HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

اہل کفر کے بچوں کا انجام

(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: ۱۱۷)


عن علی رضي اﷲ عنہ قال: سألت خدیجۃ رضي اﷲ عنہا النبي صلی اﷲ علیہ وسلم عن ولدین ماتا لھا في الجاہلیۃ. فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : ہما في النار. قال: فلما رأی الکراہیۃ في وجہہا قال: لو رأیت مکانہما لأبغضتہما. قالت: یا رسول اﷲ، فولدي منک؟ قال: في الجنۃ. ثم قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: إن المؤمنین وأولادہم في الجنۃ. وإن المشرکین وأولادہم في النار. ثم قرأ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: والذین آمنوا واتبعتہم ذریتہم بإیمان ألحقنابہم ذریتہم.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دو بچوں کے بارے میں پوچھا جو زمانۂ جاہلیت میں فوت ہو گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ دونوں جہنم میں ہیں۔ پھر جب آپ نے ان کے چہرے پر ناگواری دیکھی تو فرمایا: اگر تو ان کا ٹھکانا دیکھتی تو تجھے بھی ان پر غصہ آتا۔ اس پر انھوں نے پوچھا: تو آپ سے میرا بیٹا؟ آپ نے فرمایا : جنت میں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل ایمان اور ان کی اولاد جنت میں ہو گی اور مشرکین اور ان کی اولاد جہنم میں ہو گی۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: ’والذین آمنوا واتبعتہم ذریتہم بإیمان ألحقنا بہم ذریتہم‘، ’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کی نسل نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی تو اللہ نے ان کے ساتھ ان کی ذریت کو ملا دیا‘‘۔ ‘‘
لغوی مباحث

الجاہلیۃ : یہ جہل کے مادے سے ایک اسم ہے۔ جو کتب تاریخ وحدیث میں بطور ایک اصطلاح مستعمل ہے۔ اس سے مراد عربوں کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کا زمانہ ہے۔ اس میں جہل علم کے متضاد کے مفہوم میں ہے اور علم سے بھی علم ہدایت مراد ہے۔ دنیوی علوم مراد نہیں ہیں۔ اردو میں جاہلیت کا لفظ اجڈپن اور ان پڑھ ہونے کے معنی میں آتا ہے۔ اور اس لفظ سے یہی تاثر عربوں کے بارے میں قائم ہو جاتا ہے۔ جبکہ اصل یہ ہے کہ اس سے مقصود محض یہ ظاہر کرنا ہے کہ وہ زمانہ جب وہ اللہ کی ہدایت سے محروم تھے۔

مکان : یہ لفظ جگہ، ٹھکانے اور مرتبے کے معنی میں آتا ہے۔ یہاں اس سے جہنم میں ان کا ٹھکانا مراد ہے۔یہ’ کون ‘سے اسم ظرف بنا ہوا ہے۔

ألحقنا بہم ذریتہم : ہم نے ملا دیا ان کے ساتھ ان کی اولاد کو۔یہاں ملانے سے جنت میں ایک طبقے یا درجے میں یک جا کر دینا ہے۔

متون

کتب حدیث میں یہ روایت صرف مسند احمد اوردور متاخر کی کتاب ’’مجمع الزواید‘‘ میں آئی ہے۔ یا پھر اس کا ذکر ہمیں کتب رجال مثلا، ’’میزان الاعتدال فی نقد الرجال‘‘ اور’ ’لسان المیزان‘ ‘وغیرہ میں ملتا ہے۔ اس روایت کے الفاظ ان کتب میں کم و بیش یہی ہیں۔ البتہ میزان وغیرہ میں آیت سے استشہاد کا حوالہ نہیں ہے۔ اسی طرح ایک فرق یہ بھی ہے کہ ان میں’ فولدی منک ‘ کے بجائے ’ فوالدای منک ‘ کے الفاظ ملتے ہیں۔ مزید برآں ان کتابوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام احمد بن حنبل کے بیٹے کی ’’زواید مسند‘ ‘میں بھی یہ روایت نقل ہوئی ہے۔

