HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۲۸۲-۲۸۶ (۵۹)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ ) 


یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا، اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰیٓ اَجَلٍ مُّسَمًّّی، فَاکْتُبُوْہٗ، وَلْیَکْتُبْ بَّیْنَکُمْ کَاتِبٌ بِالْعَدْلِ، وَ لَا یَاْبَ کَاتِبٌ اَنْ یَّکْتُبَ، کَمَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ، فَلْیَکْتُبْ وَلْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ، وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ، وَ لَا یَبْخَسْ مِنْہٗ شَیْئًا، فَاِنْ کَانَ الَّذِی عَلَیْہِ الْحَقُّ سَفِیْھًا اَوْ ضَعِیْفًا، اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ ھُوَ، فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّہٗ بِالْعَدْلِ، وَاسْتَشْھِدُوْا شَھِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ، فَاِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ، فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ شُّھَدَآئِ، اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰھُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدٰبھُمَا الْاُخْرٰی، وَلَا یَاْبَ الشُّھَدَآئُ اِذَا مَا دُعُوْا، وَ لَا تَسئَمُوْٓا اَنْ تَکْتُبُوْہُ صَغِیْرًا اَوْ کَبِیْرًا اِلٰٓی اَجَلِہٖ۔ ذٰلِکُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّھَادَۃِ وَاَدْنٰیٓ اَلَّا تَرْتَابُوْٓا، اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً حَاضِرَۃً تُدِیْرُوْنَھَا بَیْنَکُمْ، فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَکْتُبُوْھَا، وَاَشْھِدُوْٓا اِذَا تَبَایَعْتُمْ، وَلَایُضَآرَّ کَاتِبٌ وَّ لَا شَھِیْدٌ، وَاِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّہٗ فُسُوْقٌ بِکُمْ، وَاتَّقُوا اللّٰہَ، وَیُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ، وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ۔{۲۸۲}

وَاِنْ کُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا کَاتِبًا، فَرِھٰنٌ مَّقْبُوْضَۃٌ، فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُکُمْ بَعْضًا، فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَہٗ، وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ، وَ لَاتَکْتُمُوا الشَّھَادَۃَ، وَمَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہٗ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ، وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ۔{۲۸۳}

لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ، وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ، فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ، وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ۔{۲۸۴}

ٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ، کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ، لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ، وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا، غُفْرَانَکَ رَبَّنَا، وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ۔{۲۸۵} لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا، لَھَا مَاکَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَااکْتَسَبَتْ، رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا، رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا، کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا، رَبَّنَا وَ لَاتُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ، وَاعْفُ عَنَّا، وَاغْفِرْلَنَا، وَارْحَمْنَا، اَنْتَ مَوْلٰنَا، فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ۔{۲۸۶}

ایمان والو، (قرض کے معاملات ، البتہ ہوں گے۔ لہٰذا) تم کسی مقرر مدت کے لیے ادھار کا لین دین کرو تو اُسے لکھ لو اور چاہیے کہ اُس کو تمھارے درمیان کوئی لکھنے والا انصاف کے ساتھ لکھے ۔ اور جسے لکھنا آتا ہو، وہ لکھنے سے انکار نہ کرے ، بلکہ جس طرح اللہ نے اُسے سکھایا ہے ، وہ بھی دوسروں کے لیے لکھ دے۔ اور یہ دستاویز اُسے لکھوانی چاہیے ۷۳۰جس پر حق عائد ہوتا ہو۔ اور وہ اللہ ، اپنے پروردگار سے ڈرے اور اُس میں کوئی کمی نہ کرے ۔ پھر اگر وہ شخص جس پر حق عائد ہوتا ہے ، نادان یا ضعیف ہو یا لکھوا نہ سکتا ہو تو اُس کے ولی کو چاہیے کہ وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے ۔ اور تم اِس پر اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کی گواہی کرالو، لیکن اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد او ردو عورتیں ہوں، تمھارے پسندیدہ گواہوں میں سے ۔ دو عورتیں اِس لیے کہ اگر ایک الجھے تو دوسری یاددلا دے ۔ ۷۳۱  اور یہ گواہ جب بلائے جائیں تو اُنھیں انکار نہیں کرنا چاہیے ۔ اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا، اُس کے وعدے تک اُسے لکھنے میں تساہل نہ کرو۔ اللہ کے نزدیک یہ طریقہ زیادہ مبنی بر انصاف ہے، گواہی کو زیادہ درست رکھنے والا ہے اور اِس سے تمھارے شبہوں میں پڑنے کا امکان کم ہو جاتا ہے ۔ ہاں ، اگر معاملہ روبرو اور دست گرداں نوعیت کا ہو ، تب اُس کے نہ لکھنے میںتم پر کوئی حرج نہیں ہے ۔ اور سودا کرتے وقت بھی گواہ بنا لیا کرو، اور (متنبہ رہو کہ) لکھنے والے یا گواہی دینے والے کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے ، اور اگر تم ایسا کرو گے تو یہ وہ گناہ ہے جو تمھارے ساتھ چپک جائے گا ۔ ۷۳۲ اور اللہ سے ڈرتے رہو ، اور (اِس بات کو سمجھو کہ) اللہ تمھیں تعلیم دے رہا ہے ، اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے ۔ ۷۳۳  ۲۸۲

