ہمارا مقصود اس حقیقت کا بیان ہے کہ اگر امریکا اور مغرب کو سیاسی اور معاشی میدان میں شکست ہو گئی، گو اس کے امکانات بہت روشن نہیں، تب بھی ان کا تہذیبی غلبہ بغیر کسی نمایاں مزاحمت کے دنیا بھرمیں بشمول پاکستان پھیلتا رہے گا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ وی سی آر کے بعد پہلے ڈش اور اب انٹر نیٹ اور کیبل کے ذریعے مغربی افکار و خیالات اور اقدار و روایات ہمارے معاشرے میں علانیہ ہجوم کررہے ہیں اور کامیابی سے ہمارے گھروں کو فتح کررہے ہیں۔ دوسری طرف مغرب کی تہذیبی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہندوستانی میڈیا نیز خود ہماری اشرافیہ اور میڈیا کے لوگ مغربیت کو ہمارے گھروں میں ہماری زبان میں پھیلارہے ہیں۔ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ مغربی تہذیب سے مفتوح ہونے کے قریب ہے۔اہل مغرب نے اپنے دور حکومت میں ہماری اشرافیہ کے اذہان کوتسخیر کیا تھا۔ اب لگتا ہے کہ ہمارا پورا معاشرہ ، ایک محدود اقلیت کو چھوڑ کر، ان کے رنگ میں رنگنے کے لیے تیار ہے۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اہل مغرب کی نقالی ان کی تہذیب اور کلچر کے اعتبار سے تو کرنے کے لیے مستعد ہیں ، مگر اجتماعی زندگی کے بارے میں ان کی ذمہ دارانہ روش اور اخلاقی خوبیاں اخذ کرنے کے معاملے میں بالکل پیچھے ہیں۔وہ بے شک مادہ پرست ہیں ، مگر ان کی اکثریت اجتماعی معاملات میں اعلیٰ اخلاقی روش کی پابند ہے،مگر ہم اسلام کے نام لیوا ہونے کے باوجود اجتماعی اخلاقیات کے بارے میں ہر سطح پر بدترین روش کا مظاہرہ کرتے ہیں۔مسلم قوم کی عصبیت کے خاتمے ، انتہا پسندی اور مغربیت کے فروغ کے ساتھ ساتھ یہ اخلاقی انحطاط، بلاشبہ قومی سطح پر ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
پہلے باب میں عروج و زوال کے محرکات کے حوالے سے ہم نے جن عناصر کا ذکر کیا تھا ، ان میں سے دو غیر اختیاری تھے:اول یہ کہ قوم کی توانائی جس کا انحصار کسی قوم کے مرحلۂ زندگی پر ہوتا ہے کس مقام پر ہے؟ دوسرا یہ کہ قوم کو آیا کوئی چیلنج درپیش ہے؟ اگر ہے تو اس کی شدت کتنی ہے؟ اہل پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ یہ دونوں غیر اختیاری عناصر ان کے حق میں ہیں۔پاکستانی قوم خارج کی طرف سے مسلسل ایک چیلنج کا شکار ہے ، مگر یہ چیلنج کبھی اتنا نہیں بڑھاکہ ہماری کمر توڑ ڈالے۔ دوسری طرف ہماری قوم چونکہ ابھی اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل میں ہے ، اس لیے اس میں قدرتی توانائی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے ۔
جہاں تک عروج و زوال کے اختیاری محرکات کا سوال ہے ،بدقسمتی سے یہ مکمل طور پر ہمارے خلاف جاتے ہیں۔جدید علوم اور تعلیم میں ہم دنیا بھر سے پیچھے ہیں۔اخلاقی معاملات میں ہمارا رویہ انتہائی پست ہے۔سب سے بڑھ کر ہم نے خدا سے ایک عہد باندھا اور اس کے بعد من حیث القوم بدترین منافقت کا ثبوت دیا ہے۔ ہم حکومت و اقتدار کی سطح پر تو مقتدر طبقات پر مغربیت کا الزام ڈال کر بری ہوجاتے ہیں ، مگر ہمارے اپنے گھروں اور ذاتی زندگی میں توحید و شریعت کو بے وقعت کرنے کے جرم میں ہم سب شریک ہیں۔ہمارے قومی کردار میں متعدد ایسی چیزیں شامل ہوچکی ہیں جس کے بعد ہم اپنے اوپر عائد ہونے والی اسلامی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
ہماری کوتاہیاں کسی ایک طبقے کی نہیں، بلکہ قوم کا ہر گروہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ہماری اشرافیہ اور حکمران طبقے کا ذہناً اس قوم سے کوئی تعلق نہیں۔ان میں سے اکثر مغربی افکار کے پروردہ ہیں جن کی تہذیب، ثقافت، اقدار، زبان اور مفادات، سب اس قوم سے جدا ہیں۔ جب تک ہندوؤں کا سامنا تھا یہ لوگ اسی قوم کا حصہ تھے، مگر اس کے بعد ان کے مفادات ان پر ہرچیز سے زیادہ حاوی ہوچکے ہیں۔یہی حال ہماری سیاسی قیادت کا ہے جو مخصوص طبقات کے مفادات کی محافظ بن کر رہ گئی ہے۔ سیاست دانوں میں جہاں اخلاص ہے ، وہاں دوراندیشی اور حکمت کا فقدان ہے اور جہاں فہم و دانائی ہے ، وہاں ذاتی مفاد ہر شے پر حاوی ہے۔ ہماری مذہبی قیادت ، الّا ماشاء اللہ ،جمود اور فرقہ واریت کی اسیر ہے۔ ہمارے عوام الناس کا قومی مزاج ان تمام بیماریوں سے متاثر ہے جن کی بنا پر وہ دین و شریعت اور اخلاق و فطرت کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ہمارے ادارے شکستہ اور کرپشن کا سب سے بڑا مرکز ہیں۔
ہمارے مستقبل کا تمام تر انحصار اب اس بات پر ہے کہ آیا اس قوم میں کوئی حقیقی فکری قیادت فروغ پاسکتی ہے یا نہیں۔ہم نے پہلے باب میں عرض کیا تھا کہ قوم کے دو بنیادی حصے ہوتے ہیں: ایک فعال طبقہ جو قیادت اور اشرافیہ پر مشتمل ہوتا ہے اور دوسرے غیر فعال عوام الناس ۔قوموں کی راہوں کا تعین پہلا طبقہ کرتا ہے اور اس طبقہ کی رہنمائی فکری قیادت کیا کرتی ہے۔ہم آج اگر ایک تباہ کن صورت حال کے دہانے پر کھڑے ہیں تو اس کا سبب اسی فکری قیادت سے ہماری محرومی ہے۔ہمارے قومی حالات کا سب سے منفی پہلو یہی ہے کہ اس وقت ملک میں کوئی حقیقی فکری قیادت موجود نہیں۔قیام پاکستان کے وقت جو کچھ فکری قیادت تھی ، اس کے سر پر سیاست اور اقتدار بری طرح سوار ہوگئے۔جب فکری قیادت اپنا کام چھوڑ کر سیاسی میدان میں اترتی ہے تو اس کے بعد سیاسی میدان میں کامیابی ملے نہ ملے، وہ اپنے شعبہ میں بڑی حد تک غیر مؤثر ہوجاتی ہے۔ سیاست تو لوگوں کی پسند و ناپسند کی رعایت کرکے ہی کی جاسکتی ہے ، جبکہ فکری رہنمائی میں لوگوں کے اوہام و تعصبات، جذبات و معتقدات اور اعمال و روایات پر تنقید کیے بغیر چارہ نہیں۔سیاست میں اترنے والوں کو اپنے آدرشوں کو خیر باد کہنا پڑتا ہے۔ یہی ہمارے ہاں بھی ہوا۔اس کے بعد ہمارے قومی مزاج میں پیدا ہونے والے بعض منفی رجحانات، مثلاً جذباتیت، انتہا پسندی، ظاہر پرستی، اخلاقی انحطاط اور علمی جمود نے کسی حقیقی فکری قیادت کے پنپنے کے امکانات بہت محدود کردیے۔ جو اکادکا لوگ موجود ہیں ، انھیں اپنی بات کہنے کے بعد جان بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔
ہم نے اس کتاب کی تیاری کے دوران میں تاریخ کے ہزاروں صفحات کا مطالعہ کیا ہے۔ متعدد قوموں اور تہذیبوں کے حالات کا جائزہ لیا ہے۔ اس کے بعد اہل پاکستان کے جو حالات ہمارے سامنے ہیں ، انھیں دیکھ کر ہم پر بار بار مایوسی طاری ہو جاتی ہے۔اندھیر نگری چوپٹ راج کا جو تماشا یہاں ہر سطح پرصبح و شام نظر آتا ہے ، اس کے بعد کوئی امید کرنا آسان نہیں۔ بالخصوص خدا سے وفاداری کا عہد باندھنے کے بعد منافقت اور غداری کی جو کہانی ہم اپنے اپنے گھروں میں لکھ رہے ہیں، اس کا نتیجہ کبھی بھی اچھا نہیں نکل سکتا۔
ان مایوس کن حالات میں امید کی کوئی کرن اگر موجود ہے تو وہ یہ ہے کہ اس قوم کے ہر طبقہ میں ابھی تک زندہ لوگ پیدا ہورہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن سے ہر میدان میں نئی قیادت وجود میں آسکتی ہے۔اس کتاب کے اصل مخاطب وہی لوگ ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو نفسانفسی اور خود غرضی کے اس دور میں قوم کے درد میں تڑپتے ہیں۔جو اپنے نقطۂ نظر کے علاوہ دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ جو جذباتیت اور انتہا پسندی کے بجاے اصول پسندی کو اپنا معیار بناتے ہیں۔جو دنیاپرست الحادی تہذیب کے مقابلے میں نبیوں کی تہذیب کو غالب دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ خدا ان کی نگاہ میں ایسا بڑا ہے کہ وہ کسی اور کی بڑائی کو دل میں جگہ نہیں دے سکتے ۔ جو رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کواس طرح آخری نبی مان چکے ہیں کہ آپ کے بعد کسی اور کی بات کو وہ حرف آخر نہیں سمجھتے۔جو صحابۂ کرام کی طرح حق پر کسی اور چیز کو ترجیح نہیں دے سکتے اور اس کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جواس قوم کی تباہ حال تقدیر بدل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہی لوگ اس دھرتی پر ہماری واحد امیدہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے سامنے ہم تعمیر ملت کا لائحۂ عمل رکھنا چاہتے ہیں۔
ہمارے نزدیک پاکستانی قوم کی تعمیر نو ایک عظیم کام ہے جسے بہ یک وقت کئی سطحوں پرکرنے کی ضرورت ہے،تاہم اس کا نقطۂ آغاز ان مسائل کی ٹھیک ٹھیک نشان دہی ہے جو قوم کے عروج و زوال کا باعث ہوسکتے ہیں۔اس معاملے میں اگر غلطی ہوجائے تو بڑے سے بڑا عمل کوئی مثبت نتیجہ نہیں پیدا کرسکتا۔ہمارے نزدیک ہم بحیثیت قوم زندگی کے جس مرحلے پر ہیں، اس میں تعمیری عناصر اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ کرنے کا اصل کام صرف قومی مزاج کی اصلاح ہوتا ہے۔ جب قومی مزاج بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے تو ان عناصر کی توانائیاں مضمحل ہوجاتی ہیں یا منفی کاموں میں خرچ ہوتی ہیں۔اگر ان امراض کو دور کردیا جائے تو قومی تعمیر و ترقی کا کام کرنے والے لوگ خود بخود پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔
ہم نے اب تک اس کتاب میں جو کچھ لکھا ہے ، اس کی بنیاد پر ہم قوم کے اجتماعی مزاج کو لگ جانے والے امراض کا ایک تجزیاتی جائزہ پیش کررہے ہیں،جن سے نجات حاصل کیے بغیر دنیا میں ہمارے عروج کا کوئی امکان نہیں۔ چاہے ان کا تعلق عام اقوام کو لگ جانے والے امراض سے ہو یا امت مسلمہ کو لاحق ہونے والے امراض سے ۔ہمارے نزدیک چار بنیادی بیماریاں ہیں جن کے خلاف ہمیں جنگ کرنی ہوگی۔ ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
امت مسلمہ کو لگ جانے والا سب سے خطرناک مرض وہ ہوتا ہے جو اسے توحید اور اس کے تقاضوں سے دور کردے۔ دور قدیم میں یہ فتنہ شرک تھا اور دورجدید میں الحاد نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ہم پچھلے باب میں اس کی کچھ تفصیل بیان کرچکے ہیں۔اس کامختصر تاریخی پس منظریہاں بیان کیے دیتے ہیں۔
مسلمانوں کے اثر سے اہل مغرب میں نشاۃ ثانیہ کا جو عمل شروع ہوا، وہ عیسائی مذہبی قیادت کی مخالفت کی بنا پر انکار مذہب سے انکار خدا تک جا پہنچا۔انیسویں صدی میں یہ فکر خیال غالب ہوچکا تھا کہ انسان کو اب خدا کی ضرورت نہیں رہی،تاہم بیسویں صدی میں صورت حال بہت سی وجوہات کی بنا پر تبدیل ہوگئی۔ لوگوں نے جان لیا کہ خدااور مذہب سے دامن چھڑانا آسان نہیں، لیکن جدید ذہن کے سامنے مذہب کی شکل میں جو کچھ رہنمائی موجود تھی ، اسے قبول کرنا اس کے لیے ممکن نہ تھا۔چنانچہ ایک درمیانی راستہ نکالا گیا۔خدا اور مذہب ، دونوں کو قبول کرلیا گیا ، مگر دونوں کی حیثیت ایک ثقافتی ورثے کی تھی۔آج لوگ خدا کو پکارتے ، عبادت گاہوں میں جاتے اورمذہبی تہوار مناتے ہیں ، مگر ان کی حیثیت تہذیبی روایات کی سی ہے۔ عملی زندگی میں کوئی بھی مذہب کی رہنمائی قبول نہیں کرتا۔
ہمارے نزدیک یہ رویہ صرف دنیا کی زندگی کو مقصود بنانے سے پیدا ہوتا ہے۔ توحید ایک نامکمل عقیدہ ہے جب تک اس کے ساتھ آخرت کا جوڑ نہ لگا یا جائے۔اس دنیا میں چونکہ انسان کو آزمایش کے لیے بھیجا گیا ہے ، اس لیے خدا ہمیشہ اپنے آپ کو پردۂ اسباب میں مستور رکھتا ہے۔ یہ پردہ روز قیامت اٹھایا جائے گا جہاں خدا اپنی تمام تر صفات کے ساتھ لوگوں کے سامنے جلوہ گر ہوگا۔
