اس باب میں ہم پاکستانی قوم کے حالات اور تاریخ کا تفصیلی جائزہ لیں گے اور عروج وزوال کے ضابطوں کا اس پر اطلاق کرتے ہوئے اصلاح احوال کا ایک لائحۂ عمل تجویز کریں گے۔ اس عمل میں ہمیں نہ صرف عام اقوام کے بارے میں بیان کیے گئے پہلے باب کے مباحث کو ذہن میں رکھنا ہوگا، بلکہ اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا کہ پاکستانی قوم ایک معاہد قوم ہے جس نے خدا کے ساتھ باقاعدہ ایک عہد باندھ کر اپنا وجود حاصل کیا ہے۔وہ عہد یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں ایک خود مختار خطۂ زمین دے تو ہم دنیا کے سامنے ایک حقیقی اسلامی معاشرے کا نقشہ پیش کرکے دکھائیں گے۔ہم پچھلے باب میں یہ واضح کرچکے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو مسلمان پیدا کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ خدا کے محبوب ہیں، بلکہ اس سے مقصود یہ ہے کہ ان کے ذریعے ایک خدا پرستانہ معاشرہ لوگوں کے سامنے قائم رہے۔اہل پاکستان دوسرے مسلمانوں کی طرح اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے پابند ہیں ، مگر انھوں نے ایک عام اسلامی ذمہ داری کو عہد کی شکل دے کر اپنے معاملے کو خاص کرلیا ہے۔ کوئی فرد یا طبقہ ہمارے اس مقدمے کو اگر نہیں مانتا تب بھی وہ اپنے مسلمان ہونے کا منکر تو نہیں ہوسکتا۔ اسلام کے اس اقرار کے بعد خداپرستانہ معاشرہ قائم کرنابہرحال مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔البتہ ہمارے نزدیک یہ بات بالکل واضح ہے کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا ، لا الٰہ الاّ اللہ ‘‘ کا نعرہ لگا کرجو ملک حاصل کیا گیا ، اس کے باسیوں کے لیے توحید سے وفاداری اور شریعت کی پاس داری سے بھاگنے کا مطلب تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
ہم پہلے باب میں قوموں کی زندگی میں آنے والے مختلف مراحل کو بالتفصیل بیان کرچکے ہیں۔ ہمارے نزدیک قومی ترقی کا لائحۂ عمل درست طور پر تجویز کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ حتمی طورپر معلوم ہو کہ قوم اپنی زندگی کے کس مرحلہ میں ہے۔ پاکستانی قوم کے معاملے میں اس چیز کا جاننا بہت مشکل نہیں، کیونکہ پاکستانی قوم ایک جدید تاریخی قوم ہے۔تاریخی قوم سے ہماری مراد ایک ایسی قوم ہے جوتوالد و تناسل کے فطری طریقے کے بجاے تاریخی عوامل کے نتیجے میں ، مختلف گروہوں کے ملاپ سے وجود میں آتی ہے۔ دوسری چیز جو اس ضمن میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے ، وہ یہ ہے کہ قوم کے اجتماعی مزاج کا تجزیہ کیا جائے۔اس کے فاسد عناصر کی بیخ کنی کی جائے اور صالح عناصر کو فروغ دیا جائے۔اس مختصر کتاب میں ممکن نہیں کہ ہم اس خطے کی تاریخ کو تفصیل کے ساتھ بیان کریں ، اس لیے ہم تاریخی تفصیل کے بجاے تاریخی پس منظر کی روشنی میں ہندوستان کی مسلم قومیت کے ارتقا اور اس کے اجتماعی مزاج کے اہم عناصر بیان کریں گے۔ اس بحث کی تفہیم کے لیے بہتر ہوگا کہ قومی زندگی کے مراحل کی اس تفصیل کو ذہن میں تازہ کرلیجیے جسے ہم نے کتاب کے آغاز میں بیان کیا ہے۔