اور اگر تم سفر میں ہو اور تمھیں کوئی لکھنے والا نہ ملے تو قرض کا معاملہ رہن قبضہ کرانے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے ۔ ۷۳۴ پھر اگر ایک دوسرے پر بھروسے کی صورت نکل آئے تو جس کے پاس (رہن کی وہ چیز) امانت رکھی گئی ہے ، وہ یہ امانت واپس کر دے اور اللہ ، اپنے پروردگار سے ڈرتا رہے ۔ ۷۳۵ (اور اِس معاملے پر گواہی کرا لے) اور گواہی (جس صورت میں بھی ہو ، اُس ) کو ہرگز نہ چھپاؤ اور (یاد رکھو کہ) جو اُسے چھپائے گا، اُس کا

دل گناہ گار ہو گا ، ۷۳۶ اور (یاد رکھو کہ) جو کچھ تم کرتے ہو ، اللہ اُسے جانتا ہے۔ ۲۸۳

زمین ۷۳۷ اور آسمانوں میں جو کچھ ہے ، سب اللہ ہی کا ہے ، (اِس لیے تم بھی اے بنی اسرائیل، ایک دن اُسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے) اور جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے ، اُسے تم ظاہر کرو یا چھپاؤ ، اللہ اُس کا حساب تم سے لے گا ۔

پھر جس کو چاہے گا، (اپنے قانون کے مطابق) بخش دے گا اور جس کو چاہے گا، سزا دے گا، اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔ ۲۸۴

(تم ۷۳۸ نہیں مانتے تو اِس کا نتیجہ بھی تمھیں ہی دیکھنا ہے)۔ ہمارے پیغمبر نے تو اُس چیز کو مان لیا ۷۳۹ جو اُس کے پروردگار کی طرف سے اُس پر نازل کی گئی ہے ، اور اُس کے ماننے والوں نے بھی ۔ یہ سب اللہ پر ایمان لائے ، اور اُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے پیغمبروں پر ایمان لائے ۔ ۷۴۰   (اِن کا اقرار ہے کہ) ہم اللہ کے پیغمبر وں میں سے کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے ۷۴۱ اور اِنھوں نے کہہ دیا ہے کہ ہم نے سنا اور سر اطاعت جھکا دیا ۔

۷۴۲ پروردگار، ہم تیری مغفرت چاہتے ہیں ۷۴۳ اور (جانتے ہیں کہ) ہمیں لوٹ کر تیرے ہی حضور میں پہنچنا ہے  ــــــ (یہ حقیقت ہے کہ) اللہ کسی پر اُس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ (اُس کا قانون ہے کہ) اُسی کو ملے گا جو اُس نے کمایا ہے اور وہی بھرے گا جو اُس نے کیا ہے ۷۴۴  

