بسم اللہ الرحمن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ )
ھُوَا لَّذِیْ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ، مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ، ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ، وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌ، فَاَمَّاالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ، فَیَتَّبِعُوْنَ مَاتَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ، وَابْتِغَآئَ تَاْوِیْلِہٖ، وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗ اِلَّا اللّٰہُ، وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ: اٰمَنَّا بِہٖ ، کُلٌّ مِّنْ عِنْدِرَبِّنَا، وَمَا یَذَّکَّرُاِلَّا اُولُواا لْاَلْبَابِ{۷} رَبَّنَا ، لَاتُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا ، وَھَبْ لَنَامِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً ، اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ{۸} رَبَّنَا، اِنَّکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لَّارَیْبَ فِیْہِ ، اِنَّ اللّٰہَ لَایُخْلِفُ الْمِیْعَادَ {۹}
وہی ہے۵ جس نے تم پر یہ کتاب اتاری ہے جس میں آیتیں محکم بھی ہیں جو اِس کتاب کی اصل بنیاد ہیں ۶ اور (اِن کے علاوہ) کچھ دوسری متشابہات بھی ہیں ۔ ۷ سو جن کے دل پھرے ہوئے ہیں، ۸ وہ اِن میں سے ہمیشہ متشابہات کے درپے ہوتے ہیں، اِس لیے کہ فتنہ پیدا کریں اور اِس لیے کہ اُن کی حقیقت معلوم کریں، ۹ دراں حالیکہ اُن کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ۱۰ (اِس کے بر خلاف) جنھیں اِس علم میں رسوخ ہے ، ۱۱ وہ کہتے کہ ہم اِنھیں مانتے ہیں، یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے، اور ( حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح کی چیزوں کو) وہی سمجھتے ہیں جنھیں اللہ نے عقل عطا فرمائی ہے ۔ ۱۲ ( وہ کہتے ہیں) : پروردگار، تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے تو اِس کے بعد اب تو ہمارے دل نہ پھیر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما۔ لا ریب، تو ہی عطا فرمانے والا ہے۔ پروردگار ، تو یقیناً سب لوگوں کو ایک ایسے دن میں جمع کر کے رہے گا جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ اللہ اپنے وعدوں کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔۱۳ ۷۔۹
۵؎ یعنی وہی عزیز وحکیم اور حی وقیوم جس کی ان صفات کا تقاضا تھا کہ وہ یہ کتاب اتارے اور اس کے ذریعے سے اتمام حجت کے بعد اس کے منکروں کو سزا دے۔
۶؎ لفظ محکم یہاں متشابہ کے مقابل میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی وہ آیتیں جن میں ایسے حقائق بیان کیے گئے جنھیں سمجھنا انسان کے لیے ممکن ہے، جو اس کے علم وعقل سے ماورا نہیں ہیں اور جن کی تہ تک پہنچنے کی صلاحیت اس کی فطرت میں ودیعت ہے۔ قرآن کی زیادہ تر آیتیں یہی ہیں اور انھی پر اس کی ہدایت کا مدار ہے۔ قرآن نے اسی بنا پر انھیں ام الکتاب، یعنی کتاب کی اصل بنیاد قرار دیا ہے۔