اہل مغرب میں اگر یہ رویہ پایا جاتا ہے تو کوئی عجیب بات نہیں ، کیونکہ جو مذہبی رہنمائی وہاں موجود ہے ، اس میں بھی عقیدۂ آخرت کا تصور نہایت مبہم اور نامکمل ہے، مگر جب مسلمان یہ کام کرتا ہے تو وہ ایک بدترین جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس لیے کہ اسلام میں آخرت پر اتنا ہی زور دیا گیا ہے جتنا کہ توحید پر ۔مگر دنیا پرستی کی مغربی لہر جب یورپ سے نکلی اور چار عالم میں پھیلی تو مسلمان بھی اس سے اسی طرح متاثر ہوئے، جس طرح بنی اسرائیل شرک سے متاثر ہوئے تھے۔آج ہمارے دلوں میں بھی دنیا کی محبت اس طرح رچ بس گئی ہے کہ ہم اپنی تمام تر دینی ذمہ داریوں اور اخروی جواب دہی کو فراموش کر گئے ہیں۔ ہمیں دنیا کے سامنے توحید کا علم بلند رکھنا تھا ، مگر ہمارا حال یہ ہوچکا ہے کہ خو ف وخواہش اور امید واندیشہ کا ہر جذبہ اسی دنیا اور دنیا والوں سے وابستہ ہوچکا ہے۔ ہمارا رونااور ہنسنا ، لینا اور دینا، بیٹھنا اور اٹھنا دنیا کی زندگی کے لیے ہے۔ہر وہ مقام جہاں خدا کی جنت اور دنیا کے فائدہ میں سے کسی ایک کا انتخاب ہمارے سامنے آتا ہے ، بلا جھجک ہمارا انتخاب دنیا اور اس کا فائدہ ہوتا ہے۔خدا نے اپنی جنت پانے کے جو شرائط مقرر کیے ہیں ، ان کے حساب سے جنت وہی پائے گا جو قربانی کے درجے میں اس کے لیے محنت کرے، ہم لوگ تو خواہش کے درجے میں بھی جنت کے طلب گار نہیں ۔ ہم تو بس مال و دنیا کے طلب گار بن کر رہ گئے ہیں۔ گاڑی، بنگلہ، اسٹیٹس، بینک بیلنس اور مال و دنیا کے دیگر مظاہر ہمارے مالک و آقا بن چکے ہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔
دنیا کی محبت میں گرفتار ہونے کے بعد کسی مسلم گروہ کے لیے خدا پرستی کی وہ زندگی گزارنا ممکن نہیں رہتاجو سرتاسر قربانیوں سے عبارت ہوتی ہے۔ امت مسلمہ کے ساتھ زیادہ بڑا سانحہ یہ ہوتا ہے کہ توحید چھوڑنے کے بعد خدا انھیں اجتماعی سطح پر دنیا میں بھی کچھ نہیں دیتا۔ ان پر ذلت و رسوائی مسلط کردی جاتی ہے۔ عارضی طور پر جو دنیوی فراخی انھیں حاصل ہوتی ہے ، وہ جلد یا بدیر کسی سزا کے بعد چھین لی جاتی ہے۔
عصر حاضر میں توحید سے ہمیں دور کرنے والادوسرا عنصر شرک ہے۔ گو صحابۂ کرام کی قربانیوں کے نتیجے میں نظری طور پر شرک مر چکا ہے اور کوئی بھی اس احمقانہ نظریے سے وابستگی کو درست ثابت نہیں کرسکتااور نہ کرتا ہے، لیکن غیر اللہ کو خدا کا مقام دینے کا مرض بہرحال آج بھی عام ہے۔ یہ علم و عقیدہ ، دونوں کی سطح پر ہوتا ہے۔عقیدہ کی عوام الناس میں جو گمراہی پھیلی ہوئی ہے، اس سے اکثر لوگ واقف ہیں اور اس پر بہت تنقید ہوچکی ہے۔ہم اس مرض کی طرف توجہ دلانا چاہیں گے جو علمی سطح پر ظاہر ہوتاہے۔ عام زبان میں اسے اکابر پرستی کہتے ہیں۔وہ اہل علم، بزرگ اور صالحین جنھیں ان کے ہم عصر اپنے جیسا جانتے تھے، وقت کی گر د، ان کی صور ت گری اس طرح کرتی ہے کہ آنے والے عزت و شرف اور علم و بزرگی کا ہر وہ تاج ان کے سر پر رکھنا ضروری سمجھتے ہیں جو صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیب دیتا ہے۔اس کے بعد ان سے اختلاف کرنا ایک جرم بن جاتا ہے۔اسلاف سے اختلاف کرنے والوں کو لوگ بلا جھجک رد کردیتے ہیں۔ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے دور کا ایک ’’معمولی‘‘ انسان ان سراپا علم وعظمت ائمہ سے اختلاف کی جرأت کیسے کرسکتا ہے۔کاش ،لوگ یہ جانتے کہ جس معاشرے میں عدم برداشت فروغ پاجائے، وہ ذہنی طور پر مردہ اور زوال کا شکار ہوجاتا ہے۔
دنیا پرستی اور اکابر پرستی کے یہ امراض جو راہ توحید کے سب سے بڑے دشمن ہیں اوربدقسمتی سے ہمارے قومی وجود کا پوری طرح احاطہ کیے ہوئے ہیں، ان کا واحد علاج قرآن کی براہ راست رہنمائی ہے۔ شرط یہ ہے کہ قرآن پڑھتے وقت صرف قرآن پڑھا جائے۔بغیر کسی تفسیر کے جب خالی الذہن ہوکر قرآن پڑھا جائے گا تو جو بنیادی پیغام بار بار سامنے آئے گا، وہ یہ ہوگا: ’’لوگو، تمھارا رب ایک ہی ہے اور وہی ہر بڑائی اور عظمت کا واحد مستحق ہے۔وہ اپنی تمام تر صفات کے ساتھ ہر آن تمھارے ساتھ ہے۔ تمھیں ایک روز اس کے حضور پیش ہوکر تنہا اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔جہاں اس کے فرماں بردار جنت میں اور نافرمان جہنم میں جائیں گے۔‘‘
اس فکر کے ساتھ جینے والا کبھی دنیا پرست ہوسکتاہے نہ اکابر پرست ۔اس ذہن کے ساتھ دھرتی پر چلنے والا خدا کا بہترین بندہ اور انسانوں کے لیے ایک فائدہ مند وجود ہوگا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو آج اس معاشرے میں سب سے کم ہوگئے ہیں۔
امت مسلمہ کو لگنے والا دوسرا مرض وہ ہے جو شریعت کو اس کے لیے بے وقعت بنادیتا ہے۔یہ مرض ظاہر پرستی کا ہے۔ یہ انسان کی کمزور ی ہے کہ وہ معنوی حقائق کو براہ راست سمجھنے کی کامل استعداد نہیں رکھتا۔ چنانچہ ان معنوی حقائق کو اس کے ذہن میں تازہ رکھنے کے لیے خدا کی شریعت کچھ ظواہر کو استعمال کرتی ہے۔مثال کے طور پر خدا کی یاد تو ہر حال میں انسان کے دل و دماغ میں زندہ رہنی چاہیے ، لیکن چونکہ انسان بھول جانے کی ایک مستقل صفت اپنے اندر رکھتا ہے ، اس لیے نماز کو خدا کی یاد کے لیے ہر شریعت کا حصہ بنایا گیا ہے۔نماز خدا کی مقرر کردہ ہے ، اس لیے ہر حال میں قابل اتباع چیز ہے، مگر ایک ظاہر پرست ذہن سے نماز کی یہ اصل کہ نماز کا مقصد خدا کی یاددہانی (طہٰ۲۰: ۱۴) ہے تو محو ہوجاتی ہے اور اس کا تمام تر دھیان نماز کی ظاہری ہےئت اور اس کی جزئیات کی طرف ہوجاتا ہے۔جزئیات میں چونکہ اختلاف کی گنجایش رہتی ہے ، اس لیے تفرقہ بازی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جس کے بعد صرف اس بات پر کسی شخص کے کفر و ایمان کا فیصلہ صادر ہوتا ہے کہ اس نے ’’رفع یدین‘‘ کیا یا نہیں۔اور بعض اوقات اس بات پر ایک نئی مسجد بنادی جاتی ہے کہ جماعت کی تکبیر میں کس وقت کھڑا ہونا چاہیے۔ یہ رویہ بڑھتا ہے اور آہستہ آہستہ دین کی ہر چیز اختلافی ہوجاتی ہے۔اس طرح یہ ظاہر فرقہ پرستی فرقہ بندی کا بنیادی سبب بن جاتی ہے،جس کے بعد امت مسلمہ کے افراد اپنی شناخت مسلمان کے بجاے ان ناموں سے کراتے ہیں جن سے اللہ اور رسول کا کوئی تعلق نہیں۔