ــــ پروردگار ، ہم بھول جائیں یا غلطی کر جائیں تو اُس پر ہماری گرفت نہ کرنا ۔ ۷۴۵  اور پروردگار ، تو ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلوں پر ڈالا تھا ۔ ۷۴۶ اور پروردگار ، کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جسے ہم اٹھا نہیں سکتے ،۷۴۷ اور ہمیں معاف کر دے اور بخش دے اور ہم پر رحم فرما، تو ہمارا آقا ہے ، اور اِن کافروں ۷۴۸ کے مقابلے میں (جو ہمارے دشمن بن کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں)، ہماری مدد کر ۔ ۲۸۵-۲۸۶

۷۳۰؎ اصل میں لفظ ’فلیملل‘ استعمال ہوا ہے ، اِس کی ایک صورت ’ املائ‘ بھی ہے ۔ عربی زبان میں تضعیف کے دو حرفوں میں سے ایک کو ’ ی‘ میں تبدیل کر کے لفظ کو ہلکا کر لینے کی یہ صورت عام ہے۔ قرآن مجید میں ’یتسنیٰ‘ اور ’یتصدیٰ‘ اِسی کی مثالیں ہیں ۔

۷۳۱؎ اِس آیت میں گواہی کا جو ضابطہ بیان ہوا ہے ، اُس کے بارے میں دو باتیں واضح رہنی چاہییں :

              ایک یہ کہ واقعاتی شہادت کے ساتھ اِس ضابطے کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ صرف دستاویزی شہادت سے متعلق ہے ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ دستاویزی شہادت کے لیے گواہ کا انتخاب ہم کرتے ہیں اور واقعاتی شہادت میں گواہ کا موقع پر موجود ہونا ایک اتفاقی معاملہ ہوتا ہے ۔ ہم اگر کوئی دستاویز لکھتے ہیں یا کسی معاملے میں کوئی اقرار کرتے ہیں تو ہمیں اختیار ہے کہ اُس پر جسے چاہیں، گواہ بنائیں ۔ لیکن زنا، چوری ، قتل، ڈاکا اور اِس طرح کے دوسرے جرائم میں جو شخص بھی موقع پر موجود ہوتا ہے ، وہی گواہ قرار پاتا ہے ۔ چنانچہ شہادت کی اِن دونوں صورتوں کا فرق اِس قدر واضح ہے کہ اِن میں سے ایک کو دوسری کے لیے قیاس کا مبنیٰ نہیں بنایا جا سکتا ۔

              دوسری یہ کہ آیت کے موقع و محل اور اسلوب بیان میں اِس بات کی کوئی گنجایش نہیں ہے کہ اِسے قانون و عدالت سے متعلق قرار دیا جائے ۔ اِس میں عدالت کو مخاطب کر کے یہ بات نہیں کہی گئی کہ اِس طرح کا کوئی مقدمہ اگر پیش کیا جائے تو مدعی سے اِس نصاب کے مطابق گواہ طلب کرو۔ اِس کے مخاطب ادھار کا لین دین کرنے والے ہیں اور اِس میں اُنھیں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اگر ایک خاص مدت کے لیے اِس طرح کا کوئی معاملہ کریں تو اُس کی دستاویز لکھ لیں اور نزاع اور نقصان سے بچنے کے لیے اُن گواہوں کا انتخاب کریں جو پسندیدہ اخلاق کے حامل ، ثقہ ، معتبر اور ایمان دار بھی ہوں اور اپنے حالات و مشاغل کے لحاظ سے اِس ذمہ داری کو بہتر طریقے پر پورا بھی کر سکتے ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ اِس میں اصلاً مردوں ہی کو گواہ بنانے اور دو مردنہ ہوں تو ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کو گواہ بنانے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ گھر میں رہنے والی یہ بی بی اگر عدالت کے ماحول میں کسی گھبراہٹ میں مبتلا ہو تو گواہی کو ابہام و اضطراب سے بچانے کے لیے ایک دوسری بی بی اُس کے لیے سہارا بن جائے۔ اِس کے یہ معنی ، ظاہر ہے کہ نہیں ہیں اور نہیں ہو سکتے کہ عدالت میں مقدمہ اُسی وقت ثابت ہو گا، جب کم سے کم دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں اُس کے بارے میں گواہی دینے کے لیے آئیں ۔ یہ ایک معاشرتی ہدایت ہے جس کی پابندی اگر لوگ کریں گے تو اُن کے لیے یہ نزاعات سے حفاظت کا باعث بنے گی ۔ لوگوں کو اپنی صلاح و فلاح کے لیے اِس کا اہتمام بہرحال کرنا چاہیے، لیکن مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے یہ کوئی نصاب شہادت نہیں ہے جس کی پابندی عدالت کے لیے ضروری ہے۔ چنانچہ اِس سلسلہ کی تمام ہدایات کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ طریقہ اللہ کے نزدیک زیادہ مبنی بر انصاف ہے ، گواہی کو زیادہ درست رکھنے والا ہے ، اور اِس سے شبہوں میں پڑنے کا امکان کم ہو جاتا ہے ۔

۷۳۲؎ اصل الفاظ ہیں : ’ فانہ فسوق بکم‘ ۔ اِن میں ساتھ لگ جانے یا چپک جانے کا مفہوم عربیت کی رو سے متضمن ہے اور ’ فسوق‘ کے بعد ’ ب‘ اِس پر دلالت کرتی ہے ۔

۷۳۳؎ اِس آیت کے احکام کا خلاصہ استاذ امام ا مین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر میں اِس طرح بیان فرمایا ہے :

’’ جب کوئی قرض لین دین ایک خاص مدت تک کے لیے ہو تو اُس کی دستاویز لکھ لی جائے۔
یہ دستاویز دونوں پارٹیوں کی موجودگی میں کوئی لکھنے والا انصاف کے ساتھ لکھے ، اِس میں کوئی دغل فشل نہ کرے اور جس کو لکھنے کا سلیقہ ہو ، اُس کو چاہیے کہ وہ اِس خدمت سے انکار نہ کرے ۔ لکھنے کا سلیقہ اللہ کی ایک نعمت ہے ، اِس نعمت کا شکریہ ہے کہ آدمی ضرورت پڑنے پر لوگوں کے کام آئے ۔ اِس نصیحت کی ضرورت اِس وجہ سے پیش آئی کہ اُس زمانے میں لکھے پڑھے لوگ کم تھے ۔ دستاویزوں کی تحریر اور اُن کی رجسٹری کا سرکاری اہتمام اُس وقت تک نہ عمل میں آیا تھا اور نہ اُس کا عمل میں آنا ایسا آسان تھا۔
دستاویز کے لکھوانے کی ذمہ داری قرض لینے والے پر ہو گی ۔ وہ دستاویز میں اعتراف کرے گا کہ میں فلاں بن فلاں کا اتنے کا قرض دار ہوں اور لکھنے والے کی طرح اُس پر بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اِس اعتراف میں تقویٰ کو ملحوظ رکھے اور ہر گز صاحب حق کے حق میں کسی قسم کی کمی کرنے کی کوشش نہ کرے ۔
اگر یہ شخص کم عقل ہو یا ضعیف ہو یا دستاویز وغیرہ لکھنے لکھانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو جو اُس کا ولی یا وکیل ہو ، وہ اُس کا قائم مقام ہو کر انصاف اور سچائی کے ساتھ دستاویز لکھوائے ۔
اِس پر دو مردوں کی گواہی ثبت ہوگی جن کے متعلق ایک ہدایت یہ ہے کہ وہ ’ من رجالکم‘ یعنی اپنے مردوں میں سے ہوں۔ جس سے بیک وقت دو باتیں نکلتی ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ مسلمان ہوں۔ دوسری یہ کہ وہ اپنے میل جول اور تعلق کے لوگوں میں سے ہوں کہ فریقین اُن کو جانتے پہچانتے ہوں ۔ دوسری یہ کہ وہ ’ممن ترضون‘ یعنی پسندیدہ اخلاق و عمل کے ، ثقہ ، معتبر اور ایمان دار ہوں ۔
اگر مذکورہ صفات کے دو مرد میسر نہ آ سکیں تو اِس کے لیے ایک مرد اور دو عورتوں کا انتخاب کیا جا سکتا ہے ۔ دو عورتوں کی شرط اِس لیے ہے کہ اگر ایک سے کسی لغزش کا صدور ہو گا تو دوسری کی تذکیر و تنبیہ سے اُس کا سد باب ہو سکے گا۔ یہ فرق عورت کی تحقیر کے پہلو سے نہیں ہے ، بلکہ اُس کی مزاجی خصوصیات اور اُس کے حالات و مشاغل کے لحاظ سے یہ ذمہ داری اُس کے لیے ایک بھاری ذمہ داری ہے ، اِس وجہ سے شریعت نے اِس کے اٹھانے میں اُس کے لیے سہارے کا بھی انتظام فرما دیا ہے ۔یہ موضوع اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ سورۂ نساء میں زیربحث آئے گا۔
جو لوگ کسی دستاویز کے گواہوں میں شامل ہو چکے ہوں ، عند الطلب اُن کو گواہی سے گریز کی اجازت نہیں ہے ۔ اِس لیے کہ حق کی شہادت ایک عظیم معاشرتی خدمت بھی ہے اور شہداء اللہ ہونے کے پہلو سے اِس امت کے فریضۂ منصبی کا ایک جزو بھی۔
قرض لین دین کا معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا، اگروہ کسی مدت کے لیے ہے ، دست گرداں نوعیت کا نہیں ہے تو اُس کو قید تحریر میں لانے سے گرانی نہیں محسوس کرنی چاہیے ۔ جو لوگ اِس کو زحمت سمجھ کر ٹال جاتے ہیں، وہ سہل انگاری کی وجہ سے بسا اوقات ایسے جھگڑوں میں پھنس جاتے ہیں جن کے نتائج بڑے دوررس نکلتے ہیں ۔
مذکورہ بالاہدایات اللہ تعالیٰ کے نزدیک حق و عدالت سے قرین ، گواہی کو درست رکھنے والی اور شک و نزاع سے بچانے والی ہیں، اِس لیے معاشرتی صلاح و فلاح کے لیے اِن کا اہتمام ضروری ہے ۔
دست گرداں لین دین کے لیے تحریر و کتابت کی پابندی نہیں ہے ۔
ہاں ، اگر کوئی اہمیت رکھنے والی خرید و فروخت ہوئی ہے تو اُس پر گواہ بنا لینا چاہیے تاکہ کوئی نزاع پیدا ہو تو اُس کا تصفیہ ہو سکے۔
نزاع پیدا ہو جانے کی صورت میں کاتب یا گواہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کسی فریق کے لیے جائز نہیں ہے ۔ کاتب اور گواہ ایک اہم اجتماعی و تمدنی خدمت انجام دیتے ہیں۔ اِس وجہ سے اُن کو بلاوجہ نقصان پہنچانے کی کوشش کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ثقہ اور محتاط لوگ گواہی اور تحریر وغیرہ کی ذمہ داریوں سے گریز کرنے لگیں گے اور لوگوں کو پیشہ ور گواہوں کے سوا کوئی معقول گواہ ملنا مشکل ہوجائے گا۔ اِس زمانے میں ثقہ اور سنجیدہ لوگ گواہی وغیرہ کی ذمہ داریوں سے جو بھاگتے ہیں، اُس کی وجہ یہی ہے کہ کوئی معاملہ نزاعی صورت اختیار کر لیتا ہے تو اُس کے گواہوں کی شامت آ جاتی ہے ۔ یہ بے چارے ہتک ، اغوا، نقصان مال و جائداد ، بلکہ قتل تک کی تعدیوں کے نشانہ بن جاتے ہیں ۔ قرآن نے اِس قسم کی شرارتوں سے روکا کہ جو لوگ اِس قسم کی حرکتیں کریں گے ، وہ یاد رکھیں کہ یہ کوئی چھوٹی موٹی نافرمانی نہیں ہے جو آسانی سے معاف ہو جائے گی ، بلکہ یہ ایک ایسا فسق ہے جو اُن کے ساتھ چمٹ کے رہ جائے گا اور اِس کے برے نتائج سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جائے گا۔‘‘(تدبر قرآن ۱/ ۶۴۰)              

۷۳۴؎ اصل میں ’ فرھان مقبوضۃ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ اِن کی خبر کو بھی محذوف قرار دیا جا سکتا ہے اور اِن کو خبر مان کر اِن کا مبتدا بھی محذوف قرار دے سکتے ہیں ۔ ہم نے دوسری صورت کو ترجیح دی ہے اور ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے ۔

۷۳۵؎ اِس سے واضح ہے کہ رہن کی اجازت صرف اُسی وقت تک ہے ، جب تک قرض دینے والے کے لیے اطمینان کی صورت پیدا نہیں ہو جاتی ۔ اللہ کا حکم ہے کہ یہ صورت پیدا ہو جائے تو رہن رکھی ہوئی چیز لازماً واپس کر دینی چاہیے ۔ استاذ امام لکھتے ہیں :

’’۔۔۔جب ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ ایک دوسرے پر اعتماد کے لیے جو باتیں مطلوب ہیں، وہ فراہم ہو جائیں۔ مثلاً سفر ختم کر کے حضر میں آ گئے ، دستاویز کی تحریر کے لیے کاتب اور گواہ مل گئے ، اپنوں کی موجودگی میں قرض معاملت کی تصدیق ہو گئی اور اِس امر کے لیے کوئی معقول وجہ باقی نہیں رہ گئی کہ قرض دینے والا رہن کے بغیر اعتماد نہ کر سکے تو پھر اُس کو چاہیے کہ وہ رہن کردہ چیز اُس کو واپس کر دے اور اپنے اطمینان کے لیے چاہے تو وہ شکل اختیار کرے جس کی اوپر ہدایت کی گئی ہے۔ یہاں رہن کردہ مال کو امانت سے تعبیر فرمایا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قرض دینے والے کے پاس رہن بطور امانت ہوتا ہے ، جس کی حفاظت ضروری اور جس سے کسی قسم کا انتفاع ناجائز ہے ۔ ‘‘ (تدبرقرآن ۱/ ۶۴۳)

۷۳۶؎ یعنی یہ ایسا گناہ نہیں ہے جس کا اثر انسان کے محض ظاہری وجود تک ہی رہے ۔ یہ لازماً دل میں اترے گا اور اُسے آلودۂ گناہ کرے گا، اِس لیے اِس کو کوئی معمولی چیز سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔

۷۳۷؎ یہ اِس عظیم سورہ کا خاتمہ ہے جس میں بنی اسرائیل سے اظہار براء ت کے بعد ایک بے مثل دعا اِس نئی امت کی زبان پر جاری ہو گئی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد بنی اسمٰعیل میں سے اٹھائی گئی ۔ سورۂ فاتحہ کی طرح خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِس کا نزول اِس بات کی بشارت ہے کہ یہ حرف بہ حرف قبول بھی ہو جائے گی ۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی اِس دعا کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’اِس کے لفظ لفظ سے اُس بھاری ذمہ داری کا احساس بھی ٹپک رہا ہے جو اِس امت پر ڈالی گئی ہے ، وہ اعتراف بھی نمایاں ہو رہا ہے جو روحِ ایمان ہے ، اُن باتوں سے بچائے جانے کی التجا بھی جھلک رہی ہے جو پچھلی امتوں کے لیے ٹھوکر کا باعث ہوئیں اور اداے فرض کی راہ میں جن مشکلات کے اندیشے ہیں ، اُن میں استعانت اور جن لغزشوں کے خطرے ہیں ، اُن سے درگذر کی درخواست بھی ہے ۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۶۴۵)                      

۷۳۸؎ اِس مضمون کے ساتھ ، اگر غور کیجیے تو یہود پر اتمام حجت اور ایک نئی امت کی تاسیس کے بعد بات وہیں پہنچ گئی ، جہاں سے شروع ہوئی تھی کہ اِس کتاب سے ہدایت وہی لوگ پائیں گے جو خدا سے ڈرنے والے ہوں ۔ یہی اِس سورہ کا اصل پیغام ہے اور عود علی البدء کے اسلوب پر قرآن نے خاتمۂ کلام میں ایک مرتبہ پھر اِسے نہایت خوبی کے ساتھ نمایاں کر دیا ہے ۔

