بسم اللہ الرحمن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ )
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالْبَنِیْنَ، وَالْقَنَاطِیْرِالْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ، وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ، وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ، ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا، وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ{۱۴} قُلْ اَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ: لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ، خٰلِدِیْنَ فِیْہَا، وَاَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ، وَّرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ{۱۵} اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ: رَبَّنَآ اِنَّنَآ اٰمَنَّا، فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا، وَقِنَا عَذَابَ النَّاِر{۱۶} اَلصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْمُنْفِقِیْنَ وَالْمُسْتَغْفِرِینْ َبِالْاَسْحَارِ {۱۷}
اُن لوگو ں کے لیے(جو اِس بصیرت سے محروم ہیں )دنیا کے مرغوبات :عورتیں ، بیٹے، سونے چاندی کے ڈھیر ، ۲۱ نشان زدہ گھوڑے، ۲۲ چوپائے اورکھیت بہت لبھانے کی چیز بنا دیے گئے ہیں۔ ۲۳ یہ سب دنیا کی زندگی کا سروسامان ہے ۲۴ او راچھا ٹھکاناتو صرف اللہ کے پاس ہے ۔ ان سے کہیے کہ میں تمھیں بتاؤں کہ اِن چیز وں سے بہتر کیا ہے؟ ۲۵ اللہ سے ڈر کر رہنے والو ں کے لیے اُن کے پروردگار کے ہاں باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی،وہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے اور پاکیزہ بیویاں ہیں اور (سب سے بڑھ کر)اللہ کی خوشنودی ہے ، ۲۶ اور (اِس میں تو کوئی شبہ ہی نہیں ہے کہ )اللہ اپنے اِن بندوں کو دیکھ رہا ہے۔ ۲۷ یہ ۲۸ جو دعائیں کرتے ہیں کہ پروردگا ر، ہم ایمان لائے ہیں، سوتو ہمارے گناہ بخش دے اورہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ یہ ۲۹ صبر کرنے والے، سچے، فرماں بردار، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے اور پچھلی رات کی گھڑیوں میں اٹھ کر اپنے گنا ہوں کی مغفرت چاہنے والے ۔۱۴۔۱۷
۲۱؎ اصل الفاظ ہیں:’القناطیر المقنطرۃ‘۔یہ اسی طرح کی ترکیب ہے ، جس طرح عربی زبان میں ’الف مولفۃ‘ ا ور ’بدرۃ مبدرۃ‘ وغیرہ کی تراکیب استعمال ہوتی ہیں ۔
۲۲؎ اس سے مراد ہیں اصیل گھوڑے ۔ یہ تعبیر اس لیے اختیار کی گئی ہے کہ عمدہ اوراصیل گھوڑوں پر بالعموم نشان لگایا جاتا ہے۔
۲۳؎ اصل میں لفظ ’زین للناس‘ کے الفا ظ آئے ہیں ۔اس میں مال و اولاد اورزن وفرزند کی محض رغبت پر کوئی تبصرہ نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ رغبت تو انسان کی فطرت کا تقاضا ہے ، بلکہ ان کی تزیین کا ذکر ہے ۔استاذ امام اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں :
’’’تزئین ‘کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی چیز اس طرح آنکھوں میں کھب جائے کہ آدمی اس کے اثر سے ہر چیز اسی کے رنگ میں دیکھنے لگ جائے ، یہا ں تک کہ اس سے الگ ہوکر اس کے لیے کسی چیز کو دیکھنا ممکن ہی نہ رہ جائے ۔وہ ہر چیز کو تولنے اورپرکھنے کے لیے اسی کو پیمانہ اورکسوٹی قرار دے لے ۔ کسی چیز کی رغبت کا اس درجہ غلبہ ، ظاہر ہے،فاطر فطر ت کے منشا کے خلاف ہے ۔اسی سے زندگی میں وہ بے اعتدالیاں ظہور میںآتی ہیں جو انسان کو فطرت اور شریعت کے جادۂ مستقیم سے ہٹا دیتی ہیں ۔ یہ ایک بیماری کی حالت ہے جو بے بصیرتی اورحدود الٰہی کے عدم احترام یا بالفاظ دیگر عدم تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے اوراس میں اصل دخل نفس اورشیطان کا ہوتا ہے ۔ نفس اپنی چاہتوں میں فطر ی حدود سے آگے نکل جاتا ہے ،پھر شیطان ان چاہتو ں پر ایسا دل فریب ملمع کردیتا ہے کہ آدمی کی نظر ان سے ہٹ کر کسی اورطرف کا رخ ہی نہیں کرتی ۔‘‘(تدبرقرآن ۲/ ۴۰)
