HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ریحان احمد یوسفی

تہذیبوں کا تصادم: حیا کے میدان میں

نئی صدی میں پرانی جنگ

اکبر الہٰ آبادی اردو زبان کے ایک باکمال شاعر تھے۔ ان کی وجہ شہرت بالعموم ان کے طنز یہ اشعار ہیں۔اکبر کا ایک مشہور قطعہ کچھ اس طرح ہے:

بے پردہ کل جو آئیں نظر چندبیبیاں

اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا

پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا

کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑگیا

انھی کے طرز کی پیروی کرتے ہوئے اقبال نے کہا تھا:

لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی

ڈھونڈلی قوم نے فلاح کی راہ

روش مغربی ہے مد نظر

وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ

یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین

پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

اکبر اور اقبال کے یہ اشعاراس کشمکش کا بہت اچھا بیان ہیں جو ہندوستان میں بیسویں صدی کے آغاز پرجدید مغربی رجحانات اور قدیم مشرقی روایات کے بیچ برپا ہوئی۔ یہ تہذیبی کشمکش آج کے دن تک جاری ہے اور ایک صدی میں بھی اس کا کوئی فیصلہ کن نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ابتد ا میں مغربی تہذیب کوکچھ غلبہ ہوا خاص طور پر ہماری اشرافیہ میں ۔ تاہم اہل فکر و دانش اور مذہبی حلقوں کی بھرپور مزاحمت اور بعض دیگر وجوہا ت کی بنا پر ہمارے معاشرے میں مغربی تہذیب کا نفوذ ایک حد سے زیادہ نہ ہوسکا۔بیسویں صدی کے اواخر تک اس صورت حال میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی تھی۔تاہم پچھلے کچھ عرصے میں اس کشمکش نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے۔انفارمیشن ایج کے آغاز اور نیو ورلڈ آرڈر کے تناظر میں مغربی تہذیب ایک نئی قوت کے ساتھ ہم پر حملہ آور ہے۔میڈیا کی طاقت نے گھر گھر میں مغربی اقدار وروایات کو پہنچادیا ہے۔دنیا پرستی کی لہر نے ہمارے ہر ذہین اور باصلاحیت شخص کو اپنی زدمیں لے لیا ہے۔ قوم کے درد میں تڑپنے اور اپنی روایات کے لیے مرمٹ جانے والے اب ناپید ہیں۔ہم میں پہلے جیسے اہل علم و دانش رہے ہیں نہ ہم ان اعلیٰ اخلاقی روایات کے امین رہے ہیں جو ہمارے لیے باعث تقویت تھیں۔ مذہبی قوتیں انتہا پسندی اور ظاہر پرستی کی اسیر ہوچکی ہیں اور اسی کے فروغ کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔

ان حالات میں اب یہ ناممکن ہوچکا ہے کہ مغربی تہذیب کی یلغار سے ہم خود کو محفوظ کرسکیں۔ تاہم جو بات قابل اطمینان ہے ، وہ یہ ہے کہ اہل مغرب کی اختیار کردہ ہر شے بری نہیں۔ انھوں نے متعدد چیزیں تو خود ہم مسلمانوں کے اچھے زمانوں کی اختیار کررکھی ہیں۔ دوسری طرف ہماری تہذیب کی ہر چیز بھی آئیڈیل نہیں ہے۔ کتنے ہی غیر اسلامی اثرات ہیں جو ہندو تہذیب کے زیر اثر ہم میں در آئے ہیں، مثلاً جہیز اور شادی بیاہ کے بہت سے دیگر معاملات۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بحیثیت مجموعی ہم ایک ایسی جدید قوم ہیں جس کی اپنی تہذیب ابھی تشکیل کے مرحلے میں ہے۔ اس لیے مغرب اورمغربی تہذیب کے بعض مثبت اثرات کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ، بلکہ ایسا ہونا توناگزیر ہے ۔ ہمیں جس چیز کے لیے لڑنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب کی یہ یلغار ہماری ان اقدار و روایات کو بھی اپنے ساتھ نہ بہا لے جائے جن کی بنیاد دین فطرت یعنی اسلام پر ہے۔

انھی اقدار میں سے ایک بنیادی قدر عفت و عصمت ہے جس کی اساس فطرت انسانی میں موجود شرم و حیا کے بنیادی تصور پر رکھی گئی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہی وہ مقام ہے جہاں اہل مغرب نے سب سے بڑی ٹھوکر کھائی ہے ۔ان کے فکروفلسفہ ، علم و فن ، تہذیب و تمدن ،معیشت و معاشرت ، رسوم ورواج غرض یہ کہ زندگی کے ہر میدان میں اس ٹھوکر کے اثرات بالکل واضح نظرآتے ہیں۔بدقسمتی سے اب جبکہ ہمارے معاشرے کا ہر فرد براہ راست ان کی تہذیب کی زد میں ہے، عفت و عصمت اور شرم و حیا پر مبنی ہماری اقدار و روایات کمزور پڑتی جارہی ہیں۔وی سی آر، ڈش انٹینا، کیبل اور انٹر نیٹ وغیرہ کے ذریعے سے ہمارے بچوں اور نوجوانوں کے دل و دماغ میں جنسی بے راہ روی پر مبنی مغربی اقدار اور فکر وفلسفہ خاموشی سے سرایت کررہا ہے۔ دوسری طرف ہماری اپنی تہذیب میں اس حوالے سے بہت سی غیر فطری پابندیاں اور غیر ضروری تصورات ایسے موجود ہیں جنھیں آج کے دور کا ایک معقول انسان اختیار کرنے کے لیے ذہناً تیار نہیں ہے ۔ مغربی فکر اور تہذیب کی یلغار میں ان بے جا پابندیوں کو چھوڑتے چھوڑتے وہ عقل و فطرت اور دین و شریعت کی عطا کردہ بنیادی اقدار و روایات کو بھی ترک کردیتا ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ نہ صرف مغربی تصورات پر تنقید کرکے لوگوں پر ان کی کمزوری واضح کی جائے ، بلکہ اسلامی نقطۂ نظر کو بھی ، افراط و تفریط سے ہٹ کر ، درست طور پر لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے ۔

یہ تحریر اسی پس منظر میں لکھی گئی ہے کہ شرم و حیا ایک فطری انسانی جذبہ اور عفت و عصمت ایک بنیادی مذہبی قدر ہے۔لہٰذامغرب کا کوئی ایسا اثر ہمیں قبول نہیں کرنا چاہیے جوہماری اس بنیادی قدر کے خلاف ہو۔ اس تحریر میں ہم نہ صرف اس بنیادی قدر کی تفصیلی اہمیت بیان کریں گے ، بلکہ اس معاملے میں اہل مغرب کی کمزوری واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی بتائیں گے کہ اس ضمن میں دین کا نقطۂ نظر ہمارے نزدیک کیا ہے۔

ایک انسان دو تصورات

عفت و عصمت اور شرم و حیا کے متعلق ہمارے اور اہل مغرب کے اختلاف کی حقیقی نوعیت کو سمجھنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے ، جب تک یہ نہ جان لیا جائے کہ ہمارا اور ان کا اختلاف اصلاً حیات و کائنات کے بنیادی تصورات سے متعلق ہے۔اہل مغرب کے نزدیک حیات اس بے خدا کائنات میں اتفاق سے وجود میں آئی۔ارتقا کے مختلف مراحل سے گزرکر آج وہ اس گروہ انسانیت کی صورت میں اپنا عروج دیکھ رہی ہے جو بحر و بر پر حکمرانی کے بعد ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی تیاری کررہا ہے۔ اہل مغرب ، جو آج قافلۂ انسانیت کے امام ہیں ،ان کے اس نقطۂ نظر کو قبول کرنا باقی دنیا کے لیے ناگزیر تھا۔ بدقسمتی سے دین حق کے امین مسلمان بھی اپنے فکری زوال کی بنا پر عملاً اسی نقطۂ نظر سے متاثر ہوچکے ہیں۔تاہم اس نقطۂ نظر پر تنقید کرنے سے قبل اس کا پس منظر اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے ، تاکہ ہم ان غلطیوں کے ارتکاب سے بچ سکیں جن کا شکار ہوکر اہل مغرب نے ٹھوکر کھائی ہے ۔

