HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر فاروق خان

المیۂ طالبان و افغانستان

طالبان عمل و اخلاق کا بہترین نمونہ تھے۔ان کے قول وفعل میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ جس چیز پر دوسروں کو عمل کرنے کا کہتے تھے، پہلے خوداس پر عمل کر دکھاتے تھے۔ سادہ، جفاکش، باحیا، پر عزم اور اپنے فہم اسلام کے لیے جان ہتھیلی پر رکھنے والے تھے۔ صحابۂ کرام کے بعد تاریخ نے سید احمد شہید اور ان کے ساتھیوں کا نظارہ دیکھا تھا اور آج کے زمانے میں طالبان اس اخلاص وجفاکشی کی ایک جھلک پیش کرتے تھے، لیکن ایسا کیوں ہوا کہ پروردگار نے ان کو صرف چھ سال حکومت کرنے کا موقع دیا اور پھر ان سے یہ موقع چھین لیا۔ اس معاملے میں پروردگار کا قانون تو یہ ہے کہ ہم پر ہر مصیبت ہمارے اپنے ہاتھوں آتی ہے۔ ارشادہ ہے:

’’تمھیں جو بھلائی بھی پہنچتی ہے، وہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو مصیبت بھی تم پر آتی ہے تو وہ تمھارے اپنے کسب وعمل کی وجہ سے ہے۔‘‘ (سورۂ نساء ۴: ۷۹)

مزید ارشاد ہے:

’’تم پر جو مصیبت بھی آتی ہے ، تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آتی ہے اور بہت سے قصوروں سے اللہ ویسے ہی درگزر کر جاتا ہے۔‘‘ (سورۂ شوریٰ ۴۲: ۳۰)

افغانستان میں طالبان کی شکست اور ان کی حکومت کا خاتمہ اس صدی کا ایک ایسا واقعہ ہے جس کا تجزیہ مختلف جہتوں اور پہلووں سے کرنا ضروری ہے۔ مسلمان دانش وروں اور اہل علم کے لیے اس کا تجزیہ اس اعتبار سے بھی ضروری ہے کہ پچھلے تین سو برس سے مسلمان جنگ کے میدان میں شکست کھا رہے ہیں۔ سید احمد شہید کی تحریک، ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی، تحریک خلافت، سنوسی تحریک، مہدی سوڈانی اور اسی قبیل کی تمام تحریکیں اور حالیہ چیچنیا کی تحریک آزادی ناکامی سے کیوں دو چار ہوئیں؟ اس کے مقابلے میں افغانستان میں روسی افواج کے خلاف جدوجہد اور اس کے بعد بوسنیا اور کوسوو کی تحریکیں کیوں کامیاب ہوئیں؟ اہل علم کے لیے یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ کیا افغانستان کے اندر طالبان متبادل راستہ اختیار کرکے اپنی حکومت کو مزید مضبوط نہیں بنا سکتے تھے؟ یہ تمام سوالات پوری امت مسلمہ اور اس کے اہل دانش کے لیے انتہائی اہم ہیں اور ان کا غیر جذباتی تجزیہ لازم ہے۔

طالبان کی بحث سے پہلے یہ مناسب ہے کہ پچھلی تاریخ کا بھی مختصراً جائزہ لیا جائے۔ ظاہر شاہ ۱۹۳۳ء میں بادشاہ مقرر کر دیے گئے۔ اس کے چالیس سال بعد ۱۹۷۳ء میں ان کے چچا زاد بھائی سردار داؤد نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس کے پانچ برس بعد اپریل ۱۹۷۸ میں کمیونسٹوں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور نور محمد ترکئی کو صدر بنایا گیا۔ ڈیڑھ سال بعد ستمبر ۱۹۷۹ میں کمیونسٹوں کے ایک اور دھڑے کے سربراہ اور وزیر دفاع حفیظ اللہ امین نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس کے دور میں حالات بہت بگڑ گئے، چنانچہ دسمبر ۱۹۷۹میں روسی افواج افغانستان میں داخل ہو گئیں اور ببرک کارمل کو تخت پر بٹھا دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ، پاکستان، چین اور عرب ممالک کے تعاون سے مجاہدین نے باقاعدہ مزاحمت شروع کر دی۔ مجاہدین کے بیش تر رہنما سردار داؤدکے وقت ہی سے پاکستان میں مقیم تھے۔ اس وقت ایک ہی تنظیم ’’جمعیت اسلامی‘‘ تھی جس کے قائد برہان الدین ربانی اور سیکرٹری جنرل گل بدین حکمت یار تھے۔ چونکہ اس معرکے میں پاکستان ہی فرنٹ لائن ریاست تھی، اس لیے پاکستان کا کردار اور اس کے فیصلے سب سے زیادہ اہمیت رکھتے تھے۔ اس وقت پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی اور انھوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ افغانستان میں روسی مداخلت کی مزاحمت کرنی ہے۔ یہ فیصلہ بالکل صحیح تھا، اس لیے کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو روس کا اگلا نشانہ پاکستان ہوتا۔ تاہم حکمت عملی کے لحاظ سے اس وقت پاکستان سے ایک فاش غلطی ہوئی۔

