معظم صفدر
مصنف: ڈاکٹر زاہد منیر عامر،
ضخامت: ۱۱۲ صفحات،
قیمت: ۸۰ روپے،
ناشر: شیخ زاید اسلامک سنٹر، پنجاب یونی ورسٹی ، لاہور۔
دین کا مقصد تزکیۂ نفس ہے۔ وہ انسان کے نفس کو غیر اخلاقی آلایشوں سے پاک کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ خدا کی بنائی ہوئی اس جنت کا حق دار قرار پا سکے جو پاکیزہ نفوس کے لیے خاص ہے۔ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اگر وہ اپنے اخلاقی وجود پر دھیان نہ دے تو طرح طرح کی آلایشیں اس کے نفسی وجود کو آلودہ کر دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں خیر وشر کا شعور ودیعت کیا ہے۔ اس کی بدولت انسان جھوٹ، فریب، غیبت، چوری اور ظلم جیسے رویوں کی بدی جبکہ سچ، ایمان داری، خیرخواہی، عدل اور رحم جیسے رویوں کو نیکی سمجھتا ہے۔ انبیاے کرام کی دعوت بھی اس امر کی عکاس ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو اعلیٰ اخلاقی رویوں کو اپنانے اور غیر اخلاقی رویوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ انسانوں میں صبر، شکر، اخلاص، استقامت، پاکیزگی، ایثار، ہمدردی، خیر خواہی اور شایستگی جیسے اوصاف پروان چڑھاتے ہیں۔ یہی وہ اوصاف ہیں جو اس کے نفسی وجود کو اخلاقی آلایشوں سے پاک رکھتے ہیں۔
اخلاق کیا ہے؟ معاشرتی لحاظ سے اس کی کیا اہمیت ہے؟ قوموں کے عروج وزوال میں اسے کیا حیثیت حاصل ہے؟ انفرادی سطح پر اس کے کیا تقاضے ہیں؟ زیر تبصرہ کتاب ’’آئینہ کردار‘‘ ایسے ہی مباحث کا احاطہ کرتی ہے۔ کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں فلسفۂ اخلاق پر بحث کی گئی ہے۔ یہ موضوع چونکہ براہ راست اسلام سے متعلق ہے، اس لیے اس ضمن میں قرآن مجید سے بھرپور رہنمائی لی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مصنف نے قدیم مذاہب کی تاریخ او رعظیم فلسفیوں کے اخلاقی نظریات سے بھی استفادہ کیا ہے۔
بعض لوگوں کے نزدیک اخلاق ایسے بے بس اور مجبور لوگوں کی ایجاد کردہ اصطلاح ہے جو ظلم اور جبر کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ’’آئینۂ کردار‘‘ کے مصنف کے نزدیک یہ بات خلاف حقیقت ہے۔ اس ضمن میں ان کا استدلال اس حقیقت پر مبنی ہے کہ ہر مجرم اپنے جرم کے لیے کوئی نہ کوئی جواز تلاش کرتاہے، کیونکہ وہ اپنے جرم کی شناخت سے خود باخبر ہوتا ہے۔ ’’گم شدہ کی تلاش‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں:
’’اگر یہ بات درست ہے کہ اخلاق، طاقت وروں کو نیچا دکھانے کے لیے کم زور لوگوں کی ایک اختراع ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں بد اخلاقی سے بد اخلاق شخص ، ظالم سے ظالم فرد یا حکومت اور بدترین ناانصافیاں کرنے والے بھی اپنے کاموں کے جواز کے لیے اخلاقی دلائل کیوں تلاش کرتے ہیں؟ کج خلقوں، ظالموں اور ناانصافوں کی یہ تلاش ہی اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ اخلاق وکردار زندگی کی بنیادی اقدار میں سے ہیں جنھیں گزرتے ہوئے وقت کے نقوش دھندلا نہیں سکتے۔‘‘ (۱۳)
مصنف کے نزدیک نفسیات اور اخلاقیات کے ماہرین نے انسان کے اعمال کو کرداری اعتبار سے طبیعت ، حال اور ملکہ سے متعلق قرار دیا ہے۔ طبیعت سے مراد انسان کی ناقابل تغیر جبلت ہے۔ انسان کی متغیر اور اثر پریز کیفیت کو حال قرار دیا جاتا ہے، جبکہ ملکہ انسانی نفس کی اس کیفیت کو کہا جاتا ہے جو رسوخ پانے میں کامیاب ہو جائے۔ مصنف کے مطابق ماہرین نے اخلاق کو دائرۂ ملکہ میں رکھتے ہوئے فطری حدود میں ہونے والے اعمال کو اخلاق حسنہ، جبکہ اس حدود سے تجاوز کرنے والے اعمال کو اخلاق سیۂ کے زمرے میں رکھا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اخلاق کی تربیت وتطہیر ایک خارجی ہی نہیں، بلکہ داخلی ضرورت بھی ہے۔ وگرنہ انسان کے اندر ہونے والی کشمکش اسے نہ صرف ایک غیر مفید شہری بنائے گی، بلکہ اسے ذات کی وحدت وبقا سے بھی بے گانہ کر دے گی۔
