HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۲۵۹-۲۶۰ (۵۶)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ ) 


اَوْکَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ، وَّھِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِھَا، قَالَ: اَنّٰی یُحْیٖ ھٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ مَوْتِھَا، فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَۃَ عَامٍ، ثُمَّ بَعَثَہٗ قَالَ: کَمْ لَبِثْتَ؟ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ۔ قَالَ: بَلْ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ، فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ، وَانْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ، وَلِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ، وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُھَا، ثُمَّ نَکْسُوْھَا لَحْمًا، فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ، قَالَ: اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ۔{۲۵۹}

وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ: رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی؟ قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ؟ قَالَ: بَلٰی، وَلٰکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ۔ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیْرِ، فَصُرْھُنَّ اِلَیْکَ، ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْھُنَّ جُزْئً ا، ثُمَّ ادْعُھُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًا، وَاعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔{۲۶۰}

یا اُس ۶۸۸؎ شخص کی مثال ہے ۶۸۹؎ جس کا گزر ایک بستی پر ہوا جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی۔ ۶۹۰؎ اُس نے حیرت سے کہا: اِس طرح فنا ہو جانے کے بعد اللہ اِسے کس طرح دوبارہ زندہ کرے گا ؟ ۶۹۱؎ اِس پر اللہ نے اُسے سو سال کی موت دی ، پھر اُٹھایا۔ (وہ اٹھا تو) پوچھا: کتنی مدت پڑے رہے؟ اُس نے جواب دیا : ایک دن یا اُس سے کچھ کم ۔فرمایا : نہیں، بلکہ سو سال اِسی حالت میں تم پر گزر گئے ۔ اب ذرا اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں کو دیکھو، اِن میں سے کوئی چیز سڑی نہیں ۔ (دوسری طرف) ذرا اپنے گدھے کو دیکھو (کہ ہم اُس کو کس طرح زندہ کرتے ہیں ، اِس لیے کہ تمھیں اِس بستی کے اٹھائے جانے پر یقین ہو) اور اِس لیے کہ ہم لوگوں کے لیے تمھیں (امید کی) ایک نشانی بنا دیں ، ۶۹۲؎ اور ہڈیوں کی طرف دیکھو، ہم کس طریقے سے اُن کو اٹھاتے اور پھر اُن پر گوشت چڑھاتے ہیں۔ اِس طرح جب حقیقت اُس پرواضح ہو گئی تو وہ پکار اٹھا کہ (اب کوئی تردد نہیں رہا)، میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔ ۶۹۳؎ ۲۵۹ 

اور (اِس سلسلے میں) وہ واقعہ بھی پیش نظر رہے ، ۶۹۴؎ جب ابراہیم نے کہا تھا کہ پروردگار، مجھے دکھا دیں کہ آپ مردوں کو کس طرح زندہ کریں گے ؟ فرمایا: کیا تم ایمان نہیں رکھتے؟ عرض کیا : ایمان تو رکھتا ہوں ، لیکن خواہش ہے کہ میرا دل پوری طرح مطمئن ہو جائے ۔ فرمایا : اچھا ، تو چار پرندے لو، ۶۹۵؎  پھر اُن کو اپنے ساتھ ہلا لو، ۶۹۶؎ پھر (اُن کو ذبح کر کے) ہر پہاڑی پر اُن میں سے ایک ایک کو رکھ دو، پھر اُنھیں پکارو ، وہ (زندہ ہو کر) دوڑتے ہوئے تمھارے پاس آ جائیں گے ، اور (آیندہ کے لیے) خوب سمجھ لو کہ اللہ زبردست ہے ، وہ بڑی حکمت والا ہے ۔ ۶۹۷؎ ۲۶۰ 

۶۸۸؎  پہلی مثال شیاطین کے اندھیروں کی طرف نکال لے جانے کی تھی ۔ اب یہ اُن لوگوں کی مثال بیان ہو رہی ہے جنھیں اُن کا پروردگار اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔

۶۸۹؎  یہ غالباً حزقی ایل نبی کے اُن مشاہدات میں سے ہے جو بنی اسرائیل میں دعوت و اصلاح اور اُن کے احیا کی جدوجہد کے لیے اٹھنے سے پہلے اُنھیں کرائے گئے ۔ بائیبل میں اُن کا اِسی نوعیت کا ایک مشاہدہ اِس طرح بیان ہوا ہے :