مسلمانوں نے بحیثیت فاتح پہلی دفعہ محمد بن قاسم کی زیر قیادت ۷۱۱ء میں دیبل کے راستے ہندوستان میں قدم رکھا۔ مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے قدم سندھ اور ملتان تک جاپہنچے۔ اس کے حسن سلوک کی بدولت فاتحین نے دھرتی کے بعد لوگوں کو بھی فتح کرنا شروع کردیا، مگر اس سے پہلے کہ اسلام کی کرنیں اس پورے برعظیم کو روشن کرتیں، سلیمان جیسا خود پرست اور کوتاہ نظر شخص خلافت دمشق کے تخت پر فائز ہوا۔ ذاتی عناد میں اندھا ہو کر اس نے اندلس اور سندھ کے فاتحین ہی نہیں ، بلکہ اسلام کی تاریخ اور ان خطوں کی تقدیر کو بھی اپنے نامۂ اعمال کی طرح سیاہ کردیا۔ اس نے اندلس اور سندھ کے عظیم فاتحین کوواپس بلاکر قید اور موت کے حوالے کردیا،جس کے بعد ان علاقوں میں صدیوں کے لیے اسلام کی پیش قدمی رک گئی۔ اور جب صدیوں بعد شروع ہوئی تو براعظم یورپ اور برعظیم ہند کے دوسرے کناروں سے۔ جب مشرقی یورپ کو عثمانی ترکوں اور شمال مغربی ہندوستان کو افغان سرداروں نے فتح کیا، مگر ان کی کامیابیاں زمینی فتوحات تک محدود رہیں اور قرون اولیٰ کی طرح انسانی دلوں کو فتح نہ کرسکیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب مسلمانوں کی تلوار کمزور ہوئی توغیر مسلموں نے بلا تاخیر انھیں اقتدار سے باہر کردیا۔
محمد بن قاسم کے تقریباً تین سو سال بعد ہند پر مسلمانوں کی دوسری یلغار کا آغاز ہوا۔۴ ۹۹ء سے ۱۰۲۱ء تک سبکتگین اور محمود غزنوی کے حملوں کے نتیجے میں پشاور اور لاہور تک مسلمانوں نے قدم جمالیے ،لیکن ہند کی پہلی مسلم حکومت ۱۱۹۳ء میں سلطان محمد غوری نے قائم کی۔ ۱۲۰۶ء سے لے کر ۱۵۲۶ء تک سلاطین دہلی کا زمانہ ہے جس میں خاندان غلامان کے علاوہ خلجی، تغلق، سادات اور لودھی خاندان تخت دہلی پر براجمان رہے۔بیچ میں تیمور نے یہاں چنگیزی بربریت کا بازار گرم کیا۔ آخرکار ۱۵۲۶ء میں بابر نے عظیم مغل حکومت قائم کی جس نے ہند میں مسلم اقتدار کو اس کی آخری بلندی پر پہنچادیا۔ اس سلسلہ کی آخری عظیم کڑی اورنگ زیب عالم گیر (متوفی ۱۷۰۷ء) تھا۔اس عالی ہمت حکمران کے ساتھ ہی باہر سے آنے والے مسلم حکمرانوں کے اقتدار کا سورج گہناگیا۔
۷۱۱ء سے ۱۷۰۷ء تک کے قریباً ہزار سالہ دور میں برصغیر میں ایک جدید قوم کا ظہور ہوا جو اپنے مذہب، تہذیب، تمدن، روایات، نظام اخلاق اور ثقافت کی بنیاد پر اپنی ایک الگ شناخت رکھتی تھی۔ اس کا پہلا اظہار اس وقت ہوا، جب اکبراعظم نے ہندوستان کو ایک اکائی جان کر یہاں ایک متحدہ قومیت کو، اپنے دیے ہوئے دین اکبری کی بنیاد پر ، فروغ دینا چاہا۔ حضرت مجدد الف ثانی نے اس مسلم قوم کے تشخص کے دفاع کے لیے جو کچھ کیا، وہ محض ان کا شخصی کارنامہ نہیں تھا ، بلکہ ان کے پیچھے اس نئی قوم کے اکابرین بھی کھڑے ہوئے تھے۔ دور تشکیل کا یہی عرصہ ہے جس میں ہند کی مسلم قومیت کے اجتماعی مزاج نے جنم لیا۔