اہل مغرب کے اخلاقی بگاڑ کی اساس

مغربی تہذیب جس اخلاقی بگاڑ اور مادر پدر جنسی آزادی کے دور سے گزر رہی ہے وہ ایک دن میں اس مقام تک نہیں پہنچی۔ اور نہ ایسا ہے کہ وہ فطری انسانی خوبیوں سے عاری ہوچکے ہیں کہ سب کچھ گنواتے گنواتے وہ شرم و حیا بھی گنوابیٹھے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر اخلاقی معاملات میں وہ بہت حساس ہیں۔ دراصل اہل مغرب فکر و عمل کے اپنے ارتقائی سفر میں پیش آنے والے بعض حالات کی بنا پر انحراف کی اس منزل تک آپہنچے ہیں ۔ پہلے وہ مذہب کے خلاف ہوئے اور پھر ان اقدار کو بھی زندگی سے نکال پھینکا جو تھیں تو بہت اعلیٰ ، مگر مذہب کی بنیاد پر معاشرے میں قائم تھیں۔مذہب کا زوال ان اعلیٰ اخلاقی اقدار کے زوال کا بھی سبب بن گیا۔ذیل میں ہم اس معاملے کی کچھ تفصیل بیان کیے دیتے ہیں۔

مغربی فکر کے ارتقا سے واقف لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ نشاۃ ثانیہ کے دور میں جو ردعمل رائج عیسائی مذہب کے خلاف ہوا وہ بڑھتا ہوا انکار مذہب تک جاپہنچا۔ اس صورت حال کے متعدداسباب تھے۔جن میں سے عیسائی مذہبی عقائد و مسلمات کا جدیدسائنسی انکشافات کے خلاف ہونا ، اہل کلیسا کا اپنے ان توہمات پر اڑجانااور پاپائیت کی اس بے لچک روش کے خلاف ردعمل بنیادی اسباب بن گئے ، مثلاََمسیحی فکر میں زمین کو کائنات کے مرکز کی حیثیت حاصل تھی ، کیونکہ یہ ا ن کے خدا کی جنم بھومی تھی، جبکہ سائنس کے نزدیک یہ بات خلاف واقعہ تھی ، لیکن انھوں نے اس حقیقت کو ماننے کے بجائے سختی سے جدید خیالات کو دبانے کی کوشش شروع کردی۔ جس کے نتیجے میں مذہب کے خلاف جذبات پیدا ہونا شروع ہوگئے۔

انیسویں صدی تک مغربی فکر کے لیے نظریاتی طور پر بھی خدا کو ساتھ لے کر چلنا مشکل ہوگیا۔یہ بات طے ہوگئی کہ جدید انسان کو مذہب اور خدا کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، مگر رکاوٹ یہ تھی کہ انسان ایک توجیہ پسند مخلوق ہے۔ انکار خدا کے بعد لازمی تھا کہ خدا کے بغیر انسان اور کائنات کی توجیہ کی جائے اور ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔ اس کے لیے یہ بتانا ضروری تھا کہ بغیر ایک خالق کے کائنات اور انسان کیسے وجود میں آئے۔ہم دیکھتے ہیں کہ قرآ ن بھی اپنے منکرین کے سامنے یہی دو سوال رکھتا ہے: ’’کیایہ بغیر کسی خالق ہی کے پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود ہی خالق ہیں! کیا انھی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ، بلکہ وہ یقین نہیں رکھتے۔‘‘ ( سورۂ طور ۵۲: ۳۵۔۳۶)

کائنات کا مسئلہ تو خیر آج کے دن تک حل نہیں ہوسکا ، بلکہ الٹا (Big Bang Theory) نے اب اس بات کا پورا امکان سائنسی بنیادوں پر ثابت کردیا ہے کہ کائنات کا آغاز جس دھماکے سے ہوا ، وہ ایک خالق کی بیرونی مداخلت کے نتیجے میں ظہور پزیر ہوا ۔البتہ اس زمانے میں ڈارون کے نظرےۂ ارتقا کی صورت میں خدا کے بغیر انسان کی توجیہ کی ایک شکل لوگوں کے سامنے آگئی۔ حال یہ ہوا کہ ڈارون کو ’The man who killed the God‘ کا خطاب مل گیا۔نظرےۂ ارتقا کی غیرمعمولی مقبولیت کا سبب، اس کی تمام تر علمی کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود، یہی تھا کہ اس نے سائنسی بنیادوں پر خدا سے ہٹ کر انسان اور حیات کی توجیہ کرنے کی کوشش کی۔

پھر کیا تھا سماجی، عمرانی، نفسیاتی، معاشی، معاشرتی، تہذیبی اور تاریخی علوم کے ماہرین کی ایک فوج انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر اس اصول کی روشنی میں کام کرنے کے لیے کھڑی ہوگئی کہ انسان ایک بے خدا اور ارتقا یافتہ حیوا ن ہے۔ ان علوم میں سے دو ایسے تھے جن سے موجودہ جنسی بے راہ روی کی فضا ہموار ہوئی۔ پہلا علم نفسیات تھا۔ فرائڈ نے اس پر کام کیا اور جنس کے جذبے کو بنیاد بناکر تمام انسانی اعمال و اعتقادات کی تشریح کرڈالی اور اسی بنیادی جبلت کو زندگی کی روح رواں قراردیا۔

اس سے کہیں زیادہ اثر اس علمی کام کا ہوا جو انسانی تہذیب پر کیا گیا۔اس میں دکھایا گیا کہ جنسی اخلاقیات کا ماخذ فطرت یا مذہب نہیں ، بلکہ معاشی نظام ہے جو شکار سے زراعت اور زراعت سے صنعت تک پہنچا ہے۔ اس علم کے مرتبین نے یہ بتایا کہ انسانی معاشروں میں ابتداءً مرد وعورت کے تعلقات مکمل جنسی آزادی کے اصول پر قائم تھے، مگر جب انسان نے شکار سے زراعت کے عہد میں قدم رکھا تو زمین کی انفرادی ملکیت کا نظریہ پیدا ہوا۔ ایک مرد کو زمین پر کام کاج کرنے کے لیے کام کرنے والوں کی ضرورت پڑی۔ ان کارکنوں کے حصول کا بہترین ذریعہ اولاد تھی۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ شادی کے بندھن سے خاندان کا ادارہ وجود میں لایا جائے جس میں عورت کی وفاداریاں صرف ایک مرد سے وابستہ ہوں اور اس سے ہونے والی اولاد صرف اسی کی ملکیت ہو۔ عورت کے ایک مرد کی ملکیت ہونے کے اسی تصور سے عصمت اور حیا کے تصورات پیدا ہوئے ، تاکہ ان پابندیوں سے عورتوں کی لگام ہمیشہ مردوں کے ہاتھ میں رہے، جبکہ مردوں نے خود کو ہمیشہ ان زنجیروں سے آزاد رکھا ہے۔

دور جدید میں انسان زراعتی دور سے نکل کر صنعتی دور میں داخل ہوچکا ہے۔پیداواری عمل میں نہ صرف انسانوں کی اہمیت کم ہوگئی ہے ، بلکہ عورت خود معاشی طور پر مکمل آزاد ہے۔ لہٰذا اس تحقیق کی رو سے اب نہ کسی عورت کے ایک مرد سے وابستہ رہنے کی کوئی ضرورت ہے نہ شادی کی۔ نہ عصمت کوئی قابل لحاظ شے ہے نہ حیا کی کوئی اہمیت ہے۔