۷؎ اس سے مراد وہ آیتیں ہیں جن میں آخرت کی نعمتوں اور نقمتوں میں سے کسی نعمت یا نقمت کا بیان تمثیل اور تشبیہ کے انداز میں ہوا ہے یا اللہ تعالیٰ کے صفات و افعال اور ہمارے علم او رمشاہدے سے ماورا اس کے کسی عالم کی کوئی بات تمثیلی اسلوب میں بیان کی گئی ہے، مثلاً آدم میں اللہ تعالیٰ کا اپنی روح پھونکنا یا سیدنا مسیح علیہ السلام کا بن باپ کے پیدا کرنا یا جنت اور جہنم کے احوال ومقامات وغیرہ۔ وہ سب چیزیں جن کے لیے ابھی الفاظ وجود میں نہ آئے ہوں ، انھیں تمثیل اور تشبیہ کے اسلوب ہی میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ کسی نادیدہ عالم کے حقائق دنیا کی سب زبانوں کے ادب میں اسی طرح بیان کیے جاتے ہیں۔ آج سے دو صدی پہلے ہم میں سے کوئی شخص اگر مستقبل کا علم پا کر بجلی کے قمقموں کا ذکر کرتا تو غالباً اسی طرح کرتا کہ دنیا میں ایسے چراغ جلیں گے جن میں نہ تیل ڈالا جائے گا اور نہ انھیں آگ دکھانے کی ضرورت ہو گی۔ متشابہ آیات کی نوعیت بالکل یہی ہے ۔ وہ نہ غیر متعین ہیں اور نہ ان کے مفہوم میں کوئی ابہام ہے۔ ان کے الفاظ عربی مبین ہی کے الفاظ ہیں اور ان کے معنی بھی ہم بغیر کسی تردد کے سمجھتے ہیں۔ ہاں ، یہ ضرور ہے کہ ان کی حقیقت ہم اس دنیا میں نہیں جان سکتے، لیکن اس جاننے یا نہ جاننے کا قرآن کے فہم سے چونکہ کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے کسی صاحب ایمان کو اس کے درپے بھی نہیں ہونا چاہیے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’ یہ باتیں جس بنیادی حقیقت سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں ، وہ بجائے خود واضح اور مبرہن ہوتی ہے ، عقل اس کے اتنے حصے کو سمجھ سکتی ہے جتنا سمجھنا اس کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔ البتہ چونکہ اس کا تعلق ایک نادیدہ عالم سے ہوتا ہے ، اس وجہ سے قرآن ان کو تمثیل و تشبیہ کے انداز میں پیش کرتا ہے تاکہ علم کے طالب بقدر استعداد ان سے فائدہ اٹھالیں اور ان کی اصل صورت و حقیقت کو علم الہٰی کے حوالہ کریں ۔ یہ باتیں خدا کی صفات و افعال یا آخرت کی نعمتوں اور اس کے آلام سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں ۔ ان کا جس حد تک ہمارے لیے سمجھنا ضروری ہے ، اتنا ہماری سمجھ میں آ جاتا ہے اور اس سے ہمارے علم و یقین میں اضافہ ہوتا ہے ، لیکن ہم اپنی حد سے آگے بڑھ کر ان کی اصل حقیقت اور صورت کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کریں تو یہ چیز فتنہ بن جاتی ہے اور اس کا نتیجہ صرف یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنے ذہن سے شک کا ایک کانٹا نکالنا چاہتا ہے اور اس کے نتیجے میں بے شمار کانٹے اس کے اندر چبھا لیتا ہے ۔ یہاں تک کہ اس نایافتہ کی طلب میں اپنی یافتہ دولت کو بھی ضائع کر بیٹھتا ہے اور نہایت واضح حقائق کی اس لیے تکذیب کر دیتا ہے کہ ان کی شکل و صورت ابھی اس کے سامنے نمایاں نہیں ہوئی۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۲۵)
۸؎ اصل میں لفظ ’ زیغ‘ استعمال ہوا ہے ۔ اس کے معنی جھکنے اور مائل ہونے کے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’یہ لفظ بیک وقت دو مفہوموں کا حامل ہے: ایک کجی اور دوسرے سقوط۔ کوئی چیز جو کھڑی ہو جب جھک جاتی ہے تو گرنے سے قریب ہو جاتی ہے۔ یہ حالت اس رسوخ کے برعکس حالت ہے جو اس آیت میں ’ راسخون فی العلم‘ کی بیان ہوئی ہے۔
