HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

نماز فجر اور نماز عصر کا اختتامی وقت

[اس روایت کی ترتیب وتدوین اور شرح ووضاحت جناب جاوید احمد غامدی کی رہنمائی میں ان کے رفقا معز امجد، منظورالحسن، محمد اسلم نجمی اور کوکب شہزاد نے کی ہے۔]


روی۱ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من ادرک من الصبح۲ رکعۃ قبل ان تطلع الشمس۳ ثم طلعت الشمس، فقد ادرک الصبح، فلیتم صلاتہ.۴ ومن ادرک رکعۃ من العصر قبل ان تغرب الشمس،۵ فقد ادرک العصر،۶ فلیتم صلاتہ.
والسجدۃ انما ہی الرکعۃ.۷
روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے سورج طلوع ہونے سے پہلے نماز فجر کی ایک رکعت مکمل کر لی،۱ پھر (اس کے باوجودکہ دوران نماز میں) سورج طلوع ہو گیا، اس نے نماز فجر کو پا لیا۔ چنانچہ اسے چاہیے کہ وہ (اطمینان کے ساتھ) اپنی نماز مکمل کر لے۔۲ (اسی طرح) جس شخص نے سورج غروب ہونے سے پہلے نماز عصر کی ایک رکعت مکمل کر لی۳ (پھر اس کے باوجود کہ دوران نماز میں سورج غروب ہوگیا)، اس نے نماز عصر کو پالیا۔ چنانچہ اسے چاہیے کہ وہ (اطمینان کے ساتھ) اپنی نماز مکمل کر لے۔۴
(یہ واضح رہے کہ) ایک رکعت سجدے ہی پر مکمل ہوتی ہے۔

ترجمے کے حواشی

۱۔ فجر کا اختتامی وقت طلوع آفتاب تک ہے۔

۲۔ یعنی اگر کوئی شخص طلوع آفتاب سے پہلے فجر کی ایک رکعت مکمل کر لے تو اس کی نماز قضا قرار نہیں پائے گی۔

۳۔ عصر کا اختتامی وقت غروب آفتاب تک ہے۔

۴۔ نمازیں اپنے مقررہ اوقات ہی میں ادا ہونی چاہییں۔ ظہر، مغرب اور عشا کے مقابلے میں فجر اور عصر کا اختتامی وقت سورج کے طلوع و غروب سے متعلق ہونے کی وجہ سے بالکل متعین ہوتا ہے۔ ہر شخص بلااشتباہ اس وقت سے آگاہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ یہ سوال فطری طور پر پیدا ہوتا ہے کہ اگر سورج نماز کے دوران میں طلوع یا غروب ہو جائے تو کیا نماز مقررہ وقت کے اندر تصور ہوگی یا اسے قضا سمجھا جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ضمن میں توضیح فرمائی ہے کہ اگر کوئی شخص طلوع یا غروب سے پہلے ایک رکعت مکمل کر لے تو اس کی نماز مقررہ وقت کے اندر ادا تصور ہوگی۔

متن کے حواشی

۱۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ بخاری کی روایت، رقم ۵۵۴ ہے۔ بعض اختلافات کے ساتھ یہ حسب ذیل مقامات پر نقل ہوئی ہے:

بخاری، رقم۵۳۱۔ مسلم، رقم ۶۰۸۔ ترمذی، رقم ۱۸۶۔ نسائی، رقم ۵۱۴، ۵۱۵،۵۱۶،۵۱۷، ۵۵۰، ۵۵۱۔ ابوداؤد، رقم۴۱۲۔ ابن ماجہ، رقم ۶۹۹، ۷۰۰۔ موطا، رقم۵۔ دارمی، رقم ۱۲۲۲۔ احمد بن حنبل، رقم ۷۲۱۵، ۷۴۵۳، ۷۵۲۹، ۷۷۸۵، ۸۰۴۲، ۸۵۵۱، ۸۵۶۹، ۹۱۷۲، ۹۹۲۰، ۹۹۵۵، ۱۰۱۳۳، ۱۰۳۴۴، ۱۰۳۶۴، ۱۰۷۶۱، ۲۴۵۳۳۔ ابن حبان، رقم ۱۴۸۴، ۱۵۵۷، ۱۵۸۲، ۱۵۸۳، ۱۵۸۴، ۱۵۸۵، ۱۵۸۶۔ ابن خزیمہ، رقم ۹۸۴، ۹۸۵، ۹۸۶۔ نسائی سنن الکبریٰ، رقم ۴۶۳، ۴۶۴، ۱۵۰۱، ۱۵۰۲، ۱۵۰۳، ۱۵۰۴، ۱۵۳۳، ۱۵۳۴، ۱۵۳۵۔ بیہقی، رقم ۱۵۹۵، ۱۵۹۶، ۱۶۴۸، ۱۶۴۹، ۱۶۵۰، ۱۶۵۱، ۱۶۵۲، ۱۶۵۳، ۱۶۸۳۔ مسند ابو یعلیٰ، رقم ۶۲۸۴، ۶۳۰۲، ۶۳۳۲۔

۲۔ بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۶۰۸ میں ’الصبح‘ کے بجائے ’الفجر‘ نقل ہوا ہے۔