’’خداوند کا ہاتھ مجھ پر تھااور اُس نے مجھے اپنی روح میں اٹھا لیا اور اُس وادی میں جو ہڈیوں سے پر تھی مجھے اتار دیا اور مجھے اُن کے آس پاس چوگرد پھرایا ، اور دیکھ وہ وادی کے میدان میں بکثرت اور نہایت سوکھی تھیں ، اور اُس نے مجھے فرمایا : اے آدم زاد ، کیا یہ ہڈیاں زندہ ہو سکتی ہیں؟ میں نے جواب دیا : اے خداوند خدا ، تو ہی جانتا ہے ۔ پھر اُس نے مجھے فرمایا : تو اِن ہڈیوں پر نبوت کر اور اُن سے کہہ :اے سوکھی ہڈیو ، خداوند کا کلام سنو : خداوند خدا اِن ہڈیوں کو یوں فرماتا ہے کہ میں تمھارے اندر روح ڈالوں گا اور تم زندہ ہو جاؤ گی ، اور تم پر نسیں پھیلاؤں گا اور گوشت چڑھاؤں گا اور تم کو چمڑا پہناؤں گا اور تم میں دم پھونکوں گا اور تم زندہ ہوگی اور جانو گی کہ میں خداوند ہوں ۔ پس میں نے حکم کے مطابق نبوت کی، اور جب میں نبوت کر رہا تھا تو ایک شور ہوا اور دیکھ ، زلزلہ آیا اور ہڈیاں آپس میں مل گئیں ، ہر ایک ہڈی اپنی ہڈی سے ۔ اور میں نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ نسیں اور گوشت اُن پر چڑھ آئے اور اُن پر چمڑے کی پوشش ہو گئی ، پر اُن میں دم نہ تھا ۔ تب اُس نے مجھے فرمایا کہ نبوت کر۔ تو ہوا سے نبوت کر ، اے آدم زاد ، اور ہوا سے کہہ کہ خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ اے دم ، تو چاروں طرف سے آ اور اِن مقتولوں پر پھونک کہ زندہ ہو جائیں ۔ پس میں نے حکم کے مطابق نبوت کی اور اُن میں دم آیا اور وہ زندہ ہوکر اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئیں ، ایک نہایت بڑا لشکر۔‘‘ (حزقی ایل ۳۷: ۱-۱۰)

۶۹۰؎  اصل الفاظ ہیں : ’ وَھِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِھَا‘۔ یہ گری ہوئی بستی کی تصویر ہے جس میں چھتوں کے زمین بوس ہوجانے کے بعد دیواریں اُن پر اوندھی پڑی ہوتی ہیں ۔

۶۹۱؎  یہ کس نوعیت کا سوال ہے ؟ استاذ امام اِس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

’’اُس کا یہ سوال۔۔۔انکار کی نوعیت کا نہیں، بلکہ اظہار حیرت کی نوعیت کا ہے ۔ انسان بسااوقات ایک چیز کو مانتا ہے، اِس لیے کہ عقل و فطرت اُس کی گواہی دے رہی ہوتی ہے ، لیکن وہ بات بجاے خود ایسی حیران کن ہوتی ہے کہ اُس سے متعلق دل میں بار بار یہ سوال ابھرتا رہتا ہے کہ یہ کیسے واقع ہو گی ؟ یہ سوال انکار کے جذبے سے نہیں، بلکہ جستجوے حقیقت کے جوش سے ابھرتا ہے اور خاص طور پر اُن مواقع پر زیادہ زور سے ابھرتا ہے جب سامنے کوئی ایسا منظر آ جائے جو باطن کو جھنجھوڑ دینے والا ہو۔ یہ حالت ایمان کے منافی نہیں، بلکہ اُس ایمان کے مقتضیات میں سے ہے جس کی بنیاد عقل و بصیرت پر ہو ۔ یہ سلوک باطن کی ایک ریاضت ہے جس سے ہر طالب حقیقت کو گزرنا پڑتا ہے ، اور یہ سفر برابر اُس وقت تک جاری رہتا ہے ، جب تک ’حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ‘ کے انوار سے قلب و نظر جگمگا نہ جائیں ۔ اِس سفر میں ہر منزل اگرچہ خوب سے خوب تر کی طرف اقدام کی نوعیت کی ہوتی ہے ، لیکن عارف کی نظر میں اُس کا ہر آج اُس کے گذشتہ کل سے اتنا زیادہ روشن ہوتا ہے کہ وہ کل اُس کو آج کے مقابل میں شب نظر آتا ہے ۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۶۰۱)

