HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ریحان احمد یوسفی

قرآن آپ سے کیا کہتا ہے؟

ایک زمانہ تھا کہ عام مسلمان قرآن سے بالکل بے نیاز ہوا کرتے تھے۔ گھروں میں قرآن بس تبرک کے طور پر رکھا جاتا تھا۔اس کے ترجمے کا رواج نہ تھا۔ چنانچہ عربی زبان سے ناواقف لوگوں کے لیے اسے سمجھنے کا کوئی سوال نہ تھا۔ عوام الناس میں سے زیادہ نیک لوگ ثواب حاصل کرنے کی غرض سے بلا سمجھے اسے پڑھا کرتے تھے، جبکہ دیگر لوگ بالعموم مردوں کو بخشوانے اور دلہنوں کو قرآن کے سائے میں رخصت کرنے کے لیے اسے استعمال کیا کرتے تھے۔

شاہ ولی اللہ کے خاندان کی کوششوں سے ہمارے ہاں قرآن کو ایک مختلف حیثیت حاصل ہونا شروع ہوئی۔ علما میں قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر کرنے کا چلن عام ہوا۔ ان کے کیے ہوئے ترجمے گھروں میں رکھے اور پڑھے جانے لگے۔ آہستہ آہستہ قرآن فہمی کی تحریکیں اٹھیں۔ معاشرہ میں قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کا رویہ عام ہوا۔ گو ابھی بھی عوام کی اکثریت قرآن سے لاتعلق ہے، مگر ایک بڑی تعداد میں قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کا ذوق پیدا ہو چکا ہے۔ لوگ اس مقصد کے لیے مختلف تفاسیر پڑھتے اور علما سے رجوع کرتے ہیں۔ اس ذوق کا خصوصی اظہار رمضان المبارک میں ہوتا ہے جب تراویح کے علاوہ بڑی تعداد میں قرآن فہمی کی محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے اور میڈیا پر نشر ہونے والے پروگراموں سے لوگوں کی بڑی تعداد استفادہ کرتی ہے۔

یہ سب کچھ بہت قابل تحسین ہے۔ لیکن ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس پورے عمل میں لوگوں تک قرآن کا وہ پیغام نہیں پہنچ پارہا جس کے لیے اسے نازل کیا گیا ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں، مگر یہ چونکہ ایک علمی موضوع ہے، اس لیے سردست ہم اس سے صرف نظر کرتے ہیں۔ اپنی اس تحریر میں ہم کوشش کریں گے کہ قرآن کا وہ پیغام لوگوں کے سامنے لائیں جس کے لیے اصلاً اسے نازل کیا گیا ہے، مگر اس دور میں بہت حد تک اس سے پہلو تہی کی گئی ہے یا پھر اسے ایک ثانوی درجہ کی چیز قرار دے دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآنی مضامین اور ان کے مقاصد کا ایک اجمالی جائزہ بھی اس تحریر میں قارئین کے سامنے آجائے گا۔

قرآن کا اصل پیغام کیا ہے؟

قرآنی ہدایت کا بنیادی پیغام انسانوں کو ان کے بارے میں خدا کے منصوبے سے آگاہ کرنا ہے۔ قرآن ہمیں صراحت سے یہ بتاتا ہے کہ انسان اس دنیا میں خود بخود نہیں آیا، بلکہ کائنات کے خالق نے اسے یہاں ایک مقصد کے تحت پیدا کیا ہے۔یہ مقصد انسان کی آزمایش اور اس آزمایش کے نتائج کی بنیاد پر اس کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔ دوران آزمایش میں ہر انسان کو اس دنیا میں ایک خاص مدت تک مہلت عمل دی جاتی ہے جس میں اسے اپنے آپ کو غلط عقائد اور برے اعمال کی ہر گندگی سے بچا کر رکھنا ہوتا ہے۔ اس عرصہ میں اس کے پاس پورا اختیار اور تمام مواقع دستیاب ہوتے ہیں کہ وہ اچھایا برا، جیسا دل چاہے عمل کرے، وہ نیکی کی راہ اختیار کرے یا بدی کی، وہ خدا کی عبادت کرے یا شیطان کی، وہ توحید کی راہ پر چلے یا شرک کی، وہ پاک نفس رہے یا آلایش پسند بنے۔ لیکن جیسے ہی اس کی مہلت عمل خٹم ہوتی ہے، اس پر موت وارد کر دی جاتی ہے۔ ایک روز یہی موت پوری دنیا پر طاری کر دی جائے گی اور پھر ایک نئی دنیا بسائی جائے گی۔ اس روز تمام انسانوں کو اٹھایا جائے گا اور ان سے ان کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ جن لوگوں نے اس دنیا میں اپنے اختیار کو غلط استعمال کیا اور گناہوں سے لتھڑے ہوئے رب کے حضور پیش ہوئے، ان کا انجام جہنم ہوگا اور جو پاکیزہ اعمال لے کر پہنچے ان کا بدلہ ابدی جنت ہوگا۔

ایسا نہیں ہے کہ قرآن نے پہلی دفعہ آکر لوگوں کو خدا کے اس پیغام سے آگاہ کیا اور اس سے قبل انسانیت اس بات سے بالکل بے خبر تھی۔ قرآن اللہ تعالیٰ کی پہلی نہیں، آخری کتاب ہے۔ اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے پہلے نہیں، بلکہ آخری نبی ہیں۔ ان سے قبل بھی ہر دور میں خدا کے پیغمبر انسانوں کی رہنمائی کرتے تھے۔ لہٰذا پچھلے انبیا ورسل اور کتب وادیان کے ذریعے سے لوگ بالعموم ان تصورات سے آگاہ تھے، مگر مسئلہ یہ ہوا کہ لوگوں نے اپنے مفادات، خیالات اور شیطانی ترغیبات کے زیر اثر پچھلی رہنمائی کو مسخ کر ڈالا اور گم راہی کا راستہ اختیار کر لیا۔ چنانچہ توحید کے ساتھ شرک کی آمیزش کر دی گئی۔ آخرت کی جواب دہی کو شفاعت کے غلط تصورات کے ذریعے سے غیر موثر کر دیا گیا۔ کبھی شریعت کو منسوخ کر دیا گیا تو کبھی خودکو رب کا چہیتا قرار دے دیا گیا۔ کہیں دینی اعمال میں بدعات داخل کی گئیں تو کہیں نسلی تعلق کو اخروی نجات کے لیے کافی سمجھا گیا۔

