HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

تقدیر اور شک و شبہ

(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث:۱۱۴)


عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا، قالت: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: من تکلم فی شیء من القدر سئل عنہ یوم القیامۃ، ومن لم یتکلم فیہ لم یسأل عنہ.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ جس نے تقدیر کے بارے میں کوئی شک ظاہر کیا، اس سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا اور جس نے کوئی شک شبہ ظاہر نہیں کیا، اس سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔‘‘

لغوی مباحث

من تکلم فی شیء من القدر: جس نے قدر کے کسی پہلو کے بارے میں بات کی۔ لیکن سیاق وسباق سے واضح ہے کہ یہاں اس سے مراد تقدیر کے بارے میں شکوک وشبہات ظاہر کرنا ہے۔

سئل عنہ: اس سے پوچھا گیا۔یہ اگرچہ ماضی کا جملہ ہے، لیکن چونکہ قیامت سے متعلق ہے، اس لیے اس کا ترجمہ مستقبل میں ہوگا۔ اس سے مراد مخاطب کو تنبیہ ہے اور اس بات کی آگاہی ہے کہ اس کو قیامت کے دن اچھا نہیں سمجھا جائے گا۔

متون

یہ روایت ابن ماجہ نے اپنی کتاب میں نقل کی ہے اور وہیں سے اسے صاحب مشکوٰۃ نے اپنی کتاب کے لیے اقتباس کی ہے۔اس روایت کا ایک ہی دوسرا متن ہے اوراس میں اس روایت کا صرف پہلا جملہ منقول ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’لایسئل عنہ‘ والا جملہ نہ بولا ہو۔ اس لیے کہ یہ محض پہلے جملے کا صریح نتیجہ جو بیان ہوگیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عام اسلوب جو امع الکلم کا ہے اور اس اسلوب میں اس طرح کی تصریحات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ البانی مرحوم کی تحقیق کے مطابق اس کی سند ضعیف ہے۔

معنی

تقدیر کیا ہے؟ یہ درحقیقت اس حقیقت کا ادراک ہے کہ یہ کائنات اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے منصوبے کے مطابق چل رہی ہے۔بطور خاص انسان جسے آزمایش میں ڈالا گیا ہے کہ زندگی میں جبر اور اختیار پہلو بہ پہلو قائم ہیں۔ مزید برآں یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کا ایک خود کار نظام ضرور بنایا ہے، لیکن وہ اس سے غیر متعلق نہیں ہے۔ وہ کائنات اور انسانی زندگی میں پوری طرح متصرف ہے۔ ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ انسان کو چونکہ خیر وشر کی آزمایش میں ڈالا گیا ہے، اس لیے اس دائرے میں اللہ تعالیٰ نے اس کے کسی قول وفعل پر کوئی ایسی قدغن عائد نہیں کی جو اس آزمایش کے عادلانہ ہونے کی نفی کرتی ہو۔

اللہ تعالیٰ پر ایمان کا لازمی تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کائنات کا خالق ومالک ہی نہ مانا جائے، بلکہ اسے اس کا ایک متصرف حاکم بھی مانا جائے جس نے انسان کو آزمایش کے لیے ایک دائرے میں آزادی دے رکھی ہے۔

یہ روایت بتاتی ہے کہ آزادی اور جبر کی اس حالت کی جزیات کو طے کرنا اپنی حدود سے تجاوز ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ ایسا انسان راہ صواب سے ہٹ جائے گا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ اس معاملے میں اصولی ایمان پر اکتفاکرنا چاہیے اور تفصیلات کے در پے نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو وہ قیامت کے دن اپنے قول وفعل کا ذمہ دارہوگا۔ اور خاموشی اختیار کرنے والا عافیت میں رہے گا۔

شارحین نے یہ بات بالکل صحیح لکھی ہے کہ اس روایت میں تقدیر کے بارے میں سوال پر تنبیہ کی گئی ہے اور تقدیر کے بارے میں خاموشی کو بہتر قرار دیا گیا ہے۔ صاحب مرقاۃ نے اس روایت کی وضاحت کرتے ہوئے یہ نکتہ بھی بیان کیا ہے کہ ہم تقدیر پر ایمان کے مکلّف ہیں، اس کے عقلی ونقلی دلائل پر تفحص ہم پر لازم نہیں ہے۔ یہ نکتہ ایک پہلو سے اپنے اندر ایک صحت رکھتا ہے۔ لیکن اسے اس روایت میں متکلم کا منشا قرار دینے میں ایک تکلف محسوس ہوتا ہے۔

کتابیات

ابن ماجہ، رقم ۸۱، مسند الحارث (زوائد الہیثمی)، رقم ۷۴۴۔

____________

B