HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

’’قبول حق کے بعد‘‘


مصنف : نعیم احمد بلوچ،

ضخامت :۲۲۴،

قیمت :۱۵۰روپے،

ناشر: دارالتذکیر، رحمان مارکیٹ ، غزنی اسٹریٹ ، اردو بازار ، لاہور۔


انسانی تاریخ میں صحابۂ کرام نے حق پرستی کی ناقابل فراموش داستانیں رقم کی ہیں ۔ حق سامنے آ جانے کے بعد اس کے آگے سر تسلیم خم کرنے اور ظلم و ستم سہہ کر بھی اس کا ساتھ نہ چھوڑنے کی جو مثالیں انھوں نے قائم کی ہیں ، وہ حق پسندوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آوازۂ حق پر لبیک کہتے ہوئے نہ زمانے کی پروا کی، نہ مصائب سے خوف کھایا اور نہ مال و دولت اور اعزہ و اقربا کی محبت سے مغلوب ہوئے ، بلکہ نہایت عزم و استقلال کے ساتھ آپ کی پیروی میں جادۂ حق پر گام زن رہے اور اس شان سے گام زن رہے کہ پروردگار نے دنیا ہی میں انھیں اپنے راضی ہونے کی خوش خبری سنا دی ۔ جس ہستی کی اطاعت میں کھڑے ہوئے ، اس نے انھیں ستاروں کے مانند قرار دیا اور عامۃ الناس کے لیے ان کی پیروی کو کامیابی کی ضمانت قرار دیا۔ تاریخ میں ان کی عظمت اور عزیمت کی داستانیں محفوظ ہیں۔ انھیں پڑھ کر ہر خرد مند یہ پکار اٹھتا ہے کہ :

وہ حق کی ، صداقت کی تصویر تھے

وہ انساں کے خوابوں کی تعبیر تھے

زیر تبصرہ کتاب ’’قبول حق کے بعد‘‘ میں بارہ صحابۂ کرام کی داستان عزیمت بیان کی گئی ہے ۔ ان کے اسماے گرامی یہ ہیں : سیدنا ابوذر غفاری ، سیدناسعید بن عامر، سیدالشہدا حمزہ بن عبد المطلب، سیدناعمیر بن وہب، سیدنا بلال، سیدنا سلمان فارسی، سیدنا زید بن حارثہ ، سیدنا عدی بن حاتم ، سیدنا عکرمہ بن ابی الحکم ، سیدنا صہیب رومی ، سیدنا عمرو بن جموح ، سیدنا سراقہ بن مالک ۔

مصنف نے صحابہ کے ایمان افروز واقعات اور قبول حق کے پس منظر کو شخصیت پرستی اور مافوق الفطرت واقعات کی روایتی ڈگر سے ہٹ کر تاریخی حقائق کی بنیاد پر بیان کیا ہے ۔

صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم اخروی زندگی میں کامیابی کے تمنائی تھے ۔ وہ دنیوی مال و متاع کو اپنا ہدف نہیں بناتے تھے ۔ بعض صحابہ کا معاملہ اسباب دنیا سے کامل بے رغبتی کا تھا۔ سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی اسی بے رغبتی کے باعث حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ’’مسیح الاسلام‘‘ کا لقب دیا تھا۔ ان کے حوالے سے مصنف بیان کرتے ہیں :

’’مدینہ میں مسلمانوں کے سیاسی حالات کے ساتھ اقتصادی حالات بھی بتدریج بہتر ہوتے گئے ، لیکن ابو ذر رضی اللہ عنہ کا معاملہ اس کے برعکس تھا۔ وہ چونکہ اپنا بیش تر وقت مسجد نبوی میں گزارتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سے زیادہ دین سیکھنے اور اپنی تربیت کرنے کی فکر میں رہتے اس لیے ان کی مالی حالت اچھی نہ رہی۔ دراصل وہ کہا کرتے تھے کہ لوگوں نے اگر دنیا کو چنا ہے تو میں نے آخرت کو اور فقر کو اختیار کیا ہے ۔ ‘‘(۱۷)

مصنف نے سید الشہدا حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شفقت و محبت کو نہایت احسن انداز سے بیان کیا ہے ۔ انھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت تھی اور یہی محبت ان کے قبول اسلام کی بنیادی وجہ بھی بنی۔ ان کے قبول اسلام سے مظلوم مسلمانوں کو بہت تقویت ملی :

’’حضرت حمزہ کے ایمان لانے سے قبل مسلمان علانیہ نماز نہیں پڑھ سکتے تھے ، لیکن حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے واضح اعلان کر دیا کہ اگر کسی نے مسلمانوں کے راستے میں آنے کی کوشش کی تو وہ براہ راست ان سے دشمنی مول لے گا۔ ان کی اس للکار کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوا ۔‘‘ (۴۶)

زیر تبصرہ کتاب میں داستان کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے ۔ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے بارے میں پڑھتے ہوئے ان کا کردار افسانوی محسوس ہونے لگتا ہے ۔ ایک ایسا ہیرو جس کو قدم قدم پر مشکلات درپیش ہیں ، لیکن وہ ثابت قدمی سے ان کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے ۔ سیدنا سلمان فارسی ایک نہایت متمول اور مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے، لیکن حق کی جستجو میں انھوں نے بہت زیادہ مصیبتیں جھیلیں ۔ ایران سے عرب تک کے سفر میں انھوں نے پے در پے دھوکے کھائے ، ظلم سہے ، لیکن حق کی طلب کے جذبے نے انھیں کبھی مایوس نہیں ہونے دیا۔ وہ حق کی جستجو میں اپنا سب کچھ دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے:

’’ایک دن ایک شخص نے مابہ (سلمان فارسی رضی اللہ عنہ) کو بتایا کہ ایک عرب قبیلے کا تجارتی قافلہ عموریہ میں ٹھہرا ہوا ہے اور جلد ہی عرب کی طرف روانہ ہو جائے گا۔ مابہ نے اس قافلے کے متعلق معلومات حاصل کیں تو پتا چلا کہ یہ بنی کلب کا قافلہ ہے ۔ مابہ نے قافلے کے سردار سے بات کی اور کہا : ’’مجھے عرب کی سرزمین جانا ہے ، اگر تم مجھے وہاں پہنچا دو تو میں تمھیں اپنے سارے جانور دینے کو تیار ہوں ‘‘۔‘‘ ( ۱۴۱)

کتاب میں طویل ترین داستان عزیمت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی ہے ۔ قبول حق کے بعد جس قدر انھوں نے مشکلات برداشت کیں اور اس پر جس درجے کی استقامت اختیار کی ، بلاشبہ یہ انھی کا خاصا ہے ۔ ان کی ثابت قدمی اس درجے میں پہنچ گئی کہ اس کے مقابلے میں ظالموں کی ہمت جواب دے گئی :

’’...اگلا دن بلال رضی اللہ عنہ کے لیے پہلے دن سے بھی زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوا۔ پورا دن انھیں کسی بے جان پتلے کی طرح گھسیٹا اور رگیدا گیا ۔ ان کے پائے استقلال میں کوئی فرق نہ آیا۔ ان کو مارنے والے، ستانے والے ، گالیاں بکنے والے تھک جاتے ، اکتا جاتے ، مگر بلال رضی اللہ عنہ تو یوں دکھائی دیتے کہ وہ ایک پہاڑ ہیں جسے لوگ ہلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یہ سلسلہ ایک دو روز نہیں کئی دن جاری رہا اور ایک دن تنگ آ کر امیہ نے ابو جہل سے کہا : ’’اے ابوالحکم ، ہم نے اس غلام کو طرح طرح کی سزائیں دی ہیں ، لیکن نہ جانے یہ کس مٹی کا بنا ہوا ہے ۔ ٹس سے مس نہیں ہوتا ۔ اس کی استقامت تو الٹا ہماری بے عزتی کا باعث بن رہی ہے‘‘ ۔ ‘‘ (۹۲)

زیر تبصرہ کتاب میں شامل زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی داستان صحابۂ کرام کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت و عقیدت کی نہایت روشن مثال ہے ۔ سیدنا زید ایک اعلیٰ خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ انھیں بچپن میں ڈاکووں نے اغوا کر کے غلام کی حیثیت سے فروخت کر دیا تھا۔ وہ مختلف جگہوں سے ہوتے ہوئے رسول اللہ کے پاس پہنچے تھے ۔ گھر والوں نے ان کی تلاش میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ بالآخر ایک روز انھیں اطلاع ملی کہ ان کا بیٹا غلامی کی زندگی بسر کر رہا ہے ۔ وہ فوراً ان کے مالک کے پاس پہنچے اور اپنے بیٹے کی آزادی کے بدلے منہ مانگی رقم کی پیش کش کی ۔ مالک نے رقم لینے سے انکار کر دیا اور آزادی کا اختیار اپنے غلام کو دے دیا۔ غلام نے آزادی پر غلامی کو ترجیح دی اور اپنے والد کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا ۔ اس پر باپ کا دکھ اپنی جگہ صحیح تھا ، لیکن زید کی مجبوری بھی غلط نہ تھی ۔ اس موقع پر باپ اور بیٹے میں جو مکالمہ ہوا ، اسے مصنف نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے :

’’اے زید تم پر افسوس ! تم غلامی پر آزادی کو قربان کر رہے ہو؟ خدا کی قسم ، تمھاری تلاش میں کون سا ایسا پتھر ہو گا جو میں نے نہ الٹا ہو گا اور اب تم یہ کہہ رہے ہو کہ تم ان صاحب کو نہیں چھوڑ سکتے ، اپنے باپ کے ساتھ نہیں جانا چاہتے ۔
اے والد محترم ، آپ نے درست فرمایا ، لیکن میں نے ان صاحب کی ذات میں جوکچھ دیکھا ہے ، ان کو جس طرح کا خوب پایا ہے ، اس کے بعد یہ میرے بس سے باہر ہے کہ میں انھیں چھوڑ دوں۔‘‘ (۱۵۴)

زیر تبصرہ کتاب دراصل تاریخ عالم کے ایک نہایت اہم باب کو بیان کر رہی ہے ، لیکن مصنف نے دیگر تاریخی کتب کی طرح علمی اسلوب کے بجائے داستان کے پیراے میں بالکل عام فہم اسلوب اختیار کیا ہے ۔ بعض مقامات پر تو ان کے مخاطبین کم عمر طلبا محسوس ہوتے ہیں جن کی تفہیم کے لیے بات کو سادہ ترین الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔ مصنف نے زیادہ تر ایسے صحابۂ کرام کی داستان عزیمت کا انتخاب کیا ہے جو ہمارے ہاں بالعموم معروف نہیں ہیں ۔ کتاب کا فونٹ سائز مناسب استعمال کیا گیا ہے ۔ کہیں کہیں پروف کی غلطیاں موجود ہیں ۔ سرورق موضوع کے اعتبار سے سنجیدہ اور پروقار ہے۔

____________

B