معاشر ے میں اس انحراف کو سہارا دینے اور پروان چڑھانے والی ایک اورچیز یہ تھی کہ اہل مغرب کے نزدیک فرد کی آزادی زندگی کی سب سے بلند، غیر متنازع اور مسلمہ انسانی قدر بن گئی۔اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ تھا کہ اگر معاشرے کے افراد اپنی جنسی تسکین کے لیے کوئی بھی راستہ اختیار کریں تومعاشرے کو اس پر اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں ہے ۔چنانچہ عریاں فلموں اور رسالوں،شادی کے بغیر جنسی تعلقات اور ہم جنس پرستی وغیرہ کی راہ معاشرے میں ہموار ہوگئی اور کسی کے پاس کوئی جواز نہ رہاکہ وہ معاشرے کے افراد کو جنسی انحرافات اختیار کرنے سے روکے یا انھیں اس معاملے میں کسی اجتماعی نظم کا پابند بنائے۔

اخلاقی بگاڑ کی عملی وجوہات

نشاۃ ثانیہ کے بعد یورپ میں تبدیلیوں کا جو عمل شروع ہوا ، وہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی تک بہت تیز ہوگیا۔صنعتی انقلاب نے معاشرتی اقدار پرزبردست اثرات مرتب کیے۔دیہی زندگی تیزی سے شہری زندگی میں بدلنے لگی۔مشینوں کے شہر میں عورت مرد جتنی ہی مفید کارکن تھی۔ چنانچہ بڑھتی ہوئی افرادی قوت کی طلب کے جواب میں عورتیں بھی مردوں کے شانہ بشانہ میدان عمل میں اتر نے لگیں۔مرد و زن کے اختلاط کے مواقع کثرت سے پیدا ہوگئے۔ بیسویں صدی کی دو عظیم جنگوں میں مرنے والے کروڑوں لوگوں میں زیادہ تر مرد تھے۔ان کی کمی پوری کرنے کے لیے مزید خواتین میدان میں آئیں۔

بیسویں صدی میں تجارتی مسابقت کی فضا میں نت نئی مصنوعات مارکیٹ میں آرہی تھیں۔ان کے لیے ضروری تھا کہ صارفین کی توجہ ان کی طرف مبذول ہو۔ عورت کو یہ توجہ پہلے سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ خواتین کارکنوں کا ایک نیا استعمال وجود میں آیااور اشتہارات کی صنعت میں خواتین کی نسوانی کشش کابے دریغ استعمال کیا جانے لگا۔

جو نیا میڈیا ایجا دہوا اس نے اپنی مقبولیت کی سب سے آسان راہ یہ ڈھونڈی کہ انسانوں کے سفلی جذبات کو بھڑکایا جائے۔ اخبارات، رسالے، فلم، ٹی وی اور اب انٹرنیٹ ہر ایک کی مقبولیت کا راز اسی ٹوٹکے میں پوشیدہ ہے۔وہ رسالے اور فلمیں جو خاص طور پر اسی مقصد کے لیے وقف ہیں ، خود ایک بہت کامیاب کاروبار ثابت ہوئے۔

فکرو عمل کے اس پس منظر میں مغربی معاشرہ عفت و عصمت کے تصورات کو گنوابیٹھا ہے۔وہ ذہنی سکون جو ایک شریک حیات سے ملتا ہے؛ خوشی اور غم میں شریک، کھونے اور پانے میں شریک، ہنسنے اور رونے میں شریک، اہل مغرب اس شریک حیات کو ترستے ہیں۔ انھیں معلوم نہیں ہوتاکہ عرصۂ جوانی میں کب اس کے شریک سفر کو کوئی اور بھاجائے اور وہ یکسانی سے تنگ آکر نئے ہم سفر کی تلاش میں نکل جائے ۔خاندان کی وہ ڈھال جو عفت و عصمت کی بنیاد پر وجود میں آتی ہے اور جس کی پناہ میں بچے اور بوڑھے اپنی تمام تر ناتوانی کے ساتھ عافیت سے زندگی بسر کرتے ہیں، وہاں بہت کمزور ہوچکی ہے۔ گو مادی سہولتوں کی فراوانی ، انسانی جان کی اہمیت کے شعور اور ریاست کے ہر فرد کی ذمہ داری کو اٹھالینے کی بنا پر وہاں صورت حال اپنی تمام تر سنگینی کے باجود قابو سے باہر نہیں ہوئی۔ تاہم مغربی تہذیب کے فریب میں آکر اگر ہمارے ہاں یہ صورت حال پیدا ہوئی تو ہماری بربادی میں زیادہ وقت نہیں لگے گا ، کیونکہ ہم ان دیگر مثبت اقدار سے پہلے ہی فارغ ہوچکے ہیں جو مغربی معاشرے کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہماری آخری پناہ گاہ یہی خاندان ہے جو اگر ٹوٹ گیا تو سب کچھ ختم ہوجائے گا۔

انسان کا اسلامی تصور

مغربی نقطۂ نظر کے برخلاف اسلام ہمارے سامنے انسان کا جو تصور رکھتا ہے ، وہ کسی ارتقا یافتہ حیوان کا نہیں ہے۔ قرآن نے حضرت آدم کے قصے میں انسان کی ابتدا سے متعلق تمام ضروری تفصیلات سے ہمیںآگاہ کیا ہے۔اس قصے سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کے خالق نے انسان کو ایک باشعور اور با اقتدار ہستی کے طور پر اس دنیا میں بھیجا۔یہاں اس کی آمد ایک خدا ئی منصوبے کے تحت ہوئی ہے ۔جس میں انسان کو اس دنیا میں رہتے ہوئے خدا کی ابدی جنت کے حصول کے لیے کوشش کرنی ہے۔جنت کی اس شان دار کامیابی کو حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ بن دیکھے اپنے رب کے احکام کی پابندی کرے اور اس کی نافرمانی سے محفوظ رہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھیجنے سے قبل انسانوں کے ماں باپ حضرت آدم اور حضرت حوا کو تربیت کی غرض سے ایک باغ میں رکھا ۔ یہاں انھیں ہر طرح کی آزادی حاصل تھی۔ البتہ ایک خاص ’’درخت‘‘ کے پاس جانے سے انھیں روکا گیا تھا۔ شیطان جو ان کا دشمن تھا اس معاملے میں انھیں فریب دینے میں کامیاب ہوگیا۔اس نے دھوکا دے کر ان دونوں کواس ’’درخت ‘‘کا پھل کھانے پر آمادہ کرلیا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے ہٹادیا، مگر انھوں نے توبہ کر کے شیطان کے اس وار کو ناکام بنادیا۔

ہمارے موضوع کے اعتبار سے اس قصے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ شیطان نے دھوکا دینے کے لیے انسان کے جس جذبے کو استعمال کیا ، وہ جنس تھا۔اس نے قسمیں کھاکر انھیں اپنی خیر خواہی کا یقین دلایا ، مگر اس کی وسوسہ اندازی کا اصل مقصد یہی تھا کہ ان کی شرم کی جگہیں جو ان سے چھپی تھیں ان کے سامنے ظاہر کردے۔ وہ دونوں اس کی باتوں میں آگئے جس کے نتیجے میں ان کی شرم گاہیں عریاں ہو گئیں۔ قرآن اس معاملے کو احتیاط سے بیان کرتا ہے ، مگر اس کے اشارے اس معاملے کی اصل حقیقت کی طرف صاف رہنمائی کرتے ہیں۔

اس قصے سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان پہلے ہی دن سے خیر و شر کے تمام تصورات سے آگاہ تھا۔اس میں شرم و حیا کا جذبہ فطری طور پر موجود تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ شیطان کے فریب سے نکلنے کے بعد آدم و حوانے جو پہلا کام کیا تھا ، وہ اپنے جسم کو پتوں سے ڈھانپا تھا ۔