معنی

اس روایت کے بھی دو حصے ہیں۔ ایک حصہ بطور خاص حضرت خدیجہ کی اولاد سے متعلق ہے۔دوسرے حصے میں عمومی اصول بیان ہوا ہے جو دوسری روایات میں بھی منقول ہے ۔ مثلا مشکوٰۃ ہی کی روایت ۱۱۱ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوال کے جواب کے طور پر آپ کی نسبت سے یہی بات بیان ہوئی ہے۔ ہم اس پر تفصیل سے لکھ چکے ہیں کہ یہ بات صریحاً قرآن مجید میں بیان کیے گئے مسلمات کے خلاف ہے۔قرآن مجید جنت اور جہنم کو بصراحت دنیا میں کیے ہوئے اعمال کا پھل قرار دیتا اور ذرہ برابر بھی ظلم نہ کیے جانے کی نوید سناتا ہے۔مزید برآں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی روایات بھی مروی ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معصوم بچوں کو دین فطرت پر بتایا ہے۔ اس صورت میں مشرکین کے بچوں کے جہنم میں جانے کی بات کسی طرح سمجھ میں نہیں آتی ۔

اس روایت کا پہلا حصہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بچوں سے متعلق ہے۔ جہاں تک بچوں کے انجام کا تعلق ہے ، اس کے بارے میں ہم نے اپنا نقطۂ نظر بیان کر دیا ہے، لیکن اس حوالے سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ حضرت خدیجہ کے پہلی شادیوں سے کتنے بچے تھے اور ان کی عمریں کیا تھیں۔ مولانا مودودی مرحوم کی کتاب’ ’سیرت سرور عالم‘ ‘میںیہ معلومات انتہائی اختصار سے بیان ہو گئی ہیں۔ لکھتے ہیں:

’’پہلے ان کی شادی ابوہالہ بن زرارہ تمیمی سے ہوئی تھی جس سے دو لڑکے ہند اور ہالہ پیدا ہوئے اور دور رسالت میں دونوں مسلمان ہو گئے۔ ابوہالہ کی وفات کے بعد ان کی شادی عتیق بن عابد المخزومی سے ہوئی جس سے ان کی صاحب زادی ہند پیدا ہوئیں اور عہد نبوت میں وہ بھی مسلمان ہو گئیں۔‘‘ ( ۲/ ۱۱۲۔۱۱۳)


یہ کتب انساب اور کتب رجال وتاریخ کا بہت موزوں ملخص ہے۔ یہ کتابیں تین ہی بچوں کا ذکر کرتیں اور ان کے عاقل وبالغ اور مسلمان کی حیثیت سے دنیا سے رخصت ہونے کی تصریح کرتی ہیں۔ ان میں حضرت خدیجہ کے دو بچوں کے فوت ہونے کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ صرف مسند احمد کی روایت ہے جس میں ان دو بچوں کا ذکر ہے جو قبل اسلام فوت ہو گئے تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کتب تاریخ میں یہ روایت نفیاً یا اثباتاً ، کسی بھی حوالے سے مذکور نہیں ہے۔ اسی طرح اس روایت کی شروح میں بھی بچوں کے ہونے یا نہ ہونے یا ان کی عمروں کے تعین پر کوئی کلام موجود نہیں ہے۔

گمان یہی ہے کہ حضرت عائشہ کے سوال وجواب والی روایت اور حضرت خدیجہ کے سوال وجواب والی یہ روایت ، دونوں ناقابل اعتنا ہیں۔ یہ راویتیں روایت کے پہلو سے بھی کمزور ہیں اور درایت کے پہلو سے بھی ان میں کوئی جان نہیں ہے۔

کتابیات

احمد، رقم۱۰۷۶۔ مجمع الزواید، کتاب القدر، باب ماجاء فی الاطفال۔

____________

B