کٹ رہے ہیں۔چوتھے حصے میں مصنف براہ راست تہذیبوں کے تصادم کو موضوع بنا کر یہ بتاتے ہیں کہ مغرب کا ٹکراؤ ممکنہ طور پر چین اور مسلم دنیا سے ہوگا۔ پانچویں اور آخری باب میں مصنف اہل مغرب کو یہ بتاتے ہیں کہ وہ اپنی مغربی شناخت پرقائم رہیں۔ اسی بنیاد پر امریکہ اور یورپ متحد ہوکر غیر مغربی معاشروں کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔
کتاب کا موضوع چونکہ بین الاقوامی سیاست اور عالمی نظام ہے ، اس لیے دوسری اقوام اور تہذیبیں یقیناًزیر بحث آئی ہیں۔ اسی بنا پر کتاب دنیا بھر میں گفتگو، بحث و مباحثے اور تنقیدوتجزیے کا موضوع بنی ہے۔مگر در حقیقت یہ کتاب اہل مغرب کو مخاطب کرکے لکھی گئی ہے اور سرد جنگ کے بعد پھیلنے والے بعض مغربی نظریات کو ہدف تنقید بناکر اپنا استدلال پیش کرتی ہے۔ ان میں خاص طور پر وہ نقطۂ نظر سب سے نمایاں ہے جو سرد جنگ کے خاتمے اور کمیونزم کے خلاف مغرب کی کامیابی کے بعد مغربی حلقوں میں بڑا مقبول ہوا تھا۔ یعنی آزاد، جمہوری اور سرمایہ دارنہ مغربی معاشرہ انسانی فکری ارتقا کی آخری حد ہے۔ جس کے بعد دنیا پر واضح ہوچکا ہے کہ یہی اقدار مبنی برحق ہیں۔دنیا انھیں قبول کررہی ہے۔ اسے ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اس عمل کے نتیجے میں ایک عالمی آفاقی تہذیب وجود میں آجائے گی جس کا امام مغرب ہوگا۔ اس نقطۂ نظر کی نمائندہ کتاب ۱۹۸۹ء میں شائع ہونے والی فرانسس فوکویاما کی کتاب ’The End of History‘ تھی۔
مصنف نے اس نقطۂ نظر کو رد کرتے ہوئے اہل مغرب پر یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ سرد جنگ کے بعد بین الاقوامی تصادم ختم نہیں ہوا ، بلکہ اس کی اساسات بدل گئی ہیں۔پہلے یہ تصادم قومی اور نظریاتی بنیادوں پر ہوتا تھا اور اب تہذیبی بنیادوں پر ہوگا۔یہ سوچنا کہ جینز ،برگر،پیپسی اور ہالی وڈ کا کلچر اختیار کرنے سے دنیا مغربی اقدار کو قبول کررہی ہے، درست نہیں۔دور جدید میں اہل مغرب کو کئی اعتبارات سے دوسری تہذیبوں پر برتری حاصل رہی ہے ، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ انھوں نے دوسری تہذیبوں سے ترقی کے امکانات ختم کردیے یا عروج و زوال کے فطری قانون سے اہل مغرب کو کوئی استثنا حاصل ہوگیا ہے۔ وہ مغرب کے آفاقی تہذیب کے تصور پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ہر تہذیب خود کو دنیا کے مرکز کی حیثیت سے دیکھتی ہے اور اپنی تاریخ لکھتے وقت اسے انسانی تاریخ کے مرکزی ڈرامے کا مرتبہ دیتی ہے۔یہ بات دوسری ثقافتوں کے مقابلے میں مغرب کے بارے میں شائد زیادہ صحیح ہے۔ لیکن ایک کثیر تہذیبی دنیا میں ایسے یک تہذیبی نقطۂ نظر کی اہمیت اورافادیت کم ہورہی ہے۔‘‘ (۶۳)
اس کے بعد مصنف بعض بڑے مغربی دانش وروں مثلاً اسپینگلر، ٹائن بی وغیرہ کے حوالے سے اس نقطۂ نظر پر تنقید کے بعد لکھتے ہیں:
’’تاہم ان دانش وروں نے جن سرابوں اور تعصبات سے ہوشیار رہنے کے لیے کہا تھاوہ زندہ ہیں اور بیسوی صدی کے آخر میں تنگ نظری پر مبنی اس متکبرانہ نقطۂ نگا ہ کی صورت میں بہت عام ہوگئے ہیں کہ مغرب کی یورپی تہذیب اب دنیا کی آفاقی تہذیب ہے۔‘‘ (۶۴)
کتاب کی ابتدا میں اس تصور پر تنقید کرنے کے بعد پوری کتاب میں مصنف نے وہ حالات و واقعات ، اعداد و شماراور حقائق بیان کیے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ:
آج کی دنیا ایک کثیر تہذیبی دنیا ہے۔
اس دنیا میں مغربی تہذیب کی طاقت ماضی کے مقابلے میں بہت کم ہوچکی ہے۔
دیگر تہذیبیں نہ صرف موجود ہیں اور اپنے وجود کا اثبات کررہی ہیں ، بلکہ طاقت کا توازن بتدریج ان کے حق میں بدلتا جارہا ہے ۔
دنیا میں دوستی ، دشمنی اور امن و جنگ کے سارے معاملات تہذیبی بنیاد ہی پر ہوں گے۔
مغرب کے لیے سب سے بڑا ممکنہ چیلنج چینی اور مسلم تہذیب کی طرف سے رونما ہوگا۔
اس نئی تہذیبی دنیا کا اثبات کیے بغیر مغرب دنیا پر اپنی برتری برقرار نہیں رکھ سکتا اور نئے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ اور یورپ کا اتحاد وجود میں آئے ۔
مصنف نے جس نقطۂ نظر کو اس کتاب میں پیش کیا ہے، محسوس ہوتا ہے کہ امریکی پالیسی سازوں نے اس نقطۂ نظر کے بہت سے پہلووں کی افادیت کو تسلیم کرلیا ہے۔ خاص طور پر ۱۱ ستمبر کے واقعے کے بعد۔چنانچہ پہلے مرحلے پر مسلم تہذیب کے کمزور چیلنج کو کچلنے کا فیصلہ کیا گیا۔جس کے نتیجے میں افغانستا ن اور عراق کا حشر دیکھنے کے بعد ایران اور لیبیا اپنے نیوکلیائی پروگرام سے دست بردار ہوگئے۔تاہم جو کچھ ہوا اس کی ذمہ داری بڑی حد تک خود مسلم رہنماوں پر عائد ہوتی ہے۔ کتاب میں مختلف تہذیبوں کی طاقت کا جو حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا گیا ہے ، اس کے مطالعے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مغرب کے لیے اصل خطرہ چین کی ابھرتی ہوئی فوجی اور معاشی طاقت ہے ، مگر اس کے باوجود چینی رہنما حتی الامکان مغرب کے مقابلے میں آنے سے گریز کرتے ہیں۔جبکہ ہماری صورت حال یہ ہے کہ جذباتی لیڈر شپ کا بس نہیں چلتا کہ پورے عالم اسلام کو امریکہ سے بھڑادیں۔زمینی حقائق کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ کے کن قوانین کے تحت یہ دنیا چل رہی ہے؟ تاریخ کا سبق کیا ہے؟عوام الناس کے حالات اور ان کی ذہنی کیفیت کیا ہے؟ان تمام چیزیوں سے جذباتی لوگوں کو کوئی دلچسپی نہیں۔ان کے فکر و فہم کا آخری منتہا یہ ہے کہ امریکہ (مغرب) کا زوال عنقریب ہوجائے گا۔تاریخ سے معمولی شد بد رکھنے والا شخص بھی یہ جانتا ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کا اس کی جگہ لینے کا کوئی امکان ہے؟ بدقسمتی سے اس سوال کا جواب نفی میں ہے اور یہ وہ بات ہے جس کی طرف ان لوگوں کی کوئی توجہ نہیں۔