چنانچہ اسلام کاجو تصور انسان ہمارے سامنے آتا ہے ، وہ یہ ہے کہ انسان کو اس کے رب نے دنیا میں آزمایش کے لیے بھیجا ہے۔یہاں اس کا مقصد اپنے دل میں پیدا ہونے والی ہر خواہش کو پورا کرنا نہیں ہے ، بلکہ وہ جگہ تو جنت کی ہے جہاں اس کی ہر خواہش پوری کی جائے گی۔ اس دنیا میں تو انسان کو اپنے رب کی فرماں برداری کے ساتھ زندگی گزارنی ہے۔اسے اختیار رکھتے ہوئے اپنی آزادی پر کچھ پابندی گوارا کرنی ہوگی۔ کچھ چیزوں سے رکنا ہوگا اور شیطان کی تمام تر وسوسہ اندازی کے باوجود اپنے رب کی اطاعت پر قائم رہنا ہوگا۔

انسانی معاشرے میں حیا کی اہمیت

امتحان کی اس دنیا میں انسان کی ایک عظیم ترین آزمایش جنسی معاملات میں درست رویہ اختیار کرنا ہے۔جنس انسانی جبلت میں موجود ایک بہت طاقت ور حیوانی جذبہ ہے۔انسانوں میں اس تقاضے کو رکھے جانے کی اپنی مصلحتیں ہیں جن کی طرف ہم آگے چل کر اشارہ کریں گے ، مگر اس بے لگام تقاضے کو قابو میں8 رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فطرت انسانی میں اتنا ہی طاقت ور جذبہ حیا کی صورت میں رکھا ہے۔اکبر نے بڑی خوبی سے ایک شعر میں اس بات کو بیان کیا ہے:

ہوئیں آغاز جوانی میں نگاہیں نیچی

نشہ آنکھوں میں جو آیا تو حیا بھی آئی

حیا کا یہ فطری جذبہ صرف جنسی تقاضے ہی کو قابو میں نہیں رکھتا ، بلکہ معاشرے کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ معاشرے میں اقدار کا پورا نظام اور رشتوں میں پائے جانے والے لحاظ اور تقدس کی بنیاد یہی حیا کا جذبہ ہے۔انسانی تہذیب کا تمام تر حسن رشتوں کے اسی حفظ مراتب اور اقدار کے اسی نظام میں پوشیدہ ہے ، وگرنہ انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔

انسان حیا کے اسی جذبے کی بنا پر اپنے بزرگوں کا لحاظ کرتا ہے، محرمات کو مقدس جانتا ہے، خواتین کی عزت کرتا ہے، احباب سے مروت سے پیش آتا ہے، بزرگوں کا پاس کرتا ہے، کمزوروں کی رعایت کرتا ہے، معاشرتی دباؤ محسوس کرکے برائی سے رکتا ہے، خدائی احکام اور انسانی اقدار کی خلاف ورزی سے باز رہتا ہے۔ غرض حیا نہ ہو تو انسانی معاشرہ اگلے ہی لمحے حیوانوں کے ریوڑ میں تبدیل ہوجائے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرتی زندگی میں حیا کی اسی اہمیت کو یو ں بیان کیا ہے:

’’جب تم حیا نہ کرو تو پھر جو تمھارا جی چاہے کرو۔‘‘(بخاری)
خاندان: معاشرت کی بنیاد

حیا کے اسی فطری انسانی جذبے سے عفت و عصمت کی بنیادی قدرپیدا ہوتی ہے۔یہ قدر اس لیے بنیادی اہمیت کی حامل ہے کہ دین معاشرت کی اساس خاندان کو بناتا ہے ، جبکہ خاندان کا ادارہ عفت وعصمت کو ایک مسلمہ قدر بنائے بغیر نہ وجود میں آسکتا ہے اور نہ باقی رہ سکتاہے۔ معاشرے میں خاندان کی اہمیت اس ا نسانی عجز کی بنا پر ہے جو اسے بچپن اور جوانی میں درپیش ہوتا ہے۔ بچپن اور بڑھاپے میں انسان کی محتاجی کوئی ایسی غیر معروف حقیقت نہیں ہے جس کے بیان کے لیے صفحات سیاہ کرنے پڑیں۔یہ ہر شخص کے مشاہدے کی بات ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ نے طے کیا کہ نوجوانوں کے مضبوط قویٰ پر بچوں اور بوڑھوں کی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا جائے۔اس مقصد کے لیے عورت کی جس ملائمت اور مرد کی جس قوت کی ضروت تھی اسے اکٹھا کرنے کے لیے دونوں میں جنس کا ایک غیر معمولی طاقت ور داعیہ رکھ دیاجو انھیں باہم جڑ کر رہنے پرآمادہ کر دیتا ہے۔

اسلامی قانون معاشرت میں جنس کے اس جبلی جذبے کونکاح کے مستقل رشتے کے ذریعے سے ایک مرد و عورت تک محدود کردیا جاتا ہے۔انھی مردوعورت سے مل کر خاندان کا ادارہ وجود میں آتا ہے جو مسلم معاشرت کی بنیادی اکائی ہے۔ سوسائٹی میں عفت و عصمت کے فروغ اور جنسی جذبات پر قابو رکھنے کی تربیت کے لیے خاندان کے اندر یہ اہتمام کیا جاتا ہے کہ تمام قریبی رشتوں کی حرمت کو ابدی قرار دے کر انھیں جنس کے شائبے سے بھی پاک کردیا جاتا ہے ۔

ایک مسلم معاشرے کی اساس خاندان کے اسی ادارے پر اٹھتی ہے ۔یہاں بچوں کی ذہنی نشو ونما ایک ایسے پاکیزہ ماحول میں ہوتی ہے جہاں شہوانیت سے پاک محبت اور مفادات سے بلند قربانی کے مظاہر جنم لیتے ہیں۔یہ خاندان ان معصوم بچوں کی تربیت گاہ بھی ہوتا ہے جو اس تعلق سے وجود میں آتے ہیں اور ان بزرگوں کی پناہ گاہ بھی ہوتا ہے جو پہلے ہی اپنے بچوں کو پال پوس کر بڑا کرچکے ہوتے ہیں۔خاندان کی اسی اہمیت کی بنا پر دین تفصیل کے ساتھ ان معاملات کو موضوع بحث بناتا ہے جن کا تعلق خاندان کے استحکام سے ہے۔

زنا کی بیخ کنی

زنا رشتوں پر اس اعتماد کی جڑ کاٹ دیتا ہے جس کے نتیجے میں ایک خاندان وجود میں آتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ والدین انھی بچوں کے لیے ہنس کر دکھ جھیلتے ہیں جن کے متعلق انھیں یقین ہوتا ہے کہ وہ ان کی اپنی اولاد ہے۔ اسی طرح لوگ اپنے ہی والدین کی خدمت کے لیے دن رات ایک کرسکتے ہیں۔تمام محرم رشتوں کا تقدس بھی اسی اعتماد پر قائم ہوتا ہے۔ معاشرے میں جب زنا پھیلتا ہے تو یہ تمام رشتے مشکوک اور خاندان کا ادارہ کمزور ہوجاتاہے۔یوں بچے اپنی بنیادی تربیت گاہ اور بزرگ اپنی آخری پناہ گاہ سے محروم ہوجاتے ہیں۔

عفت و عصمت وہ قدر ہے جو معاشرے میں زنا کے فروغ کے خلاف بند باندھتی ہے۔لہٰذا دین نے زنا کی بیخ کنی کو باقاعدہ اپنا موضوع بنانے کے ساتھ ساتھ ایسے احکام دیے ہیں جن کے نتیجے میں عفت و عصمت مسلم معاشرے کی ایک زندہ قدر بن جاتی ہے۔