مصنف کے نزدیک دنیا کی بے ثباتی اور یوم حساب کو ہر لحظہ پیش نظر رکھنے والوں کے لیے راہ حق پر قائم رہنا، دشوار امر نہیں ہے۔ دینوی پریشانیوں اور مشکلات کو اگر آزمایش کے تناظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو تمام تکالیف سہل نظر آنے لگتی ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’متاع دنیا قلیل ہے اور آخرت، اہل تقویٰ کے لیے بہتر ہے جہاں عمل کرنے والوں کو ان کے چھوٹے سے چھوٹے عمل کا اجر ملے گا اور ایک تاگے کے برابر بھی ان کا حق نہیں رکھاجائے گا۔ اس لیے کہ یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ جو شخص عقیدۂ توحید کوقبول کرے گا اس کے پیش نظر آخرت اور روز حشر کا حساب ہوگا، آخرت کی میزان کا تصور اسے ظلم وزیادتی سے بازرکھے گا اوررفتہ رفتہ اس کے اخلاق وکردار میں نیکی، نرمی، رافت، برداشت، عدل، انصاف، احسان کی محبت گھر کر جائے گی اور وہ فواحش منکرات اور حدود سے تجاوز کرنے کے رویوں کو ناپسند کرنے لگے گا۔ جب یہ پسند وناپسند طبیعت میں راسخ ہو جائے گی تواسے نیکی اور حسن خلق کا ملکہ حاصل ہو جائے گا، اور یہی ملکہ رفتہ رفتہ اس کے ہاں حسن کردار کے بے تکلف ظہور کا سبب بن جائے گا، پھر اسے معاشرتی زندگی میں خوبی کردار کو اپنانے کے لیے کسی خارجی منفعت ومضرت پر نظر رکھنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ وہ اپنے اعمال کا تعین وقتی حالات وواقعات کی روشنی میں نہیں کرے گا۔ دیانت روی ،عدل وقسط اور احسان اس کی پالیسی نہیں ہوں گے، بلکہ ان سب کا صدور اس کی طبیعت کا اقتضا بن کر ہونے لگے گا اور اس کا عمل اخلاق فاضلہ کا ایک حسین نمونہ بن جائے گا۔‘‘ (۵۳)
باب دوم میں ’’چند کرداری مباحث‘‘ کے زیر عنوان اعلیٰ اخلاقی رویوں پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ مختلف موضوعات پر مختصر مضامین عام فہم اسلوب میں لکھے گئے ہیں۔ اس ضمن میں اخلاص، استقامت، صبر، پاکیزگی، مطابقت، تشکر، سفارش اور کامیابی کے موضوعات زیر بحث آئے ہیں۔
’’اخلاص‘‘ کے زیر عنوان مصنف نے نہایت سادہ اسلوب میں شرک کی آلودگیوں سے بچنے کی ترغیب دی ہے۔ کائنات کی خوب صورتیوں سے بات شروع کر کے عشق مجازی اور پھر عشق حقیقی کی جانب غیر محسوس طریقے سے توجہ کرائی گئی ہے۔ عشق مجازی کی اساسات اور ٹھکرائے جانے کے بعد کے احساسات بیان کرنے کا مقصد قاری پر اس دنیا کی بے ثباتی ظاہر کرنا ہے۔ مصنف چونکہ بنیادی طور پر ادیب ہیں، اس لیے انھوں نے نہایت خوبی کے ساتھ فلسفہ واخلاق کے مضامین کو ادبی پیراے میں بیان کیا ہے۔ ان کا یہ اسلوب قاری کو متوجہ رکھتا ہے۔ خلوص نیت سے صرف اور صرف اللہ کے لیے خاص ہو جانے کے لیے اپنی تحریر میں امیر خسرو کا یہ شعر اس خوب صورتی سے نقل کیا ہے کہ اس کے بعد کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی:
نہ یک دل درد ودلبر رہ کندگم
نہ دریک دیدہ درگنجد دو مردم
(ایک دل دو محبوبوں میں گم ہو سکتا ہے نہ ایک آنکھ کے اندر دو پتلیاں ہو سکتی ہیں۔)
’’استقامت‘‘کے عنوان کے تحت اس زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کی حقیقت کو بیان کرنے کے بعد ان پر انسانی ردعمل کو نہایت خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ زندگی چونکہ آزمایش سے عبارت ہے، اس لیے درپیش مشکلات کوآزمایش کے اصول پر دیکھتے ہوئے جب انسان استقامت کا رویہ اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین محکم رکھتا ہے تو وہ نہ صرف اس دنیا میں ایک مطمئن زندگی بسر کرتا ہے، بلکہ اخروی زندگی میں کامیابی کا امید وار قرارپاتا ہے۔
