HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

فہم انسانی کی فضلیت

جانوروں کا جہاں سے دل چاہتاہے ،کھا پی لیتے ہیں ۔ کھیت کسی کا ہو، چر لیتے ہیں ۔پیشاب ، پاخانہ کرنے میں انھیں موقع و محل کا لحاظ نہیں ہوتا ۔ وہ اپنی دوسری ضرورتیں بھی ایسے ہی پوری کر لیتے ہیں ۔

دوسری طرف انسان ہر کام دیکھ بھال کر کرتا ہے ۔ کھانے پینے، رفع حاجت اور زندگی کے دوسرے معمولات ایک قاعدے و ضابطے کے مطابق انجام دیتا ہے ۔ ایسا اس لیے ہے کہ اسے عقل اور سمجھ جیسی دولت عطا کی گئی ہے ۔ پھر بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ انسان اپنی خواہش پوری کرنے میں جائز و ناجائز کا فرق بھلا دیتا ہے ۔ دوسروں کا مال ہتھیانے اور ان کی عزت پر حملہ کرنے میں اس کو شرم محسوس نہیں ہوتی ۔ ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے کہ جانوروں کی زندگی بھی ان خاص اصولوں اور رجحانات کے تابع ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت میں راسخ کر دیے ہیں ۔ لیکن انسان کو یہ آزادی ملی ہوئی ہے کہ وہ اپنے مقام و مرتبے پر قائم رہے یا اس سے گر کر حیوانی سطح پر آجائے ۔ جب تک انسان ہوش وحواس میں ہوتا ہے ، اسے خبر ہوتی ہے کہ وہ انسانی شرف کا پاس کر رہا ہے یا اپنے مقام سے گر چکا ہے ۔ لہٰذا عقل اور سمجھ ہی ایسی چیز ہے جو انسانوں اور جانوروں میں تفریق کر تی ہے ۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

’’ہم نے جنوں اور انسانوں میں سے بہتوں کو دوزخ کے لیے پیدا کیا ہے ۔ ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں ، ان کے آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں ، ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں ۔ یہ چوپایوں کے مانند ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گم راہ ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جو بالکل بے خبر ہیں ۔ ‘‘( الاعراف ۷ : ۱۷۹)

ہم پر لازم ہے کہ قدرت کے اس قیمتی عطیے ’’سوجھ بوجھ‘‘ کو کام میں لائیں ۔اگر کوئی بات خود سمجھ میں نہیں آتی تو ان لوگوں سے پوچھ لیں جو ہمیں زیادہ سمجھ دار اور عقل مند دکھائی دیتے ہیں ۔

________

اے کاش

’’میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس کائنات میں بکھر ے ہوئے تمام دکھی لوگوں کے دکھ اپنے دامن میں سمیٹ لوں۔ان لوگوں کی پلکوں پر لرزتے ہوئے آنسو ایک ایک کر کے اپنے دل میں اتار لوں اور خود ایک سمندر بن جاؤں۔میرا ظرف اتنا اعلیٰ ہو جائے کہ بڑی سے بڑی خطا درگزرکروں۔اپنی خواہش کو مٹادوں،میری ذات دوسروں کے لیے وقف ہوکر رہ جائے۔‘‘

یہ ایک بچے کی تحریر ہے جوبچوں کے ایک ہفتہ وار اخبار میں چھپی ۔ لکھنے والے کا انتہائی کرب اس اقتباس میں نمایاں ہے۔ اس کے علاوہ نوع انساں سے بے پایاں ہمدردی بھی اس میں جھلکتی ہے۔بچوں کے احساسات خالص ہوتے ہیں۔وہ مفادات کی دوڑ میں شامل نہیں ہوتے اور ردِ عمل کی نفسیات سے بھی محفوظ ہوتے ہیں۔یہ دو محرکات بڑوں کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں،مفادات انھیں بڑے سے بڑے اقدام پراکساتے ہیں اور ردعمل ناگزیر کام سے بھی گریز پر مجبورکر دیتا ہے ۔ انھی عوامل کے زیرِ اثرحق غیر مطلوب ہو جاتاہے اور ناحق عین حق بن جاتا ہے۔ جب ہم بچے تھے، ایسی معصوم خواہشیں اوراس طرح کے درد مندانہ خیالات ہمارے دل میں بھی آتے تھے ، لیکن بڑے ہوئے تو دوسری بچگانہ خواہشوں کے ساتھ یہ خیالات آنے بھی بند ہو گئے۔ ایسے لگتا ہے جیسے ہماری رقت جاتی رہی ہے اور ایک خشونت نے اس کی جگہ لے لی ہے ۔ ہم نے عملیت پسندی کا نام دے کراس خشونت کو چھپانا شروع کر دیا ہے ۔ دوسروں کا درد محسوس کرنا ،اس کو اپنا کرب بنا لینا اور اس احساس کو بانٹنے کی کوشش کرنا اعلیٰ انسانی جذبہ ہے۔بچوں سے بڑھ کر اسے بڑوں میں ہونا چاہیے ، لیکن کیا وجہ ہے کہ بڑوں میں یہ قریب قریب مفقودہوا جاتا ہے؟