یہ زیغ یوں تو اہل ضلالت کی عام بیماری ہے ، لیکن اہل کتاب اس مرض میں سب سے زیادہ شدت کے ساتھ مبتلا رہے ہیں۔ یہود کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ شروع ہی سے اس بیماری میں مبتلا رہے ، اور ان کے زیغ کا یہ پہلو خاص طور پر نہایت سنگین ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کی موجودگی میں اس میں مبتلا رہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کے سبب سے خدا کے غضب میں مبتلا ہوئے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۳۰)
۹؎ یہود ونصاریٰ کی گمراہی کی طرف اشارہ ہے۔ ان کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود فتنہ پیدا کرنے سے زیادہ دل چسپی رکھتے تھے اور نصاریٰ متشابہ آیات کی حقیقت جاننے سے۔ استاذ امام کے الفاظ میں یہ گمراہیاں چونکہ دنیا کے تمام گمراہوں میں مشترک ہیں، اس وجہ سے قرآن نے اسلوب بیان عام ہی رکھا ہے تاکہ کلام میں وسعت پیدا ہو سکے، یہود ونصاریٰ کی تخصیص نہیں کی۔ لیکن قرآن کا ذوق رکھنے والے جانتے ہیں کہ اشارہ انھی کی طرف ہے۔
۱۰؎ اس آیت کے بارے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ متشابہات کے معنی اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ ان کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس کے لیے اصل میں ’ تاویل‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور بالکل اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے جس مفہوم میں یہ سورۂ یوسف (۱۲) کی آیت ۱۰۰ میں آیا ہے: ’قال : یابت، ہذا تاویل روء یای من قبل، قد جعلہا ربی حقاً‘ ( اس نے کہا: ابا جان، یہ ہے میرے اس خواب کی حقیقت جو میں نے اس سے پہلے دیکھا تھا، میرے پروردگار نے اسے سچ کر دکھایا ہے)۔یہ خواب جن لفظوں میں قرآن نے بیان کیا ہے، ان کے معنی ہر شخص پر واضح ہیں۔ عربی زبان کا ایک عام طالب علم بھی سورئہ یوسف کی اس آیت کا مفہوم ، جس میں یہ خواب بیان ہوا ہے، بغیر کسی دقت کے سمجھ لیتا ہے۔ لیکن سورج اور چاند اور ان گیارہ ستاروں کا مصداق کیا تھا جنھیں یوسف علیہ السلام نے اپنے آپ کو سجدہ کرتے دیکھا، اس سے پوری قطعیت کے ساتھ کوئی شخص اس وقت تک واقف نہیں ہو سکتا تھا، جب تک یہ مصداق اپنی اصل صورت میں لوگوں کے سامنے نہ آ جاتا۔ متشابہ قرآن نے انھی چیزوں کو کہا ہے۔ اس کے معنی، جس طرح کہ لوگ بالعموم سمجھتے ہیں، مشتبہ اور مبہم کے نہیں ہیں کہ اس سے قرآن کی یہ حیثیت کہ وہ حق وباطل میں امتیاز کے لیے فرقان ہے، کسی حیثیت سے مجروح ہو۔
۱۱؎ یعنی جن کے دلوں میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے، جو انسان کے حدود کو سمجھتے اور اسی کے مطابق اپنے علم کے حدود متعین کرتے ہیں۔
۱۲؎ یعنی جو لوگ علم میں رسوخ کے حامل ہیں، وہ محکمات اور متشابہات، دونوں کو اپنے پروردگار کا عطیہ سمجھتے اور دونوں پر یکساں ایمان رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عقل رکھتے ہیں اور اس عقل سے صحیح طور پر کا م بھی لیتے ہیں۔
۱۳؎ درحقیقت یہی یقین ہے جو انھیں ہر زہ گردی سے بچا کر ہمیشہ جادۂ مستقیم پر پابرجارکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں ان کے رسوخ فی العلم کا باعث بنتا ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــ