HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

’’حیات رسول امی‘‘

مقبول الرحیم مفتی


مصنف : علامہ خالد مسعود ،

ضخامت :۵۹۷صفحات بڑاسائز ،

قیمت :۳۷۵روپے ،

ناشر: دارالتذکیر، رحمان مارکیٹ ، غزنی اسٹریٹ ، اردو بازار ، لاہور۔


امام حمید الدین فراہی رحمہ اللہ نے قرآن کو سمجھنے اوراس پرغور وفکر کر نے کے جو اصول مرتب کیے اورجس ہستی پرقرآن اترا، اس کے مقام ومرتبے اورحیثیت کو جس طرح خود قرآن کے ذریعے سے متعین اور واضح کیا ، وہ اس دور کے علما کے لیے بلاشبہ ایک اجنبی شے ہے ۔اما م فراہی نے اپنے زندگی بھر کے تدبر وتفکر کی یہ امانت اپنے منتخب شاگرد امین احسن کے سپر دکی۔ متھرا کے ڈسڑکٹ ہسپتال میں جب استاد کے طلب کر نے پر امین احسن وہا ں پہنچے تو استا دکی زبان سے صرف یہی الفاظ نکلے ’’امین تم آگئے‘‘۔ ’’ذکر فراہی‘‘ کے مصنف نے اس امر پرحیرت کا اظہار کیا کہ سرائے میر سے متھرا جیسے دور افتاد ہ مقام پرطلب کرنے پر استاد نے شاگرد سے اس کے سوا کوئی بات نہ کی ۔ البتہ اپنی فکری امانت کے ’امین ‘کو دیکھ کر اتنا خوش ہوئے کے وفور جذبات سے بستر پراٹھ کر بیٹھ گئے ۔امین کو گلے لگالیا ۔ انھیں اطمینا ن ہوگیا کہ ان کی زندگی بھرکی مشقت رائگاں نہیں جائے گی۔

مولانا امین احسن اصلاحی نے ’’تدبرقرآن ‘‘لکھ کر نہ صرف اپنے جلیل القدر استا د کی امانت کو امت کے اہل علم تک پہچانے کا حق ادا کردیا ،بلکہ تمام تربے سروسامانی کے باوجود ’’حلقۂ تدبر قرآن و حدیث‘‘ میں سمٹ آنے والے جدید تعلیم یافتہ نوجوانو ں کا ایک ایسا گروپ بھی تیار کر دیا جو قرآن پر غور و فکر کرنے اور اسے سمجھنے اور سمجھانے کے ا س اسلوب سے آشنا ہوگیا جس کی بنا اما م فراہی نے ڈالی تھی ۔جناب خالد مسعود اسی حلقۂ تدبر قرآن کے گہوارے میں پرورش پانے والے نوجوانوں کے سرخیل تھے اوراپنے استا د کی روایت کی پیروی کر تے ہو ئے بڑھاپے اوربیماری اوربے سروسامانی کے باوجود تفقہ فی الدین کی اس امانت کو آگے منتقل کرنے کا کٹھن فریضہ ادا کرتے رہے ۔

حیات رسول امی جناب خالد مسعود کی آخری تصنیف ہے ۔۱۹۶۷ء میں جب ان کے استاد امام امین احسن اصلاحی سے یہ فرمایش کی گئی تھی کہ وہ قرآ ن مجید کی روشنی میں سیرت النبی پر کتاب لکھیں تومولانا نے ’تدبر قرآن‘ کے کام میں اپنی مشغولیت کا عذر پیش کر تے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ خالدمسعود یہ کام کرنے کے اہل ہیں ۔حیاتِ رسول اُمی کی تمہیدمیں جناب خالد مسعود لکھتے ہیں :’’مولاناکے اس جواب پر میں دل ہی دل میں ہنسا کہ من آنم کہ من دانم ، مولانا میرے بارے میں کس قدر خوش فہمی میں مبتلا ہیں ،اس طرح بات آئیگئی ہو گئی اور میں نے اس موضوع پرسوچا تک نہیں۔‘‘ لیکن یہ سعادت بھی آخر کار ان کے حصے میںآئی کہ قرآن کی روشنی میں قرآن کو انسانیت تک پہنچانے والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کارنامۂ حیات کو مرتب صورت میں پیش کریں۔

