(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: ۱۱۶)
عن نافع أن رجلا أتی ابن عمر. فقال: إن فلانا یقرأ علیک السلام. فقال: إنہ بلغني أنہ قد أحدث، فإن کان أحدث فلا تقرۂ مني السلام. فإني سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقول: یکون في أمتي أو في ہذہ الأمۃ خسف أو مسخ أو قذف في أہل القدر.
’’حضرت نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور اس نے کہا: فلاں آدمی نے آپ کو سلام بھیجا ہے۔ انھوں نے کہا: مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اس نے دین میں نئی بات نکالی ہے۔ پھر اگر اس نے واقعی نئی بات نکالی ہے تو میری طرف سے اسے سلام نہ پہنچانا۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: میری امت میں یا اس امت میں زمین میں دھنسنے یاشکلوں کے بگڑنے یا سنگ باری (کے عذاب) اہل قدر پر آئیں گے۔‘‘
أحدث : نئی بات نکالی ۔ یعنی دین میں بدعت پیدا کی۔ کسی ایسی رائے یا عمل کو دین قرار دینا جو دین میں نہ ہو۔
خسف : زمین میں دھنسنا۔یہ پچھلی قوموں پر آنے والے عذابوں میں سے ایک ہے۔
مسخ : شکلوں کا بگڑ جانا ۔ جیسے یہود میں سے ایک گروہ کو بندر بنا دیا گیا تھا۔
قذف: سنگ باری ہونا۔ یعنی ایسے طوفان کا آنا جس میں ہوا پتھروں کو اٹھالائے اور کسی قوم پر برسا دے۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے عذابوں میں سے ایک ہے۔
یہ روایت ابن ماجہ سے لی گئی ہے۔ یہ پیش نظر نسخے کی روایت اور مشکوٰۃ میں ثبت روایت میں بعض لفظی فرق ہیں اور اس وجہ ابن ماجہ کے مختلف نسخوں میں فرق ہے ۔ ترمذی میں اس روایت کے دو متن ہیں ۔ ایک متن میں محض لفظی فرق ہے ۔ محولہ روایت میں پہلا جملہ: ’ حدثنی أن ابن عمر جاء ہ رجل ‘ کے الفاظ میں ہے، جبکہ ترمذی میں یہ جملہ ’ أن ابن عمر جاء ہ رجل‘ کے الفاظ میں ہے۔ اسی طرح اس روایت میں امت والے جملے میں راوی کا تردد محض دو متبادل جملوں کے نقل کرنے سے ظاہر کیا گیا ہے، جبکہ ترمذی میں اس کے لیے ’ الشک منہ ‘ کے الفاظ لکھ دیے گئے ہیں۔
دوسرے متن میں سلام نہ بھیجنے والے واقعے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ صرف مکذبین قدر کے لیے خسف ومسخ کی سزا کا ذکر ہوا ہے۔ ایک تبدیلی یہاں بھی ہے اور وہ یہ کہ اس میں قذف کا ذکر نہیں ہے۔
ابوداؤد کا متن اس روایت سے بالکلیہ مختلف ہے ۔ ابوداؤد کی مکمل روایت حسب ذیل ہے:
عن نافع قال: کان لإبن عمر صدیق من أہل الشام، یکاتبہ. فکتب إلیہ عبد اﷲ بن عمر إنہ بلغني أنک تکلمت فی شيء من القدر. فإیاک أن تکتب إلی فإني سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقول: إنہ سیکون في أمتي أقوام یکذبون بالقدر.(ابوداؤد، رقم ۳۹۹۷)
’’ حضرت نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ایک شامی دوست تھا۔ ان کے مابین خط کتابت ہوتی تھی۔ ایک موقع پر عبد اللہ بن عمر نے اسے لکھا: مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ تم نے تقدیر کے بارے میں کچھ (شک ) ظاہر کیا ہے۔ (آیندہ ) مجھے خط لکھنے سے پرہیز ہی کرنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے : جلد ہی میری امت میں ایسے لوگ (پیدا) ہوں گے جو تقدیر کا انکار کریں گے۔‘‘
یہ روایت اصل معلوم ہوتی ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ صاحب مشکوٰۃ نے اس روایت کو کیوں ترجیح نہیں دی ۔ قرین قیاس یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار تقدیر کے بارے میں صرف اتنی بات ہی کہی ہو گی۔ باقی سب کچھ وقتی مناظرانہ ضرورتوں کے تحت بڑھا لیا گیا ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے شامی دوست سے متعلق بھی اسی روایت کی بات ہی درست معلوم ہوتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس نے سلام بھیجا ہو اور ابن عمر نے سلام کے جواب سے انکاربھی کیا ہو، لیکن اگلی بات درست معلوم نہیں ہوتی۔