اسی پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے مرد وعورت کے جنسی تعلق کونکاح کے رشتے تک محدود کردیا ہے ۔ زنا کو شرک اور قتل کے ساتھ ابدی سزا کا جرم قرار دیا ہے ۔ دنیا میں بھی زنا کی انتہائی سخت سزا مقرر کی ہے۔ اس معاملے میں انسانوں کی کمزوری کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے زنا کے ساتھ ساتھ ان چیزوں پر بھی روک لگائی ہے جو اسے زنا میں مبتلا کرسکتی ہیں ۔ چھپے یا ظاہر ہر قسم کے فواحش سے اسے روکا ہے ۔ معاشرے میں فواحش پھیلانے والوں کے لیے دنیا اور آخرت میں سزا کی وعید سنائی گئی ہے ۔ معاشرے کے غیر شادی شدہ افراد کے نکاح کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ مردو زن کے اختلاط کے ایسے احکام دیے گئے ہیں جن سے فریقین کے بے راہ ہونے کے امکانات کم و بیش معدوم ہوجاتے ہیں۔ ان تمام احکام کے نتیجے میں حیا کے فطری انسانی جذبے کو پھلنے پھولنے کا بھرپور موقع ملتا ہے اور عفت و عصمت مسلم معاشرے کی بنیادی قدر بن جاتی ہے۔

حیا کے معاملے میں افراط و تفریط

حیا کا جذبہ چونکہ فطرت انسانی میں ودیعت کیا گیا ہے ، اس لیے کسی دور میں بھی انسانی معاشرے اس تصور سے خالی نہیں رہے۔انسان کی کوتاہی یہ ہوتی ہے کہ حیا کے تقاضوں کو پورا کرنے میں وہ افراط و تفریط کا شکار ہوجا تا ہے۔آج کا مغربی انسان بھی حیا سے کلی طور پر محروم نہیں ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے تمام تر بگاڑ کے باوجود مغرب میں عفت و عصمت کے بعض مظاہر موجود ہیں ۔ اہل مغرب اس معاملے میں تفریط کا شکار ہوئے ہیں۔ان کے ہاں عفت و عصمت اب ایک قدر کے طور پرختم ہو چکی ہے جس کے بعد خاندن کا ادارہ مسائل کا شکار ہوچکا ہے۔

دوسری طرف ہماری تہذیب کا المیہ یہ ہے کہ دور زوال میں ہم افراط کے رویے کا شکار ہوچکے ہیں۔یعنی ہم حیا کے نام پر کچھ ایسی پابندیا ں اپنے لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں جو دین کے مطالبے سے بھی زیادہ ہیں اور جن کا اختیار کرنا نہ صرف عادتاً مشکل ہے ، بلکہ انھیں اپنانے کے بعد فرد کی معاشرتی زندگی غیر فطری طور پر محدود ہوجاتی ہے۔ چنانچہ فرد کے پاس صرف دو راہیں بچتی ہیں ۔ یا تو وہ ان کی خلاف ورزی کرکے احساس جرم اور منافقت کے ساتھ زندگی گزارے یا پھر انھیں اپنا کر باقی معاشرے سے کٹ جائے ۔ ہمارے معاشرے کی اکثریت نے پہلی راہ اختیار کرلی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ احساس جرم میں مبتلا ہوکر لوگ نہ صرف پورے دین سے دور ہورہے ہیں ، بلکہ مغربی تہذیبی یلغار کے لیے تر نوالہ بھی بن رہے ہیں۔

اس پس منظر میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اختصار کے ساتھ وہ دینی مطالبات بیان کردیے جائیں جو اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان مردو عورت کے سامنے رکھے ہیں۔

مرد و زن میں اختلاط کے احکام

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مرد و زن میں اختلاط کے احکام دیے ہیں۔پردہ وحجاب کے برعکس ہم نے ’’مرد و زن میں اختلاط‘‘ کی اصطلاح اس لیے استعمال کی ہے کہ ہمارے نزدیک مرد و زن کا اختلاط دین میں فی نفسہٖ حرام نہیں ہے ۔ ایسا ہونا انسانی معاشروں میں تو ناگزیر ہے ، البتہ غاروں او ر جنگلوں میں بن باس لینے والوں کو اس سے سابقہ پیش آنا ممکن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مرد وزن کے اختلاط کے مواقع روز مرہ زندگی میں ہر گھر میں پیش آتے ہیں۔ دین چونکہ انسانی معاشروں میں رہنے والے عام لوگوں کے لیے نازل ہوا ہے ، اس لیے وہ اسے حرام قرار دینے کے بجائے کچھ حدود مقرر کردیتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جس طرح دین جنسی تعلق کو مطلقاََ حرام قرار دینے کے بجائے اسے میاں بیوی کے تعلق تک محدو کردیتا ہے۔سورۂ نور کی آیات ۳۰۔ ۳۱ میں بیان کردہ ان حدود و احکام کی تفصیلات درج ذیل ہیں:

o مرد وزن کا سامنا ہو تو دونوں کو اپنی نگاہوں کو بچاکر رکھنا چاہیے، اس سے مراد یہ ہے کہ نگاہوں میں حیا ہو، گھور کر نہ دیکھا جائے، خدو خال کا جائزہ نہ لیا جائے۔ اس سے مراد یقیناًیہ نہیں کہ ہر وقت نگاہ نیچی رکھی جائے۔ ان آیات میں ’مِنْ اَبْصَارِہِمْ ‘، ’یعنی اپنی نگاہوں میں سے بعض کو نیچا رکھیں ‘ کے الفاظ سے یہ بات بالکل واضح ہے۔

o لباس میں عریانی کا کوئی پہلو ظاہر نہ ہونے پائے۔ بعض اوقات اٹھتے بیٹھتے اس سلسلے میں بے احتیاطی ہوجاتی ہے۔ اس سلسلے میں خصوصی احتیاط کرنی چاہیے۔

مذکورہ بالا دونوں احکام عورت مرد ، دونوں کو دیے گئے ہیں۔ مردوں کے برعکس خواتین میں دو چیزیں اضافی طور پر پائی جاتی ہیں۔ ایک ان کے سینے کا صنفی اعضا میں شامل ہونا دوسرے ان کا زیب و زینت اختیار کرنا ۔ ان دونوں کا اظہار چونکہ مردوں کے لیے کشش کا باعث ہوتا ہے ، اس لیے خواتین کو اس ضمن میں خصوصی احکام دیے گئے ہیں جو درج ذیل ہیں:

o عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ اس موقع پر اپنی زیب و زینت کی کوئی شے ظاہر نہ ہونے دیں ۔ اس سے وہ زیبایش البتہ مستثنیٰ ہے جو عادتاً کھلی رہتی ہے۔

o خواتین با اہتمام اپنے سینے کو اوڑھنی وغیرہ سے ڈھانک کر رکھیں تاکہ سینہ کا ابھار ظاہر نہ ہو اور نہ گلے میں پہنا ہوا کوئی زیور یا گریبان ظاہر ہو۔

o خواتین کے سینے کے مقابلے میں جس کی کشش صنفی نوعیت کی ہوتی ہے، زیب و زینت جمالیاتی اعتبار سے باعث کشش ہوتی ہے۔اس جمالیاتی پہلو کا اظہار اگر اعتماد کے قریبی لوگوں تک محدود رہے تو باعث فساد نہیں ہوتا۔ چنانچہ خواتین کویہ رعایت دی گئی ہے کہ اپنے قریبی حلقے کے لوگوں میں ، جن کی فہرست آیت میں دی گئی ہے، زینت کااظہار کرسکتی ہیں۔