یہی ظاہر پرستی ہے جس کے نتیجے میں لوگ دین کے نام پر شرعی احکام میں فروعی چیزوں کا اضافہ کرتے ہیں اور اس کے بعد انھیں اصل شریعت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ہم دین میں فقہی احکامات کے مخالف ہیں، نہ اس کی اہمیت سے بے خبر۔ فقہ زندگی کی لازمی ضرورت ہے جس کا انکار کوئی ناواقف شخص ہی کرسکتا ہے۔ہمارا عتراض صرف اس رویہ پر ہے جس میں فقہ کو شریعت میں ملاکر اس کے برابر یا اس سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
بات یہ ہے کہ خدا کی شریعت جو رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہم تک پہنچی ہے، بہت مختصر ہے ۔ یہ صرف انھی احکام کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے جہاں انسانی عقل پہنچنے سے عاجز ہے۔ مثلاً عبادات جن میں انسان کبھی یہ نہیں جان سکتا کہ خدا کی عبادت کا بہترین طریقہ کیا ہے۔چنانچہ شریعت نے عبادات کو موضوع بنایا اور اس سلسلے میں تفصیلی احکامات دیے ۔اسی طرح وہ مقامات جہاں عقل انسانی ٹھوکر کھاجاتی ہے ، وہاں بھی شریعت نے اس کی رہنمائی کی ہے۔ مثلاً معاشرتی معاملات میں زن و شو کے حقوق و فرائض یا معاشی میدان میں سود کی حرمت وغیرہ۔
تاہم ایک محدود دائرے کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو آزاد چھوڑا ہے کہ وہ اپنے حالات کے اعتبار سے اپنی زندگی کے معاملات میں جو چاہے قانون سازی کرے، تاہم یہ قانون سازی ایک انسانی کام ہے۔ یہ مقدس نہیں ہے۔ اس میں اختلاف ہوسکتا ہے۔ یہ سب باتیں صرف اس وقت واضح ہوں گی، جب یہ حقیقت ذہن میں رہے کہ اصل شریعت اس قانون سازی سے بلند چیز ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دے کر گئے ہیں۔ جس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ جس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ جو اجتہاد کا موضوع نہیں ہے۔لیکن جب یہ بات لوگوں پر واضح نہیں ہوتی تومقدس شریعت میں انسانی قانون سازی کا پیوند لگاتے ہیں اور اسی کو دنیا کے سامنے دین حق کے نام پر پیش کرتے ہیں۔ جب انسانی کاموں پر بعض اعتراضات سامنے آتے ہیں تو سمجھا جاتا ہے کہ گویا شریعت پر اعتراض ہورہا ہے۔جس کے بعد ایک طرف تو معترضین کی تکفیر کی جاتی ہے اور دوسری طرف فقہی کام کے دفاع میں اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں ضائع کی جاتی ہیں۔انفارمیشن ایج میں کھڑے ہوکر ایگریکلچرل ایج کے انسانی کام کے دفاع کے نتائج اکثر یہ نکلتے ہیں کہ لوگوں کی نگاہوں میں پورا دین ہی بے وقعت یا ناقابل عمل ہوجا تا ہے،اور بد قسمتی سے یہی اس وقت ہورہا ہے۔
ظاہر پرستی کا ایک اور اثر اخلاقی حالت پر پڑتا ہے، جسے ہم آگے’’ اخلاقی پستی‘‘ کے عنوان کے تحت بیان کریں گے،تاہم ان سب چیزوں کے ساتھ ظاہر پرستی کا سب سے بڑا اثر یہ ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ وہ بنیادی حقیقتیں جن کی یاد دہانی کے لیے یہ ظاہری عبادات مقرر کی گئی تھیں ، لوگوں کی نگاہ سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔نماز رہ جاتی ہے ، مگر خشوع اور خد اکی یاد نہیں رہتی۔ فواحش ومنکرات نماز کے ساتھ زندگی کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ روزے کا اہتمام خوب ہوتا ہے ، مگر خدا خوفی کا اہتمام نہیں رہتا۔ زکوٰۃ پابندی سے دی جاتی ہے، مگر دل دنیا کی محبت سے پاک نہیں ہوتا۔ حج و عمرہ کی کثرت ہوتی ہے ، مگر خدا کی نصرت اور شیطان سے دشمنی زندگی کا مقصد نہیں بن پاتی۔
ظاہر پرستی کے مرض کی شناعت کو اس کے صحیح تناظر میں اگر سمجھنا ہے تو اس کے لیے تورات اور انجیل کا تقابلی مطالعہ کافی مفید ثابت ہوگا۔تورات اور انجیل میں بنیادی فرق یہ ہے کہ تورات میں قانون و شریعت کا بیان ہے ، جبکہ انجیل شریعت کی اس حکمت کا خزانہ ہے جو ہزار برس میں بنی اسرائیل سے کھوگیا تھا۔ بائیبل چونکہ بنی اسرائیل کی تاریخ کا بھی بیان ہے ، اس لیے اس کے مطالعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تورات سے ملنے والی شریعت انجیل تک پہنچتے پہنچتے ’’تالمود‘‘ کے فقہی انبار تلے دب چکی تھی۔چنانچہ سیدنا عیسیٰ کی پوری دعوت کا مرکزی خیال بنی اسرائیل کو ظاہر پرستی سے نکال کر واپس دین کی صحیح حکمت کی روشنی میں واپس لانا تھا۔آپ نے بنی اسرائیل کی مذہبی قیادت پراس حوالے سے شدید ترین تنقید کی ہے۔
مثلاً یہودی فقیہوں اور فریسیوں کے اس اعتراض کے جواب میں کہ سیدنا مسیح کے پیروکار بزرگوں کی روایت کے مطابق کھانا کھاتے وقت ہاتھ کیوں نہیں دھوتے؟ آپ نے فرمایا کہ اے ریاکارو، پہلے تم یہ بتاؤ کہ تم خدا کے حکم کے برخلاف والدین سے بدکلامی کیوں کرتے ہو؟ پھر آپ نے اپنے شاگردوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کی دینی بصیر ت پر اس طرح تبصرہ کیا کہ یہ اندھے راہ بتانے والے ہیں۔ فرمایا کہ جو چیز منہ میں جاتی ہے، وہ آدمی کو ناپاک نہیں کرتی ، بلکہ جو چیز منہ سے نکلتی ہے وہی آدمی کو ناپاک کرتی ہے ۔ آدمی بغیر ہاتھ دھوئے کھانا کھانے سے ناپاک نہیں ہوتا، بلکہ حرام کاری، چوری، زنا، خوں ریزی وغیرہ سے ناپاک ہوتا ہے۔(خلاصہ کتاب متی باب ۱۵)۔