دنیا کی تاریخ کے جنگی تجربات سے یہ متفقہ سبق ملتا ہے اور اسلامی تعلیمات کی بھی یہی ہدایت ہے کہ صرف وہی مسلح مزاحمت کامیاب ہوتی ہے جس کی ایک متفقہ تنظیم ہو، اس کا سیاسی نظم ہو اور فوجی تنظیم اس کے ماتحت ہو۔ اس کی پشت پر ایک مضبوط ریاست علی الاعلان کھڑی ہو۔ اس کا سب سے بہتر طریقہ یہ تھا کہ افغان مجاہدین کی ایک متفقہ جلاوطن حکومت بنتی۔ اسی کی سربراہی میں جنگ آزادی لڑی جاتی اور دوسرے ممالک مثلاً پاکستان، امریکہ وغیرہ سے وہی جلاوطن حکومت معاہدے کرتی، لیکن پاکستان نے اس کے برعکس طریقہ اختیار کیا۔ اور یہ کوشش کی کہ زیادہ سے زیادہ مجاہد تنظیمیں بنیں۔ چنانچہ کچھ تنظمیں تو براہ راست بنائی گئیں مثلاً حکمت یار نے ربانی سے الگ ہو کر ۱۹۷۹ء میں ’’حزب اسلامی‘‘ قائم کر لی۔ مولوی یونس خالص نے حکمت یار سے اپنا دھڑا الگ کر لیا۔ پھر پروفیسر سیاف نے ۱۹۸۰ء میں ’’اتحاد اسلامی‘‘ قائم کی۔ جناب مجددی نے ’’جبہ نجات ملی‘‘ قائم کی۔ مولوی محمد نبی محمدی نے ’’حرکت انقلاب اسلامی‘‘ قائم کی۔ پیر گیلانی نے ’’محاذ ملی افغانستان‘‘ قائم کی۔ اس کے علاوہ اسی عمل سے شہ پا کر اہل تشیع کی بھی کئی تنظیمیں بن گئیں۔ پاکستان نے اس عمل کی خوب خوب حوصلہ افزائی کی۔ اس سے جنرل ضیاء کی حکومت کا اصل مقصد یہ تھا کہ تمام افغان تنظیمیں ایک خاص حد سے زیادہ طاقت ور نہ ہونے پائیں اور اس طرح ان کے قابو میں رہیں۔ اس طرح ان کو یہ فائدہ ہوتا کہ اپنے مفادات کی مدنظر رکھتے ہوئے افغانستان کے بارے میں اصل فیصلے کا اختیار ان کے پاس رہے اور امریکی امداد میں وہ اپنا حصہ زیادہ سے زیادہ رکھ سکیں۔ یہ بہت خود غرضانہ، غلط اور بے اصولی پر مبنی مقصد تھا۔ اور مستقبل کے تمام مسائل نے اسی فیصلے سے جنم لیا۔

ظاہر ہے کہ جب مختلف مسلح تنظیموں کے پاس وسائل، ڈالر اور اسلحہ موجود ہوتو علاقے پر قبضے کے لیے وہ آپس میں بھی لڑیں گی۔ چنانچہ یہ تمام تنظمیں آپس میں بھی لڑتی رہیں اور روسیوں کے خلاف بھی لڑتی رہیں۔ چونکہ مجاہدین کی کوئی جلاوطن حکومت موجود نہیں تھی، اس لیے اقوام متحدہ کے تحت جینیوا مذاکرات میں ان کی نمائندگی نہیں تھی اور پاکستان کا نمائندہ موجود تھا۔ گویا پاکستان نے تمام پتے اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۸۸ء میں جینیوا معاہدے پر دستخط افغانستان کے ڈاکٹر نجیب اللہ کے نمائندے اور حکومت پاکستان کے ہوئے۔ اگر اس کے بجائے یہی معاہدہ ڈاکٹر نجیب اللہ اور مجاہدین کی جلاوطن حکومت کے درمیان ہوتا تو پر امن انتقال اقتدار عمل میں آتا۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ وہ پاکستان کا پانچواں صوبہ بننے کے بجائے ایک آزاد افغانستان ہوتا۔

فروری ۱۹۸۹ میں روسی افواج افغانستان سے نکل گئیں اور اس کے بعد تین برس تک ڈاکٹر نجیب اور مجاہدین کے درمیان لڑائی جاری رہی۔ مارچ ۱۹۹۲ میں کابل کے دفاع پر مامور جنرل رشید دوستم کی بغاوت کی وجہ سے احمد شاہ مسعود کو کابل پر قبضے کا موقع ملا۔ اب ایک اور خون ریز دور کا آغاز ہوا جس میں تمام مجاہدین تنظیمیں آپس میں لڑتی رہیں۔ اگلے چار برس پورا افغانستان لاقانونیت، ظلم، بے انصافی اور طوائف الملوکی کی تصویر بنارہا۔ حتیٰ کہ اسی انارکی کے دوران میں طالبان نے جنم لیا۔ گویا افغانستان کے حالات کی خرابی میں روسی افواج کی مداخلت کے بعد سب سے زیادہ کردارجنرل ضیاء کی غلط پالیسی کا تھا۔ جماعت اسلامی بھی اس ذمہ دار ی میں شریک تھی، کیونکہ جماعت اسلامی اس پورے دور میں اس پالیسی کی پشت پر رہی۔ نیز تمام افغان مجاہد تنظیمیں بھی اس کی ذمہ دار ہیں۔ اس لیے کہ ان میں سے کسی تنظیم کی قیادت نے افغانستان کے اتحاد اور اسلام کے ارفع واعلیٰ اصولوں کی خاطر اپنی انا کی قربانی نہیں دی۔

طالبان تحریک اصلاً اس انارکی کے خلاف عوام کے سب سے بڑے فعال طبقے یعنی دینی مدارس کے نوجوان طلبہ کا احتجاج اور بغاوت تھی۔ یہ بنیادی طور پر ایک مقامی اور دیسی تحریک تھی۔ تاہم اس کی پرداخت میں جنرل نصیر اللہ بابر، دیگر پاکستانی اداروں، سی آئی اے، تیل کمپنی یونی کال اورسعودی عرب نے بھی بڑا کردار ادا کیا۔

طالبان نومبر ۱۹۹۴ میں منظر عام پر آئے۔ اسی مہینے میں قندھار پر قبضہ کر لیا اور اگلے دو سال کے اندر اندر یعنی ستمبر۱۹۹۶ تک کابل پر بھی ان کا قبضہ ہو گیا۔ اس دوسالہ لڑائی کے دوران میں خون ریزی یقیناً ہوئی، لیکن وہ اس سے پہلے اور اس کے بعد کی جنگوں کی لحاظ سے مقابلۃً بہت کم تھی۔ یہ پورا علاقہ جس پر اب تک طلابان نے قبضہ کیا تھا، پشتون اکثریت کا علاقہ تھا، سوائے ہرات کے جہاں تاجک اکثریت میں تھے۔ واضح رہے کہ طالبان تحریک کی تقریباً تما لیڈر شپ پشتونوں پر مشتمل تھی۔تحریک کے وقتاً فوقتاًپچاس بڑے لیڈروں میں سے صرف تین یا چار غیر پشتون تھے (وقتاً فوقتاً اس لیے کہ بسا اوقات ملا محمد عمر اپنی کابینہ میں یک دم کافی تبدیلیاں لے آتے تھے۔) اس کے بعد طالبان اگلے پانچ سال تک غیر پشتون علاقے فتح کرنے کی کوشش میں لگے رہے۔ ان میں تاجک، ہزارہ اور ازبک شامل تھے۔ ان علاقوں پر قبضہ کے لیے بہت خون ریزی ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق پانچ سال کے عرصے میں دو طرفہ لڑائی میں پچاس ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں سے کئی علاقوں پر کئی کئی مرتبہ کامیابی اور پسپائی ہوئی۔ مثلاً مئی ۱۹۹۷ میں طالبان نے مزار شریف پر قبضہ کر لیا اور پھر انھیں وہاں سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد اگست ۱۹۹۸ میں طالبان نے ایک دفعہ پھر مزار شریف پر قبضہ کر لیا۔ یہی حالت بہت سے دوسرے علاقوں کی رہی۔ طالبان کی فیصلہ کن شکست تک یہ لڑائی جاری تھی۔ پشتونوں اور غیر پشتونوں کے درمیان اس لڑائی میں دونوں طرف سے ایک دوسرے پر بہت مظالم بھی ڈھائے گئے۔ مثلاً مزار شریف میں ستمبر ۱۹۹۷ میں دونوں گروپوں نے ایک دوسرے کے ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہلاک کیے۔ اس کے بعدجب اگست ۱۹۹۸ میں طالبان نے دوبارہ مزار شریف پر قبضہ کیا تو انھوں نے ہزروں کی تعداد میں ہزارہ قبائل کا قتل عام کیا۔

اس مختصر تاریخ کے بعد یہ ممکن ہے کہ ہم ان اسباب کا کھوج لگائیں جن کی وجہ سے طالبان حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ اس زوال کی چند بنیادی وجوہات ہیں:

طالبان تقریباً تمام پشتونوں پر مشتمل تھے اور وہ سب صرف ایک ہی طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ بالکل قدرتی بات تھی کہ طالبان نے پشتون علاقے میں جنم لیا۔ ان کی تقریباً تمام لیڈر شپ اورتمام فوج بھی پشتونوں ہی پر مشتمل تھی۔ یہ اس لیے تھا کہ تمام بدامنی دراصل زیادہ تر پشتون علاقے میں تھی۔ طالبان کا ظہور دراصل اسی بدامنی کا رد عمل تھا۔ ازبک ، تاجک، ہزارہ اور دیگر علاقے پر امن تھے۔ ان کے ہاں مستحکم اقتدار تھا، اس لیے وہاں کوئی رد عمل بھی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کو اصل کامیابی پشتون علاقے ہی میں ملی اور اس علاقے میں امن وامان کے قیام سے عوام نے سکھ کا سانس لیا۔ اس کے بعد طالبان نے غیر پشتون علاقوں کا رخ کیا اور ان پر حملہ آور ہوئے۔ یہ طالبان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ ان علاقوں میں عموماً امن تھا، اس لیے طالبان کے حملے کا کوئی جواز نہ بنتا تھا۔ ان علاقوں کے لوگ اور ان کی حکومتیں ممکن ہے طالبان کے معیار اسلام پر پوری نہ اترتی ہوں، تاہم یہ لوگ بہتر مسلمان تھے اور یہ بہت غیر مناسب تھا کہ ان پر فوج کشی کی جاتی۔ جب ان علاقوں پر ایک ایسی فوج نے حملہ کیا جو ساری کی ساری پشتونوں پر مشتمل تھی اور جس کا ہرات کا سابقہ ریکارڈ یہ ظاہر کرتا تھا کہ اس نے مقامی انتظام وحکومت میں بھی کوئی غیر پشتون شامل نہیں کیا تو اس سے قدرتی طور پر غیر پشتونوں نے یہی سمجھا کہ پشتون ان کو غلام بنانے آرہے ہیں۔ چنانچہ غیر پشتونوں نے اس کے خلاف نہایت سخت مزاحمت کی۔ اور آخروقت تک طالبان اس قابل نہیں ہو سکے کہ اس پورے علاقے پر قبضہ کر سکیں۔

طالبان صرف ایک ہی طبقے یعنی دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ پر مشتمل تھے۔ انھوں نے حکومت میں کبھی کسی غیر طالب کوشامل نہیں کیا۔ حالانکہ اس طبقے سے باہر بھی بہت سے اچھے مسلمان موجود تھے۔ اس سے ایک نقصان یہ ہوا کہ طالبان کے اذہان وسیع نہ ہو سکے۔ اور اس کا دوسرا نقصان یہ ہوا کہ باقی تمام طبقات نے اپنے آپ کو طالبان کا محکوم سمجھ لیا۔

طالبان کے لیے مناسب حکمت عملی یہ تھی کہ ستمبر۱۹۹۶ میں کابل اور پورے پشتون بیلٹ پر قبضہ کرنے کے بعد وہ اعلان کرتے کہ وہ باقی تما نسلی گروہوں اور طبقوں سے گفتگو کے ذریعے سے ان کو بھی شریک اقتدار کریں گے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو آج سے پانچ برس قبل ہی افغانستان میں امن کی شروعات ہو جاتیں۔ لیکن افسوس کہ انھوں نے ایسا نہیں کیا جس کے نتیجے میں افغانستان کے مزید پانچ برس خانہ جنگی کی نذر ہوئے اور مزید پچاس ہزار افراد موت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس کی ذمہ داری اصلاً طالبان پر عائد ہوتی ہے۔