روایتی اسلوب سے ہٹ کر جہاں مصنف نے قرآن مجید سے پھرپور رہنمائی لی ہے، اسی طرح انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے بھی استفادہ کیا ہے۔ ’’صبر‘‘ کے تحت لکھتے ہیں:
’’کامیابی اور کامرانی کی کیفیتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبر کی تصویر بنے رہے۔ فتح مکہ جیسے کامیابی کے بے مثال واقعے پر بھی آپ نے انتقام کا راستہ اختیار نہیں فرمایا۔‘‘ (۷۷)
انسان کے ظاہر اور باطن ، دونوں کو ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک صاف ہونا چاہیے، لیکن ایک مخصوص مکتب فکر کے لوگ باطنی طہارت کے شوق میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ ارشاد نبوی ’’اپنے کپڑے پاک صاف رکھو اور گندگی سے دور رہو‘‘ سے بھی صرف نظرکر بیٹھے۔ اس بارے میں مصنف لکھتے ہیں:
’’ظاہر کی پاکیزگی سے دل ودماغ کی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ دل ودماغ پاکیزہ ہوں گے تو انسان کے خیالات، تصورات، جذبات اور احساسات پاکیزہ اور راست ہوں گے۔ یہ پاکیزگی اور راستی کامیابی کی ضمانت بن جائے گی۔‘‘ (۸۱)
کسی بھی معاشرے میں اخلاقی اقدار کے معیار کا اندازہ شہریوں کے قول وفعل میں مطابقت سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ افسوس! آج ہمارا معاشرہ قول وفعل کی عدم مطابقت کا شکار ہے، عام شہری سے لے کر ارباب دانش تک، سبھی لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں۔ مصنف نے اس خرابی کی طرف متوجہ کرنے کے لیے قرآن مجید کی یہ آیت نقل کی ہے:
’’تم دوسروں کو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے؟‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷: ۴۴)
’’کامیابی‘‘ کے عنوان سے مصنف نے دنیا کی بے ثباتی کو سادہ، مگر پر تاثیر الفاظ میں واضح کیا ہے۔ مصنف کے نزدیک اللہ اور اس کے رسول کی ہر حال میں اطاعت کرنے والے مومن اور متقی لوگوں ’’کامیاب‘‘ ہیں۔ کامیابی کے مفہوم کو واضح کرنے کے بعد مصنف کا انسان کے کامیاب ہونے کی فطری سعی کو زیر بحث لانے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ انسان اس دنیا کی حقیقت کو جان لے اور ’’اخروی کامیابی‘‘ کے لیے تگ ودو کرے۔ مصنف رقم طراز ہیں:
’’جنھوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑ دیے، جان ومال سے جہاد کیا جو ایک دوسرے مومن کے رفیق کار بنے، نماز قائم کی، زکوٰۃ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی۔
ایسے دوستوں کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں بشارت ہی بشارت ہے، دنیا کی مسرتوں کے ساتھ ان کے لیے آخرت میں ایسے باغ تیار کیے گئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں اور ان میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ ہے عظیم الشان کامیابی۔‘‘ (۱۰۷)
موضوع کے اعتبار سے یہ ایک عمدہ کتاب ہے۔ مصنف کا طرز تحریر دل نشین ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ خالص فنی مباحث کو بھی وہ انتہائی سلاست سے بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ معاشرہ اس وقت جس اخلاقی انحطاط کا شکار ہے، اسے دیکھ کر یہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ایسی کتابوں کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے۔
____________