نواب زادہ نصر اللہ خان ہماری اس روایت کے آخری آدمی تھے جس نے انیسویں صدی کے اواخر میں جنم لیا اور بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں اپنے کمال کو پہنچی۔اس جملے میں ’’آخری‘‘ کا لفظ زمانی اعتبار سے استعمال ہوا ہے اور جوہری اعتبار سے بھی۔ علم، فضل، متانت وشایستگی، شعروسخن، گفتار وخطابت، کسی زاویے سے دیکھیے، اس عرصۂ وقت میں ہمارے بزرگوں نے، محسوس ہوتا ہے کہ بام عروج کو چھو لیا تھا۔ ابو الکلام ، ابو الاعلی، امین احسن اور ان سے ذرا پہلے محمود حسن، علامہ اقبال ، حمید الدین فراہی اور اگر مزید پیچھے جائیں تو شبلی اور سرسید۔ واقعہ یہ ہے کہ اس سطح کے لوگ چشم فلک نے بہت کم دیکھے ہوں گے۔ یہ اگر مذکورہ صفات کے اعتبار سے سیڑھی کے آخری قدم پر کھڑے تھے تو ہمارے نواب زادہ پہلے پر۔ اس کے باوجود، المیے کی انتہائی دیکھیے کہ ہماری صفوں مین اب ایک بھی ایسا نہیں، جسے ان کی مسند پر بٹھایا جا سکے؛
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے
نئی نسل ہماری تاریخ کے ادھورے سچ سے واقف ہے۔ وہ قائد اعظم اور مسلم لیگی تشخص رکھنے والی شخصیات کی عظمت کو جانتی ہے، لیکن اس گلستان سے باہر کھلے پھولوں کی مہک اس تک بہت کم پہنچی ہے۔ میرا خیال یہ بھی ہے کہ چمن میں ہونے کے باعث کچھ خاروں کو بھی پھول سمجھ لیا گیا، ورنہ قائد اعظم، بہادر یار جنگ یا لیاقت علی خان جیسے لوگ آخر اس قافلے میں بھی کتنے تھے؟ نواب زادہ صاحب کی جن خوبیوں کا آج ذکر ہے، اس کا ماخذ مسلم لیگ میں نہیں، کہیں اور ہے۔ اگر ہم اپنی تاریخ سے صحیح طور پر واقف ہو سکیں تو نواب زادہ صاحب کی رخصتی کا دکھ دو چند ہو جائے۔
ایسا کیوں ہوا کہ سیاست میں شایستگی اور متانت کی روایت دم توڑ گئی؟ نواب زادہ صاحب کو یہ صدمہ بارہا کیوں سہنا پڑا کہ فارسی کا کوئی خوب صورت شعران کے لبوں تک آکر لوٹ گیا کہ ان کے سامعین میں کوئی شعر شناس نہیں تھا؟ نواب زادہ کا جانا ایک سانحہ ہے ہی، اس سے بڑا حادثہ ہمارے ساتھ یہ ہوا کہ ہم اپنی روایت سے کٹ گئے ہیں، وہ روایت جس پر فخر کیا جانا چاہیے تھا۔ آج نواب زادہ صاحب کی جانشینی کے لیے جو شخص سب سے موزوں دکھائی دیتا ہے، اس کا معاملہ بھی یہ ہے کہ گزشتہ تیس برسوں میں اس کے ہاں کوئی ذہنی اور فکری ارتقا نہیں آیا۔ اب دوسروں کا کیا حال ہو گا، اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
جس حد تک میں سوچ سکا ہوں، اس قحط الرجال کے دو بڑے اسباب ہیں: ایک سبب تو جمہوریت کا نہ ہونا ہے۔ بالواسطہ یا بلاواسطہ فوج کے مسلسل اقتدار میں رہنے سے ہمارے ہاں ایسے ادارے نہیں بن سکے جو نئی نسل کے لیے تربیتی مرکز کا کام دیتے۔ پارلیمنٹ اور انتخابی عمل، دونوں افراد کے جمہوری رویوں کی تعمیر کرتے ہیں۔ پھر جمہوری کلچر میں جب لکھنے اور بولنے کی آزادی ہوتی ہے تو باصلاحیت لوگوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس بات کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں کہ باصلاحیت لوگ ہی کسی تہذیبی روایت کو آگے بڑھاسکتے اور اس کے ارتقا کا باعث بنتے ہیں۔ یہ ادارے چونکہ انسانی زندگی کی ناگزیر ضرورت ہیں، اس لیے فوجی آمر مصنوعی طور پر ایسے ادارے بنانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ زندگی کی نشوونما کا تاثر دیا جا سکے۔ اس دوران میں سیاست کے دروازے ان لوگوں پر بند ہو جاتے ہیں جو اس کے لیے فطری داعیہ رکھتے ہیں۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے مصنوعی سیاست دان تراشے جاتے ہیں۔ اسی طرح شعر وادب میں تخلیقی رحجان رکھنے والے پس پردہ چلے جاتے ہیں یا پس دیوار زنداں اور ان کی جگہ درباری شعرا اور ادیب شاہ کے مصاحب بنتے اور اترانے لگتے ہیں۔ یہ عمل ہر شعبے میں ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ جب ایک طویل عرصہ جاری رہتا ہے تو دوسرے اور تیسرے درجے کے لوگ ہر میدان میں نمایاں ہوجاتے ہیں اور اداروں کی باگ ڈوران کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے۔ آپ موجودہ پارلیمنٹ کو دیکھیے! جنرل ضیاء الحق مرحوم کی مجلس شوریٰ سے ایک عمل شروع ہوا جب مستند سیاست دانوں ی جگہ مصنوعی سیاست دان پیدا کرنے کی شعوری کوشش کی گئی۔ اس کے بعد انتخابی عمل پر جس طرح کی قدغنیں رہیں، اس کے نتیجے میں ہر اسمبلی اس مجلس شوریٰ کی جانشین بنی اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ گویا نئے سیاست دان ڈھالنے کا عمل ایک حد تک پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا۔ اب اگر نواب زادہ نصر اللہ جیسے افراد کبھی پارلیمنٹ تک نہ پہنچ سکیں گے تو لوگ کیسے جانیں گے کہ شایستگی کے ساتھ تنقید کیسے ہو سکتی ہے اور عصری موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے اپنی شعری روایت سے کیسے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ عقابوں کے نشیمن جب زاغوں کے تصرف میں آئے تو پھر اس کا وہی انجام ہوا جو ہونا تھا۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی بہت شدت کے ساتھ محسوس ہوتی ہے کہ ہمارے ہان سیاسی جماعتوں نے داخلی سطح پر کوئی ایسا اہتمام نہیں کیا جس کا مقصد کارکنوں کی تربیت ہو۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت نے اگر جمہوری اعتبار سے شعوری پختگی کا مظاہرہ کیا ہے تو اس کا سبب وہاں کی سیاسی جماعتوں کا جمہوری کلچر ہے۔ مثال کے طور پر کانگرس میں ضلعی سطح پر ان افراد ہی کو عہدہ دیا جاتا ہے جو صوبائی سطح پر عہدے دار رہ چکے ہوں۔ اس طرح یہ شرط مرکزی مجلس تک برقرار رہتی ہے۔ اس سے تربیت کا ایک خود کار نظام وجود میں آتا ہے۔ کچھ یہی معاملہ روس اور پھر چین کی کمیونسٹ جماعتوں کا بھی تھا۔ ہمارے ہاں جماعت اسلامی کی صورت میں ایک استثنا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی جیسے لوگوں نے یہ شعوری کوشش کی کہ شایستگی اور متانت کی روایت کو زندہ رکھنے کے لیے سیاسی تربیت کا ایک نظام بنایا جائے۔ اس کے نتائج نکلے اور آج اگر معاصر اہل سیاست میں اس کی تھوڑی بہت جھلک کہیں دکھائی دیتی ہے تو وہ جماعت اسلامی کے ہاں ہی ہے۔ آج اگر سینٹ میں ڈیسک بجاتے اور نعرے لگاتے ہوئے پروفیسر خورشید احمد کو تکلف اور جھجک محسوس ہوتی ہے تو یہ اسی نظام تربیت کا اثر ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے علاوہ ہماری پچھلی نسل کے کسی دوسرے فرد نے اس طرح کی کوشش نہیں کی، نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اگر ریاستی ادارے فطری طور پر آگے بڑھتے تو تربیت کا ایک خود کار نظام وجود میں آجاتا۔ ایک طرف فوجی مداخلت کے باعث یہ نظام قائم نہ ہو سکا اور دوسری طرف سیاسی جماعتوں کے ہاں بھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اس کے بعد نواب زادہ نصر اللہ کا جانشین کہاں سے پیدا ہوتا۔
دوسرا سبب سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی غیر معمولی شخصیت کا ظہور ہے۔ انھوں نے عوام کو زبان دینے کے نام پر جس سیاسی کلچر کی بنیاد رکھی، اس میں شایستگی اور متانت کے سوا آپ سے کچھ تلاش کر سکتے ہیں۔ بھٹو صاحب کی عوامی مقبولیت نے نئے سیاست دانوں میں ان کے اندر سیاست کو شہرت بخشی اور یہ خیال کیا گیا کہ عوامی سطح پر مقبول ہونے کا یہی سب سے بہتر اور مختصر راستہ ہے۔ یہ کلچر کچھ اس طرح پھیلا کہ مولانا مودودی کا تربیتی نظام بھی اس کی زد میں آگیا۔ بھٹو صاحب سیاست میں کچھ اور چیزیں لے کر بھی آئے تھے۔ مثال کے طور پر وہ ایک وسیع المطالعہ آدمی تھے، جن کی دنیا کی سیاسی تاریخ پر ایک نظر تھی۔ اس کے علاوہ وہ انگریزی زبان کا اچھا ذوق رکھتے تھے جس کا اظہار ان کی تقریروں اور تحریروں، دونوں سے ہوا۔ اس پر مستزادان کی بے پناہ ذہانت۔ ہماری بدقسمتی یہ ہوئی کہ ان کی خوبیوں کی جانشینی کے لیے کوئی آمادہ نہ ہوا، البتہ شایستگی اور متانت کا جنازہ بہت اہتمام سے نکالا گیا۔
یہ اسباب جب تک باقی ہیں، ہمیں نوب زادہ نصر اللہ کا جانشین نہیں مل سکتا، بلکہ ہمیں شاید کوئی دوسرا راجہ ظفر الحق بھی نہ مل سکے۔ قحط الرجال کے اس مسئلے سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ جمہوری عمل اپنے فطری بہاؤ کے ساتھ آگے بڑھے اور سیاسی جماعتیں اس طرح منظم ہوں کہ ان کے ہاں افراد کی سیاسی و تہذیبی تربیت کا پورا اہتمام ہو۔ اس مقصد کے لیے اگر قانون سازی کی جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نواب زادہ نصر اللہ، ابوالکلام اور عطااللہ شاہ بخاری جیسے لوگوں کی صحبت سے پیدا ہوتے ہیں۔ ہر پودا افزایش کے لیے ایک خاص فضا چاہتا ہے۔ ہم جس سیاسی فضا میں زندہ ہیں، وہ کسی نواب زادہ نصر اللہ کی نشوونما کے لیے ساز گار نہیں ہے۔
____________