۳۔ بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۵۳۱ میں ’من ادرک من الصبح رکعۃ قبل ان تطلع الشمس‘ (جس شخص نے سورج طلوع ہونے سے پہلے نماز فجر کی ایک رکعت مکمل کر لی) کے بجائے ’اذا ادرک سجدۃ من صلاۃ الصبح قبل ان تطلع الشمس‘ (جب کوئی طلوع آفتاب سے پہلے صبح کی نماز کا ایک سجدہ مکمل کر لیتا ہے) کے الفاظ آئے ہیں۔ نسائی، رقم ۵۱۶ میں ’اذا ادرک سجدۃ من...‘ (جب کوئی سجدہ مکمل کر لیتا ہے...) کا جملہ اس طریقے سے نقل ہوا ہے: ’اذا ادرک اول سجدۃ من...‘ (جب کوئی پہلا سجدہ مکمل کر لیتا ہے...)۔ احمد بن حنبل، رقم ۸۰۴۲ میں یہی بات قدرے مختلف اسلوب میں بیان ہوئی ہے۔ اس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

من صلی رکعۃ من الصبح ثم طلعت الشمس فلیتم صلاتہ.
’’جس شخص نے فجر کی ایک رکعت پڑھی پھر (دوران نماز ہی میں) سورج طلوع ہو گیا، اسے چاہیے کہ وہ اپنی نماز مکمل کر لے۔‘‘

اس روایت میں ’ثم طلعت الشمس‘ (پھر سورج طلوع ہوگیا) کے الفاظ آئے ہیں۔ بخاری، رقم ۱۶۵۲ میں یہی بات ’فطلعت‘ (پھر وہ طلوع ہوگیا) کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔

مسلم، رقم ۶۰۸ میں یہ روایت بعض الفاظ کے اضافے کے ساتھ نقل ہوئی ہے:

روی انہ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من ادرک من العصر سجدۃ قبل ان تغرب الشمس او من الصبح قبل ان تطلع فقد ادرکہا، والسجدۃ انما ہی الرکعۃ.
’’روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے غروب آفتاب سے پہلے نماز عصر کا یا طلوع آفتاب سے پہلے نماز فجر کا ایک سجدہ پالیا، تو اس نے (نماز) کو پالیا۔ (یہ واضح رہے کہ) سجدے ہی پر ایک رکعت مکمل ہوتی ہے۔‘‘

نسائی، رقم ۵۱۴ میں اس سے قدرے مختلف بات بیان ہوئی ہے۔ اس روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

من ادرک رکعتین من صلاۃ العصر قبل ان تغرب الشمس او رکعۃ من صلاۃ الصبح قبل ان تطلع الشمس فقد ادرک.
’’جس شخص نے غروب آفتاب سے پہلے نماز عصر کی دو رکعتیں مکمل کیں یا طلوع آفتاب سے پہلے نماز فجر کی ایک رکعت مکمل کی تو اس نے اس (نماز) کو پالیا۔‘‘

یہ روایت اس فرق کے ساتھ احمد بن حنبل، رقم ۸۵۶۹، ۹۹۲۰، ابن خزیمہ، رقم ۹۸۴، نسائی سنن الکبریٰ، رقم ۱۵۳۴، مسند ابو یعلیٰ، رقم ۶۳۰۲ میں بھی نقل ہوئی ہے۔ اس فرق کا سبب بظاہر راوی کا سہو معلوم ہوتا ہے۔

نسائی سنن الکبریٰ میں ’قبل ان تطلع الشمس‘ (اس سے پہلے کہ سورج طلوع ہو) کے الفاظ کی جگہ ’قبل ان یطلع قرن الشمس الاول‘ (سورج کی پہلی کرن ظاہر ہونے سے پہلے) کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔

۴۔ ’فلیتم صلاتہ‘ (تو اسے چاہیے کہ اپنی نماز مکمل کر لے) کے الفاظ بخاری، رقم ۵۳۱ سے لیے گئے ہیں۔ احمد بن حنبل، رقم ۸۵۵۱ میں اس کے بجائے ’فلیصل الیہا اخری‘ (اسے چاہیے کہ باقی نماز مکمل کر لے) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔ جبکہ احمد بن حنبل، رقم ۷۲۱۵ میں یہی بات ’فصل علیہا اخری‘ (تجھے چاہیے کہ نماز کا باقی حصہ مکمل کر لے) کے اسلوب میں بیان ہوئی ہے۔

۵۔ ابن حبان، رقم ۱۴۴۸ میں ’فقد ادرک الصبح‘ (تو اس نے صبح کی نماز پالی) اور ’فقد ادرک العصر‘ (اس نے عصر کو پالیا)، کے بجائے ’لم تفتہ الصلاۃ‘ (اس کی نماز قضا نہیں ہوئی) کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔

۶۔ نسائی، رقم ۵۱۵ میں ’قبل ان تغرب الشمس‘ (اس سے پہلے کہ سورج غروب ہو) کے بجائے ’قبل ان تغیب الشمس‘ (اس سے پہلے کہ سورج غائب ہو) کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔

۷۔ ’والسجدۃ انما ہی الرکعۃ‘ (سجدے ہی پر ایک رکعت مکمل ہوتی ہے) کے الفاظ مسلم، رقم ۶۰۸ سے لیے گئے ہیں۔

____________

B