طالبان کا فہم اسلام

طالبان نے اسلام کے فوری نفاذ کو اپنا نصب العین قرار دیا اور اس کو حاصل کرنے میں انھوں نے جو بے اعتدالیاں کیں، وہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کے صفحات پر ثبت ہو گئیں۔ اس معاملے میں ان سے کئی غلطیاں ہوئیں۔ انھوں نے اسلام کے نام پر ایسی چیزوں پر پابندی لگا دیں یا ان کے بجالانے کا حکم دیا جو کسی طرح بھی بنیادی احکام کے ضمن میں نہیں آتیں، جن کے جوازوعدم جواز پر فقہا کے درمیان بہت اختلاف رائے ہے اور جن کو قانون کے زور پر پچھلے چودہ سو برس مین کبھی نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ حتیٰ کہ دو ر رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور دور خلفاے راشدین بھی ان امور کے ضمن میں کسی قسم کی قانون سازی یا سزاؤں سے خالی نظر آتا ہے۔ مثلاً طالبان نے موسیقی کوممنوع قرار دیا۔ سب مردوں پر ایک مٹھی کی مقدار سے زیادہ داڑھی رکھنا لازم قرار دیا۔ ٹی وی اسٹیشن بند کر دیے گئے۔ طالبان کا سب سے بڑا نشانہ خواتین تھیں۔ طالبان جہاں جہاں بھی گئے، خواتین کے اسکول بند کر دیے گئے۔ خواتین کا کسی مرد کے بغیر گھر سے نکلنا ممنوع کر دیا گیا، حالانکہ محتاط ترین فقہا کے نزدیک بھی کوئی عورت ایک دن اور ایک رات تک گھر سے اکیلی باہر جا سکتی ہے۔ خواتین کے لیے گھر سے باہر کام منع کر دیاگیا اور ان پر لازم کر دیا گیا کہ وہ صرف اورصرف ایک خاص قسم کا نیلا برقعہ پہنیں گی۔ حجاب کے طور پر چادر لینے یا کسی بھی دوسرے برقعے کے پہننے پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ وہ نیلا برقعہ ہے جسے صرف دیہاتی پشتون آبادی استعمال کرتی ہے۔ گویا طالبان نے اسلام کے نام پر افغانستان کے دیہاتی پشتون کلچر کو سارے ملک پر نافذ کیا۔

اسی طرح یہ لازم کر دیا گیا کہ تمام تعلیم یافتہ لوگ ہر وقت کالی پگڑی پہنیں گے۔ یہ درحقیقت دینی مدارس کے کلچر کو پورے افغانستان میں حاوی کرنے کی کوشش تھی، کسی بھی حکم کی خلاف ورزی پر عجیب سزائیں مقرر تھیں جن میں تحقیر، تمسخر اور تکبر کا پہلو نمایاں تھا۔ مثلا پاکستانی فٹ بال کے تمام کھلاڑیون کے، عین کھیل کے درمیان میں کھیل روک کر ، غیر شرعی لباس پہننے کے جرم میں سرمنڈوا دیے گئے۔ اسلام کے نام پر اس طرح کے اقدامات درحقیقت اسلام کو بدنام کرنے کے مترادف تھے۔ اس سے غیر مسلموں اور عام لوگوں کے سامنے اسلام کی جو تصویر بنی، اس کا اندازہ ہر ذی فہم شخص لگا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے طالبان نے اسلام کے نام پر ہر وہ کام کیا جس میں خبریت تو موجود تھی، مگر جس سے اسلام کا ایک غلط تاثر ابھرتا تھا، مثلاً بامیان میں بدھا کے مجسموں کا انہدام یا عیسائیت پھیلانے کے نام پر مختلف امدادی کارکنوں کی گرفتاری اور ان کے خلاف مقدمے وغیرہ۔

اس کے بجائے طالبان کو چاہیے تھا کہ وہ اسلام کے احکام کو اسی طرح نافذ کرتے جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے نافذ کیا تھا۔ اس پورے دور میں صرف ایک مثبت چیز بجبر نافذ کی گئی اور وہ تھی زکوٰۃ۔ اس کے علاوہ ہر ہدایت اور حکم کو ترغیب ، تلقین اور ذہنی تربیت کے ذریعے سے نرمی اور محبت سے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی۔ مختلف بڑے جرائم پر انتہائی سزائیں بھی صرف اسی وقت نافذ کی گئیں جب معاشرے کی پوری تربیت کی گئی اور جب ان جرائم کی طرف لے جانے والے عوامل تقریباً ختم ہوکر رہ گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حجاب کی کسی بھی خاص شکل کو نافذ نہیں کیا گیا اور کسی کو بھی اس طرح کی چیزوں کی خلاف ورزی پر کوئی سزا نہیں دی گئی۔ اس طرح خلفائے راشدین کے زمانے میں لاکھوں مربع میل کے علاقے فتح ہوئے، ہزاروں لاکھوں لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے، مگر وہ پورا زمانہ داڑھی ، حجاب اور اسی قبیل کے دوسرے امور کے متعلق سزاووں سے خالی رہا۔ درحقیقت طالبان کا تجربہ نفاذ اسلام اپنی نوعیت کا منفرد تجربہ تھا جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کی وجہ سے خواتین اور عام لوگوں میں انقباض ولا تعلقی کی ایک کیفیت پیدا ہو گئی۔