ایسے ہی ایک دوسرے موقع پر جب آپ پر اعتراض کیا گیاتو آپ نے انتہائی تلخ جواب دیا کہ تم لوگ پیالے اور رکابی کو تو اوپر سے صاف کرتے ہو، لیکن تمھارے اندر لوٹ اور بدی بھری ہوئی ہے۔ اس پر شریعت کے ایک عالم نے کہا کہ ایسی باتوں سے آپ ہماری بے عزتی کررہے ہیں۔آپ نے جواب دیا کہ اے شرع کے عالمو، تم پر بھی افسوس ! کہ تم ایسے بوجھ کو جن کو اٹھانا مشکل ہے ، آدمیوں پر لادتے ہواور خود ایک انگلی بھی ان بوجھوں کو نہیں لگاتے۔(خلاصہ کتاب لوقا باب ۱۱ آیات ۳۷ تا ۴۶)۔
سیدنا مسیح سے ظاہری اعمال کی اہمیت پوشیدہ نہ تھی، مگر اس دور میں جس طرح بنی اسرائیل کی مذہبی قیادت ظاہر پرستی کا شکار ہوچکی تھی، اس میں بہت کم اہمیت کے ظاہری اعمال کے پیچھے دین کی تمام بنیادی حقیقتیں نگاہوں سے اوجھل ہوگئی تھیں۔ چنانچہ آپ ہر اعتراض کے جواب میں ان کی توجہ ان کے ایسے رویوں کی طرف مبذول کرادیتے جن میں وہ زیادہ بنیادی باتوں کی خلاف ورزی کررہے ہوتے۔آپ نے شریعت کو منسوخ نہیں کیا ، بلکہ آپ اس کی تکمیل کے لیے آئے تھے (کتاب متی باب ۵: ۱۷) یعنی احکام کی حکمت و مقام واضح کرنے کے لیے۔آپ نے اپنی تعلیمات میں ظاہری چیزوں کے مقابلے میں احکام کی حقیقت اور ترجیحات کو واضح کرنے پر زور دیا۔پہاڑی کا مشہور خطبہ اس کی بہترین مثال ہے۔(کتاب متی باب ۵: ۷) ۔
ہم نے اس بحث میں انجیل کے حوالے سے کچھ مثالیں اس لیے دی ہیں کہ سیدنا عیسیٰ کے دور میں یہ مرض بہت بڑھ چکا تھا،اور جب ایک امت مسلمہ اس مرض میں مبتلا ہوجائے تو دین و شریعت اور ایمان واخلاق کے ہر حکم سے زیادہ فقہ کا ظاہری ڈھانچا لوگوں کی نگاہوں میں محبوب ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے پیچھے خدا کے ایک جلیل القدر رسول کے کفر اور قتل کی سازش جیسے اقدامات تک کر لیے جاتے ہیں۔آج بھی ظاہر پرستی ہمارا عظیم مسئلہ بن چکی ہے۔فرد سے لے کر حکومت تک صرف ظاہری لیپا پوتی کو اتباع شریعت کا معیار قرار دے دیا گیا ہے،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ غیر معمولی محنت اور قربانی کے بعد امت میں ’’دین داری ‘‘ تو بہت بڑھ رہی ہے ، مگر دین دار نہیں بڑھتے۔ پھراخلاق و معاملات کی ہر چڑھائی پر یہ دین داری جس طرح ساتھ چھوڑتی ہے، اس کے نتائج انتہائی افسوس ناک نکلتے ہیں۔
جب تک اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا، ہم کبھی اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہوسکتے جوایک مسلمان قوم ہونے کے حوالے سے ہم پر عائد ہوتی ہے۔اس مسئلہ کا حل اس کے سوا کچھ نہیں کہ دین کا صحیح علم لوگوں تک پہنچایا جائے۔احکام کی ترجیحات اور ان کے مقاصد کا شعور ان میں واضح کیا جائے۔دین کے اصل مآخذ قرآن و سنت کی بنیاد پر مروج دینی افکار اور روایتی تصورات پر جو شاہ کار اور حکیمانہ تنقید بعض اہل علم نے اس دور میں کی ہے، اسے لوگوں تک پہنچایا جائے۔
کتاب کے پہلے باب میں ہم نے قوموں کے عروج و زوال کے محرکات کے ضمن میں اخلاقی اقدار کی اہمیت پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو جانوروں سے ممتاز کرنے والی اصل چیز اخلاقی رویہ ہے۔انسان کی عقلی قوت جب تک اس اخلاقی رویہ کے تحت استعمال ہوتی ہے ، تمام معاملات ٹھیک رہتے ہیں اور جب اس کے سفلی جذبے اس پر غلبہ پالیں تو نہ صرف اخلاقی وجود سے ملنے والی روحانی توانائی سے اسے محروم کردیتے ہیں ، بلکہ اس کی عقلی استعداد کو بھی آخر کار کند کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں معاشرہ زوال پذیر ہوجاتا ہے۔
اصل میں انسان ایک معاشرتی وجود ہے۔معاشرتی زندگی کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر گزرتی ہے۔انسان کا حیوانی وجود دینا نہیں جانتا، صرف لینا جانتا ہے۔چاہے اس کا لینا دوسروں کی موت کی قیمت پر ہو۔ یہ اصلاً انسان کی اخلاقی حس ہے جو اپنے حقوق کے ساتھ اپنے فرائض سے بھی انسان کو آگاہ کرتی ہے۔ اجتماعی زندگی کا اصل حسن احسان، ایثار اور قربانی سے جنم لیتا ہے۔جب تک اخلاقی حس لوگوں میں باقی رہتی ہے ، اپنے فرائض کو ذمہ داری اور خوش دلی سے ادا کرنے والے اور ایثارو قربانی کرنے والے لوگ اکثریت میں رہتے ہیں۔جب اخلاقی حس مردہ ہونے لگے تو ایسے لوگوں کی کمی کے نتیجہ میں خود معاشرہ مردنی کا شکار ہونے لگتا ہے۔ بدقسمتی سے ٹھیک یہی وہ صورت حال ہے، آج جس کا ہم شکار ہوچکے ہیں۔
ہم نہیں سمجھتے کہ اس معاملہ کی کوئی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت ہے۔اس افسوس ناک صورت حال کا مشاہدہ خاندان کے ادارے سے لے کر قومی اداروں تک ہر جگہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اب جنگل کا قانون رائج ہے جس میں طاقت ور ہر حال میں جیتتا ہے اور کمزور کا مقدر شکست خوردگی کے سوا کچھ نہیں۔طاقت ور لوگ اپنی طاقت کے بل بوتے پر کمزوروں پر ہر طرح کا ظلم ڈھاتے ہیں۔ طاقت خواہ مال کی ہو، اختیار کی ہو، علم کی ہو ، صلاحیت کی ہو یا کسی اور قسم کی ہمیں بلاجھجک ہر اخلاقی قدر پامال کرنے پر آمادہ کردیتی ہے۔بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ طاقت کے باوجود اخلاقی معیارات کی پابندی کرنے والے لوگ اب استثنائی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ صورت حال صرف امرا اور مقتدر طبقات تک محدود نہیں ہے، بلکہ اب خاص وعام، سب اس معاملے میں یکساں ہیں۔ ان حالات میں ہم پرفرض کے درجہ میں یہ چیز لازم ہوچکی ہے کہ ہم اس صورت حال کو بدلنے کے لیے جدوجہد شروع کریں۔ ان عوامل کو تلاش کریں جن کی بنا پر یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے،اور اس معاملے میں اپنے لوگوں کی تربیت کریں۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو یقیناًہمیں بدترین تباہی کا سامنا کرنا ہوگا۔