اس نئی قوم کی اساس برصغیر پاک و ہند میں بسنے والے ان مسلمانوں نے رکھی جو خود کو اس خطے کے ہندوؤں سے الگ اور ایک مختلف جداگانہ تشخص کا حامل سمجھتے تھے۔اس جداگانہ تشخص کی بنیادان کے مذہب اسلام میں تھی۔اسلام کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ نہ صرف حیات وکائنات کے بارے میں ایک مکمل نقطۂ نظر رکھتا ہے ، بلکہ اپنے پیروکار وں کو عملی زندگی میں ہر آن اس نقطۂ نظر سے متعلق بھی رکھتا ہے ۔وہ مذہب کو تہذیب بنادیتا ہے۔مثلاً اسلام میں توحید کی تعلیم نہ صرف اس کی بنیادی کتاب قرآن کریم میں ابدی طور پر درج ہے ، بلکہ نماز کی صورت میں دن میں پانچ دفعہ اس کابھرپور اظہار کرنا مسلمانوں کی انتہائی مضبوط روایت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسلام کے پیروکار، یعنی مسلمان دوسری قوموں کے ساتھ رہ تو سکتے ہیں، ان میں جذب نہیں ہوسکتے۔
برصغیر میں اس چیز کو جس حقیقت نے اور زیادہ مستحکم کیا، وہ یہ تھی کہ مسلمان اس خطے میں نہ صرف فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور انھوں نے ہزار سال تک یہاں حکومت کی ، بلکہ قلبی طور پر ہمیشہ وہ مسلمانوں کی مرکزی جمعیت، یعنی خلافت سے منسلک رہے۔ اس بات کی اہمیت یوں بھی بہت زیادہ ہے کہ اس پورے عرصے میں مسلمانوں کی تینوں خلافتیں، یعنی بنو امیہ، بنوعباس اور عثمانی خلافت دنیا کی سپر پاورز تھیں۔ جن سے تعلق کا اظہار بہرحال باعث افتخار تھا۔ اس کے علاوہ متعددوجوہات کی بنا پر ہندوستان کی طرف بلاد اسلامیہ سے مسلمانوں کی ہجرت کا سلسلہ جاری رہا۔خاص طور پر جب تاتاریوں نے مشرق وسطیٰ سے وسط ایشیا تک مسلم علاقوں کوتخت و تاراج کرڈالا تو ان علاقوں کے مسلمانو ں کی ایک بڑی تعداد جان و ایمان بچاکر ہندوستان آگئی ۔یہ مسلمان اپنے ساتھ اپنا مذہب، تمدن، زبان، تہذیب اور روایات بھی لائے۔ہندو اکثریت میں گھری اس اقلیت کو اسلام کی کشش نے بہت جلد ایک اکائی میں بدلنا شروع کردیا اور ان کے باہمی میل جول سے ایک نئی قوم کی داغ بیل پڑنے لگی جو اپنے پس منظر کی بنا پراپنے ہم وطنوں کے مقابلے میں بقیہ عالم اسلام سے بہت قریب تھی۔
یہ مسلمان چونکہ تاتاریوں کے ہاتھوں اپنی تہذیب و تمدن کو مٹتے دیکھ کر آئے تھے ، اس لیے ان میں اپنے مذہب کے فروغ کا غیرمعمولی داعیہ موجود تھا۔مقامی آبادی میں غیر مسلموں کی کثرت نے اس جذبے کو اور مہمیز دی۔چنانچہ یہ لوگ اسلام کے داعی بن کر مقامی لوگوں میں اپنے اثرات پیدا کرنے لگے، جس کے نتیجے میں اسلام، عوام الناس میں فروغ پاتا رہا۔ ہندووانہ کثرت پرستی کے مقابلے میں عقیدۂ توحید کی سادگی، اور طبقاتی نظام کے مقابلے میں مساوات اور اسی بنیاد پر زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع اسلام کی وہ غیر معمولی کشش ثابت ہوئی جس کی بنا پر اسلام بہت معمولی کوشش سے بڑی سطح پر لوگوں میں پھیل گیا۔سب سے بڑھ کر یہ حقیقت کہ اسلام ایک غالب قوم کا مذہب تھا، فروغ اسلام میں بہت معاون ثابت ہوئی۔
یہاں یہ حقیقت ذہن میں رہنی چاہیے کہ محمد بن قاسم کے بعد کسی حکمران نے مقامی لوگوں میں اسلام کی ترویج تو کجا اسلام کے مطابق ایک اچھا مسلمان حکمران بننے کی کوشش بھی نہیں کی، وگرنہ یہ پورا خطہ مصر کی طرح عالم اسلام کا حصہ بن جاتا۔ اس کا ایک ثانوی نتیجہ یہ بھی نکلا کہ اس خطہ کے مسلمانوں میں مذہبی اور سیاسی قیادت کو ایک جگہ دیکھنے کی روایت نہیں رہی،کیونکہ انھیں مذہب جن لوگوں سے ملا، ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا اور سیاسی لوگوں کا طرزعمل بالعموم اسلام کے مثالی رویے سے بہت ہٹ کر تھا۔چنانچہ آج تک یہاں کے مسلمان اہل مذہب کو ، مذہبی بنیادوں پر ، اقتدار دینے کے عاد ی نہیں۔