طالبان کے ہاں جمہوریت، آزادی رائے اور اپنے مخالفین کے لیے انصاف، عفوودرگزر اور رواداری کا جذبہ مفقود تھا۔ اسی طرح ان میں رفاہ عاملہ کے کاموں کی طرف بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی، اگر وہ ستمبر۱۹۹۶ کے بعد ملک کے اندر مکالمہ پر مبنی حکمت عملی کی ابتدا کرتے اور اقوام عالم سے اس میں مدد کی اپیل کرتے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ملک کی تعمیر وترقی کے لیے بھی اقوام عالم سے درخواست کرتے تو شاید اب تک افغانستان کی کایاپلٹ چکی ہوتی اور طالبان غالب پارٹنر کی حیثیت سے ایک خوب صورت، متعدل اسلامی افغانستان کے حکمران ہوتے۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔

القاعدہ کے متعلق طالبان کی پالیسی

طالبان کی خارجہ پالیسی پہلے دن سے ہی دوسرے ممالک کے لیے تحقیر کی بنیاد پر قائم تھی۔ دنیا بھر میں پاکستان ہی ان کا ساتھی تھا، مگر پاکستان کی درخواست کے برعکس انھوں نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ ظاہر ہے یہ پاکستان کے وجود کو نہ ماننے کے مترادف ہے۔ پاکستان کے بے شمار سنگین ، مجرموں نے طالبان کے ہاں پناہ لی تھی۔ انھیں پاکستانی حکام کے حوالے کرنے سے مسلسل ٹال مٹول کا رویہ اختیار کیے رکھا۔ یہی صورت حال ان کی القاعدہ تنظیم اور بن لادن کے بارے میں تھی۔

بن لادن ۱۹۸۰ء میں افغانستان آئے۔ اور دس برس بعد واپس سعودی عرب چلے گئے۔اگلے دوسال وہ سعودی عرب میں ہی مقیم رہے۔ پھر ۱۹۹۲ء میں وہ سوڈان چلے گئے۔ وہاں چار برس رہنے کے بعد وہ مئی ۱۹۹۶ میں اپنے درجنوں ساتھیوں سمیت جلال آباد پہنچے۔ اس وقت یہاں شمالی اتحاد اور طالبان کی کشمکش عروج پر تھی، تاہم بن لادن نے اس میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ ان کے جلال آباد پہنچے کے چار مہینے بعد وہاں طالبان کا قبضہ ہو گیا۔

سوال یہ ہے کہ ۱۹۹۰ء میں افغانستان چھوڑنے کے چھ سال بعد وہ واپس کیوں آئے۔ ظاہر ہے کہ وہ اس دفعہ نہ تو جہاد کے لیے آئے تھے، نہ شمالی اتحاد اور طالبان کے درمیان آویزش میں حصہ لینے آئے تھے۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ جب خلیجی جنگ کے موقع پر امریکی افواج سعودی عرب پہنچیں تو بن لادن نے اسے اسلامی تعلیمات کے خلاف جان کر ان پر کھلے بندوں تنقید شروع کر دی۔ جب خلیجی جنگوں کے بعد بھی امریکی افواج سعودی عرب میں مقیم رہیں تو بن لادن نے سعودی حکمرانوں کو اسلام کا غدار کہنا شروع کیا۔ اور اپنے لیے یہ مشن بنا لیا کہ وہ امریکی افواج کو سعودی عرب سے نکال کر رہیں گے۔ یہی مشن لے کر وہ سوڈان گئے اور جب سوڈان پر دباؤ بہت بڑھ گیا تو یہی مشن لے کر وہ افغانستان چلے گئے۔

یہاں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب میں امریکی افواج کے آمد کے متعلق چند اہم امور کی نشان دہی کی جائے۔ جب کویت پر عراق نے قبضہ کر لیا تو اس نے ایک طرف کھلم کھلا یہ ارادہ ظاہر کیا کہ اب سعودی عرب اس کا اگلا ٹارگٹ ہے۔دوسری طرف خلیجی تعاون کونسل کے معاہدوں کی رو سے سعودی عرب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ جارح ملک کو کویت سے نکالنے کے لیے اقدام کرے، چنانچہ سعودی عرب نے سب سے پہلے مسلمان ملکوں سے رابطہ کیا، مگر جب کسی مسلمان ملک سے کوئی حوصلہ افزا جواب نہ ملا تب اس کی یہ مجبوری بنی کہ وہ امریکہ سے اس معاملے میں مدد مانگے۔ چنانچہ امریکہ نے اقوام متحدہ کے جھنڈے تلے پورے مغرب کو اپنے ساتھ ملا کر یہ مدد فراہم کی۔ کویت سے عراقی فوج کا انخلا ہوگیا، مگر صدام حسین کی حکومت بدستور موجود رتھی۔ چنانچہ سعودی عرب ہی کی درخواست پر کچھ امریکی افواج وہیں دو اڈوں میں رہ گئیں۔ ان افواج کی کل تعداد چھ ہزار تھی۔ یہ افواج سعودی حکومت کی ہدایت اور اجازت کے بغیر کوئی اقدام نہیں کر سکتی تھیں۔ حتیٰ کہ سعودی اجازت کے بغیر نہ وہاں کوئی طیارہ اتر سکتا تھا، نہ وہاں سے اڑسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ افغان بحران میں جب سعودی عرب نے امریکہ کو یہ ہوائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت نہ دی تو وہ ان سے طالبان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کر سکا۔