ہم نے انتہائی اختصار کے ساتھ اس ضمن میں اپنانقطۂ نظر بیان کردیا ہے۔ جو لوگ تفصیلات کے طالب ہیں وہ جاوید احمد غامدی صاحب کی کتاب ’’میزان‘‘ کے باب قانون معاشرت میں اسی عنوان کے تحت مطالعہ کرسکتے ہیں۔ان احکام کے ساتھ وہاں سورۂ احزاب میں آنے والے بعض احکام کا پس منظر بھی بیان کردیا گیا ہے۔جن کو درست طور پر نہ سمجھنے کی بنا پر ہمارے ہاں افراط کا وہ رویہ پیدا ہوا جس کی طرف ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں۔

حیا وعفت کو کمزور کرنے والے اسباب

مغرب کے برخلاف جہاں عفت و عصمت ایک اخلاقی قدر کے طور پر باقی نہیں رہی ، ہمارے معاشرے میں الحمد للہ آج تک یہ ایک بنیادی قدر ہے۔تاہم انسانی اقدار نہ ایک دن میں بنتی ہیں نہ ایک دن میں ختم ہوتی ہیں۔یہ نسلوں میں بنتی اور بگڑتی ہیں۔خاص طور پر عفت و عصمت کی مضبوط قدر کسی سوسائٹی میں اس قدر آسانی سے ختم نہیں ہوتی۔ پہلے مرحلے پر انسان میں موجود شرم وحیا کا جذبہ کمزورہوتا ہے ۔ پھر ایک وقت آتا ہے جب عفت و عصمت کی قدرلوگوں کی نگاہوں میں بے وقعت ہوجاتی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ عمل شروع ہوچکا ہے۔جس کے نتیجے میں آج اگر یہاں سے حیا رخصت ہو رہی ہے تو لازمی ہے کہ کل یہاں سے عصمت و پاک دامنی کا جنازہ بھی اٹھے گا۔

تہذیبوں کے تصادم میں حیا کا میدان ہی وہ جگہ ہے جہاں ہمیں سب سے زیادہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ان وجوہات کا جائزہ لیا جائے جن کی بنا پر مغرب کے تہذیبی سیلاب کے سامنے ہماری یہ بنیادی قدر خطرے میں پڑچکی ہے۔ہمارے نزدیک یہ وجوہات درج ذیل ہیں۔

مغربی میڈیا کی یلغار

مغرب نے صنعتی دور کے آغاز پر اپنی مشینی قوت کے سہارے اہل مشرق کی طاقت کو زیر و زبر کرکے ان کی زمین پر قبضہ کیا تھا۔ آ ج انفارمیشن ایج کے آغاز پر وہ میڈیا کے بل بوتے پر مشرقی اذہان و تہذیب کو مفتوح کررہا ہے۔مغرب کی پہلی یلغار اہل مشرق کے وسائل پر قبضے کے لیے تھی۔اس کی دوسری یلغار بھی بلاشبہ مادی منفعت کے کئی پہلو لیے ہوئے ہے ، مگر اب اسے یہ زعم بھی ہے کہ اس نے انسانیت کی معراج کو چھو لیا ہے۔یہ بات کئی اعتبارات سے ٹھیک بھی ہے ، مگر معاشرت کے میدان میں اہل مغرب نے کچھ نہیں کیا سوائے اس کے کہ انسان کو دو پاؤں پر چلنے والے حیوان کے مقام پر پہنچادیا۔اب وہ یہ چاہتا ہے کہ باقی دنیا بھی اس کے اس نقطۂ نظر کو قبول کرلے۔

اس معاملے میں مغربی فکر نے جو کچھ ٹھوکر کھائی ، اسے ہم اوپر بیان کر چکے ہیں اور وہ نظری میدان میں ہمیں شکست بھی نہیں دے سکتا، مگر اب میڈیا کے سہارے یہ بغیر کسی بحث ومکالمے کے عملاََ ہمارے ہر فرد کو اپنا اسیر بنارہی ہے۔یہ ٹھوکر کھائی ہوئی تہذیب ہمارے گھروں پر دستک ہی نہیں دے رہی ، بلکہ ہمارے بیڈ روم میں بھی داخل ہوچکی ہے۔ یہ تہذیب اپنی اقدار ، روایات ، آداب اور اخلاق فلم، ٹی وی، رسالوں اور انٹرنیٹ کے ذریعے سے معاشرے کے ہر طبقے تک پہنچارہی ہے۔

آج صورت حال یہ ہے کہ لوگ سستی تفریح کے حصول کے لیے مغربی میڈیا کو اپنے گھروں میں آنے دیتے ہیں ، مگر اس کے ساتھ عریانیت اور فواحش لوازم کے طور پر گھروں میں داخل ہوجاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ دیکھنے والوں کے دل و دماغ کو آلودہ کرنا شروع کرتے ہیں۔ ان کی آنکھوں سے حیا رخصت ہوتی ہے۔عصمت و پاک دامنی اپنی وقعت کھودیتی ہے۔کسی نادیدنی پر پہلے پہل چینل بدلے جاتے ہیں۔پھر یہ امر زحمت اور وہ منظر معمولی لگنے لگتا ہے۔آخر کار باپ بیٹی، بہن بھائی سب یکساں طور پر ’تہذیب یافتہ‘ ہوجاتے ہیں۔اکبر نے گوتہذیب کے حوالے سے بات کسی اورموقع کے لیے کہی تھی ، مگر یہاں اسے دہرانا بے محل نہ ہوگا:

خدا کے فضل سے بیوی میاں دونوں مہذب ہیں

حیا اِن کو نہیں آتی اُنھیں غصہ نہیں آتا

اس سلسلے میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی بالعموم ایک حد ہوتی ہے۔ انٹر نیٹ جہاں زمان ومکان کے دیگر حدود سے ماورا ہے ، حیا کی پامالی میں بھی اس کے حدود و ثغور کی کوئی انتہا نہیں۔ اس کے مثبت استعمال بلا شبہ بہت ہیں ، مگر جس قوم میں مطالعہ کا رواج نہ ہونے کے برابر ہو ، وہاں انٹر نیٹ کے فروغ کی ایک بنیادی وجہ ہر طرح کے جنسی مواد تک باآسانی رسائی ہی محسوس ہوتی ہے۔

ایسے ماحول میں ممکن ہے کہ موجودہ نسل کے افرادکی اقدار نہ بدلیں، مگر اگلی نسلیں حیا اور عفت کو چھوڑ کر مغربی اقدار نہ اپنائیں ،ایسا ہونا ناممکنات میں سے ہے۔

نکاح میں تاخیر

ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ جنس کا جذبہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنی حکمت کے تحت انسانوں میں رکھا ہے۔تاہم اس کی تسکین کاایک جائز راستہ نہ صرف اس نے مقرر کیا ہے ، بلکہ معاشرے میں نکاح کے فروغ کی بڑی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔سورۂ نساء اور سورۂ نور کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو یہ چاہتے ہیں کہ معاشرے کا کوئی فرد بھی غیر شادی شدہ نہ رہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں کہ اس معاملے میں انسان کے بھٹکنے کا امکان کتنا ہے۔جس معاشرے کے نوجوانوں کی اکثریت غیر شادی شدہ ہو وہاں زنا کے فروغ کے لیے ایک بنیاد پہلے ہی سے موجود ہوتی ہے ۔یہ نہ بھی ہو تو معاشرے میں شہوانی افکارو اعمال کا پھیلنا لازمی ہے۔

