ڈاکٹر صاحب زادہ انوار احمد بگوی
[یہ تقریر خالد مسعود صاحب کی یاد میں منعقدہ تعزیتی اجلاس میں کی گئی]
آج کی شام ہم یہاں ایک عالم کا ماتم کرنے جمع ہوئے ہیں۔ عالم بھی وہ جوام الکتب قرآن حکیم کا عالم تھا۔ ایسا عالم جو پورے فہم وشعور اور تقویٰ وخشیت کے ساتھ قرآن پر عمل پیرا تھا۔ جس نے برصغیر، بلکہ علام اسلام کے فہم قرآن کے سب سے بڑے اور تازہ سرچشمے سے قرآن اور حدیث کا علم حاصل کیا، انتہائی لگن، گہرے خلوص اور فہم خالص کے ساتھ، کسی آمیزش یا تعصب کے بغیر۔
اگرچہ امام امین احسن اصلاحی کے سیکڑوں شاگرد تھے۔ خود علامہ خالد مسعود کے بیسیوں شاگرد تھے۔ مگر وہ اپنے جلیل القدر استاذ امام کے مانند ہمیشہ قرآن کے طالب علم اور محقق رہے۔
علامہ بنیادی طور پر کیمسٹ تھے اور اپنے پیشے سے بہت مخلص، شاید اسی لیے مبداء فطرت نے انھیں نسخۂ کیمیا پانے کا راز بتا دیا۔ اور ایک اچھے کیمیا گر کی طرح خالد مسعود پھر اس ایک راہ کے ہو لیے۔
علامہ مرحوم کی شخصیت ان پانچ خصائل سے ممتاز تھی:
متانت، وقار کے ساتھ،
شرافت، خشیت کے ساتھ،
دیانت، امانت اور راستی کے ساتھ،
عزیمت، مسکراہٹ اور صبر کے ساتھ، اور
قرآنی علوم کی اشاعت اور استاذ امام سے محبت، استقامت کے ساتھ۔
ان کی زندگی سادگی، اخلاص، پاکیزگی اور بے ریائی سے عبارت تھی۔
بطور سرکاری آفیسر جب لاکھوں کی خریداریاں ان کے ہاتھوں سے گزرتی تھیں تو انھیں خدا کی رضا، عدل وانصاف اور ملک کا مفاد عزیز رہتا۔ دوران ملازمت میں ان کا ایک یادگار معرکہ، ایک شعبے کے کرپٹ سربراہ سے مجادلہ اور اسے سروس سے نکلواناتھا۔ آج چونکہ حکمرانوں کی طرح سرکاری ملازمین میں بھی ایک سے ایک بڑا فنکار ہے، خیر وشر کے پیمانے بدل گئے ہیں، اس لیے اب ملازم لوگ تنازع کے بجائے ’’اتفاق للبقاء‘‘ کے کار آمد اصول پر کاربند ہیں۔
محکمہ انڈسٹریز کی ریسرچ برانچ ختم ہو جانے کے بعد، استاذ امام کی عنایت سے وہ قائد اعظم لائبریری باغ جناح لاہور میں بطور علمی محقق تعینات ہوئے۔ وہاں انھوں نے سائنسی مضامین کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کا مفید کام سرانجام دیا اور ان کی متعدد کتابیں اور رسالے شائع ہوئے۔
بطور معلم ان کی زبردست یادگار ’’اسباق النحو‘‘ ہے جس نے طالبان علوم قرآنی کے لیے عربی سیکھنے کی راہ آسان بنا دی ہے۔ بطور محقق، مصنف اور قرآن حکیم کے طالب علم کے ان کی حالیہ معرکۃ الآراکتاب ’’حیات رسول امی‘‘ہے جو اصل میں قرآن کے فراہی اور اصلاحی فکر کی آئینہ دار ہے۔ اس کتاب کی طباعت تب ہوئی جب وہ جناح ہسپتال لاہور کے میڈیکل وارڈ کے بستر پر دراز تھے۔ ان کی مسرت اور طمانیت کا یہ شاید ان مٹ لمحہ تھا۔