۷۳۹؎ اِس سے واضح ہے کہ پیغمبر جس چیز کو لے کر آتا ہے ، ’ انا اول المؤمنین‘ کہتے ہوئے سب سے پہلے اور سب سے آگے بڑھ کر اُسے مانتا بھی ہے ۔

۷۴۰؎ یہ تمام ایمانیات اِس سے پہلے آیت ۱۷۷ کے تحت زیر بحث آ چکے ہیں ۔ یہاں اِن کا ذکر جس بات کو واضح کرنے کے لیے ہوا ہے ، وہ آگے بیان ہو گئی ہے کہ یہ نئی امت خدا کی پوری ہدایت پر ایمان لائی ہے ۔ یہود کی طرح اِس کے ایک حصے کو مان کر دوسرے کا انکار نہیں کر رہی ہے۔

۷۴۱؎ اِس جملے میں غائب کے صیغے سے یکایک متکلم کی طرف اسلوب کی جو تبدیلی ہوئی ہے، اُس کا مقصد یہ ہے کہ بات کو محض خبر کی جگہ سے اٹھا کر اُس میں اعتراف و اقرار کا مضمون نمایاں کر دیا جائے ۔

۷۴۲؎ اِس جملے میں ، اگر غور کیجیے تو یہود کے ’ سمعنا و عصینا‘ پر ایک لطیف تعریض بھی ہے ۔

۷۴۳؎ اصل میں لفظ ’ غفرانک‘ آیا ہے ۔ یہ فعل محذوف کا مفعول ہے ۔ اِس موقع پر حذف کا یہ اسلوب دعا کرنے والے کے اضطراب کو نمایاں کرتا ہے اور سمع و طاعت کے اقرار کے معاً بعد یہ دعا بتاتی ہے کہ خدا کی مغفرت کا سہارا نہ ہوتو بندہ اِس دنیا میں اپنے پروردگار کی طرف سے کوئی ذمہ داری بھی اٹھانے کا حوصلہ نہیں کر سکتا ۔

۷۴۴؎ دعا کے بیچ میں یہ جملۂ معترضہ تسلی اور بشارت کے لیے ہے کہ جو ذمہ داری اِس نئی امت پر ڈالی جا رہی ہے ، وہ اِس کی طاقت سے زیادہ نہیں ہے اور اِس میں ہر شخص کی جزا و سزا اُس کے اپنے ایمان و عمل کے لحاظ سے ہو گی ۔ نہ کسی کے اختیارو امکان سے باہر کی چیزوں پر اُس کا مواخذہ کیا جائے گا اور نہ کسی کا ایمان و عمل دوسرے کے لیے نفع و ضررکا باعث بنے گا۔ ہر شخص جو بوئے گا، وہی کاٹے گا اور جو کرے گا ، وہی بھرے گا۔

۷۴۵؎ اِس طرح کی بھول چوک اگرچہ معاف ہی ہونی چاہیے ، لیکن اِس کے باوجود اِس کے لیے معافی کی درخواست بندوں کی طرف سے غایت درجہ خشیت کو ظاہر کرتی ہے جس سے توقع ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مزید رحمت و عنایت کے مستحق ہوں گے ۔

۷۴۶؎ یہ اُن اصرو اغلال کی طرف اشارہ ہے جو یہود کی شریعت میں اُن کی سرکشی کے باعث موجود تھے اور جب وہ اُن کو نہیں اٹھا سکے تو بالآخر اُن کے لیے خدا کا عذاب بن گئے ۔

۷۴۷؎ یہ استطاعت سے باہر اُن آزمایشوں سے محفوظ رہنے کی درخواست ہے جو بنی اسمٰعیل کو منصب شہادت کی ذمہ داری ادا کرنے کی راہ میں پیش آ سکتی تھیں ۔

۷۴۸؎ اِس سے مراد وہ منکرین یہود ہیں جو اس طرح اتمام حجت کے باوجود اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری طرح پہچان لینے کے بعد بھی نہ صرف یہ کہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے ، بلکہ الٹا آپ کی دعوت کے دشمن بن کر مقابلے پر آ گئے ۔

ـــــ جاوید احمد غامدی             

بدھ، ۲۹ اپریل ۲۰۰۳ء

ـــــــــــــــــــــــــ

B