انسان غیر محدود خواہشیں لے کر پیدا ہوا ہے ، لیکن اس کی صلاحیتیں محدودہیں۔وہ پر نہیں ، لیکن تخیل پرواز رکھتا ہے۔خاکی ہے، مگر اس کی نظرافلاک پر ہے۔ وہ زمین پر رہ کر سماو ی خواہشیں پوری کرنا چاہتا ہے ، حالاں کہ آسمان و زمین میں بہت بعد ہے۔ خواہشات اور حقائق کے اس تفاوت کی وجہ سے تمنائیں دم توڑ تی ہیں اور آرزووں کا خون ہوتا ہے۔کچھ لوگ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں ، وہ آرزو کو کار عبث سمجھنے لگتے ہیں اور انھیں ہر طرف تاریکی نظر آنے لگتی ہے۔پھر یہ اسی یاس میں اپنی زندگی گزار دیتے ہیں،آدرش اور اعلیٰ انسانی مقاصد سے انھیں کوئی واسطہ نہیں رہتا۔یہ دوسروں کا بھلا کیا کریں گے ، خود ڈانواں ڈول پھرتے ہیں ۔اس کے برعکس کچھ افراد بے حس اور خودغرض بن جاتے ہیں۔وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ پوری مخلوق کا بھلا کرنا ممکن نہیں ، ہاں اپنے حال میں مست ہوا جاسکتا ہے۔ایسے لوگ ہر طریقے سے خواہشیں پوری کر لینا اپنا وتیرہ بنا لیتے ہیں ۔ دوست دوست کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے سے دریغ نہیں کرتااور اپنا مطلب پورا کرنے کے لیے بھائی بھائی کا خون کر دیتا ہے۔بد قسمتی سے دنیا ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے ، مگر ایسے اشخاص بھی مل جاتے ہیں جوانسانیت سے ناتا توڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ان کی ہر طرح کوشش ہوتی ہے کہ بلند اقدار پر قائم رہا جائے۔ وہ بہت حد تک کامیاب بھی رہتے ہیں، لیکن اس دنیاکے کوتاہ وسائل کی طرح یہاں کا انسان بھی محدود قویٰ رکھتا ہے ، اپنی حدود سے آگے جانا اور وسائل سے بڑھ کر کام کرنا، اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا ۔ ہاں کچھ مثالیں ایسے لوگوں کی مل جاتی ہیں جو بظاہر اپنی طاقت اورمیسر ذرائع سے ماورا ہو کرکام کرتے ہیں ۔یہ جن دیو نہیں ، بلکہ اپنی دھن کے پکے ، لگن کے سچے انسان ہی ہوتے ہیں جو اپنے جنون (dedication) اور اپنی بے خودی و وارفتگی سے ایک مقام پا جا تے ہیں۔ایسے دیوانے ہر مذہب اور نظریے کے لوگوں میں ملتے ہیں ۔دہریے طاغوت لا دینیت کی خاطر اور مشرکین معبود ان باطلہ کی رضا جوئی کے لیے تن من کی بازی لگا دیتے ہیں۔ یہ ہونا چاہیے کہ خدا پرستوں کی صفیں بھی اس طرح کے افراد سے بھری ہوں ، لیکن افسوس جب سے عشق کی آگ بجھی ہے،اندھیر ہو گیا ہے۔