انسانی معاشرے میں اخلاقی بگاڑ بلاوجہ نہیں پھیلتا ۔ انسان خیر وشر کا اتنا گہرا شعور اپنے اندر لے کر آیا ہے کہ جب تک کچھ غیر معمولی عوامل اس کے اس شعور کو پوری طرح کچل نہ دیں ، وہ اخلاقی جرائم سے باز رہتا ہے۔ہمارے نزدیک ہمارے ہاں اخلاقی بگاڑ کے اس رویے کے پیدا ہونے کے متعددعوامل ہیں۔اس کا سب سے بنیادی عامل دنیا پرستی کی وہ لہر ہے جس میں لوگ وقتی مفاد کے آگے ہر چیز کو ہیچ سمجھتے ہیں۔دنیا جتنی حسین آج ہے ، اتنی کبھی نہیں تھی۔ خصوصاً جن سہولتوں تک ایک عام آدمی کی پہنچ آج ممکن ہے، وہ پہلے کبھی ممکن ہی نہیں رہی،تاہم یہ دنیا بلا قیمت دستیا ب نہیں، اس کے حصول کے لیے مال چاہیے۔چنانچہ مال کمانا اور اس سے دنیا حاصل کرنا اب ہر شخص کا نصب العین بن چکاہے۔ دوسری طرف یہ مال جائز و ناجائز کی اخلاقی حد میں رہ کر آسانی اور اس وسعت کے ساتھ نہیں ملتا جس سے دنیوی سامان تعیش بہ افراط حاصل کیا جاسکے۔نتیجہ یہ ہے کہ لوگ حصول زر کی دوڑ میں ہر اخلاقی حد کو پھلانگ جاتے ہیں۔آہستہ آہستہ یہ رویہ ہر معاملے میں انسان کو ظلم پر آمادہ کردیتا ہے اور پھر پورا معاشرہ فساد سے بھر جاتا ہے۔اس صورت حال میں وہ نوجوان بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں جو بلند تر آدرشوں کے لیے روپے پیسے کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے ، مگر بدقسمتی سے ہمارے ساتھ یہ سانحہ بھی ہورہا ہے کہ قوم کے نوجوان کی منزل صرف مادی منفعتوں کا حصول بن کر رہ گیا ہے۔
اخلاقی انحطاط کی دوسری وجہ اس منفی سوچ کا فروغ ہے جو ہمارے بعض طبقات نے عام کردی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک صاحبان اقتداراور اشرافیہ غیر ملکی ایجنٹ ہیں۔ انھیں ہر مسئلہ کے پیچھے یہود و ہنود اور امریکا و روس کی سازشیں نظر آتیں ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ اشرافیہ، مقتدر طبقات اور بیرونی طاقتیں کیا کررہی ہیں۔ جب یہ روش اختیار کی گئی تو عوام کی تربیت یہ ہوئی کہ ہر خرابی کی جڑ صرف دوسروں میں ہے۔جب دوسرے ٹھیک ہوجائیں گے تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ اپنی ذمہ داریاں فراموش کرنے لگے۔ ان کی توجہ اپنے دائرے میں عائد ذمہ داریوں سے زیادہ دوسروں کے اس دائرے پر تھی جس میں ان کا کچھ اختیار نہیں۔ چنانچہ نہ بیرونی طاقتوں کی سازشیں ختم ہوئیں، نہ اشرافیہ اور مقتدر طبقات کی اصلاح ہوئی۔ صرف یہ ہوا کہ عوام الناس اپنے اپنے اوپر عائد اخلاقی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کوتاہی کرنے لگے۔ دوسروں کا ہر عیب اپنی غلطی کا ایک عذر بنتا چلا گیا۔سسٹم کی وہ خرابی جو پہلے بالادست طبقات تک محدود تھی ، اب گھر گھر پھیل گئی۔
اخلاقی انحطاط کا تیسرا بنیادی سبب ظاہر پرستی کا غلبہ تھا۔ فکری طبقات نے عوام کی اصلاح کے بجاے ان کا رخ خارجی بگاڑ پر احتجاج کی جانب موڑا تو ہماری مذہبی قیادت نے دین کے نام پر ظاہر پرستی کے فروغ کو اپنا نصب العین قرار دے دیا۔ خداپرستی اور اتباع شریعت کا معیار کچھ ظاہری اعمال بن گئے۔ علامتی چیزوں کو حق و باطل کا معیار قرار دے دیا گیا۔دین کے ظاہری ڈھانچے کو جو اصلاً دین داری کا نقطۂ آغاز ہوتا ہے، دین کا آخری مطلوب قرار دے دیا گیا۔اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ شریعت کے احکامات سے وابستہ مقاصد جن کا ظہور اخلاقی سطح پر مطلوب تھا ، وہ معاشرے کا موضوع ہی نہیں رہے اور نہ کسی کو ان کے پیدا کرنے کی فکر رہی۔نتیجتاً لوگوں کی اخلاقی حس مردہ ہونے لگی۔مثلاً نماز سے پیدا ہونے والی خدا کی یاد فواحش و منکرات سے انسان کو روکتی ہے (العنکبوت ۲۹: ۴۵) مگر جب نماز میں خدا کی یاد مطلوب ہی نہیں تو کون بے حیائی اور منکرسے رکے گا؟چنانچہ ڈاڑھی ، ٹوپی ، نماز،روزے اور حج و عمرے والا مسلمان بھی آج اسی اخلاقی پستی کا شکار ہے جس کا گلہ ایک دنیا دار شخص سے کیا جاسکتا ہے۔
اخلاقی انحطاط کا چوتھا سبب قومی زندگی میں کسی اجتماعی نصب العین کی عدم موجودگی ہے۔ اخلاقی زندگی صرف اس وقت پروان چڑھتی ہے، جب فرد کسی خارجی دباؤ کے بغیر خود اپنے اوپر کچھ پابندیاں عائد کرلے۔انسان ایسا اس وقت کرتا ہے، جب اس کے سامنے کوئی بلند مقصد اور نصب العین ہوتا ہے۔ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر کوئی ایسا مقصد ہمارے سامنے نہیں۔ دوسری اقوام اس مسئلہ کو قوم پرستی اور حب الوطنی کے جذبے سے حل کرتی ہیں،مگر ہم ابھی تک اپنی قومی بنیادوں ہی کو متعین نہیں کرسکے۔ فی الوقت ہماری اجتماعیت مغربی، ہندوستانی اور زوال یافتہ مسلم تہذیب اور مقامی ثقافت کاایک ایسا ملغوبا ہے جس کی کوئی واضح اور متعین شکل پچاس سال میں سامنے نہیں آسکی۔من حیث القوم ہماری کوئی منز ل نہیں اور ہماری قوم پرستی اپنی علاقائی قومیت تک محدود ہے۔جب یہاں کوئی متفقہ قومی شعور اور کلچر ہی نہیں تو فرد کس قوم کے لیے انفرادی مفاد کی قربانی دے۔
یہ وہ بنیادی اسباب ہیں جو ہمارے اخلاقی انحطاط کے پیچھے کارفرما ہیں۔جب تک ہم ان وجوہات کو دور نہیں کریں گے، اس وقت تک اخلاقی انحطاط کا یہ کینسر ہمیں اندر ہی اندر کھاتا رہے گا اور ایک روز ہمیں کسی بڑی تباہی سے دوچار کردے گا۔ ہمارے نزدیک اس صورت حال کا حل اس بات میں مضمر ہے جسے ہم نے پچھلے باب میں بیان کیا تھا،یعنی امت مسلمہ کی اخلاقی اقدار کی بنیاد صرف فطرت نہیں رہتی ، بلکہ خدا کی براہ راست رہنمائی حاصل ہونے کے بعد یہی رہنمائی ان کی اخلاقی اقدار کی بنیاد بن جاتی ہے۔وہ رہنمائی، جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں، یہی ہے کہ توحید کے فروغ کو قوم کا مقصد ہوناچاہیے اوراس کے لیے قوم شریعت پر اس کی صحیح اسپرٹ میں عمل کرے۔