بدقسمتی سے ہماری سوسائٹی اس معاملے میں ایک ناقابل رشک صورت حال کا شکار ہے۔معاشرتی رسوم اور معاشی مسائل نے شادی کو بہت مشکل بنادیا ہے۔اب تو مغربی نقطۂ نظر کے تحت لوگوں میں یہ ذہن عام ہوچکا ہے کہ شادی پختہ عمر تک پہنچ کر ہی کرنی چاہیے، کم عمر لوگ اس ذمہ داری کو نہیں اٹھاسکتے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ وقت پر شادی نہ ہونے سے ہمارے معاشرے میں حیا اور عفت کی اقدار بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔ ایک طرف مغربی میڈیا کی پھیلائی ہوئی شہوانیت اور دوسری طرف اپنی فطری تسکین سے محروم غیر شادی شدہ لوگوں کی کثرت۔ نتیجہ بالکل واضح ہے۔لوگ بے راہ روی کا شکار نہ بھی ہوں تب بھی حیا کا فطری جذبہ ان کے اندر کمزور اور عصمت و عفت ان کی نگاہ میں بے وقعت سی ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگ شادی کے بعد بھی اپنی نگاہ اور ذہن کو آلودگی سے نہیں بچاپاتے اور نہ وہ اس کی ضرورت ہی محسوس کرتے ہیں۔

مرد و زن کا بے حجابانہ اختلاط

ہمارے زوال پز یر معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ یہ صنعتی اور اطلاعی دور میں بیک وقت داخل ہوا ہے۔چنانچہ انفارمیشن ایج کے نقصان دہ پہلووں کے ساتھ ساتھ صنعتی دور کے بعض ان مسائل سے بھی ہمارا سامنا ہے ، جنھیں مغرب نے انیسویں صدی میں بھگتا تھا۔

صنعتی دور کے معاشی تقاضوں اور اطلاعی دور کی نئی اقدار کی بنا پر خواتین تیزی سے گھروں سے نکل کر مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کے ہر میدان میں حصہ لے رہی ہیں۔مخلوط نظام تعلیم ہمارے ہاں تیزی سے عام ہورہا ہے ۔سماجی تقریبات اب کلی طور پر مخلوط ماحول میں منعقد کی جارہی ہیں ۔ دفتروں میں بھی خواتین کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

مرد و زن کا یہ اختلاط جن حالات میں ہورہا ہے ان میں سے کچھ کی طرف ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں۔کچھ ایسی چیزیں بھی معاشرے میں فروغ پارہی ہیں جن کا ذکر ہم اوپر مغرب کے بگاڑ کی عملی وجوہات کے ضمن میں بیان کرچکے ہیں۔ان سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم مرد و زن کے اختلاط کے ان احکام سے سرے سے واقف ہی نہیں جو ہمارے مذہب نے ہمیں دیے ہیں۔اس میں جو کردار اہل مذہب کا ہے ، ہم اس کے حوالے سے کچھ معروضات آگے پیش کریں گے ، مگر ان سب کا یہ لازمی نتیجہ نکلے گا کہ معاشرے میں حیا کی لرزتی دیواریں زیادہ عرصہ تک عصمت کے بھاری بوجھ کو نہیں اٹھاسکیں گی۔مرد و زن کی دوستی، ڈیٹنگ، چیٹنگ، لو افےئر ، ویلنٹائن ڈے وغیرہ معاشرے کی نئی اقدار بن رہی ہیں۔یہ اقدار جب بنتی ہیں تو حیا اور عفت کے ستونوں کو زمیں بوس کرکے ان کے ملبہ ہی پر وجود میں آتی ہیں۔یہی مغرب میں ہوا اور یہی ہمارے ہاں ہوگا۔

اہل مذہب کا غلط رویہ

ہمارے ہاں اہل دین کا یہ بڑا مسئلہ بن گیا ہے کہ جب وہ دین بتانے جاتے ہیں تو چند ہی چیزوں کو بنیاد کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ٹوپی، داڑھی، برقع وغیرہ اس معاشرے میں تقوے کی ایسی محکم اساسات بن چکی ہیں کہ ان کا تارک ایمان کے آخری مقام پر بھی کھڑا ہوگا تو بے دین کہلائے گا اور ان کا عامل اخلاق و معاملات کی ہر گندگی میں لتھڑا ہونے کے باوجود بندۂ مومن کے لقب سے شادمان کیا جائے گا۔ اسی پس منظر میں مغربی تہذیب کے فروغ کا سارا نزلہ خواتین کی بے پردگی ہی پر گرتا ہے۔وہ جب بھی بھولے بھٹکے دین کی طرف مائل ہوتی ہیں تو پہلا مطالبہ برقع پہننے کا ہوتا ہے۔پھر اس کے ساتھ دینی مطالبات کی ایسی فہرست سامنے آتی ہے کہ جس پر عمل کرنا انھیں انگاروں پر چلنے سے کم مشکل محسوس نہیں ہوتا۔

حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کے ایک عام فرد سے شرم و حیا کے وہ مطالبات منوانا جن کا ذکر آج اہل مذہب کی طرف سے ہوتا ہے ، بہت مشکل ہے۔ عورت صرف گھر میں رہے، گنتی کے چند محرم رشتہ داروں کے سوا کسی کے سامنے نہ آئے ، چہرہ ہی نہیں آنکھیں اور ہاتھ بھی ڈھانپ کر رکھے، آواز کو بھی پردے میں رکھے اور کبھی ظاہر کرے تو اتنے سخت لہجے میں کہ سننے والے کا بلڈپریشر ہائی ہوجائے ، ایسے مطالبات ہیں جو اسٹیج سے کیے جاسکتے ہیں، کتابوں میں لکھے جاسکتے ہیں، دینی حلقوں میں بیان کیے جاسکتے ہیں ، مگر ہمارے معاشرے کے عام آدمی سے ان کا منوانا ممکن نہیں۔ ہم معذرت کے ساتھ کہیں گے کہ ایسی باتیں کرنے والوں نے گہری نگاہ سے دین کو سمجھنے کی کوشش کی ہے نہ انسانی معاشرے کو۔وہ اس معاملے میں قدیم فقہا کی آرا سے واقف ہیں نہ جدید معاشرے کی اٹھان سے ۔نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے پر ان کے بے پناہ اثر کے باوجود ان کی باتوں کو معاشرے کی محدوداقلیت کے سوا کوئی سننے کے لیے تیار نہیں ۔

یہاں یہ اطمینان رکھنا چاہیے کہ دین نے جو احکام اس ضمن میں دیے ہیں وہ ہر دور میں قابل عمل ہیں۔ہم ان کی تفصیل اوپر بیان کرچکے ہیں۔ انھیں اختیار کرنے سے معاشرت متاثر ہوتی ہے نہ دور جدید کے پیدا کردہ بعض تقاضوں میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ ہمارا معاشرہ ابھی اتنا نہیں بگڑا کہ دین کی حقیقی تعلیمات اختیار کرنا اس کے لیے بہت مشکل ہوگیا ہو۔البتہ اس میں تدریج کا خیال رکھنا چاہیے۔پہلے مرحلے ہی پرمردوزن کے اختلاط سے متعلق احکام منوالینا اور انھی پر زور دینا اصلاح کا درست راستہ نہیں ہے ۔ صحیح دینی تصورات، آخرت کی محبت اور قرآن کے ذریعے سے لوگوں کو سچا خدا پرست بنانا اہل دین کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے ۔ جب لوگوں میں ایک حد تک ایمانی شعور پیدا ہوجائے گا تو وہ خود ہی دین کے احکام قبول کرلیں گے۔اس کے برعکس ان ناممکن العمل مطالبات کا سلسلہ جاری رکھا گیا یا حقیقی احکام کو بھی پہلا دینی مطالبہ بنایا گیا تو دین کے قریب کرنے کے بجائے ہم لوگوں کو دین سے دور کرنے کا سبب بن جائیں گے۔