اﷲ تعالیٰ انصار مدینہ کی صفت بیان فرماتے ہیں:’’اور وہ ان (مہاجرین یا دوسرے اہل ایمان)کو اپنے اوپر ترجیح دے رہے ہیں اگرچہ انھیں خود احتیاج ہو۔‘‘جب مکہ سے اہل ایمان ہجرت کر کے مدینہ آئے تو انصار نے اپنے باغات ، اپنی تجارتوں اور اپنے مویشیوں میں مہاجرین کو حصہ دار بنا لیا۔پھر جب یہودی اپنی جائدادیں چھوڑ کر مدینہ سے گئے اور بحرین کا علاقہ اسلامی مملکت میں شامل ہوا توانصار نے یہ سب کچھ بھی مہاجرین کو دے دیا، صرف دو تین غریب انصاریوں نے کچھ حصہ لیا ۔انصار کی یہ بے مثال قربانی بعد کے مسلمانوں کے لیے ایک قابل تقلید نمونہ بنی۔حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مہمان نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیاتو آپ نے اسے اپنی ازواج کے پاس بھیجا ۔وہاں سے جواب ملا کہ ہمارے پاس مہمانی کے لیے صرف پانی ہی ہے ۔ تب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون اس شخص کی مہمان نوازی کرے گا؟ایک انصاری (سیدنا ابو طلحہ) نے ذمہ داری اٹھائی او ر اپنے گھر لے جا کربیوی سے کہا : رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر مدارات کرو۔اس نے کہا کہ ہمارے پاس توصرف بچوں کا کھانا ہے۔انصاری نے کہا کہ کھانا تیار کرو اور بچوں کو سلا دو۔ جب وہ مہمان کے ساتھ کھانے بیٹھے توبہانے سے چراغ گل کر دیا ۔ خود بھوکے سوئے اور اپنے حصے کا کھانامہمان کو کھلادیا۔ حضرت عبداﷲ بن عمر کی روایت ہے کہ ایک صحابی کے گھرتحفے میں بکری کی سری آئی تو انھوں نے یہ کہہ کراپنے ہمسائے کے ہاں بھیج دی کہ میرا وہ بھائی اور اس کا کنبہ مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہے۔اس نے بھی یہی الفاظ کہے اور سری اگلے ہمسائے کے گھر روانہ کی ، اس طرح سات گھروں سے ہوتی ہوئی وہ واپس پہلے گھر میں آگئی۔

حقیقت میں مہمان نوازی ازل سے انسانی نفسیات میں رچی بسی ہے۔ دیہاتی معاشرت میں مہمان کی ضرورت کو مقدم رکھا جاتاہے ، چاہے اس کے لیے پیٹ پر پتھر کیوں نہ باندھنا پڑے۔ شہری تہذیبوں میںیہ روایت دم توڑ رہی ہے کیوں کہ معاش پیچیدہ ہونے کی وجہ سے شہروں میں آپا دھاپی کا ماحول ہوتا ہے اورہر آدمی اپنی الجھنوں میں گرفتار ہوتاہے۔رشتوں کے کم زور پڑنے سے اس روایت میزبانی یا جذبہ قربانی پر کاری ضرب لگی، البتہ تکلف کچھ مہذب معاشروں میں رواج پاگیا ۔ ’’پہلے آپ ،پہلے آ پ ‘‘ اسی تہذیب کا ثمرہ ہے۔ٹھوس بنیادیں نہ رکھنے کی وجہ سے یہ بھی مؤثرروایت نہ بن سکا۔ دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرنا اور اس کو بانٹناکئی شعبے رکھتا ہے۔اسی قبیل میں بچوں،بوڑھوں اور کم زوروں کا خیال رکھناآتاہے ۔مذہب و ملت سے قطع نظر انسانی ہم دردی رکھنا اسی کااہم جز ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عمر و روایت فرماتے ہیں ’’رحم کرنے والوں پر خدائے رحمان رحم فرماتا ہے۔ اہل زمین پر رحم کرو ،جو آسمان میں ہے وہ تم پر رحم کرے گا۔‘‘ یہ درد مندی جانوروں کوبھی ایذا پہنچانے سے روکتی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ایک آدمی کو دوران سفر میں سخت پیاس لگی تو اس نے ایک کنویں میں اتر کر پانی پیا ۔جب وہ نکلا تو اس نے دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی شدت سے گیلی مٹی چاٹ رہا ہے۔اس نے سوچا کہ اس کتے کو اسی شدت سے پیاس لگی ہے جس شدت سے مجھے لگی تھی۔وہ پھر کنویں میں اترا، اپنے جوتے کو پانی سے بھرا ،اسے منہ میں دبا کر باہر نکلااور کتے کو پانی پلا دیا۔اﷲ تعالیٰ نے اس کی نیکی کو قبول کرتے ہوئے اس کی بخشش کردی۔ حاضرین صحابہ نے پوچھا ،کیا جانوروں سے نیکی کا بھی ہمیں صلہ ملے گا؟آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا،ہر جگر تر(زندہ جان)میں اجر ملے گا۔‘‘

دوسروں کے درد کو محسوس کرنا ،ان کے دکھوں کا مداوا کرنااور کسی ذی روح کی تکلیف کو اپنا کرب بنا لیناانتہائی بلند انسانی جذبہ ہے۔کاش یہ الفاظ ایک بچے کی بجائے کسی بڑے کے قلم سے نکلے ہوتے :’’میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس کائنات میں بکھرے ہوئے تمام دکھی لوگوں کے دکھ اپنے دامن میں سمیٹ لوں۔ان لوگوں کی پلکوں پر لرزتے ہوئے آنسو ایک ایک کر کے اپنے دل میں اتار لوں اور خود ایک سمندر بن جاؤں۔میرا ظرف اتنا اعلیٰ ہو جائے کہ بڑی سے بڑی خطا درگزرکروں۔اپنی خواہش کو مٹادوں،میری ذات دوسروں کے لیے وقف ہوکر رہ جائے۔‘‘

____________

B