۶۹۲؎  اصل میں ’ وَانْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ وَ لِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ اِن میں ’ اُنْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ‘ کے بعد ’ کیف نحییہ‘ یا اِس کے ہم معنی الفاظ حذف ہو گئے ہیں۔ اِسی طرح ’ وَلِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ‘ سے پہلے اِس کا معطوف علیہ حذف ہے ۔ ہم نے ترجمے میں اِسے جس طرح کھولا ہے ، اُس سے پوری بات یہ سامنے آتی ہے کہ حزقی ایل نبی کو یہ مشاہدہ کرانے سے مقصود جہاں یہ تھا کہ خود اُنھیں موت کے بعد زندگی کے مسئلے میں شرح صدر حاصل ہو ، وہاں یہ بھی تھا کہ اُن کا مشاہدہ بنی اسرائیل کے لیے اللہ تعالیٰ کی نشانی بنے اور اِس کے نتیجے میں اُن کے اندر حوصلہ پیدا ہو کہ اللہ اُنھیں بھی دوبارہ ایک زندہ قوم بنا دینے پر پوری قدرت رکھتا ہے ۔ چنانچہ صحیفۂ حزقی ایل کی جو عبارت اوپر نقل ہوئی ہے ، اُس کا خاتمہ اِن الفاظ پر ہوا ہے :

’’تب اُس نے مجھے فرمایا: اے آدم زاد ، یہ ہڈیاں تمام بنی اسرائیل ہیں ۔ دیکھ ، یہ کہتے ہیں : ہماری ہڈیاں سوکھ گئیں اور ہماری امید جاتی رہی ، ہم تو بالکل فنا ہو گئے ۔ اِس لیے تو نبوت کر اور اِن سے کہہ: خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ اے میرے لوگو ، دیکھو میں تمھاری قبروں کو کھولوں گا اور تم کو اُن سے باہر نکالوں گا اور اسرائیل کے ملک میں لاؤں گا ۔ اور اے میرے لوگو ، جب میں تمھاری قبروں کو کھولوں گا اور تم کو اُن سے باہر نکالوں گا، تب تم جانو گے کہ خداوند میں ہوں ۔اور میں اپنی روح تم میں ڈالوں گا اور تم زندہ ہو جاؤ گے اور میں تم کو تمھارے ملک میں بساؤں گا ، تب تم جانو گے کہ میں خداوند نے فرمایااور پورا کیا، خداوند فرماتا ہے ۔ ‘‘ (۳۷: ۱۱-۱۴)

۶۹۳؎  یعنی اِس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ کھانے اور پینے کی چیزیں سو سال پڑی رہیں اور اُن میں کوئی تغیر نہ ہو اور اِس پر بھی کہ گدھے کی ہڈیاں تک سڑ کر بوسیدہ ہو جائیں اور وہ چشم زدن میں اُنھیں اٹھا کر دوبارہ زندگی بخش دے ۔

۶۹۴؎  یہ اِس بات کی دوسری مثال ہے کہ اللہ تعالیٰ ماننے والوں کا مددگار ہے اور وہ اپنے اُن بندوں کو شرح صدر اور اطمینان قلب سے محروم نہیں رکھتا جو سچے دل سے اِس کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر اُ س کی حکمت کے خلاف نہ ہو تو اپنے خاص بندوں کے باطن کی کوئی خلش دور کرنے کے لیے وہ اُنھیں اِس طرح کے غیر معمولی مشاہدات بھی کرادیتا ہے ۔

۶۹۵؎  یہ ہدایت غالباً اِس لیے ہوئی کہ چار پرندے چاروں سمتوں سے دوڑتے ہوئے آئیں گے تو ابراہیم علیہ السلام کے سامنے گویا صور پھونکنے کے بعد تمام مخلوق کے اِسی طرح ہر سمت سے اپنے پروردگار کی طرف دوڑنے کی تصویر آ جائے گی ۔

۶۹۶؎  اِس ہدایت کا مقصد یہ تھا کہ پرندے زندہ ہو کر آئیں تو سیدنا ابراہیم کو کوئی اشتباہ نہ ہو کہ یہ وہی پرندے ہیں جو اُنھوں نے ذبح کر کے پہاڑی پر رکھے تھے ۔ نیز یہ بات بھی واضح ہو جائے کہ قیامت میں اٹھتے ہی دنیوی زندگی کی تمام یادداشتیں آپ سے آپ زندہ ہو جائیں گی۔ یہاں تک کہ مانوس پرندے اپنے مالکوں کی آوازیں بھی اُسی طرح پہچان لیں گے ، جس طرح دنیا میں پہچانتے تھے ۔

۶۹۷؎  چنانچہ وہ جب چاہے گا ، لوگوں کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا اور وہ لازماً ایسا کرے گا، اِس لیے کہ یہی اُس کی حکمت کا تقاضا بھی ہے ۔

[باقی]

ــــــــــــــــــ

B