صحت مند تفریح کا فقدان

ہمارے معاشرے کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ یہاں لوگوں بالخصوص نوجوانوں کے لیے کسی قسم کی صحت مند تفریح کی فراہمی کسی کا مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ نوجوانی کے زمانے میں انسان کی توانائیاں نقطۂ عروج پر ہوتی ہیں۔ انھیں مثبت انداز میں استعمال کرنا ان کی شخصیت کے ارتقا اور ذہنی نشوونما کے لیے بے حد ضروری ہوتا ہے۔جبکہ ہمارے ہاں ان کھیلوں کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں جو ان کی توانائیاں نچوڑ لیں اور انھیں نڈھال کرڈالیں۔اسی طرح مطالعے کی وہ روایت بھی یہاں موجود نہیں جو انسان کو اعلیٰ درجے کی ذہنی تفریح فراہم کرسکتی ہے ۔ لے دے کے جو سب سے بڑی تفریح بچتی ہے وہ الیکٹرانک میڈیا سے محظوظ ہونا ہے۔اس سلسلے میں مغربی میڈیا کے علاوہ ہمارے اپنے مقامی میڈیا کا کردار بھی انتہائی منفی ہے۔ابلیس نے آدم کے ساتھ جو کچھ کیا ، وہ حسد میں آکر کیا تھا۔میڈیا کے لوگ اپنے مالی مفادات کے خاطرابن آدم کے ساتھ یہی کچھ کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ انسان کے صنفی جذبات کو بھڑکا کر ، اس کے جذبۂ ہوس کی تسکین کرکے، اس کی نگاہوں کو آلودگی کے اسباب مہیا کرکے اپنے ناظرین کی تعداد بڑھاتے ہیں۔جو آخرکار ان کی آمدن میں اضافے کا سبب بن جاتاہے۔

میڈیاکی فراہم کردہ اس واحد تفریح سے متاثر ہوکر ، جس کا تعلق جنس ہی سے ہوتا ہے،جو واحد عملی جدوجہد ایک نوجوان کرتا ہے ، وہ اکثر و بیشتر رومانس کے میدان میں ہوتی ہے۔یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ اس جدو جہد میں جو چیز سب سے پہلے قدموں تلے آکر کچلی جاتی ہے ، وہ حیا اور عفت کی اقدار ہی ہیں۔

تربیت کے نظام کا ختم ہوجانا

مذکورہ بالا حالات کو زیادہ سنگین بنانے والی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں انسانوں کی تربیت کے وہ تمام ادارے کم و بیش معطل ہوچکے ہیں جو معاشرے کی اقدار و روایات کو اگلی نسلوں تک پہنچاتے اور ان کے تحفظ کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔اس سلسلے کی سب سے بنیادی ذمہ داری والدین کی ہے، مگر ہمارے ہاں خود والدین ،الا ماشاء اللہ، غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں تو وہ بچوں کی تربیت کیا کریں گے۔ عام طور پربچوں کواچھاکھلا نا ، پہنانا ،گھمانااور کسی انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم دلانا ہی ماں باپ کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔جس کے بعد والدین کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی۔بچے اپنے تمام تر فارغ وقت میں ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں اور وہی ان کی حقیقی تربیت کرتا ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ والدین کے علاوہ ہر خاندان اور محلے میں ایسے نیک سیرت بزرگ ہوا کرتے تھے جن کی صحبت میں سب لوگ اعلیٰ اخلاق کی تربیت حاصل کیا کرتے تھے۔ جدید دور میں ایسے بزرگ اب ناپید ہیں۔ اسی طرح اچھے دنوں میں استاد بننا پیشہ نہیں ایک مشن ہوتا تھا۔اساتذہ لوگوں کی زندگیوں پر اپنی تربیت کے ان مٹ نقوش ثبت کیا کرتے تھے ، مگر اب حال یہ ہے کہ اساتذہ تعلیم دینے کی اپنی ذمہ داریاں بھی پوری طرح ادا نہیں کرتے اور والدین کو اسکول کے ساتھ ٹیوشن کا انتظام کرنا پڑتا ہے ۔ ایسے میں تربیت جیسے بھاری بوجھ کو اٹھانا اسکول کے ان ’ملازموں‘کے لیے کیسے ممکن ہے؟

معاشرتی اقدار کے تحفظ کی آخری ذمہ داری حکومت کے سر ہوتی ہے، مگر ہمارے ہاں حکومتیں صحت، روزگار اور تعلیم جیسی بنیادی ذمہ داریوں میں دلچسپی نہیں لیتیں تو اقدار کے تحفظ پر ان کی کیا توجہ ہوگی؟ اس معاملے میں زیادہ بڑامسئلہ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں اہل اقتدار کی پرداخت مغربی اقدار ہی کے تحت ہوتی ہے۔یہ خود اس بات کے خواہش مند ہیں کہ مغربی اقدار معاشرے میں فروغ پائیں۔ چنانچہ ان سے اپنی اقدار کے تحفظ کی توقع ایسے ہی ہے جیسے بلی کو دودھ کی رکھوالی کے لیے مقرر کیا جائے۔

مسئلہ کا حل

سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا کیا حل ہے؟عصرِ حاضر میں دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے ۔ ہم شتر مرغ کی طرح اپنا سر ریت میں چھپاکر مغربی تہذیبی یلغار کو نہیں روک سکتے۔ نہ مغربی تہذیب کے خلاف پروپیگنڈا کرکے اپنے لوگوں کو اس کی برائی سے بچایا جاسکتا ہے۔ظاہر پرستانہ دین داری بھی اس سیلاب کے آگے بند نہیں باندھ سکتی۔

ہمارے نزدیک اس مسئلہ کا واحد حل لوگوں کے سامنے آخرت کی نجات اور دنیا میں تزکےۂ نفس کا وہ نصب العین رکھنا ہے جو دین نے ان کے لیے مقرر کیا ہے۔ ہمارے دینی تصورات کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان میں دین کا نصب العین تبدیل ہوکر رہ گیا ہے۔ظاہر پرستی کے اس دور میں کوئی فرد کے ظاہری حلیے کی تبدیلی کو مقصد دین سمجھتا ہے اور کوئی حکومت و اقتدار کی سطح پر اسلامی سزاؤں کے نفاذ کو فرد کی تگ و دو کا محور بنادیتا ہے۔ حالانکہ دین اس معاملے میں بالکل صریح ہے کہ آخرت میں نجات کے لیے اس دنیا میں فرد کو جو چیز حاصل کرنی ہے ، وہ اپنے نفس کی پاکیزگی ہے۔ ناپاک لوگوں کا انجام جہنم کا کوڑا خانہ ہی ہوگا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’کامیاب ہوا جس نے نفس کو پاک کیا اور نامراد ہوا جس نے اس کو آلودہ کیا۔‘‘ (الشمس۹۱: ۹۔۱۰)
’’بے شک وہ کامیاب ہوا جس نے خود کو پاک کیا ۔‘‘ (الاعلیٰ۸۷: ۱۴)
قرآن بیان کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد نفوس انسانی کا تزکیہ تھا اور اسی لیے دین و شریعت کی ساری تعلیمات دی گئی ہیں۔ (الجمعہ ۶۲: ۳)

چنانچہ ضروی ہے کہ لوگوں کے دل و دماغ میں اس حقیقت کو راسخ کیا جائے کہ ان کی نجات اپنے نفس کو پاکیزہ بنانے میں ہے۔آخرت کی کامیابی اس کے بغیر ممکن نہیں۔ انسان کا ذہن، دل، دماغ اور نگاہ اگر آلودہ ہو، ہوس کی اسیر ہو، شہوت کی غلام ہو،نفسانیت میں لتھڑی ہو تو ایسا شخص اس قابل نہیں رہتا کہ وہ جنت کی ابدی بادشاہت میں داخل کیا جائے۔جس شخص میں آخرت کی کامیابی کا شوق پیدا ہوجائے اور وہ اس کے حصول کا راستہ جان لے ، وہ مغرب کی آغوش میں رہ کر بھی پاکیزہ زندگی گزارے گا اور جس شخص کے سامنے یہ نصب العین نہیں آیا ، وہ سات پردوں میں رہ کر بھی اپنے نفس کو آلودہ کردے گا۔

____________

B