مسلمانوں کے لیے سب سے بہتر راستہ یہی ہے کہ فوراً سے پیش تر فوجی میدان میں خود کو مغرب کے مقابلے سے ہٹا دیں۔ اس کے بجائے وہ اس تہذیبی جنگ کی تیاری کریں جس سے مصنف نے بڑا صرف نظر کیا ہے۔یعنی حیات و کائنات کے بارے میں دنیا بھر کا مغربی نقطۂ نظر کو اختیار کرلینا۔مصنف چونکہ اصلاً ایک سیاسی دانش ور ہیں ، اس لیے انھوں نے چیزوں کو اسی عینک سے دیکھا ہے۔ وگرنہ یہ ایک حقیقت ہے کہ الحاد پر مبنی اہل مغرب کی تہذیب دنیا کے خشک و تر اور مشرق و مغرب پر حکمران ہے۔اور اس اعتبار سے بلاشبہ یہ ایک عالمی تہذیب ہے۔ مسلمانوں کو اصل خطرہ مغرب کی فوجی یا معاشی طاقت سے نہیں ، بلکہ ان کی تہذیبی یلغار سے ہے۔اس یلغار کے وہ پہلو جو مسلمانوں کو توحید و آخرت سے غافل اور عفت و عصمت سے بے نیاز کررہے ہیں ، تہذیبوں کے تصادم کا ،مسلمانوں کی حد تک، اصل میدان ہیں۔
مصنف کے تجزیے کا ایک اور کمزور پہلو اس حقیقت کو نظر انداز کرنا ہے کہ مفادات صرف تہذیبی نہیں ہوا کرتے۔معاشی، سیاسی اور دیگر کئی طرح کے مفادات ہیں جو دور جدید میں قوموں کی صف بندی میں نمایاں کردار ادا کریں گے اور کررہے ہیں۔افغانستان پر حملے کے وقت پاکستان نے جو کچھ کیا ، وہ اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔اسی طرح اسلام کی اصل تعلیمات سے بے خبری کی بنا پر مصنف یہ نہ جان سکے کہ وہ بہت سی اقدار جو مغرب نے دنیا میں رائج کی ہیں ، اسلام ہی نے پہلی دفعہ دنیا کے سامنے ان کا عملی نمونہ پیش کیا تھا۔ انسانی حقوق، جمہوریت، خواتین کے حقوق ، اظہار رائے کی آزادی اور ان جیسی بہت سی دیگر اقدار ہیں ، اسلام جن کا سب سے بڑا مبلغ ہے۔یہ الگ بات ہے کہ مسلمان بعد میں ان اقدارکو گنوابیٹھے اور اب ان کے مخالف ہوگئے ہیں۔جس روز وہ حقیقی اسلام کے علم بردار بنے ، سب سے بڑھ کر ان اقدار کو دنیاکے سامنے لے کر اٹھیں گے۔
بہرحال یہ کتاب اس قابل ہے کہ ہر باشعور شخص اس کا مطالعہ کرے۔اس سے نہ صرف اہل مغرب کے ذہن کا اندازہ ہوتا ہے ، بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ حقائق کا تجزیہ کس انداز سے کرتے ہیں۔ایک حدیث میں مومن کو ’’اپنے زمانے سے باخبر‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ کتاب کے قاری کو اندازہ ہوگا کہ یہ صفت جو آج کے مسلمانوں میں تو شاید موجودنہیں ، ہم جنھیں ’’کافر‘‘ قرار دیتے ہیں، ان میں باافراط پائی جاتی ہے۔
____________