[اس روایت کی ترتیب و تدوین اور شرح و وضاحت جناب جاوید احمد غامدی کی رہنمائی میں ان کے رفقا معزا مجد ، منظور الحسن ، محمد اسلم نجمی اور کوکب شہزاد نے کی ہے ۔]
روي ۱ أنہ کان قدر صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الظھر۲ في الصیف ثلاثۃ أقدام إلی خمسۃ أقدام و في الشتاء خمسۃ أقدام إلی سبعۃ أقدام. ۳
روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نمازگرمیوں ۱ میں اس وقت پڑھتے تھے جب (آدمی کا) سایہ تین سے پانچ قدم تک ہوتا تھا اور سردیوں میں اس وقت جب سایہ پانچ سے سات قدم تک ہوتا تھا۔
۱۔ اس روایت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز گرمیوں میں اول وقت میں اور سردیوں میں موخر کر کے پڑھتے تھے، لیکن دوسری روایتوں سے اس کے برعکس یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ گرمیوں میں آپ اسے موخر کر کے پڑھتے تھے اور سردیوں میں اول وقت میں پڑھتے تھے۔اس تناقض کا سبب بالعموم یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مدینہ کے علاقے میں سرما اور گرما میں سورج مختلف مقام پر ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ان موسموں میں سایے کی لمبائی مختلف ہوتی ہے۔چنانچہ سردیوں کے پانچ سے سات قدم تک سایے کا وقت گرمیوں کے تین سے پانچ قدم تک سایے کے وقت سے مقدم ہوتا ہے۔
۱۔اپنی اصل کے اعتبار سے یہ نسائی کی روایت، رقم ۵۰۳ ہے ۔ بعض اختلافات کے ساتھ یہ حسب ذیل مقامات پر نقل ہوئی ہے:
ابوداؤد ، رقم ۴۰۰۔ نسائی سنن الکبریٰ ، رقم ۱۴۹۲۔ بیہقی ، رقم ۱۵۸۸۔ ابن ابی شیبہ ، رقم ۳۲۸۹۔
۲۔ ’الظہر ‘ کا لفظ ابوداؤد، رقم ۴۰۰ میں روایت نہیں ہوا۔
۳۔ ابن ابی شیبہ، رقم ۳۲۸۹ میں یہ بات مختلف طریقے سے بیان ہوئی ہے اور اس کی نسبت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں ہے:
قال عبد اللّٰہ : إن أول وقت الظھر أن تنظر إلی قدمیک فتقیس ثلاثۃ أقدام إلی خمسۃ اقدام وإن أول وقت الآخر خمسۃ أقدام إلی سبعۃ أقدام. أظنہ قال في الشتاء .
’’عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ظہر کا ابتدائی وقت جاننے کے لیے اپنے قدموں کی طرف دیکھو اور سایے کو تین سے پانچ قدم تک ماپ لو۔دوسرے موسم میں(ظہر کا)ابتدائی وقت پانچ سے سات قدم سایے تک ہے۔ (راوی کا کہنا ہے کہ) میرے خیال میں یہ (دوسری) بات انھوں نے موسم سرما کے بارے میں بیان فرمائی ہے۔‘‘
____________