جریدہ ’’تدبر‘‘ علامہ مرحوم کی فکر اصلاحی وفراہی سے لازوال عقیدت ومحبت، ان کی مخلصانہ محنت اور ہم سخن احباب کے مسلسل ٹیم ورک کا نمونہ ہے۔ استاذ امام اصلاحی کے بعد، علامہ خالد مسعود مرحوم اور ان کے ساتھیوں اور شاگردوں نے مولانا فراہی کے افکار، مولانا اصلاحی کے نظریات اور قرآن کے اساسی فکر کو عام کرنے کے لیے بڑی جدوجہد کی ہے۔ ان سارے کاموں میں بلاشبہ مرکزی اور’Driving force‘ علامہ مرحوم کی ذات تھی۔ انھوں نے اس مختصر، مگر توانا اور صاف آواز کو ایک معیار اور تسلسل کے ساتھ جاری رکھا ہے۔
علامہ خالد مسعود مرحوم ان تمام صلاحیتوں اور قابلیتوں سے بہرہ ور تھے جن کے سبب سے وہ پاکستان میں فکر اصلاحی کے امین تھے اور استاذ امام اصلاحی کے بے پناہ اور بھرپور اعتماد کے وارث۔
ان کی شخصیت پر مولانا کا نہایت گہرا اثر تھا۔ تصوف کی اصطلاح میں وہ فنافی الاصلاح کے درجہ پر فائز تھے۔ ان کی محبت اور گرویدگی کا یہ عالم تھا کہ کسی اور حلقے یا فرد کے لیے مولانا تک رسائی کے لیے پہلے انھیں عبور کرنا پڑتا تھا۔ مولانا اصلاحی کے بڑھاپے اور علالت میں ان کے دروس حدیث، اپنی علمیت اور افادیت کے اعتبار سے باکمال تاریخی خدمت ہے۔ مولانا سے نچوڑ نچوڑ کر علم وحکمت حاصل کرنے اور اسے مدون کرنے اور پھیلانے میں علامہ خالد مسعود مرحوم کی خدمات ہمیشہ یاد رہیں گی۔
استاذ امام اصلاحی رحمہ اللہ سے علامہ خالد مسعود مرحوم کا تعلق نصف صدی کا قصہ ہے۔
تاریخ اسلام کی زندہ رہنے والی اور عظیم الشان تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ پچھلی صدی ، بلکہ ہزار یے کا بہترین تحفہ ہے۔ اس شان دار کتاب کی سطر سطر، اس کا لفظ لفظ علامہ کی نظروں سے گزرا ہے، وہ اس کتاب سے متعلق ہر ہر ’Development‘ کے شاہد عادل تھے۔
اس عظیم اور تاریخی سعادت میں استاذ امام اصلاحی کا کوئی اور شاگرد یا عزیز علامہ کا شریک نہیں ہے۔
جانا تو ہرجی کا مقدر ہے
علامہ خالد مسعود مرحوم آن سے جیے اور شان سے گزر گئے۔
اللہ کی بے شمار رحمتیں ہوں ان پر، اللہ ان سے راضی ہو۔
البتہ وہ دین جو بڑی شان سے ابھرا تھا اور کسی وقت دنیا کی عظیم المرتبت عسکری، علمی اور تہذیبی قوت بنا، آج اس کے نام لیوا گھمبیر نکبت وادبار اور ہر نوع کے تنزل اور ناکامی سے دوچار ہیں۔ بھرپور مادی وسائل کے باوجود اتنی بے بسی۔ کثیر آبادی اور وسیع سرزمین کے باوصف اس قدر بے وقعتی اور لاچاری۔ آج عالم اسلام تاریخ کے سب سے بڑے طاغوت، شیطان اور دہشت گرد کی ٹھوکروں میں ہے۔ اس کی واحد بڑی وجہ قرآن سے دوری اور اس کا موثر حل رجوع الی القرآن اور خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے میں ہیں۔
جناب صدرo! ایک مدت سے آپ بھی وہی کام کر رہے ہیں جو علامہ خالد مسعود مرحوم گزشتہ نصف صدی سے کر رہے تھے۔ جب مقاصد اور منہج اور سرچشمہ ایک ہی ہے تو پھر ’’ادارۂ تدبر قرآن و حدیث‘‘ اور ’’المورد‘‘ کو باہمی تعاون کرنا چاہیے تاکہ قرآن کی تعلیمات اور ان کا فہم عام ہو اور مسلمان پھر سے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ علامہ مرحوم کے درجات بلند کرے۔
ان کی محنتوں اور قربانیوں کو قبول فرمائے اور ان کے مشن کو جاری رکھے۔
________
o جاوید احمد غامدی۔
____________