اس رہنمائی کو قبول کرکے مذکورہ بالا چاروں منفی اسباب ختم ہوجاتے ہیں۔ توحید پرست فرد دنیا پرست نہیں ہو سکتا۔ شریعت کی صحیح اسپرٹ ظاہر پرستی کا مرض ختم کردیتی ہے۔ جنھیں توحید دنیا میں پھیلانی ہو، وہ دوسروں کی ’’سازشوں‘‘ کے پرچار کے بجاے ان تک حق پہنچانے میں دل چسپی لیتے ہیں۔ وہ دوسروں کے فرائض انھیں یاد دلانے کے بجاے اپنی ذمہ داریاں یاد رکھتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر توحید کی شکل میں قوم کو وہ اجتماعی نصب العین حاصل ہوجاتا ہے جس کے فروغ کا ارفع مقصد قوم کوایک لڑی میں پرودیتا ہے۔توحید و شریعت سے سچی وابستگی نہ صرف ہمارے اخلاقی مسائل کا حل ہے ، بلکہ مغربی الحاد کو دنیا میں جو فروغ حاصل ہورہا ہے ، اس کے بعد ہم پر آخری درجہ میں فرض ہوچکا ہے کہ ہم خالص توحید اور آخرت کا مشن لے کر میدان عمل میں اتر آئیں۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو،بلاشہ ہم بارگاہ احدیت کے مجرم قرار پائیں گے۔
ایک فرد کی طرح جو روزمرہ فرائض ادا کرنے کے لیے غذا کا محتاج ہوتا ہے ، ایک قوم بھی اپنی بقا کے لیے توانائی کے ان ذخائر کی محتاج ہوتی ہے جو اس کی ضروریات پوری کرسکیں ۔اس کے ساتھ ساتھ جس طرح ایک فرد اپنے وجود کے تحفظ کے لیے کسی چھت کا محتاج ہوتا ہے ، اسی طرح قوم کو بھی اپنے دفاع کے لیے طاقت کی ایک چھتری کی ضرورت ہوتی ہے۔دور جدید میں یہ توانائی اور یہ طاقت اب ایک ہی سرچشمہ سے حاصل ہوتی ہے،یعنی سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے سے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی علم کی وہ شاخ ہے جس نے اس دور میں انتہائی غیر معمولی ترقی کی ہے۔جس کے نتیجے میں دنیا زرعی سے صنعتی اور اب انفارمیشن ایج میں داخل ہوچکی ہے۔مغرب چونکہ اس تمام تر علمی ترقی کا امام رہا ہے، اس لیے طاقت اور توانائی میں بھی وہ سب سے آگے ہے،اور مشرق کی کچھ اقوام بھی تعمیر و ترقی کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہیں تو اس کا سبب اسی سائنس و ٹیکنالوجی پر ان کی دسترس ہے۔
بدقسمتی سے ہماری قوم اس میدان میں بھی ایک انتہائی ناقابل رشک صورت حال سے دوچار ہے۔دفاعی میدان میں تو ہم نے کچھ تھوڑی بہت طاقت حاصل کرلی ہے، مگر یہ طاقت فطری طریقے پر حاصل نہیں کی گئی ، بلکہ بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے دوسرے ممالک کے تعاون سے حاصل کی گئی ہے۔ یہ طاقت اگر سائنس اور ٹیکنالوجی پر اپنے عبور کی بنیاد پر حاصل کی جائے تو اتنی مہنگی نہیں پڑتی ، مگر دوسروں سے لینے کی صورت میں منہ مانگے دام دینے پڑتے ہیں۔جس کے نتیجے میں ہماری قومی ترقی دیگر میدانوں میں شدید متاثر ہوتی ہے اور قومی بجٹ کا ایک بڑا حصہ فوجی اخراجات کی نظر ہوجاتا ہے۔
تاہم سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی تعلیم اور خواندگی کی جن بنیادوں پر ہوتی ہے ، وہ ہمارے ہاں انتہائی مخدوش ہیں۔غربت کی بنا پر ہمارے بچوں کی ایک بڑی تعداد پرائمری کی سطح پر بھی تعلیم حاصل نہیں کر پاتی۔ جاگیرداری نظام تعلیم کو اپنی موت سمجھتا ہے اور اس کے فروغ میں ہر طرح کی رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔ حکومت کی ترجیحات میں تعلیم کی کیا اہمیت ہے؟ اس کا اندازہ قومی بجٹ میں تعلیم کے حصہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ پہلے کیا ہوتا تھا ؟ اسے چھوڑیے۔ اس سال یعنی ۲۰۰۳ء کے بجٹ میں ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے مختص رقم میں بالترتیب ۸۰ اور۰ ۲ فی صد کے اضافہ کے بعد بھی تعلیم کے لیے مخصوص رقم کل بجٹ کا ایک فیصد بھی نہیں بنتی،یعنی کل ۶.۷ارب روپے جو قومی بجٹ کا محض ۹۴.۰فی صد ہے۔چودہ کروڑ سے زائد آبادی پر اس رقم کو تقسیم کرنے سے فی کس سالا نہ تعلیمی بجٹ تقریباً ۵۰ روپے سالانہ یا ۴ روپے ماہانہ بنتا ہے۔ اس صورت حال پر کیا تبصرہ کیا جاسکتاہے؟
ان حالات میں جتنی کچھ بھی تعلیم ہے ، وہ زیادہ تر فنون کی ہے۔ سائنس کی اعلیٰ تعلیم کا حال یہ ہے کہ صرف گنی چنی تعداد میں یہاں پی ایچ ڈی ہوتے ہیں۔ملک کی جامعات میں تحقیق خاص طور پر سائنسی تحقیق کا کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر ملک میں کوئی بڑا سائنس دان پیدا بھی ہوا ہے تو وہ اپنی ذاتی قابلیت کی بنا پر ہوا ہے، ورنہ ملک کا نظام تعلیم ایسا ہے کہ اس کی بنیاد پر یہاں کوئی قابل شخص پیدا نہیں ہوسکتا۔پھر جو کچھ تعلیم ہے، اس کا معیار انتہائی پست ہے۔اس کا سبب رٹے اور نقل کی بنیاد پر پاس کرنے کا وہ نظام ہے جس میں طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے بجاے ٹیوشن کے ذریعے سے ان کی صلاحیتوں کو مردہ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ایک ماسٹر ڈگری کے حامل کی قابلیت بھی مشکوک ہوتی ہے اور بیرونی ممالک میں ہمارے اعلیٰ جامعات کی ڈگریاں کوئی وقعت نہیں رکھتیں۔
اس نظام میں اساتذہ کا معاملہ یہ ہے کہ جو لوگ قابل ہیں، ان کو کوئی حقیقی بدلہ نہیں ملتا اور وہ قابل رحم حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پھر جو لوگ اس شعبے میں آتے ہیں ، وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو معاشرے میں کسی دوسرے کام کے لیے موزوں نہیں ہوتے۔ ملک کا کوئی ایک نظام تعلیم نہیں۔ ہمارا ملک غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جس میں نصف درجن نظام تعلیم موجود ہیں۔ تعلیم کی زبان مادری ، قومی یا سرکاری ہو، اس کا فیصلہ بھی نصف صدی میں نہیں ہوسکا ۔ انگریزی پر عبور آج قابلیت کی واحد اساس ہے۔پرائیویٹ شعبے کے لیے تعلیم صرف ایک کاروبار ہے جس میں بچوں کے وزن سے زیادہ بھاری بستے ان کی پیٹھوں پر لاد کر، ان کے والدین سے بھاری فیس وصول کرکے ایک نامانوس زبان میں انھیں ’’علم‘‘ دیا جاتا ہے۔
ذاتی مطالعہ جو شعور کی بلندی اور علم کے حصول کا سب سے مؤثر غیر رسمی طریقہ ہے، اس کا حال بھی انتہائی ناگفتہ ہے۔ چودہ کروڑ کی آبادی میں کسی مصنف کی کتاب پانچ سو کی تعداد میں شائع ہوتی ہے اور برسوں گزر جاتے ہیں ، مگر دوسرے ایڈیشن کی اشاعت کی نوبت نہیں آتی۔یہاں لوگ کسی بھی چیز کے لیے پیسے خرچ کرسکتے ہیں ، مگر کتاب کے لیے نہیں۔ قوم کی اکثریت ذوق مطالعہ سے عاری ہے۔خصوصاً الیکٹرونک میڈیا کے غلبے کے بعد تو قوم مطالعہ کرنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہوتی جارہی ہے۔نتیجتاً کتاب کی موت واقع ہورہی ہے۔ کتاب کی موت علم کی موت ہوتی ہے اور علم کی موت قوم کی موت ہوتی ہے، مگر اس قوم کو کون یہ بات سمجھائے؟
ہماری اس علمی پس ماندگی کے نتائج صرف سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے رہ جانے کی صورت میں ہی ظاہر نہیں ہورہے ، بلکہ ہماری یہ اجتماعی جہالت دیگر میدانوں میں بھی ہمارے لیے شدید مسائل پیدا کررہی ہے۔آج جو تنگ نظری، تعصب اور عدم برداشت کا ہم شکار ہیں ، اس کا سبب بھی ہماری علمی پس ماندگی ہے۔علم و مطالعہ کی کمی کی بنا پر ہمارے ہاں لوگ صرف اپنا نقطۂ نظر جانتے ہیں۔ وہ اس بات سے واقف ہی نہیں ہوتے کہ یہاں کوئی دوسرا نقطۂ نظر بھی ہے۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ دوسروں کا نقطۂ نظر سمجھنے کی کوشش کریںیا ان کی راے کا وزن محسو س کریں۔جن لوگوں کا واحد منبع علم کتاب کے بجاے لفاظی وخطابت کی جادو گری ہو، وہ عقل کی دشمن جذباتیت کے اسیر نہیں ہوں گے تو اورکیا ہوگا؟علم و تحقیق کی روایت ہمارے ہاں ویسے بھی زیادہ روشن نہیں، مگر جتنی کچھ بھی ہے قوم کی جہالت اس کی آگہی سے اسے محروم رکھتی ہے۔
ان حالات میں کیسے ممکن ہے کہ ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو فروغ حاصل ہو اور باصلاحیت لوگ سامنے آئیں۔ ہمارے نزدیک جب تک جہاد کی اسپرٹ کے ساتھ حکومت اور عوام اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کریں گے، ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا فروغ ممکن نہیں۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی حوصلہ مند سر سید کی طرح سیاست کی پرخار وادی میں اترنے کے بجاے اپنی زندگی علم کے فروغ کے لیے وقف کردے۔ نظام تعلیم کی اصلاح اور فروغ مطالعہ کے لیے جب تک مؤثر تحریکیں نہیں چلائی جائیں گی ، اس وقت تک ہماری علمی پستی دور نہیں ہوگی۔
اس تجزیہ کے آخر میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کی وضاحت کردی جائے کہ ہم نے قوم کے دیگر مسائل سے پہلو تہی کیوں کی ہے؟اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا قومی وجود متعدد مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ مثلاً دولت کی غیر مساوی تقسیم، مختلف قومیتوں کے درمیان اعتماد کا مسئلہ ، علاقائی عصبیت، ملک کے معاشی مسائل ،مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ بندی وغیرہ، مگر ہمارے نزدیک سیاسی اور معاشی مسائل وقتی ہوتے ہیں جو اکثر کسی حکمران کی اچھی یا بری پالیسی سے بدلتے رہتے ہیں، جبکہ دیگر معاملات مثلاً انتہا پسندی اور جذباتیت وغیرہ ایسے مسائل ہیں جو مرض سے زیادہ علامات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ چیز ہمارے اس تجزیے سے واضح ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم کے فاعل طبقات کی ذہن سازی کی جائے۔جو لوگ قوم کی سیاسی، فکری اور مذہبی قیادت کررہے ہیں اور جو ملک کے بیش تر وسائل اور مواقع پر قابض ہیں، جب تک ان کی صحیح تربیت نہیں ہوتی ،کسی خیر کے پنپنے کا امکان زیادہ روشن نہیں۔خوش قسمتی سے عصر حاضر میں عوام الناس میں سے بہت بڑی تعداد قیادت اور اشرافیہ کی صفوں میں اپنی جگہ بنارہی ہے۔ان میں قومی دردمترفین کی بہ نسبت زیادہ ہے۔پھر جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا کہ قوم اپنی زندگی کے مرحلۂ شباب میں ہے جس میں قوم کے ہر طبقے میں زندہ اور دردمند افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں۔چنانچہ اگر ایک معقول اور مدلل بات سامنے آئے گی تو یہ لوگ اسے آگے بڑھ کر قبول کریں گے اور اس کے فروغ کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ ایک روزیہ فروغ ایک فکری انقلاب میں تبدیل ہوجائے گا ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہی فکری انقلاب قوموں کی ترقی کا ضامن ہوا کرتا ہے۔
ہم نے یہ کتاب تاریخ کے اسباق کی بنیاد پر لکھی ہے۔ وہ اسباق جو ہماری قوم کو یاد نہیں رہے۔ مگر یاددہانی کرانا ہی ہمارا کام ہے۔ یاددہانی نبیوں اور رسولوں کی سنت ہے۔ہمارے لیے یہ ممکن تھا کہ اس کتاب کو صرف عروج و زوال کے قوانین کے بیان پر ختم کردیتے۔ ہمیں وہ باتیں نہ کہنی پڑتیں جن کے بعد کہنے والے کا ایمان اور اسلام ہی بہت سے لوگوں کی نگاہوں میں مشکوک ہوجاتا ہے۔ ایک ایسی قوم میں جہاں دنیا پرستی اور ذاتی مفاد نے ہر انسان کو بے حس بنادیا ہو،جہاں اندھے راہ دکھانے والوں کا راج ہو، جہاں چونا پھری قبروں کامیلہ لگا ہو، جہاں مچھر چھانے جاتے اور اونٹ نگلے جاتے ہوں ، وہاں خاموشی ہی میں عافیت ہے۔ہم یہ عافیت ضرور حاصل کرتے اگر قیامت کا دن نہ آنا ہوتا۔اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منہ نہ دکھانا ہوتا۔ اگر ہمیں اپنے رب کے حضورلوٹ کر نہ جانا ہوتا۔
قلم ہمارا ہتھیار ہے ۔ اسے تلوار بناکر جو لکھنا تھا وہ لکھ دیا، اب نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد علیہم السلام کے رب سے دعا ہے:
کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یارب
اک آبلہ پا وادئ پر خار میں آوے
____________