اسی طرح مرغوبات نفس کے بیان میں یہاں جو ترتیب ملحوظ ہے ،اس کی وضاحت میں انھوں نے لکھا ہے:
’’پہلے اہل و عیال کا ذکرکیا ہے ،اس لیے کہ محبت کے لحاظ سے سب سے اونچا مقام انھی کا ہے ،دوسری چیز و ں کی محبت اصلاًان کے تابع ہے ، بلکہ زیادہ تر انھی کے لیے ہے ۔ اس کے بعد مال کا ذکرہے اور مال میں سونے کا ذکر اس کی گراں قیمتی کی وجہ سے دوسرے نقود پر مقدم ہے ۔ سروسامان میں سب سے پہلے گھوڑوں کا ذکر ہے ،اس لیے کہ اہل عرب زینت، فخر اوردفاع ، تینوں کے نقطئہ نظر سے گھوڑے کوسب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے ۔اس کے بعد چوپایوں کا ذکر ہے ، اس لیے کہ تمدن کے ظہور سے پہلے بدویت کے دور میں معاش کا انحصار بیش تر انھی پرتھا ۔آخر میں کھیتی ا ورباغ کا ذکرہے ،اس لیے کہ ان کی اہمیت تمدن کے دور میں داخل ہونے کے بعد شروع ہوئی ہے جب انسان نے شہروں اور دیہاتوں کی رہایش اختیار کرلی ہے۔‘‘
(تدبر قرآن ۲/ ۴۱)
۲۴؎ یعنی اس دنیا کی زندگی کا سروسامان ہے جو خود بھی ناپایدارہے ،جس کی سب چیزیں بھی بالکل بے حقیقت ہیں اور قیامت کے بعد جو خدا کی ابدی بادشاہی قائم ہونے والی ہے ،اس کے مقابلے میں جس کی لذتوں پر ریجھنا بھی سراسر حماقت ہے ۔یہ تمام معانی، اگر غور کیجیے تواس چھوٹے سے فقرے میں بیان ہو گئے ہیں۔
۲۵؎ یہ مخاطبین کو زاویۂ نظربدلنے کی دعوت ہے کہ اس دنیا کی چند روزہ زندگی کو اصل زندگی سمجھ کر گزارنے کے بجائے وہ آخرت کی طرف دیکھیں ،جہاں ایک ابد ی اورلازوال زندگی اوراس کی نعمتیں ان کی منتظر ہیں ۔
۲۶؎ یہ جنت کی نعمتوں کے لیے ایک جامع تعبیر ہے ۔چنانچہ جب اس کا ذکر ہوگیا تو استاذ امام کے الفاظ میں گویا ہر نعمت کا ذکر ہوگیا ، اس کا بھی جس کے لیے تعبیر کا کوئی جامہ موجود ہے اوراس کا بھی جوخیال وگمان اوروہم وقیاس ،ہر چیز سے بالا تر ہے ۔
۲۷؎ یہ جملہ تسلی کے محل میں ہے ۔یعنی دیکھ رہا ہے تو ان کے ایمان وعمل اوراس پر ان کی استقامت کا صلہ بھی انھیں لازماً دے گا ،ان کی کوئی قربانی بھی اللہ کے حضور میں ضائع نہیں ہوگی ۔
۲۸؎ یہ پچھلی آیت میں ’للذین اتقوا‘ سے بدل ہے ۔مدعا یہ ہے کہ خدا کے ان بندوں کودیکھو اورتم بھی دنیا کے مرغوبات ہی کے پیچھے بھاگتے رہنے کے بجائے ،انھیں چھوڑکر اس راہ پر آجاؤ۔
۲۹؎ یہ دوسرا بدل ہے جس سے قرآن نے ان اخلاقی اوصاف کونمایا ں کردیا ہے جواس کے حاملین میں ہونے چاہییں۔
۳۰؎ غربت ، بیماری ،جنگ اور اس نوعیت کے نرم وگرم حالات میں آدمی عزم وہمت کے ساتھ اپنے اوپر آنے والی مصیبتوں کا مقابلہ کرے اور جس موقف کو وہ صحیح سمجھتا ہے ،بغیر کسی مایوسی ،گھبراہٹ اور جزع فزع کے اس پر قائم رہے تو یہ صبر ہے ۔قرآن نے یہاں اپنے حاملین کی صفات میں سب سے پہلے اسی کو نمایا ں کیا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو دعوت دی جارہی ہے ،ان کے لیے قبول حق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو صبرکا خوگر نہیں بنا سکے ۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــ