HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

عراق پر حملہ: سچ ظاہر ہو کر رہے گا

تالیف: سینیٹر رابرٹ سی بائرڈ

ترجمہ: کاشف علی خان شیروانی


اس مضمون کے مصنف سینیٹر رابرٹ سی بائرڈ (Senatar Robert C Byrd)۲۰ نومبر ۱۹۱۷ء کو تارتھ کیرولینا، امریکہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی عمر ابھی ایک سال ہی کی تھی کہ یتیم ہو گئے۔ ان کے چچا نے ان کی پرورش کا ذمہ لیا، مگر ہوش سنبھالنے کے بعد انہوں نے اپنے تعلیمی اخراجات خود اٹھالیے۔اس دوران میں کئی معمولی نوکریاں کیں۔ ۱۹۴۶ء میں پہلی مرتبہ ویسٹ ورجینا ایوان نمائندگان میں رکن منتخب ہوئے۔ اس کے بعد تین مرتبہ امریکہ کے ایوان نمائندگارن کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۵۸ء میں West Virginiaکی طرف سے امریکی سینٹ کے رکن بنے اور اس وقت سے لے کر آج تک رکن منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں۔
اس عرصے میں وہ سینٹ کی کئی کمیٹیوں کے رکن رہے۔ ۱۲ سال تک ایوان میں'Democratic Leade' رہے۔ ان میں سے چھ سال اکثریتی پارٹی کے قائد او چھ سال حزب اختلاف کی حیثیت سے کام کیا۔ ۱۹۸۹۔ ۱۹۹۴ اورپھر ۲۰۰۱ ۔۲۰۰۲ تک ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارت کے تیسرے متبادل امیدوار کے طور پر نامزد ہوئے۔ مئی ۲۰۰۱ء میں انھیں اپنی زندگی کا سب سے بڑا اعزاز ملا جب 'Virginia West'کے گورنر اور ایوان کی طرف سے ان کی خدمات کے صلے میں انھیں 'West Virginian of the 20th centrury'قرار دیا گیا۔


’’سچ کو دبانے کی ہر کوشش عبث ہوگی۔ کیونکہ سچ ہمیشہ سے سربلند ہے۔ خدا کی ابدی بادشاہی اسی کے نام ہے اور غلط کاری بالآخر شکست کھاتی ہے۔ زخم خوردہ ، تڑپتی ہوئی اپنے پجاریوں کے سامنے جان دے دیتی ہے۔‘‘

آپ حقیقت کو مسخ کرنے کی لاکھ کوشش کیجئے۔ یہ خود کو منوا کر رہتی ہے۔ جھوٹ کچھ عرصے تک ہی اس پر پردہ ڈال سکتا ہے۔ ہم انسان حقائق مسخ کرتے ہیں اور یوں اپنے ساتھیوں کو دھوکا دیتے ہیں، مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ جھوٹ اپنے پیچھے کئی خلا چھوڑ جاتا ہے اور یہی خلا بالآخر سچ اگل دیتے ہیں، لیکن اصل ڈر اس کا ہے کہ ایک خاص مدت کے بعد شاید سچ کی کوئی اہمیت ہی نہ رہے اور جھوٹ اپنا نقصان پہنچا چکا ہو۔ صد افسوس کہ مروج جھوٹ کے ساھت چلنا تو آسان ہوتا ہے مگر کڑوا سچ انگلنا بہت مشکل۔

ہم آج کل کی سیاست میں آئے روز یہ تماشا دیکھتے ہیں، مگر جس بڑے پیمانے پر یہ جھوٹ اس سینٹ میں بولا گیا ہے، اس کا میں کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ عراق صورت حال کے حوالے سے یہ سینٹر اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ امریکی عوام کی نظر میں اس حملے کو جائز ٹھہرانے کے لیے فریب کاری سے کام لیا گیا۔اس پر ہماری حکومت نے مزید ظلم یہ ڈھایا کہ طویل عرصے سے متفقہ طور پر قابل قبول عالمی قوانین کو ذرہ برابر بھی اہمیت نہ دی۔اس بات کا بین ثبوت موجود ہے کہ نہایت کاری گری سے ۱۱ستمبر کے واقعات کا رخ اُسامہ بن لادن اور ’’القاعدہ‘‘ سے موڑ کر صدام حسین کی طرف کر دیا گیا جس کا ان واقعات کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ حملے سے کچھ عرصہ پہلے بش انتظامیہ نے ہمارے سامنے عراقی اسلحے کی نہایت خوف ناک تصویر کھینچی۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ عراق جو ہری حملے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کے پاس نہ صرف جراثیمی ہتھیاروں کی پوری کھیپ موجود ہے۔ بلکہ پائیلٹ کے بغیر پرواز کرنے والے ایسے خود کار طیارے بھی ہیں جو ہمارے سے بڑے شہروں پر کسی بھی وقت جوہری حملہ کر سکتے ہیں۔ ان سب مبالغہ آمیز بیانات کا ماحصل یہ تھا کہ اس وقت ہماری آزادی کو لاحق سب سے بڑا خطرہ صدام حسین ہے۔ ابھی ۱۱ستمبر کے واقعات کے زخم ہرے تھے۔ سو یہ شاطرانہ چال کامیاب رہی اور امریکی قوم کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ ظاہر ہے کہ یہ خوف زدہ امریکی قوم کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف تھا۔

یہ حقیقت آپ کے سامنے ہے کہ جب سے جنگ ختم ہوئی ہے، بش انتظامیہ ہر اس نئے انکشاف کو نظر انداز کر رہی ہے جو ان کے بھیانک دعووں کی نفی کرتا ہے۔ جیسے ہی ان انکشافات پر بات ہوتی ہے، وائٹ ہاوس کے ترجمان گفتگو کا موضوع بدل دیتے ہیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ابھی تک برآمد نہیں ہوئے۔ اس پرجواب دیا جاتا ہے کہ عنقریب برآمد ہو جائیں گے۔ ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو، مگر ہمارے انتہائی مہنگے اور تباہ کن حملے کی کیا وجہ جواز باقی رہ گئی ہے۔ وقت نے بانس بلکس (Hans Blix)اور ان کی معاینہ ٹیم کے ان تمام دعووں کے درست ثابت کر دیا ہے جن کا بش انتظامیہ کبھی مضحکہ اڑایا کرتی تھی۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں بلکس (Blix) نے ہمیشہ کہا ہے کہ اگر خطرناک ہتھیار موجود بھی ہیں تو ان کو تلاش کرنے کے لیے ایک طویل عرصہ چاہیے۔ اور ہتھیاروں کی تلاش تو ایک طرف رہی، ابھی تک اسامہ بن لادن کقا کچھ پتا ہے نہ صدام حسین کا۔ بش انتظامیہ نے امریکی عوام اور باقی دنیا کو بار بار اس بات کا یقین دلایا تھا کہ اقوام عالم کو دہشت گردی سے بچانے کے لیے یہ حملہ ناگزیر ہے۔ اور اس کے لیے پوری دنیا میں یہ پراپیگنڈہ کیا گیا کہ صدام حسین بھی دراصل اسامہ بن لادن ہی کا ایک روپ ہے۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ جنگ کے اختتام پر جو نتائج سامنے آئے ہیں، ان سے بالکل واضح ہو گیا ہے کہ ہمیں عراق سے کوئی فوری خطرہ نہیں تھا۔ برسوں سے لگی اقتصادی پابندی کا شکار یہ ملک تو ہمارے خلاف ایک جہاز اڑانے کی قوت بھی نہ رکھتا تھا۔ موت کے سودا گر وہ عراقی جہاز جن کے بارے میں ہم ایک عرصے سے سنتے آر ہے تھے، محض گتے اور رسی کے کھلونے نکلے۔ ان کے تو میزائل تک فرسودہ اور محدود فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ عراقی فوجیں ہماری ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ افواج کے آگے چند دن بھی نہ ٹھہر سکیں۔

اب صورت حال ہے کہ ہمارے وفادار فوجی جوان نہایت جان فشانی سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تلاش میں ہیں اور اطلاعات کے مطابق ملنے والی چیزوں میں کھاد، گھروں میں صفائی کے آلات، چند روایتی ہتھیار اور ایک زمین دوز موسمی تالاب شامل ہیں۔ آپ خود اندازہ لگا یئے کہ ہماری افواج کا کس قدر غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اب بات اس سے بہت آگے جا چکی ہے کہ ہم بش انتظامیہ کو ان کے کیے پر شرمندہ کریں، بلکہ یہ ساری صورت حال سنجیدہ سوالوں کے جواب مانگتی ہے:

۱۔ ہماری افواج کو اتنے بڑے خطرے میں ڈالنے کی کیا وجہ تھی؟

۲۔ لاتعداد شہریوں کو ہلاکت سے دوچار کرنے کا کیا جواز تھا؟

۳۔ کیا امریکی عوام کو جان بوجھ کر گمراہ کیا گیا؟

ہمارے لیے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ اس سب کے باوجود ہمارے دعویٰ ہے کہ ’’ہم نجات دہندہ ہیں‘‘۔ حقائق اس دعوے کا ساتھ نہیں دیتے۔ درست ہے کہ ہم نے ایک ظالم اور مطلق العنان حکمران کو اقتدار سے علیحدہ کیا ہے، مگر غلامی سے نجات کا مطلب آزادی، حق خودارادی اور عوام کے لیے بہتر زندگی کی ضمانت ہوا کرتا ہے، مگر موجود صورت حال میں تو لگتا ہے کہ ہم نے عراقی عوام کو آزادی سے کم وبیش دو سو سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔ عوام کے لیے بہتر زندگی کی ضمانت کے تمام بلند وبانگ دعووں کے برعکس صورت حال یہ ہے کہ عراق میں پانی مفقود ہے اور اگر کہیں دستیاب بھی ہے تو بدبودار اور گدلا۔بجلی کبھی کبھار کی چیز بن کر رہ گئی ہے۔ خوراک کی شدید قلت ہے۔ ہسپتال میں زخمی اور معذور افراد کا اژدہام ہے۔ تاریخی مقامات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ عراقی عوام لوٹ مار کا شکار ہیں، جبکہ جوہری ہتھیاروں کا کچھ پتا نہیں اور امریکی افواج تیل کے کنووں کی حفاظت کر رہی ہے اور ساتھ تیل کی فراہمی بھی جاری ہے۔

عراق کی تعمیر نو

اس دوران میں عراق کی تعمیر نو کے تمام منفعت بخش ٹھیکے بغیر کسی بولی کے اپنے خاص دوستوں کو عطا کیے جارہے ہیں اور امریکی حکومت نے اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے تعاون کی ہر پیش کش ٹھکرادی ہے۔ اب اگر پوری دنیا ہماری نیت پر شک کرے اور ہمارے اقدامات پر عدم اعتماد کا اظہار کرے تو اس میں حیرت کی آخر کیا بات ہے۔

اس منظر نامے میں سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ہم نے عراقی عوام کو حق خودارادی سے بھی محروم کر دیا ہے۔ اب یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ ’’نجات دہندہ‘‘ کے مسکراتے چہرے نے تیوری چڑھے فاتح کا روپ دھار لیا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تو امریکہ عراقی عوام کو آزادی کی نوید سنا رہا تھااور آج عراقیوں کے سینے پر بندوق کی نالی ہے۔ حالات روز بروز بگڑرہے ہیں اور حالات کا یہ بگاڑ عراقیوں کو مزید مشتعل کرنے کا باعث بنے گا۔ اب تک عراق میں حکومت کی تبدیلی کا مطلب ’’لاقانونیت‘‘ کے سوا کچھ نہیں اور غور فرمائیے کہ ایک قابض فوج اس لاقانونیت پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہاں کی امریکی انتظامیہ اس سوال پر مسلسل ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے کہ وہ کتنے عرصے میں عراق چھوڑے گی۔ یاد رکھیے کہ جمہوریت اور آزدی کے اقدار طاقت کے زور پر رائج نہیں کی جا سکتیں۔ ایسا سوچنا بھی حماقت ہے۔ اس مرحلے پر ہر شخص کو رک کر سوچنا چاہیے کہ ہم اتنے سادہ لوح کیوں بن گئے ہیں۔ کیا ہم ایک ایسے ملک میں جو متعدد سیاسی، مذہبی اور قبائلی رقابتوں کا شکار ہے، امریکی تہذیب، اقدار اور طرز حکومت کا بیج بو سکتے ہیں؟ پھر یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ وہاں کے تمام اہم گروہ امریکی عزائم کے بار میں سخت شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔ وہ فلسفۂ مادیت پر استوار مغربی طرز معیشت کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔

اس سے پہلے بھی کئی دانش ور امریکی حکومت کو متنبہ کر چکے ہیں کہ یہ پالیسی کم از کم ایک ہزار ایسے اسامہ بن لادن پیداکرے گی جو ۱۱ستمبر کے واقعات سے بھی بڑی مصیبت نازل کر سکتے ہیں۔ مگر ہم دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے بجائے مزید تقویت پہنچا رہے ہیں۔ ابھی ہم نے افغانستان میں اپنے مقاصد پورے نہیں کیے تھے کہ عراق پر حملہ کر دیا۔

چنانچہ یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ القاعدہ نئے انتقامی جذبوں کے ساتھ لوٹ آئی ہے۔ امریکہ دوبارہ خطرے میں ہے۔ مشرق وسطیٰ کا علاقہ عدم استحکام کا شکار ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ یہ وہ علاقہ ہے کہ جہاں کے سیاسی وسماجی حالات وعوام ہم آج تک سمجھ نہیں پائے۔ اس صورت حال کا ایک اور تکلیف دہ رخ یہ ہے کہ ہم نے دنیا میں اپنے دوستوں کو دھونس اور دھمکی کے ذریعے سے اپنی حمایت پر مجبور کیا۔ اس سلسلے میں سفارت (Diplomacy)اور استدلال کا طریقہ یک سر نظر انداز کر دیا گیا۔ اس کی جگہ ہم نے طاقت کا بے جا استعمال کیا۔ محض اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر کریک رخی پالیسی بنائی اور جس ملک نے ہمارے اس فیصلے کے خلاف سر اٹھانے کی کوشش کی، وہ ہماری سخت تنقید کا نشانہ بنا۔ چنانچہ ہمارے نزدیک ہر وہ ملک راندۂ درگاہ ٹھہرا جس نے اس مہم میں ہمارا ساتھ دینے سے انکار کیا۔ ابھی پچھلے دنوں میں یہ پڑھ کر حیران رہ گیا کہ ہم نے اپنے دیرینہ دوست ترکی کے ساتھ بھی یہی رویہ اختیار کیا۔ یہ انتہائی حیرت انگیز ہے کہ ہم ترک حکومت کو اس بات پر مسلسل دھمکا رہے ہیں کہ وہ اپنے آئین اور جمہوری اداروں کی توثیق سے فیصلہ نہ کرے۔ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے اس طرز عمل سے دنیا میں ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ کا آغاز ہو گا۔ہر ملک کی یہ کوشش ہو گی کہ وہ وسیع پیمانے پر تباہی مچانے والے ہتھیار تیار کرے تاکہ امریکہ کے تباہ کن حملوں کا جواب دینے کے قابل ہو سکے۔ اس وقت دنیا میں ہر جگہ امریکہ کے بارے میں یہ تصور فروغ پا چکا ہے کہ امریکہ ہمہ وقت آمادۂ جنگ ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا میں کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت حملہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ صدر کے ان اقدامات کو روکنے کی ہر کوشش ناکام ثابت ہوتی ہے۔ کانگریس نے اس نازک مرحلے پر جنگ کے فیصلہ کا اختیار صدر کو تفویض کر دیا اور آپ دیکھیے گا کہ یہ کانگریس کی تاریخ کا بدترین فیصلہ قرار پائے گا۔ اس پر مستزادیہ کہ ارکان کانگریس امریکی حکومت سے عراقی مسئلے کے بارے میں کوئی سوال پوچھنے سے مسلسل ہچکچارہے ہیں۔تاہم میرے لیے باعث اطمینان ہے کہ مختلف حلقوں سے بہرحال یہ سوال اٹھنے شروع ہو گئے ہیں کہ عراقی صورت حال پر قابو پانے کے لیے ابھی کتنا عرصہ درکار ہے؟ اور دوسری طرف حالت یہ ہے کہ حکومتی حلقے ابھی اس بحث میں پڑے ہوئے ہیں کہ عراق میں امن امان برقرار رکھنے کے لیے کتنی فوج درکار ہے۔

آخر سچ کیا ہے؟ ہمیں یہ قبضہ اور تعمیر نو کتنی مہنگی پڑے گی؟ کوئی بھی اس کا صاف جواب نہیں دیتا۔ کیا ہم اس ذمہ داری کو ایک لمبے عرصے تک اٹھا سکتے ہیں؟ کیاہم اس قابل ہیں کہ دہشت گردی کا مقابلہ اس کے علاقے میں جاکر کریں؟ کیا ہم عراق میں صحت وصفائی کے بحران پر قابو پاسکتے ہیں؟ کیا ہم اتنے بھاری فوجی اخراجات برداشت کر سکتے ہیں؟ کیا ہم مزید لاکھوں ڈالر ادا کرنے کے قابل ہیں، جبکہ ہمارا بجٹ پہلے ہی ۳۴۰ بلین ڈالر خسارے کا ہے۔ اگر ٹیکس کٹوتی کا مجوزہ بل منظور ہو گیا تو یہی خسارہ ۴۰۰ بلین ڈالر تک جا پہنچے گا۔

ہم چپ چاپ تماشا دیکھ رہے ہیں اور دوسری طرف بغیر ہچکچاہٹ کے روز جھوٹ بولا جاتا ہے۔ ہم ایسے ناقابل اعتبار بیانات سن کر بھی چپ ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ اس موقع پر سچ قبول کرنا ہمیں مشکل لگتا ہے۔

میرے لیے یہ بات باعث اطمینان ہے کہ اس سب کے باوجود لاعلم نہیں ہیں۔ اگرچہ وہ اس طرح کی سیاسی شعبدہ بازی او ہیر پھیر کے عادی ہو چکے ہیں، مگر وہ یہ سب کچھ ایک حد تک ہی برداشت کریں گے، کیونکہ ہر جھوٹ کی ایک حد ہوتی ہے۔ ہماراانجام ابھی ہماری نظروں سے اوجھل ہے مگر ہمیں اپنے کیے کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ اور اس وقت ــــــ امریکی خون بہے گا، شہری اندھے انتقام کا نشانہ بنیں گے اور ان میں معصوم مرد، عورتیں اور بچے، سب شامل ہوں گے۔ چنانچہ یہ غلط بیانی کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ اس جھوٹ کی قیمت نہ تیل چکا سکتا ہے نہ انتقام۔ اس کا بدل انتخابات ہو سکتے ہیں اور نہ کسی شخص کا ’’عالی شان نظریۂ جمہوریت‘‘۔

اور حضرات ! میری یہ بات لکھ رکھیے کہ مقتدر قوتیں و طاقت کے زور پر ایک عرصے تک ہی اپنے مخالفوں کو دبا سکتی ہیں، کیونکہ جیسا کہ ہوتا آیا ہے سچ بالآخر ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ اور پھر جھوٹ اور دھوکا دہی کے بل پر قائم تنکوں کے یہ محل ڈھے جاتے ہیں۔ [ماخوذ روزنامہ ’’ڈان‘‘، اشاعت ۲۴ مئی ۲۰۰۳]

____________

B