HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: آل عمران ۳: ۱-۶ (۱)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ ) 


الٓمَّ{۱} اللّٰہُ لَآ اِلٰہٓ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ{۲} نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبُ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَاَنْزَلَ التَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ{۳} مِنْ قَبْلُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِٰایٰتِ اللّٰہِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ {۴} اِنَّ اللّٰہَ لَا یَخْفٰی عَلَیْہِ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلاَ فِی السَّمَآئِ {۵} ھُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُکُمْ فِی الْاَرْحَامِ کَیْفَ یَشَآئُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ {۶}  

یہ سورہ الم ہے ۔۱  اللہ وہ ہستی ہے کہ اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، زندہ اور سب کو قائم رکھنے والاہے۔ ۲ (لوگوں کو امتحان میں ڈال کر وہ اُن کی ہدایت سے بے پروا نہیں ہو سکتا تھا ، لہٰذا) اُس نے یہ کتاب تم پر قول فیصل کے ساتھ اتاری ہے ، اُن پیشین گوئیوں کی تصدیق میں جو اِس سے پہلے موجود ہیں ، اور تورات و انجیل کو بھی اِ س سے پہلے اُسی نے لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر اتارا تھا ، اور اب یہ فرقان بھی اُسی نے اتارا ہے۔ ۳  (یہ اللہ کی آیتیں ہیں ، اور) جو لوگ جانتے بوجھتے اللہ کی آیتوں کے منکر ہوں ، اُن کے لیے بڑا سخت عذاب ہے ، اور اللہ زبردست ہے ، وہ (اِس طرح کے لوگوں سے) انتقام لینے والا ہے ۔ (اِس لیے کہ) زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ سے چھپی ہوئی نہیں ہے ۔ وہی تو ہے جو ماؤں کے پیٹ میں تمھاری صورتیں ، جس طرح چاہتا ہے ، بنا دیتا ہے ۔ اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ۔ وہ زبردست ہے ، بڑی حکمت والا ہے ۔ ۴  ۱۔۶ 

۱؎ سورۂ بقرہ کی طرح اس سورہ کا نام بھی الم ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے مضمون کے لحاظ سے یہ دونوں سورتیں توام ہیں ۔ اس نام کے معنی کیا ہیں ؟ اس کے متعلق اپنا نقطۂ نظر ہم نے سورۂ بقرہ کی آیت ۱ کے تحت تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے ۔

۲؎ اصل میں لفظ ’ قیوم‘ استعمال ہوا ہے ۔ اس کے معنی ہیں وہ ہستی جو خود اپنے بل پر قائم اور دوسروں کو قائم رکھنے والی ہو ۔ اس سے اور اس سے پہلے ’ حی‘ کی صفت سے قرآن نے ان تمام معبودوں کی نفی کر دی ہے جو نہ زندہ ہیں ، نہ دوسروں کو زندگی دے سکتے ہیں، اور نہ اپنے بل پر قائم ہیں ، نہ دوسروں کو قائم رکھنے والے ہیں ، بلکہ خود اپنی زندگی اور بقا کے لیے ایک حی و قیوم کے محتاج ہیں ۔

۳؎ یعنی جب وہ لوگوں کا معبود بھی ہے اور حی و قیوم بھی تو کس طرح ممکن ہے کہ وہ انھیں امتحان کے لیے دنیا میں بھیجے اور پھر حق و باطل کے معاملے میں ان کی رہنمائی نہ فرمائے ۔ چنانچہ لوگوں کو اختلافات کی تاریکی سے نکالنے کے لیے اپنی کتابوں کی صورت میں یہ روشنی اس نے نازل کر دی ہے ۔

۴؎ یعنی وہ جب ان کی سرکشی کو دیکھ بھی رہا ہے ، ان کا معبود بھی وہی ہے ، ان سے انتقام کی قدرت بھی رکھتا ہے اور ایک حکیم کی حیثیت سے اس کی حکمت کا تقاضا بھی ہے کہ اس طرح کے مجرموں کو ان کے انجام تک پہنچا دے تو ضروری تھا کہ وہ بدلہ لینے والا ہو ۔ و ہ اگر ایسا نہ کرے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یا تو وہ انھیں دیکھ نہیں رہا یا تنہا وہی معبود نہیں ہے یا دنیا کے بعض معاملات اس نے دوسروں کے سپرد کر دیے ہیں یا بے بس ہے کہ اس طرح کے مجرموں کو پکڑنے کی قدرت نہیں رکھتا یا کھلنڈرا ہے کہ خیر و شر کو ایک ہی جگہ رکھ کر ان کا تماشا دیکھ رہا ہے ۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــ

B