قرآن بلا شبہ قیامت تک کے لیے آسمانی ہدایت کی آخری کتاب ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں رسول اللہ کی دعوت ،انذار و تبشیر اور اظہار دین وغلبۂ دین کی جدوجہد اور اس کی کامیابی کی پوری روداد بھی شامل ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جدامجد حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی اولاد کی دو شاخوں بنو اسمٰعیل (مشرکین عرب)ا وربنو اسحٰق ( یہود ) اور ان کے ساتھ نصاری ٰکو جس انداز اور جن الفاظ میں ہدایت کی طرف بلایا ، ہدایت کو قبول کرنے والوں کو امت مسلمہ کی شکل دی، ہدایت کا انکار کرنے والوں کو برے انجام سے ڈرایا اورمدینہ میں دارالہجرت میسر آنے کے بعد دین حق کو دوسرے ادیان پر غالب کرنے کے لیے اتما م حجت کے بعد دعوت کا انکار کرنے والوں کو اس دنیا میں ان کے انجام تک پہنچایا ، اس کی پوری تفصیل بھی قرآن کا حصہ ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اکرم کو فر یضۂ نبوت و رسالت سے تعلق رکھنے والے ان سارے کاموں کی تکمیل کے لیے ہدایت و رہنمائی قرآن کے ذریعے سے فراہم کی گئی اورآپ اللہ کے دین کو جزیرہ نمائے عرب میں دوسرے تمام دینو ں پر غالب کر کے اس دنیا سے تشریف لے گئے ۔اس پہلوسے اگر دیکھا جائے تو قرآ ن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات و واقعات کا ایسا بیان ہے جس میں آ پ کی حیثیت رسالت کومرکز ی اہمیت حاصل ہے ۔لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے سیرت نگاروں نے رسول اللہ کی زندگی کے حالات کو قرآن کی روشنی میں سمجھنے اور بیان کر نے پربہت کم توجہ دی ہے ۔

’’حیات رسول امی‘‘ لکھ کر جناب خالد مسعود نے اس کمی کو پور ا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ تمہید میں لکھتے ہیں :

’’قرآن پڑھیے تو اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات وصفات ، آپ کی بعثت کے کوائف،دعوت دین کے مراحل ہجرت ، جنگوں کے واقعات ، مشرکین او ریہود کے ساتھ اہم بحثوں ا ورحضور کی زندگی سے متعلق دیگر موضوعا ت کا بیان ملتا ہے۔ ایک آدمی قرآن کا مطالعہ غور سے کرے تو وہ سیرت النبی کے تمام ضروری مباحث سے آگاہی حاصل کرلیتا ہے ۔ اس لیے یہ بات علمی حلقوں میں مانی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک یاسیرت کا سب سے اہمماخذ قرآن مجید ہے ۔اس کے بعد احادیث صحیحہ اوراولین کتب سیرت کا مطالعہ ا س کے مآخذ کی حیثیت سے رہنمائی دیتا ہے ۔ اس اعتراف کے باوجود عملاًیہ دیکھا گیاہے کہ حضور کے جدید سیرت نگاروں نے ماضی میں لکھی گئی کتبِ سیرت ہی پر اعتماد کیا ہے۔ جن لوگوں نے قرآن سے استفادہ کیا ہے ، وہ بالعموم محض آیات نقل کردیتے ہیں ، ان سے سیرت نگاری میں مدد نہیں لیتے۔ اس لیے نقل کردہ آیات بے ربط سی نظر آتی ہیں‘‘ ۔(۱۱)
’’میری کوشش رہی ہے کہ کتب سیرت کی روایات سے بھی بھرپور استفادہ کروں ۔بالعموم میں نے ان کو سیرت نگاروں کی تحقیق وبیان کی روشنی میں قبول کرلیا ہے ، لیکن جہاں کوئی روایت رسولو ں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سنت کے موافق نظر نہیں آئی ، میں نے اس کا سقم واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ان تمام اعتبارات سے قارئین اس کتاب کو دوسری کتب سیرت سے مختلف پائیں گے ۔لیکن انشاء اللہ اس کی ہر اہم بحث دلائل و شواہد سے تہی دامن نہیں ہوگی ۔‘‘ (۱۲)

مصنف کا یہ دعویٰ کسی تعلی پرمبنی نہیں۔انھوں نے جہاں بھی روایات میں ابہام یا اختلاف کی جھلک دیکھی ہے ، اسے قرآنی استد لال سے رفع کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ مناسب مقامات پر مستشر قین کی پیدا کی ہوئی غلط فہمیوں کی تردیداور قرآ ن کی روشنی میں اصل حقیقت کی وضاحت بھی کی ہے ۔

معروف غلط فہمیوں کی تردید کرتے ہوئے انتہا پسندانہ رویہ اختیار نہیں کیا گیا ۔ مثال کے طور پر اگر اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ بچپن میں جناب عبدالمطلب کی وفات کے بعدایام یتیمی میں نبی اکرم کی سرپر ستی اورپرورش جناب ابو طالب نے نہیں، بلکہ جناب زبیر بن عبدالمطلب نے کی تھی جواپنے والد کی وفات کے بعد تقریباً چودہ برس بنو ہاشم کی سربراہی پر فائز رہے تو دوسرے مقام پر اس امر کی وضاحت بھی موجود ہے کہ جناب ابو طالب نے بنو ہاشم کا سردار بننے کے بعد دم واپسیں تک نبوت کی راہ میں نہ صرف یہ کہ کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی ، بلکہ سرداران قریش کے تمام تر دباؤ کے باوجود اس مقصد کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری طرح وہ خاندانی تحفظ مہیاکیا جس کے باعث قبائلی معاشرے میں حضور کے لیے دین کی دعوت پیش کرنا ممکن ہو ا۔

