جانوروں کا جہاں سے دل چاہتاہے ،کھا پی لیتے ہیں ۔ کھیت کسی کا ہو، چر لیتے ہیں ۔پیشاب ، پاخانہ کرنے میں انھیں موقع و محل کا لحاظ نہیں ہوتا ۔ وہ اپنی دوسری ضرورتیں بھی ایسے ہی پوری کر لیتے ہیں ۔
دوسری طرف انسان ہر کام دیکھ بھال کر کرتا ہے ۔ کھانے پینے، رفع حاجت اور زندگی کے دوسرے معمولات ایک قاعدے و ضابطے کے مطابق انجام دیتا ہے ۔ ایسا اس لیے ہے کہ اسے عقل اور سمجھ جیسی دولت عطا کی گئی ہے ۔ پھر بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ انسان اپنی خواہش پوری کرنے میں جائز و ناجائز کا فرق بھلا دیتا ہے ۔ دوسروں کا مال ہتھیانے اور ان کی عزت پر حملہ کرنے میں اس کو شرم محسوس نہیں ہوتی ۔ ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے کہ جانوروں کی زندگی بھی ان خاص اصولوں اور رجحانات کے تابع ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت میں راسخ کر دیے ہیں ۔ لیکن انسان کو یہ آزادی ملی ہوئی ہے کہ وہ اپنے مقام و مرتبے پر قائم رہے یا اس سے گر کر حیوانی سطح پر آجائے ۔ جب تک انسان ہوش وحواس میں ہوتا ہے ، اسے خبر ہوتی ہے کہ وہ انسانی شرف کا پاس کر رہا ہے یا اپنے مقام سے گر چکا ہے ۔ لہٰذا عقل اور سمجھ ہی ایسی چیز ہے جو انسانوں اور جانوروں میں تفریق کرتی ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
’’ہم نے جنوں اور انسانوں میں سے بہتوں کو دوزخ کے لیے پیدا کیا ہے ۔ ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں ، ان کے آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں ، ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں ۔ یہ چوپایوں کے مانند ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گم راہ ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جو بالکل بے خبر ہیں ۔ ‘‘( الاعراف ۷: ۱۷۹)
ہم پر لازم ہے کہ قدرت کے اس قیمتی عطیے ’’سوجھ بوجھ‘‘ کو کام میں لائیں ۔اگر کوئی بات خود سمجھ میں نہیں آتی تو ان لوگوں سے پوچھ لیں جو ہمیں زیادہ سمجھ دار اور عقل مند دکھائی دیتے ہیں۔
____________