اس روایت کے دو حصے ہیں۔ ایک حصے میں یہ بیان ہوا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کو کسی نے سلام بھیجا تو انھوں نے اسے جواب میں سلام نہیں بھیجا۔ اس لیے کہ انھیں معلوم ہوا تھا کہ وہ تقدیر پر ایمان میں شکوک و شبہات ظاہر کرتا ہے۔دوسرے حصے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے استشہاد کی حیثیت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قول نقل ہوا ہے۔
سلام اور اس کا جواب نہ دینے کاعمل، ابن عمر کی طبعی شدت کا ایک مظہر ہے۔ ان کی سیرت کے مطالعے سے ان کی طبیعت کا یہ پہلو بہت نمایاں طور پر سامنے آتا ہے۔شارحین نے اس کی تصویب کی ہے اور اسے بدعتی سے عدم تعلق کے تحت لیا ہے۔ یہ بات کہ بدعتی سے سلام کا تعلق بھی منقطع کر لیا جائے ، محل نظر ہے۔ہمارے علم کے مطابق تقدیر کے بارے میں یہ بحثیں دور صحابہ ہی میں شروع ہو گئی تھیں۔ ان لوگوں کے ساتھ یقیناًدوسرے صحابہ کو بھی واسطہ پڑا ہے، لیکن اس طرح کا ردعمل کسی دوسرے صحابی کی نسبت سے بیان نہیں ہوا۔مزید یہ کہ تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں یہ بحثیں زیادہ شدت سے ہوئیں اور علما نے ان لوگوں سے مقاطعہ کی روش نہیں اپنائی۔حقیقت یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص اللہ تعالیٰ، آخرت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا اور کتاب وسنت کو دین کا ماخذ مانتا ہے ، اس سے مقاطعے کا کوئی جواز نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس طرزعمل کی مثالیں تو شاید ہمیں ہر دور میں مل جائیں ، لیکن امت نے بحیثیت جماعت اسے کبھی اختیار نہیں کیا۔
منکرین تقدیر کے لیے عذاب کی پیش گوئی الگ بھی روایت ہوئی ہے اور اسے الگ روایت کی حیثیت سے صاحب مشکوٰۃ نے بھی نقل کیا ہے۔ روایت۱۰۶ کے تحت اس کی شرح لکھتے ہوئے ہم نے یہ واضح کیا تھا کہ یہ روایت درست معلوم نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ اس میں بیان کیے گئے جرم اور سزا میں کوئی مناسبت نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ان عذابوں کا ذکر منکرین رسالت کے حوالے سے ہوا ہے۔
اس حوالے سے تین باتیں اور بھی قابل لحاظ ہیں۔ ایک یہ کہ کچھ روایات میں یہ بیان ہوا ہے کہ خسف و قذف کے حوادث قرب قیامت میں پیش آئیں گے۔ ان روایات میں کسی خاص گروہ کی تخصیص نہیں کی گئی ، بلکہ عمومی اخلاقی زوال کو اس کا سبب بتایا گیا ہے۔اسی طرح ایک روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا بھی مذکور ہے کہ آپ نے اپنی امت سے چار عذابوں کے اٹھانے کی دعا کی تھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا دو کے حق میں قبول ہوئی۔ یعنی قذف اور خسف کی سزائیں اس امت پر نہیں آئیں گی۔ اگر یہ روایات درست ہیں تو پھر خسف وقذف کے حوالے سے زیر بحث روایت کا جملہ موزوں نہیں ہے۔ اس میں جس قطعیت کے ساتھ ان عذابوں کو منکرین تقدیر کے ساتھ خاص کیا گیا ہے ، وہ محل نظر ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ دور جس میں مرجۂ اور قدریہ گروہ بڑی شدومد سے یہ مسائل زیر بحث لارہے تھے ، گزر گیا ہے۔ منکرین قدر میں سے کسی کے ساتھ اس طرح کا کوئی حادثہ پیش نہیں آیا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی پیش گوئی کی ہو اور وہ پوری نہ ہو۔ تیسرے یہ کہ ابوداؤد کی روایت اس ساری بات کی ایک مختلف تصویر پیش کرتی ہے۔ اس میں پیشین گوئی بھی بالکل مختلف ہے ۔ وہ پیشین گوئی اپنی پوری صحت کے ساتھ پوری ہو چکی ہے۔ کیوں نہ اسی روایت کو اصل کی حیثیت سے مانا جائے اور ان اضافوں کو مناظرانہ تجاوزات کا شاخسانہ سمجھا جائے ۔
ترمذی، رقم۲۰۷۸،۲۰۷۹۔ ابوداؤد، رقم۳۹۹۷۔ ابن ماجہ، رقم۴۰۵۱۔ دارمی، رقم۳۹۳۔
____________