گویا یہ بات واضح ہے کہ سعودی عرب میں امریکی فوجیں ایک خاص سیاسی صورت حال کی وجہ سے ٹھہری ہوئی تھیں اور اگر بن لادن چاہتے تھے کہ ان افواج کو سعودی عرب سے نکال دیا جائے تو اس کا صحیح طریقہ یہ تھا کہ وہ سعودی شاہی خاندان کو مستقل اس مقصد کے لیے ترغیب دیتے رہتے کہ سعودی افواج کو اتنا مضبوط بنایا جائے کہ وہ اپنے ملک کا دفاع کرنے کے قابل ہو سکیں اور یوں امریکی افواج کی کوئی ضرورت نہ رہے۔ بن لادن خاندان کے سعودی حکمرانوں سے نہایت گہرے تعلقات تھے اور اگر بن لادن اس مقصد کے لیے اپنی دولت اور دوسرے ذرائع استعمال کرتے تو شاید اب تک امریکی افواج سعودی عرب نے نکل چکی ہوتیں۔ بہرحال جب بن لادن مئی ۱۹۹۶ میں افغانستان آئے تو ان کے سامنے یہی مشن تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اگست ۱۹۹۶ میں انھوں نے پہلی بار امریکیوں کے خلاف اعلان جہاد (اعلان جنگ) کیا۔ طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد انھوں نے ملا عمر کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا اور قتدھار چلے گئے۔ ان کی زیر سرکردگی بہت سے کیمپ بنائے گئے جہاں سیکڑوں عربوں اور دوسری قومیتوں کے لوگوں کو مسلح تربیت دی جاتی تھی۔

۲۳ فروری ۱۹۹۸ کو خوست کیمپ میں القاعدہ سے وابستہ تمام گروپوں نے ایک منشور جاری کیا جس میں یہودیوں اور عیسائیوں کے خلاف اعلان جہاد کیا گیا اور یہ فتویٰ دیا گیا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے ہر باشندے خواہ وہ عام شہری ہو یا فوجی کو قتل کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔

جب اگست ۱۹۹۸ میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں میں بم دھماکوں میں دو سوبیس افراد ہلاک ہوئے، تو قدرتی طور پر سب کی نگاہیں بن لادن کی طرف اٹھیں۔ بن لادن نے بھی اپنے ایک بیان میں حملہ آوروں کی تعریف وتحسین کی۔ جتنے افراد کو ان مقدموں میں مورد الزام ٹھہرایا گیا اور جن کو عدالتوں کی طرف سے سزائیں دی گئیں، ان سب نے القاعدہ سے تعلق کا اعتراف کیا۔ یہ عین قدرتی امر تھا کہ امریکہ طالبان حکومت سے یہ مطالبہ کرتا کہ القاعدہ تنظیم سے وابستہ افراد کو اس کے حوالے کر دیا جائے۔ اس معاملے میں امریکہ نے اقوام متحدہ کو بھی ساتھ ملایا اور اس کی طرف سے یہ متفقہ قرارداد منظور ہوئی کہ ملزموں کو امریکہ کے حوالے کیا جائے۔

اس کے جواب میں طالبان کی طرف سے دو وضاحتیں پیش کی گئیں۔ پہلا جواز یہ تھا کہ یہ لوگ ہمارے مہمان ہیں اور دوسرا جواز یہ تھا کہ ان کی نقل وحرکت محدود کر دی گئی ہے۔ یہ دونوں جواب بہت کمزور تھے۔ کسی مہمان کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ میزبان ملک میں بیٹھ کر کسی اور ملک کے خلاف اعلان جنگ کرے۔ اس اعلان جنگ کو آج تک واپس نہیں لیاگیا۔ طالبان نے بھی کبھی اس کی مذمت نہیں کی، بلکہ بن لادن نے ہر موقع پر اس کی باربار تائید وحمایت کی۔ گویا القاعدہ تنظیم کے ہیڈکوارٹر کی افغانستان میں موجودگی طالبان کے لیے آگ سے کھیلنے کے مترادف تھی۔ لیکن وہ اس کا ادراک نہ کر سکے۔

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کے بعد طالبان کا موقف

۱۱ ستمبرکے سانحے کے بعد امریکہ نے بہت واضح الفاظ میں طالبان کو الٹی میٹم دیا کہ القاعدہ تنظیم کے اہم ارکان کو اس کے حوالے کر دیا جائے ورنہ وہ افغانستان پر حملہ کر دے گا۔ اسی کے ساتھ اقوام متحدہ نے بھی اپنی متفقہ قرار داد کے ذریعے سے طالبان سے یہ مطالبہ کیا کہ ملزموں کو امریکہ کے حوالے کیا جائے۔ اس وقت طالبان کے پاس دو راستے تھے: ایک یہ کہ القاعدہ کے اہم ارکان کو امریکہ کے حوالے کر کے اپنے ملک اور اپنی حکومت کو تباہی سے بچایا جائے اور دوسرا راستہ یہ تھا کہ انکار کیا جائے۔ چنانچہ طالبان نے انکار ووالا راستہ پسند کیا۔ یہ بات ہر انسان کو سمجھ میں آرہی تھی کہ اس انکار کی صورت میں القاعدہ کے ساتھ ساتھ طالبان حکومت بھی جائے گی اور ممکنہ تباہی سے اموال واملاک اور عام انسانی جانوں کا اتلاف بھی یقیناًہوگا۔ تاہم طالبان نے اپنے جواب کی حمایت میں چند دلائل دیے۔ پہلی دلیل یہ تھی کہ یہ حق وباطل اور کفر واسلام کی جنگ ہے۔ اس جنگ میں ہماری غیبی مدد ہوگی۔ امریکہ اسی طرح جنگ ہارے گا جس طرح ابابیل کے مقابلے میں ابرہہ اور ابراہیم علیہ السلام کے مقابلے میں نمرود ہارا تھا۔ ایک افغانی دس امریکیوں پر بھاری ہوگا۔ یہ دلیل ملا عمر نے اپنی ہر تقریر میں دہرائی۔ بلکہ اپنی ہر تقریر میں وہ اس موازنے کے بعد یہ بھی کہتے کہ ایک طرف خدا کا وعدہ ہے اور دوسری طرف بش کی دھمکی۔ دیکھتے ہیں دونوں میں سے کس کی بات پوری ہوتی ہے۔ پاکستان کے اکثر مذہبی لیڈروں نے بھی اس دلیل کو اپنی تقریروں میں دہرا کر نہ صرف طالبان کی پیٹھ ٹھونکی، بلکہ پاکستانی عوام کو بھی یہ یقین دلایا کہ غیبی مدد آیا ہی چاہتی ہے۔ ان کی دوسری دلیل یہ تھی کہ خواہ ہم کچھ بھی کریں امریکہ لازماً ہم پر حملہ کرے گا۔ اگر ہم القاعدہ کے ارکان ان کے حوالے کر بھی دیں تب بھی وہ ہمارے خلاف کوئی اور بہانہ ڈھونڈ لے گا۔ اس لیے ڈٹے رہنے میں ہی ہماری بہتری ہے۔ ان کی تیسری دلیل یہ تھی کہ یہ اصول کا معاملہ ہے۔ ہم بغیر کسی ثبوت کے بن لادن اور اس کے ساتھیوں کو امریکہ کے حوالے نہیں کریں گے خواہ اس میں ہماری جانیں اور ہماری حکومت ہی کیوں نہ چلی جائے۔ بہرحال ہم اصولوں پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔

مناسب ہے کہ ان تینوں دلائل کا مختصر تجزیہ کیاجائے۔ جہاں تک پہلی دلیل کا تعلق ہے تو یہ پروردگار کا واضح حکم ہے کہ مقابلے کی پوری قوت فراہم رکھی جائے۔ جب سامان حرب واسلحہ میں دو قومیں ایک دوسرے کے برابر ہوں تب اگر زیادہ صبر واستقامت والی طاقت افرادی قوت کے اعتبار سے کچھ کم بھی ہو، تب بھی وہ مقابلہ جیت سکتی ہے۔ دور رسالت اور دور صحابہ کی تمام جنگوں میں مسلمانوں اور ان کے دشمنوں کے درمیان اسلحہ کی تعداد میں یقیناًفرق رہا ہے لیکن دونوں طرف سے ہمیشہ ایک ہی جیسے ہتھیار استعمال کیے جاتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ دشمن کے پاس کوئی ایسا ہتھیار ہو جو مسلمانوں کے پاس نہ ہو۔ پچھلے تین سو برس کی تاریخ مسلسل ہمیں سبق دیتی ہے کہ بہترین مسلمانوں کے مقابلے میں وہ دشمن جنگ جیتے جن کے پاس مسلمانوں سے برتر اسلحہ تھا۔ مثلاً سید احمد شہید کے مقابلے میں ایسٹ اندیا کمپنی جنگ جیت گئی۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کے مقابلے میں انگریز کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ اسی طرح کی بیسوں مزید مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پچھلے تین سو برس کے واقعات سے طالبان اور پاکستان کی مذہبی جماعتوں کے قائدین نے کوئی سبق نہیں سیکھا تھا۔

لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ سے بھی یہ ثابت ہے کہ جب آپ کے پاس سامان حرب کی کمی تھی تو آپ نے ہمیشہ لڑائی کو ٹال کر مسلمانوں کو بچایا۔ اس کی سب سے نمایاں مثال جنگ احزاب ہے۔ اس وقت دشمنوں کی تعداد دس ہزار جب کہ مسلمانوں کی تعدادتین ہزار تھی۔ مزید یہ کہ دشمن کے پاس اسلحہ بہت بڑی مقدار میں تھا۔چنانچہ نبی کریم نے مقابلہ کرنے کے بجائے مدینہ کے گرد خندق کھود کر اس کے اندر مسلمانوں کو محصور کر کے انھیں دشمن سے بچایا۔ سوال یہ ہے کہ کیا طالبان نے حضور کی سیرت سے کوئی سبق نہیں سیکھا تھا۔

طالبان کی دوسری دلیل بہت کمزور تھی۔ اگر وہ القاعدہ کے ارکان کو امریکہ کے حوالے کر دیتے تب پوری دنیا کی اخلاقی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہو جاتیں۔امریکہ چاہنے کے باوجود اقوام متحدہ سے طالبان کے خلاف کوئی اور قرار داد حاصل نہ کر سکتا۔ خود امریکہ کے اندر رائے عامہ حکومت کے خلاف ہو جاتی۔ اور اگر بالفرض امریکہ پھر بھی شرارت کی کوشش کرتا تو اس کی ہر چال کا حکمت وسیاست کے ساتھ توڑ کیا جا سکتا تھا۔

طالبان کی تیسری دلیل یہ تھی کہ ثبوت کے بغیر وہ بن لادن کو قطعاً امریکہ کے حوالے نہیں کریں گے۔ خواہ اس کی کوئی بھی قیمت ان کو ادا کرنا پڑے۔ اس دلیل میں چند اہم غور طلب پہلو ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ امریکہ کے خیال میں یہ اس کے لیے ممکن اور مناسب نہیں تھا کہ وہ طالبان کو اس کے بارے میں ثبوت فراہم کرتا۔ اس کے لیے اس کے تجزیے کے مطابق طالبان حکومت اور القاعدہ ایک ہی سکے کے دورخ تھے۔ ان کو ثبوت فراہم کرنا اور پھر القاعدہ کے متعلق ان پر فیصلہ چھوڑنے کا مطلب دراصل ملزم کو عدالت کے حوالے کرنا تھا۔ البتہ امریکہ نے وزیر خارجہ کولن پاول کے ذریعے سے یہ کھلی پیش کش کر دی کہ بن لادن پر کسی دوسرے غیر جانب دار ملک میں اس ملک کے قانون کے مطابق مقدمہ چلایا جائے تو یہ امریکہ کو منظور ہوگا۔ لیکن اس پیش کش کو طالبان نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ دنیا بھر میں شرعی عدالت تو صرف طالبان کی ہے، اس لیے بن لادن کے متعلق اسی کا فیصلہ چلے گا۔ واضح رہے کہ گیارہ ستمبر سے پہلے خود ملا عمر نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ تین مسلمان ملکوں پر مشتمل ایک عدالت بنائی جائے جس کے سامنے بن لادن کو پیش کیا جائے۔جب گیارہ ستمبر کے بعد پاکستانی علما کا ایک وفد ان سے ملاقات کے لیے قندھار گیا اور وہاں مفتی شامزیٰ نے اسی تجویز کا اعادہ کرنے کو کہا تاکہ اس کی بنیاد پر بات آگے بڑھائی جا سکے تو ملاعمر نے اپنی تجویز کا اعادہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہاکہ اب حالات بدل چکے ہیں۔ اب بن لادن پر صرف طالبان کی عدالت میں ہی مقدمہ چل سکتا ہے۔