مصنف نے تمہید میں اس کتاب کے بارے میں اپنے قلمی سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ ۱۹۸۶ء میں انھوں نے ’’ہولی فرقان فاونڈیشن ‘‘کے زیراہتمام کانفرنس میں ’’قرآن کا تصورِ جنگ‘‘کے عنوان سے مقالہ پیش کیاجسے اہل علم نے پسندکیا ۔ اس مقالے کی تیاری کے دوران میں انھیں محسوس ہواکہ سیرت کی کتابوں میں قرآن کے مقابلے میں روایات پر زیادہ انحصار کیا گیاہے ، اور بعض ایسی روایات لوگوں میں مشہور ہوچکی ہیں جو قرآن کے بیان کردہ اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ اس حقیقت کے انکشاف پر انھوں نے قرآن کی روشنی میں غزوۂ بدر ،صلح حدیبیہ اور فتح مکہ پرتحقیقی مضامین شائع کیے ۔ پھر اہل علم کے اصرار پر عہدنبوی کی جنگو ں کے پور ے سلسلے پراپنی تحقیق قلم بندکی ، مگر دوستو ں کے تقاضے پر جب اس تحقیق کو کتابی شکل دینے کے لیے نگاہ ڈالی تو اس نتیجے پر پہنچے کہ اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ اورآپ کے منصبِ رسالت کا ایک یک رخا اور ناقص تصور سامنے آتا ہے ۔ دورِ رسالت کی جنگوں کے تذکرے کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل شخصیت اورآپ کی دعوت کا بھرپور تعارف شامل کر نے کے لیے نئے عنوانات قائم کرکے ان پر تحقیق کی اوریوں سیرتِ طیبہ پر قرآن کی روشنی میں یہ نئی کتاب وجود میں آئی ۔

مصنف اس اعتبار سے تو اپنی کوشش میں کامیاب نظر آتے ہیں کہ انھو ں نے پورے دورِ رسالت کے اہم واقعات اور بالخصوص غزوات اورعسکری اقدامات کے جواز او رحکمتو ں کو قرآن کے ساتھ مربوط کردیا ہے ، لیکن صدیوں سے امت میں معروف تصورِ دین اوراس تصنیف کے بارے میں خود مصنف کے بیان کردہ پس منظر کے باعث دعوت کے اسلوب اورشرائط کے وہ بہت سے پہلو تشنہ رہ گئے ہیں یا سر ے سے بیان نہیں ہوئے جن کی ہدایت قرآن نے دی اور پیغمبر نے ہمیشہ ان کی پابندی کی ۔آج امت مسلمہ سیاسی آزادی کے باوجود علمی ، فکری، معاشی اورتمدنی مغلوبیت کے جس دور سے گزر رہی ہے ، اس میں زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن کی روشنی میں اس اسلوبِ دعوت کو اجاگر کیاجائے ،جسے نبی اکرم نے مکہ اور مدینہ دونوں جگہ ہر حال میں برقرار رکھا ۔ اگر قرآن کو بنیاد بنا کر اہل علم احادیث کے مجموعو ں اور سیر ت کے ابتدائی ماخذ کی ورق گردانی کریں تو امن اور جنگ، صلح اور دشمنی کی تمام کیفیتوں میں اعتدال پر مبنی پیغمبر انہ طرز عمل کی تصویر کشی ممکن ہے جس کے بغیر دعوت کا کام کیا ہی نہیں جا سکتا ۔

موجودہ زمانے میں آزادی اظہار کے مواقع اورذرائع ابلاغ کی ترقی نے ’’اظہار دین‘‘کے جو بے پناہ امکانات پیدا کردیے ہیں ، وہ صرف دعو ت کے ذریعے سے ہی بروئے کار آسکتے ہیں ۔اب یہ امت کے اہلِ علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف قرآن و سنت سے شرعی وجوب اور اس کے طریق کار کی شرح و وضاحت کریں ،بلکہ اس کے لیے اہل افرادکی تیاری کا کام بھی کریں ۔ جناب خالد مسعود نے ’’حیات رسول امی ‘‘ لکھ کر علمی سطح پراس راستے کی نشان دہی کردی ہے ، جس پر چلتے ہوئے قرآن کے صفحات پر پھیلے نقوش دعوت کو چراغ راہ بنایا جاسکتا ہے ۔

کتاب کااسلوب اور زبان سادہ اورعام فہم ہے ،مصنف نے شعور ی طور پر ایسے مشکل الفاظ او ردینی اصطلاحات کے استعمال سے گریز کیا ہے جنھیں آسانی سے سمجھنا اب عام طور پر قارئین کے لیے ممکن نہیں رہا ۔کتا ب کا سائز اگرچہ قدرے بڑا ہے ، لیکن ضخامت سمیٹنے کے لیے اختیا رکیا گیا ہے ۔ ’’دارالتذکیر‘‘ نے کاغذ ، جلد بندی ، کمپوزنگ ا ورطباعت کے جس معیار کے ساتھ یہ کتاب شائع کی ہے ، قارئین یقینااسے پسند کریں گے ۔

____________

B