چنانچہ جب قرآن نازل ہوا تو اس کا زیادہ تر زور ان گم راہیوں اور بدعملیوں کی بیج کنی پر رہا جو مذہب اور ہدایت کے نام پر رواج پا گئی تھیں۔ بالخصوص شرک قرآن کا نشانہ بنا۔کیونکہ یہ عقیدہ نہ صرف سب سے بڑی گم راہی ہے،بلکہ عقیدہ وعمل کی دیگر خرابیوں کی راہ بھی یہی سے کھلتی ہے۔ صرف ایک خدا پر ایمان کے ساتھ آخرت میں اس کے حضور جواب دہی کے تصور کو، جو بڑی حد تک مردہ ہو چکا تھا، قرآن نے پوری قوت کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ اس نے لوگوں کو بتایا کہ انھیں ایک روز اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ جہاں اس کے نافرمان بدعمل اور بدعقیدہ لوگوں کو جہنم رسید کر دیا جائے گا۔ اس لیے لوگوں کوتنہا اللہ کی عبادت کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا چاہیے تاکہ وہ جنت کی ابدی کامیابی حاصل کر سکیں۔ قرآن اپنے اس تصور فلاح ونجات کے دلائل دیتا ہے۔ اس بارے میں لوگوں کی ہر غلط فہمی کو دور کرتا ہے۔ ان کے ہر شبہے کاجواب دیتا ہے۔ان کے باطل تصورات کی نفی کرتا ہے۔ جولوگ اس کی دعوت کے منکر ہیں، انھیں قیامت کے برے انجام سے ڈراتا اور ماننے والوں کو جنت کی خوش خبری دیتا ہے۔ غرض توحید اور آخرت کے اپنے اس بنیادی پیغام کی وضاحت میں قرآن بڑی تفصیل سے کام لیتا ہے اور اس کا کوئی ادنیٰ سا گوشہ بھی لوگوں کے لیے مبہم نہیں چھوڑتا۔

شریعت: خدا کی صراط مستقیم

قرآن کا اکثر حصہ اسی دعوت کی تفصیل پر مشتمل ہے جو ہم نے اوپر بیان کی۔ جولوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت پر ایمان لے آتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے لیے عقائد کی اصلاح کے بعد برے اعمال کی گندگی سے نکلنے کا راستہ بھی بیان کرتے ہیں۔ وہ ان کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے انھیں اس صراط مستقیم سے نوازتے ہیں جسے ہم شریعت کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ پاکیزہ شریعت نفس انسانی کا تزکیہ کرتی ہے۔ مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ وہ اپنی عملی زندگی کی عمارت اسی کی بنیاد پر استوار کریں۔ یہ دنیا اور آخرت میں کامیابی کا وہ راستہ ہے جس تک انسان اپنی عقل وبصیرت سے کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ چنانچہ یہ شریعت بندوں کے لیے خدا کا عظیم تحفہ ہے۔ قرآنی مضامین کا دوسرا حصہ اسی شریعت کے بیان پر مشتمل ہے۔

ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ رسول اللہ پہلے نبی اور قرآن پہلی کتاب نہیں ہے۔ اسی طرح اسلامی شریعت بھی پہلی شریعت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے قبل بھی اپنے بندوں کو نجات کا عملی راستہ بتاتے رہے ہیں، مگر عقائد کی طرح اعمال میں بھی لوگوں نے تحریفات اور بدعات کا دروازہ کھول دیا تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شریعت ہمیں دی ہے، وہ بالکل نئی چیز نہیں ہے۔ اسلام کے سارے اعمال اور شریعت اسلامی کے بیش تر اجزا پہلے سے موجود رہے ہیں۔ نماز، روزہ، حج، قربانی، زکوٰۃ میں سے کوئی چیز ایسی نہیں جو قرآن نے پہلی دفعہ متعارف کرائی ہو اور اس سے قبل لوگ ان سے واقف نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن ان اعمال کی تاکید تو بہت کرتا ہے، مگر تفصیل نہیں بتاتا۔ وہ انھیں اعمال صالحہ کے لازمی اجزا میں سے گنواتا ہے، مگران کی شرح وضاحت نہیں کرتا۔ وہ صرف ان کی اہمیت بیان کر کے، ان سے متعلق کچھ اصولی باتیں بیان کر کے ان کی تفصیلات، جو زیادہ تر عملی نوعیت کی ہوتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر چھوڑ دیتا ہے، جو اللہ کی ہدایت کی روشنی میں ان معاملات میں لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ شریعت اسلامی کا وہ پہلو ہے جس کا قرآن میں تذکرہ تو بہت ہے، مگر اصلاً یہ رسول اللہ کی سنت متواترہ کے طور پر امت کے اجتماعی عمل کے ذریعے سے آگے منتقل ہوا ہے۔ ان کا اصل ماخذ اور تفصیلات اصلاًسنت ثابتہ میں ہیں، قرآن میں ان کا تذکرہ محض تاکید کے پہلو سے آیاہے۔ لیکن بہرحال قرآن کا ایک بڑا حصہ انھی تاکیدی بیانات پر مشتمل ہے۔ یہاں سنت ثابتہ کا ذکر آگیا ہے تو ہم یہ واضح کرتے چلیں کہ تمام تر شریعت کا ماخذ قرآن نہیں ہے، بلکہ شریعت کا ایک بڑا حصہ صرف اس سنت کے ذریعے سے ہمیں ملا ہے مثلاً ختنہ وغیرہ وہ چیزیں ہیں کہ قرآن جن کے ذکر سے خالی ہے، مگر وہ شریعت کا حصہ ہیں۔

شریعت اسلامی کا دوسرا پہلو جو اصلاً قرآن میں مذکور ہے، وہ قوانین ہیں جن کا تعلق ہماری زندگی کے عملی گوشوں سے ہے۔ یہ قوانین فردو اجتماع کی زندگی کے تمام اہم پہلووں کے بارے میں ہمیں اصولی رہنمائی دیتے ہیں۔ ہمارا خاندانی نظام کن اصولوں پر استوار ہونا چاہیے، معاشرت کی اساس کیا ہونی چاہیے، معاشی نظام کن بنیادوں پر قائم ہونا چاہیے، کھانے پینے کے حدود کیا ہیں، سیاست اور جنگ کے اصول کیا ہیں، قرآن ان سب کی تفصیل بیان کرتا اور ان امور کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے۔ اعمال کے برخلاف یہی وہ چیزیں ہیں، قرآن جن کی تفصیلات بیان کرتا ہے۔ اور بعض اوقات تو انتہائی جزیات میں جاکر معاملات کو واضح کرتا ہے۔

قرآن میں بیان کردہ یہ اعمال وقوانین مل کر شریعت اسلامی کی اس حتمی صورت کو انسانوں کے سامنے لاتے ہیں جس کا تذکرہ قرآن کے آغاز میں سورۂ فاتحہ میں ’’صراطِ مستقیم‘‘ کے نام سے کیا گیا ہے۔ سورۂ فاتحہ انسانوں کی دعا ہے۔ یہ رب سے صراط مستقیم کی طرف ہدایت کی درخواست ہے۔ پورا قرآن بالعموم اور شریعت اسلامی بالخصوص اس دعا کے جواب میں نازل ہوتی ہے۔

ایک سوال

یہاں قرآن کے ایک قاری کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کے بنیادی مضامین توحید وآخرت اور شریعت اسلامی کے بیان پر بس نہیں کرتے، بلکہ اس کتاب الٰہی کا ایک بڑا حصہ وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور دعوتی جدوجہد سے متعلق ہے۔ اس کی کیا حیثیت ہے اور اس میں ہمارے لیے کیا رہنمائی ہے؟ ہم ذیل میں اسی سوال کا جواب بالتفصیل بیان کریں گے، کیونکہ یہی وہ مقام ہے جس کی صحیح نوعیت نہ جاننے کی بنا پر لوگوں کو بڑی غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔بہت سے لوگ فتویٰ دے دیتے ہیں کہ قرآن صرف عربوں کے لیے نازل ہوا تھا اور اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور بہت سے لوگ اس پوری جدوجہد کوامت سے متعلق کر کے خود کو اور امت کو ان ذمہ داریوں کا مکّلف بنا دیتے ہیں جن کا کوئی تقاضا خدا کی طرف سے نہیں۔ یوں نہ صرف خود کو اور امت کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں، بلکہ اس کے نتیجے میں دین کا نصب العین تک تبدیل ہو کر رہ جاتا ہے۔

خدا کے نظام ہدایت میں رسول کی حیثیت

قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے۔ آپ نبی ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ کے رسول بھی تھے۔ خدا کے نظام ہدایت میں رسولوں کی ایک غیر معمولی حیثیت ہوتی ہے۔ عام انبیا کے برعکس اللہ کے رسول لوگوں کو صرف یہی نہیں بتاتے کہ اللہ ان کا تنہا رب ہے اور انھیں ایک روز اس کے حضور پیش ہوکر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ اس روز نیک لوگ جنت میں اور نافرمان جہنم میں جائیں گے۔ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر اللہ تعالیٰ ان رسولوں کے ذریعے سے آنے والی قیامت کا ایک عملی نقشہ اسی دنیا میں کھینچ کر رکھ دیتے ہیں۔ رسولوں کے مخاطبین میں سے کفار کو دنیا ہی میں عذاب اور ایمان لانے والوں کونجات دی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل کئی رسول آئے۔ (ایک روایت کے مطابق تین سو تیرہ)۔ انھوں نے ایک طویل عرصہ تک اپنی قوم کو سمجھایا۔ ان کے مسلسل سمجھانے کے باوجود جب مخاطبین نے ان کی بات نہ مانی تو اللہ تعالیٰ نے قیامت کے عذاب سے پہلے اس دنیا ہی میں ان پر تباہ کن عذاب مسلط کر دیا۔ قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم ابراہیم، قوم لوط، قوم شعیب اور حضرت موسیٰ کے مخاطب فرعون کے ساتھ یہی معاملہ کیا گیا۔ رسولوں نے انھیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا، مگر ان کے کفروہٹ دھرمی کے بعد ان اقوام کو ہلاک کر دیا گیا۔ کسی کو پانی میں غرق کیا گیا، کسی پر آندھی مسلط کر دی گئی، کسی کو زلزلہ نے آلیا، کسی پر پتھربرسا دیے گئے اور کوئی کڑک کا شکار ہوا۔ حضرت یونس کی قوم عذاب کی زد میں آنے کے باوجود آخری وقت میں توبہ کر کے بچ گئی۔ جبکہ حضرت عیسیٰ کے منکر یہودیوں کے ساتھ، توحید سے وابستگی کی بنا پر، ذرا مختلف معاملہ کیا گیا۔ ان کی مجرم نسل کو ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ پھر اگلی نسلوں کو سوچنے کی مہلت دی جاتی ہے۔ جب وہ نہیں مانتے تو تھوڑے عرصہ میں پھر ان پر بدترین عذاب مسلط کر دیا جاتا ہے، رومیوں کے ہاتھوں شام میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں عرب میں، عیسائیوں کے ہاتھوں اندلس میں اور ہٹلر کے ہاتھوں یورپ میں آیاہوا عذاب اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ قرآن کے مطابق یہ سلسلہ تا قیامت چلتا رہے گا۔

ان رسولوں کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہ صرف انسانیت کو آخرت کے بارے میں خدا کے منصوبے سے آگاہ کرنے آئے تھے، بلکہ خاص طور پر قریش اور عربوں کو یہ بتانے آئے تھے کہ اگر انھوں نے آپ کی بات نہ مانی تو قیامت سے پہلے ان پر بھی خدا کا عذاب ایسے ہی آئے گا جیسے ان پچھلی قوموں پر آیا تھا۔ مذکورہ بالا رسولوں کے سارے قصے — اگلوں کی کہانیوں کے نام سے کفار جن کا مذاق اڑاتے تھے — اسی مقصد کے لیے قرآن میں بیان ہوئے کہ قریش کو سمجھا دیا جائے کہ ایک رسول کے آنے کی کیا اہمیت ہوتی ہے اور اس کے انکار کے نتائج کتنے بھیانک ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب یہ لوگ نہ مانے اور کفر پر اڑے رہے تو اللہ تعالیٰ کے عذاب نے انھیں آلیا اور ہلاک کر دیا۔ البتہ اس دفعہ رسول اللہ کے ساتھ ماننے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی، اس لیے یہ عذاب کسی ارضی یا سماوی آفت سے نہیں آیا، بلکہ آپ کے اصحاب کی تلواروں سے آیا۔ قریش کی پوری قیادت اس جرم میں ہلاک کر دئی گئی۔ البتہ بقیہ عرب ایمان لے آئے اور خدا کی ان رحمتوں کے دنیا ہی میں حق دار بن گئے جو وہ دوسروں کو آخرت میں دے گا۔ یعنی ان پر آخرت سے پہلے ہی دنیا میں خدا کے انعامات کا سلسلہ شروع ہو گیا اور وہ پوری متمدن دنیا کے حکمران بنا دیے گئے۔

قرآن ایک صحیفۂ رسالت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے مخاطبین کا یہ معاملہ پچھلے رسولوں کی طرح محض ایک سنی سنائی داستان نہ رہا،بلکہ ایک ایسی تاریخی حقیقت بن گیا ہے جس کا انکار خدا اور آخرت کے بدترین منکر بھی نہیں کر سکتے۔ ایک انسان خدا اور قیامت کے بارے میں عقل وفطرت کے سارے دلائل کا انکار کر سکتا ہے۔ وہ انفس وآفاق کی ساری نشانیاں جھٹلا سکتا ہے۔ وہ انبیا اور صالحین کی ہر دعوت کو رد کر سکتا ہے، مگر وہ اس مسلمہ حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتا کہ ساتویں صدی عیسوی میں ایک اُمی نے رسالت کے دعوے کے ساتھ لوگوں کو توحید وآخرت کی طرف بلایا اور اس چیلنج کے ساتھ بلایا کہ اگر اس کی بات نہ مانی گئی تو دنیا ہی میں منکرین پر عذاب آئے گا اور ماننے والوں کا مقدر عروج وکامرانی ہوگی۔ صرف ۲۳ سال کی مدت میں یہ واقعہ معجزاتی طور پر رونما ہو گیا اور تاریخ کے صفحات مین ان مٹ طور پر نقش ہو گیا۔

اللہ تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس داستان کو قرآن کے ذریعے سے محفوظ کرنے کا اہتمام کیا اور اس طرح کیا کہ انسانوں کے پاس قرآن سے زیادہ مستند تاریخ کا کوئی اور ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ آج ہم اس داستان رسالت کو قرآن میں پوری تفصیل کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔ یہی داستان قرآن کے مضامین کا تیسرا حصہ تشکیل دیتی ہے۔ لوگوں پر اگر اس داستان کی درست حیثیت واضح رہے تو یہ ان کے لیے نصیحت اور عبرت کا سب سے موثر ذریعہ بن جائے گی۔ اس میں انھیں یہ پیغام ملے گا کہ توحید وآخرت کے انکار کے بعد جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر تمام رسولوں کے مخاطبین کے ساتھ ہوا تھا وہ قیامت کے دن ان کے ساتھ بھی ہو کر رہے گا۔ کسی کو اب بھی کوئی غلط فہمی رہ جاتی ہے تو اس کا علاج صرف یہی ہے کہ خدا غیب کا پردہ اٹھائے اور خود اس حقیقت کا اعلان کر دے۔ ایسا بھی یقیناًہوگا، مگر اس روز ایمان لانے اور عمل صالح اختیار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

قرآن کا معجزہ کیا ہے؟

قرآن کے اس حصے کی حقیقی نوعیت جاننے کے بعد ہمارے لیے یہ سمجھنا بھی آسان ہو جاتا ہے کہ قرآن کا حقیقی معجزہ کیا ہے۔ معجزہ وہ خلاف عادت امر ہوتا ہے جو کسی پیغمبر کو اس کی دعوت کی تائید کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ اس کے سامنے آنے کے بعد مخاطبین کے لیے یہ ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ پیش کرنے والا کوئی جھوٹا شخص نہیں، بلکہ خدا کی طرف سے آیا ہوا پیغمبر ہے۔اس کی صورت بالعموم یہ رہی ہے کہ یا تو مخاطبین اپنی مرضی کا حسی معجزہ طلب کرتے ہیں۔ ان کے اصرار پر اللہ کا پیغمبر دعا کرتا ہے اور وہی معجزہ رونما ہو جاتا ہے۔ جیسے حضرت صالح کی اونٹنی۔ یا بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے اپنے پیغمبر کو کوئی ایسا معجزہ عطا کرتے ہیں جسے مخاطبین اپنے پیمانوں پر بھی نہیں جھٹلا سکتے۔ مثلاً حضرت موسیٰ کے دور میں سحر وجادو گری کا بڑا زور تھا۔ چنانچہ عصا کا معجزہ جب فرعون اور اس کے جادوگروں کے سامنے آیا تو ان کا اپنا جادو اس کے سامنے ڈھیر ہو گیا اور انھیں یہ جاننے میں دیر نہ لگی کہ یہ جادو سے بلند تر چیز ہے۔

قرآن مجید اپنی زبان وبیان کے اعتبار سے اپنے اولین مخاطبین کے لیے ایک حسی معجزہ تھا۔ قریش اپنی تمام تر زبان دانی کے باوجوداس کے جواب میں اس جیسی ایک سورت بھی نہ لا سکے۔ تاہم اب رہتی دنیا تک جو چیز قرآن کو معجزہ بناتی ہے، وہ اس کی زبان نہیں، بلکہ اس کا ایک صحیفۂ رسالت ہونا ہے۔ قرآن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی داستان رسالت کو جس طرح لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اس کے بعد کسی کے لیے ممکن نہیں رہتا کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول اور آپ کی دعوت کو سچا نہ مانے۔

آج کی دنیا علم کی دنیا ہے۔ جو چیز علمی طور پر ثابت ہو جائے، اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ آج کا انسان عقل وفطرت کے دلائل پر مبنی توحید و آخرت کی قرآنی دعوت کا انکار کر سکتا ہے، مگر وہ اس بات کو نہیں جھٹلا سکتا کہ آپ کی جو داستان قرآن میں بیان ہوئی ہے وہ سچ ہے، یہ ایک علمی اور تاریخی مسلمہ ہے جس کا انکار کرنے والا سورج کا بھی انکار کر سکتا ہے۔ قرآن اس حقیقت کا سب سے مستند تاریخی ریکارڈ ہے کہ ایک پیغمبر نے تنہا اپنی دعوت کا آغاز کیا اور مخاطبین کو قیامت کے عذاب سے ڈرایا۔ ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ یہ قیامت دوسروں کے لیے تو بعدمیں آئے گی، مگر مخاطبین کے لیے اسی دنیا میں برپا کر دی جائے گی۔جس میں سارے منکرین کو ہلاک کر دیا جائے گا اور مومنین کو زمین کا اقتدار سونپ دیا جائے گا۔ یعنی جنت وجہنم کا جو معاملہ دوسروں کے ساتھ قیامت کے دن ہوگا، اس رسول کے مخاطبین کے ساتھ دنیا ہی میں ہو جائے گا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ہوا اور اس طرح ہوا کہ اس رسول کا انکار کرنے والے قریش کے سردار جنگ بدر میں چن چن کر ہلاک کر دیے گئے۔ یہ جنگ تاریخ کی واحد جنگ تھی جس میں کسی گروہ کے صرف سردار ہلاک ہوئے۔ جبکہ دوسری طرف اس پیغمبر پر ایمان لانے والے بے سروسامان لوگ وقت کی دو عظیم سپر پاورز کو شکست دے کر دنیا کے حکمران بنا دیے گئے۔ مستشرقین اور دنیا بھر کے تاریخ دان آج تک اس واقعہ کی کوئی تاویل نہیں کر سکے، جس طرح حضرت موسیٰ کے عصا کے سانپ بن جانے کی کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ حضرت عیسیٰ کا عصا اب ہمارے پاس نہیں، البتہ قرآن اس ناقابل انکار حسی معجزے کی داستان سنانے کے لیے آج بھی ہمارے پاس موجود ہے۔

قرآن کے مضامین کا خلاصہ

ہم نے اوپر جو تفصیلی گفتگو کی ہے، اس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں تاکہ جب اگلی دفعہ آپ قرآن سمجھ کر پڑھنے جائیں تو آپ کومعلوم رہے کہ آپ اس کتاب میں کیا پڑھنے جارہے ہیں۔

قرآن بنیادی طور پر تین موضوعات پر گفتگو کرتا ہے۔ اول وہ مضامین جو کچھ ایسے حقائق لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں جنھیں انسان کو فطرت اور عقل عام کی بنیادوں پر مان لینا چاہیے۔ مگر لوگ ان معاملات میں راہِ راست سے ہٹ گئے اور آج تک ہٹے ہوئے ہیں۔ ان میں توحید وآخرت بالخصوص اور دیگر اخلاقی رویے بالعموم شامل ہیں۔ یہی قرآن کی اصل دعوت ہے جو پوری انسانیت کے لیے ہے۔ جو لوگ اس دعوت کو مان لیں ان کے لیے اللہ تعالیٰ قرآن میں زندگی گزارنے کے رہنما اصول دیتے ہیں۔ یہ شریعت اسلامی ہے جو قرآن کا دوسرا موضوع ہے۔ اس میں کچھ اعمال اور کچھ قوانین ہیں جو قرآن اپنے ماننے والوں کے سامنے رکھتا ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جو ہم مسلمانوں سے براہِ راست متعلق ہے۔ جولوگ قرآن کی دعوت کا انکار کر دیتے ہیں، ان کے لیے قرآن ایک صحیفۂ رسالت کے طور پر سامنے آتا ہے۔ یہ قرآن کا تیسرا موضوع ہے جو پچھلے رسولوں اور بالخصوص آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی داستان کا احاطہ کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی دعوت کے انکار کے نتائج کتنے بھیانک ہو سکتے ہیں۔ آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب دنیا میں تو یہ نتائج نہیں نکلیں گے، مگر قیامت میں ان کے نکلنے میں کوئی شبہ نہیں۔ اسی طرح اس حصے میں مسلمانوں اور غیر مسلموں، دونوں کے لیے پیغام ہے کہ قیامت آکر رہے گی۔ پہلے یہ قیامت محدود پیمانے پر اللہ کے رسولوں کے ذریعے سے، کسی خاص قوم کے لیے برپا ہوئی اور اب کائناتی سطح پر اسے اللہ تعالیٰ تمام انسانیت کے لیے برپا کریں گے۔ اس لیے کوئی بھی اس بارے میں کسی دھوکے میں نہ رہے۔

قرآن کی ترتیب

ہم نے جو باتیں بیان کی ہیں، وہ بہت واضح ہیں، مگر عام طور پر یہ لوگوں کے سامنے اس لیے نہیں آپاتیں کہ قرآن میں یہ مضامین علیحدہ علیحدہ ایک متعین عنوان کے ساتھ بیان نہیں ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی مسئلہ پیدا کر دیتی ہے کہ قرآن کے سارے مضامین اس کشمکش کے پس منظر میں نازل ہوئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مخاطبین کے درمیان بپاتھی۔ یہ ممکن نہ تھا کہ اس پورے ماحول کو نظر انداز کر کے قرآن کی دعوت اور شریعت کو براہِ راست بیان کر دیا جاتا۔لہٰذا قرآن کی دعوت توحید وآخرت اور شریعت، دونوں رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے مخاطبین کی داستان کے ایک جز کے طور پر بیان ہوئی ہے۔ اسی بنا پر یہ سارے مضامین آپس میں گتھے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ تدبر قرآن کی ان مشکلات کو بڑی حد تک حلقہ فراہی کے اہل علم نے حل کر دیا ہے۔ قرآن پر ان کے کام سے قرآن کی آیتوں اور سورتوں کا نظم اور باہمی ربط آج بالکل واضح ہو کر سامنے آگیا ہے۔ تفصیلات جاننے کے طلبگار جاوید احمد غامدی صاحب کی کتاب ’’میزان‘‘ دیکھ سکتے ہیں۔ جہاں مبادی تدبر قرآن کی بحث میں انھوں نے نظم کلام اور سبع مثانی کے عنوان کے تحت بہت تفصیل سے اس موضوع پر کلام کیا ہے۔ ہم یہاں مختصراً قرآن کی موجودہ ترتیب اور اس میں ان مضامین کے مقام کو واضح کیے دیتے ہیں۔

قرآن آج جس ترتیب میں ہمارے پاس موجود ہے یہ وہ نزولی ترتیب نہیں ہے جس میں قرآن نازل ہوا تھا۔ موجودہ ترتیب رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے قائم کی اور یہ توقیفی ترتیب کہلاتی ہے۔ اس ترتیب میں جو حکمت ہے،اس کی طرف سورۂ حجر میں یو اشارہ کیا گیا ہے:

’’اور ہم نے (اے پیغمبر)، تم کو سات مثانی دیے ہیں، یعنی یہ قرآن عظیم عطا فرمایاہے۔‘‘ (الحجر ۱۵: ۸۷)

اس آیت میں مثانی مثنیٰ کی جمع ہے۔ یہ وہی مثنیٰ ہے جس کا ذکر سورۂ نساء (۳) آیت ۳ میں ہوا ہے۔ جس میں کہا گیا کہ جو عورتیں تمھیں پسند آئیں، ان میں سے دو دو، تین تین اور چار چار سے تم نکاح کر لو۔ یعنی مثنیٰ سے مراد وہ چیز ہے جو دو دو کر کے ہو۔ اس آیت پر تفصیلی بحث مولانا امین احسن اصلاحی کی شاہ کار تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ کی جلد ۴ کے صفحہ ۳۷۷ پر دیکھی جا سکتی ہے۔

ان اہل علم کے کام کی روشنی میں قرآن کی موجودہ ترتیب میں جو حکمت ہمارے سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس کی تمام سورتیں آپس میں دو دو کر کے جوڑوں (Pairs) کی شکل میں ہیں۔ یعنی مضمون کے اعتبار سے ہر سورت اپنا ایک زوج (Partner) رکھتی ہے۔ اس اصول سے بہت کم سورتیں مستثنیٰ ہیں۔ مثلاً سورۂ فاتحہ۔ یہ سورتیں سات مجموعوں کی شکل میں مرتب کی گئی ہیں جنھیں ہم ابواب کہہ سکتے ہیں۔ ان ابواب کا کوئی مخصوص موضوع بھی ہوتا ہے۔ ہر باب ایک یا ایک سے زائد مکی سورت سے شروع ہوکر ایک یا ایک سے زائد مدنی سورت پر ختم ہوتا ہے۔ ہم اپنی بات کی وضاحت کے لیے پہلے باب کی وضاحت تفصیل سے کریں گے، کیونکہ اس میں سورتوں کی تعداد بہت کم ہے۔ جبکہ باقی ابواب کے ایک اجمالی بیان پر اکتفا کریں گے۔

پہلا باب پانچ سورتوں پر مشتمل ہے۔ اس کی پہلی سورہ الفاتحہ مکی ہے، جبکہ بقیہ چار مدنی ہیں۔ اس باب کا اصل موضوع خدا کی صراط مستقیم یعنی شریعت اور اس کے حاملین ہیں۔ پہلی سورت الفاتحہ اس باب کے لیے بالخصوص اور پورے قرآن کے لیے بالعموم افتتاحیہ کے طور پر آئی ہے۔ جس کا موضوع یہود ونصاریٰ کی گم راہی کے بعد انسانیت کی طلب ہدایت ہے۔ اگلی دو سورتیں البقرہ اور آل عمران مل کر ایک جوڑ بناتی ہیں۔ پہلی میں یہودیوں اور دوسری میں عیسائیوں پر اتمام حجت کے بعد ایک نئی امت کی تاسیس کا اعلان ہے اور اس امت کے تزکیہ اور تطہیر کے لیے شریعت دی گئی ہے۔ آخری دو سورتیں النساء اور المائدہ ایک جوڑا ہیں۔ ان میں مسلمانوں کے تزکیہ اور ترتیب کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے اور ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں سے متعلق شریعت کے احکام دیے گئے ہیں اور ان سے توحید وشریعت سے وفاداری کا عہد لیا گیا ہے۔

دوسرا باب چار سورتوں پر مشتمل ہے۔ پہلی دو الانعام اور الاعراف مکی ہیں اور آخری دو یعنی الانفال اور التوبہ مدنی ہیں۔ تیسرا باب یونس سے النور تک پندرہ سورتوں پر مشتمل ہے ۔ ان میں آخری کو چھوڑ کر سب مکی ہیں۔ چوتھے باب میں الفرقان سے الاحزاب تک نو سورتیں ہیں۔ پہلی آٹھ مکی اور آخری مدنی ہے۔ پانچواں باب سبا سے الحجرات تک سولہ سورتوں پر مشتمل ہے۔ پہلی تیرہ مکی اور آخری تین مدنی ہیں۔ چھٹا باب سورۂ ق سے التحریم تک ہے۔ ان میں سے ابتدائی سات مکی اور آخری دس مدنی ہیں۔ ساتواں باب الملک سے الناس تک ہے۔ آخری دو کو چھوڑ کر سب سورتیں مکی ہیں۔

قرآنی مضامین کی ترتیب

قرآنی سورتوں اور ابواب کے اس پس منظر کو جاننے کے بعد قرآنی مضامین کی ترتیب کو سمجھنا مشکل نہیں رہتا۔ جیسا کہ ہمارے بیان سے واضح ہے کہ شریعت بالعمو م پہلے باب میں بیان ہوئی ہے۔ گواس کا مطلب یہ نہیں کہ قرآن میں کسی دوسری جگہ شریعت کا کوئی بیان نہیں کیاگیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ زنا اور بہتان کی سزا سورۂ نور میں اور طلاق کے معاملات کی تفصیل سورۂ طلاق میں بیان ہوئی ہے۔ یہ دونوں سورتیں پہلے باب میں نہیں ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کے بعد مخاطبین کے لیے جو قیامت جزیرہ نماے عرب میں برپا ہوئی، اس کی تفصیل دوسرے بابا میں ملتی ہے۔ سورۂ انعام سے سورۂ توبہ تک اس باب میں داستان رسالت کا بیان ہے۔ یہ خاص عربوں کے حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور اس کے دلائل کو بھی بیان کرتی ہے اور اگلے پچھلے منکرین کے انجام کو بھی۔اس کے بعد اگلے چار ابواب میں زیادہ تر قرآن کی دعوت توحید وآخرت اور اس کے تفصیلی دلائل کا بیان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ ماننے والوں کے لیے بشارت اور منکرین کے لیے عذاب کی تفصیل بھی ہے۔ ساتواں اور آخری باب خدا کے اس پیغام کا بیان ہے جسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے یعنی انذار قیامت۔ یہ وہ قیامت ہے جو جزیرہ نماے عرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں برپا ہو گئی، جبکہ پوری انسانیت کے لیے بہت جلد برپا ہونے والی ہے۔

بعض غلط فہمیاں

قرآنی مضامین کے اس پس منظر اور ان کی ترتیب کے بعد ہمیں اللہ کی رحمت سے یہ امید ہے کہ قرآن فہمی کا ذوق یقیناًآپ کو قرآن کے اصل مدعا تک پہنچا دے گا۔ البتہ اس ضمن میں بھی، دوران مطالعہ میں، کچھ چیزوں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔

اول یہ کہ قرآن میں آپ مضامین کی تکرار دیکھیں گے۔ اس تکرار کا مقصد یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو معاذ اللہ ایک دفعہ بات سمجھانا نہیں آتی۔ اصل بات یہ ہے کہ توحید وآخرت کی قرآنی دعوت ایک اخلاقی دعوت ہے۔ جبکہ انسان ایک مادی دنیا میں رہتے ہیں۔ مادی تقاضوں مثلاً بھوک وغیرہ کے لیے انھیں متحرک کرنا کوئی مسئلہ نہیں، مگر اخلاقی بنیادوں پر کچھ منوانا اور اس پر ان کے عمل کر منحصر کرنا اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک کہ کوئی بات ان کے دل ودماغ میں راسخ نہ ہو جائے اور ان کی تفسیات کا حصہ نہ بن جائے۔ قرآن میں توحید وآخرت کے مضامین کی تکرار اصلاً یہی کام کرتی ہے۔ انسان کو جب بار بار اللہ کے سمیع وبصیر، حاضر وناظر اور علیم وخبیر ہونے کا معلوم ہوتا ہے تو اس میں تقویٰ پیدا ہونا لازمی ہے۔ اسی طرح جنت وجہنم کا باربار بیان اس دنیا اور اس کے نفع ونقصان کو انسان کی نگاہوں میں بے وقعت بنا دیتا ہے اور یقیناً ایسا شخص اعمال صالحہ اختیار کر کے آخرت میں کامیاب ہوگا۔

اسی طرح جب یہ کہاجاتا ہے کہ عوام الناس کو قرآن نہیں پڑھنا چاہیے، کیونکہ اس سے آدمی غلط نتائج تک پہنچ جاتا ہے تو یہ بات کلی طور پر درست نہیں۔ مضامین کی جو تقسیم ہم نے بیان کی ہے اوران کے جو مقاصد بیان کیے ہیں، ان کی روشنی میں قرآن سے غلط استنباط کا امکان نہیں رہتا۔ قرآن کی اصل دعوت یعنی توحید وآخرت کا شعور اپنے اندر پیدا کرنا تو نجات کے لیے لازمی ہے ۔ اور یہ شعور قرآن پڑھ کر ہی پیدا ہوتاہے۔ اسی طرح اخلاقیات کی یاددہانی اور شریعت کے اعمال مثلاً نماز وغیرہ کی سب سے زیادہ تاکید بھی قرآن ہی سے ملتی ہے۔ توحید وآخرت کی یادہانی، اخلاقیات کی پابندی اور شریعت کے اعمال تو وہ چیزیں ہیں جن پر ہماری روزمرہ دینی زندگی کا انحصار ہے۔ اگر ان کا شعور ذہن میں نہ رہے تو دین پر استقامت ممکن ہی نہیں رہتی۔

البتہ دو چیزیں ہیں جن کے بارے میں عوام الناس کو اپنی حد جان لینی چاہیے۔ ان میں سے پہلے شریعت کے قوانین ہیں۔ انھیں اہل علم کی مدد سے سمجھنا چاہیے اور انھی کے فہم پر اعتماد کرتے ہوئے ان پر عمل کرنا چاہیے۔ اس میں بھی تین باتیں واضح رہیں: اول یہ کہ احکام ہر وقت اور ہر شخص کے لیے نہیں ہیں۔ مثلاً وراثت، نکاح، طلاق وغیرہ ایسے احکام ہیں کہ فرد کی روزمرہ زندگی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ دوم یہ کہ قرآن انھیں بہت سادہ اسلوب میں بیان کرتا ہے۔ آدمی ایک دفعہ ان کی باریکیاں اہل علم کی مدد سے سمجھ لے تو پھر غلطی کا اندیشہ نہیں رہتا۔ سوم یہ کہ قرآن میں جس طرح ان احکام کو بیان کیا گیا ہے، اس میں یہ اہتمام ہے کہ احکام سے زیادہ زور ان کے مقاصد اور خدا کی صفات پر رہتا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو ہر فرد سے متعلق ہیں اور ان کی یاددہانی از حد ضروری ہے۔

دوسری چیز جس کے بارے میں متنبہ رہنا چاہیے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داستان رسالت کا وہ پہلو ہے جس میں آپ کی دعوت کو نہ ماننے اور کفر کے تنائج آپ کے مخاطبین کے لیے موت، ذلت، جلاوطنی اور مالی تاوان کی شکل میں نکلے۔ یہ پورا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مخاطبین کے ساتھ خاص تھا۔ اس کو پڑھتے وقت یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ عملی طور پر اس معاملے کا کوئی تعلق ہم سے نہیں ہے۔ اس میں ہمارے لیے کوئی نمونہ نہیں۔ آج کسی عیسائی، یہودی اور ہندو وغیرہ کو اسلام نہ قبول کرنے کی بنا پر جانی یا مالی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب مشرکین عرب کے لیے انتخاب اسلام یا موت کا تھا۔ اسی طرح یہود ونصاریٰ پر جزیہ، جلاوطنی اور ذلت وہلاکت کا عذاب مسلط کیا گیا۔

ہمارے لیے یہ داستان آخرت کی حسی دلیل ہے اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ معجزہ کی حد تک پہنچی ہوئی دلیل ہے۔ قرآن کے اس حصے کو اسی حیثیت میں پڑھنا چاہیے۔ جس طرح ہم قرآن میں توحید و آخرت کے انفسی یا آفاقی دلائل، مثلاً سورج وچاند کی گردش وغیرہ، کو پڑھ کر اللہ کی عظمت کے قائل ہوتے ہیں، اسی طرح اس واقعہ کو خدا کی قدرت اور آخرت کی حسی دلیل کے طور پر لینا چاہیے۔ جس طرح ہم پہلے کو اللہ کا کام سمجھتے ہیں، دوسرے کو بھی اللہ کا کام سمجھنا چاہیے۔ اسی حیثیت میں ہمیں اس واقعہ کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ رہا آپ کا اتباع تو شریعت واخلاق سے متعلق آپ کی زندگی کا ہر پہلو اور قرآن کا ہر حکم بشرط استطاعت ہم پر فرض ہے۔

قرآن آپ کے لیے ہے

قرآن خدا کا پیغام ہے۔ وہ پیغام جو خاص اس نے آپ کے لیے نازل کیا۔ یہ آپ کو خدا کی اس ابدی بادشاہی کی خبر دیتا ہے جسے بہت معمولی کوشش سے آپ حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ آگ کے اس گڑھے سے آپ کو بچانا چاہتا ہے جس تک غفلت بھری زندگی آپ کو لے جارہی ہے۔

ہم سب انسان ہیں — خواب دیکھنے والے، خواہش کرنے والے۔ ہم سب انسان ہیں — تمنا کرنے والے ، طلب رکھنے والے۔ ہم سب انسان ہیں جو امیدوں میں جیتے اور خوشیوں کے متلاشی رہتے ہیں۔ ہم خوشبو کا، ذائقے کا، رنگ کا اور سُر کا احساس رکھتے ہیں۔ ہم لطف، لذت، سکون، سرور، چین اور قرار کی طلب رکھتے ہیں۔ مگر جس دنیا میں ہم جیتے ہیں وہ ہمارے خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دیتی۔ ہماری تمنائیں پوری نہیں ہونے دیتی۔ ہماری خوشیوں پر غم اور لذتوں پر تکالیف حاوی رہتی ہیں۔ ہمارے خواہشوں پر باربار محرومی کی سیاہ چادر تن جاتی ہے۔ ایسے میں قرآن ہم سب کے لیے امید کا ایک دیا روشن کرتا ہے۔ وہ جنت کی لازوال نعمتوں کی خبر دیتا ہے۔ وہ اس کے لامحدود خزانوں کی امید دلاتا ہے۔ وہ ایک ایسی ابدی بادشاہی کی نوید ہے جس سے کوئی نکلنا چاہے گانہ کسی کو نکالا جائے گا۔ جہاں ماضی کا کوئی پچھتاوا ہوگا نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ۔

یہ ہے قرآن اور یہ ہے اس کی دعوت۔ جس نے اسے چھوڑا وہ دنیا میں ہلاک ہوا۔ جس نے اسے چھوڑا وہ آخرت میں ہلاک ہوا۔

____________

B