امریکہ کا یہ کہنا تھا کہ بن لادن کے خلاف ثبوت اتنی حساس نوعیت کے ہیں کہ انھیں ذمہ دار ترین حکومتوں اور مجاز عدالتوں کے علاوہ کسی کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ القاعدہ کا ۲۳ فروری ۱۹۹۸ کا تحریری اعلان جنگ ہی اس کے لیے کافی ہے کہ اس کے ذمہ دار افراد کو مجاز عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔

بدقسمتی سے گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد بن لادن اور القاعدہ کے دوسرے اہم رہنما اپنے ہر بیان اور ہر انٹرویو کی وجہ سے اپنے لیے مزید مشکلات پیدا کرتے گئے۔ مثلاً بن لادن نے بارہ ستمبر کو اپنے ایک بیان میں حملہ آوروں کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی تائید کی۔ سات اکتوبر کے بیان میں انھوں نے کہا کہ حملہ آور بہت اچھے نوجوان مسلمان تھے جن کو پروردگار نے اس حملے کی توفیق بخشی اور جنت کی ابدی نعمتیں ان کا انتظار کر رہی ہے۔ تیرہ اکتوبر کو القاعدہ کے ترجمان نے الجزیرہ ٹی وی پر کہا کہ مغرب کے اندر رہنے والے مسلمانوں کو اونچی عمارتوں میں رہنے اور ہوائی سفر سے گریز کرنا چاہیے اس لیے کہ اس طرح کے مزید خودکش حملے بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد بن لادن نے اپنے ایک مبینہ انٹرویو میں نیو کلییر، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار رکھنے کا دعویٰ کیا۔ اس طرح اس نے اپنے خلاف ایکشن کے لیے دنیا بھر کو ایک بھرپور اخلاقی جواز فراہم کردیا۔

اس معاملے کا اگلا پہلو یہ ہے کہ اسلام کے اندر ایسا کوئی اصول ہی نہیں جس کے تحت چند افراد کے لیے ایک پورے ملک،ایک حکومت اور ہزاروں مسلمانوں کو موت کے منہ میں جانے دیا جائے۔ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کیا جاتا تو اس کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت تھے بھی یا نہیں۔ اول تو یہ مقدمہ کئی برس تک چلتا پھر کہیں جا کر سزا کی نوبت آتی۔ لیکن دوسری صورت میں تو سب بشمول القاعدہ کی تباہی یقینی تھی۔ ایسے موقع پر اسلام نے ہمیں حکمت کا اصول سکھلایاہے جس کے تحت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر دشمن کی یہ شرط تسلیم کر لی تھی کہ اگر مدینہ سے کوئی فرد دشمن کے ہاں جائے گا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا اور اگر دشمن کے ہاں سے کوئی فرد مدینہ آجائے تو مسلمان اسے واپس کرنے پر مجبور ہوں گے۔ چنانچہ طالبان کی یہ دلیل بھی انتہائی کمزور، بلکہ مہلک تھی۔

وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ طالبان کو فیصلہ کن شکست ہوئی۔ افغانستان میں تباہی کی ایک اور داستان رقم ہو گئی۔

سوال یہ ہے کہ افغانستان کے معاملے میں اب کیا کیا جائے۔ درحقیقت اس کا حل خود افغانوں کے پاس ہے۔ آج اس امرکی ضرورت ہے کہ افغانستان کے اندر تمام سابقہ طالبان کرزئی حکومت کے خلاف مسلح اقدامات ختم کر دیں۔ اور اپنے آپ کو ایک سیاسی تنظیم میں ڈھال لیں۔ تمام مقامی کمانڈر اپنی اپنی افواج کو افغان فوج میں ضم کر لیں۔ اس کے بعدہی یہ ممکن ہوسکے گا کہ امریکی افواج سے افغانستان چھوڑنے اور کرزئی حکومت سے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا جائے۔ اور پھر ان دونوں کو یہ مطالبہ ماننے پر مجبور ہونا پڑے گا۔

پاکستان کے لیے ان حالات میں صحیح پالیسی یہ ہے کہ افغانستان سے ملحق تمام قبائلی علاقوں کی خصوصی حیثیت ختم کر کے انھیں صوبہ سرحد کا حصہ بنا دیا جائے اور وہاں قانون کی پوری عمل داری یقینی بنائی جائے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان افغانستان کے اندرونی معاملات سے اپنے آپ کو بالکل لاتعلق کر دے۔ اور کرزئی حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے۔صرف اسی طریقہ سے وہاں پاکستان کے خلاف موجودہ نفرت کی فضا کم ہو سکتی ہے۔

حکومت پاکستان کی نائن الیون سے پہلے اور بعد کی دونوں پالیسیاں خود غرضی اور بے اصولی پر مبنی تھیں۔ نائن الیون سے پہلے وہ طالبان کی کھلی حمایت کر رہی تھی، حالانکہ ایسا کرنا غلط تھا اور نائن الیون کے بعد امریکہ کے دباؤ پر اس نے اپنی پالیسی مکمل طور پر بدل کر اور امریکہ کی ہر بات بے چون وچرامان کر ایک اور غلط کا م کیا۔ خصوصاً امریکہ کو اپنے ہوائی اڈے حوالے کرنے اور اسے لاجسٹک مدد فراہم کرنے کا فیصلہ ہر اعتبار سے غلط تھا۔ پاکستان کو آیندہ اس طرح کی بے اصولی اور بے حکمتی سے اجتناب کرنا چاہیے۔

____________

B