اس خطے کی ایک بڑی اہم روایت تصوف بھی رہی ہے۔ اس بارے میں تو خیر اب دو آرا پیدا ہوچکی ہیں کہ یہاں اسلام کے فروغ میں اہل تصوف کا کیا کردار تھا ، مگر یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہندوستان کے مخصوص مذہبی پس منظر کی بنا پر یہاں کے عوام الناس میں تصوف اور اہل تصوف کے بہت اثرات ہوئے۔ مسلم حکمرانوں کے بعض ناپسندیدہ اقدامات کے باوجود یہ اہل تصوف تھے جنھوں نے مقامی لوگوں کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں نفرت کے وہ جذبات نہیں پیدا ہونے دیے جس کے بعد ایک فاتح اقلیت ، مفتوح اکثریت کی شدید نفرت کا نشانہ بن کر اپنا وجود کھودیتی ہے۔
ان سب کے ساتھ یہ بہرحال ایک حقیقت ہے کہ مسلمان یہاں ہمیشہ ایک اقلیت رہے۔ یہ اقلیت نہ صرف اپنے ارد گرد پھیلی اکثریت سے کچھ نہ کچھ متاثر ہوئی ، بلکہ اکثریت میں سے بھی جو لوگ تبدیلی مذہب کے بعد ان میں شامل ہوئے، اپنے بہت سے اثرات ساتھ لائے۔ چنانچہ مقامی ہندو آبادی کے بہت سے اثرات مسلمانوں پر مرتب ہوئے جس کے مختلف مظاہر کی جھلکیاں ان کی تہذیب ، روایات اور مذہبی تصورات میں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔
یہاں کی مسلم قومیت کا ایک اہم مذہبی پہلو یہ تھا کہ وہ اس عربی سادگی کے ساتھ یہاں نہیں آئی تھی جو ابتدائی دور کے مسلمانوں کا خاصہ تھی۔ بلکہ بنوعباس کے دور میں پیدا ہو جانے والا مخصوص فقہی ذہن اپنے ساتھ لائی تھی۔ بعد میں جب مغلیہ دور میں بحری راستے سے حج کا دروازہ کھلا تو لوگ کثرت سے حجاز جانے لگے اور اس کے نتیجے میں حدیث کے اثرات بھی دینی حلقوں میں نمایاں طور پر نظر آنے لگے۔ مقامی اثرات کا ذکر ہم کر چکے ہیں۔ ان سب چیزوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہاں کا مذہبی مزاج توہم پرستی، تصوف، فقہ اور حدیث کے تعامل سے وجود میں آیا۔ تاہم ابھی تک ان میں ابتدائی تین چیزوں کا اثر زیادہ تھا۔
اس دور کی کی بڑی نمایاں خصوصیت علمی جمود ہے۔ دینی اور دنیوی ، دونوں اعتبارات سے اس دور میں کوئی نمایاں پیش رفت نظر نہیں آتی۔ دینی علم کی روایت بری بھلی جیسی بھی تھی، مذہبی ضرورت کے تحت بہرحال قائم رہی، مگردنیوی علوم میں ابتدائی درجہ کی ترقی بھی نظر نہیں آتی۔ مغلیہ سلطنت کے پاس دنیا کے بہترین وسائل تھے۔ ان کے دربار میں یورپ کے لوگ بھی موجود تھے جن سے وہ یورپ میں ہونے والی علمی سرگرمیوں سے آگاہی حاصل کرسکتے تھے، مگر انھیں علم سے زیادہ عمارتیں تعمیر کرنے میں دل چسپی تھی،اس لیے انھوں نے اس سمت میں کوئی توجہ نہیں دی ۔ اس کا نتیجہ آنے والے دنوں میں انھوں نے بھگت لیا۔ دنیوی علوم میں غفلت ایک ایسا ناقابل معافی جرم ہوتا ہے جس کی سزا تاریخ فوراً دے دیتی ہے۔
عوام کی سطح پر اس نئی قومیت کا سب سے بڑا اظہار اردو زبان تھی۔گو ابھی اسے سرکاری سطح پر وہ حیثیت حاصل نہیں تھی، مگر مختلف پس منظر کے حامل لوگوں کے لیے اردو باہمی رابطہ کا بنیادی ذریعہ بننے لگی تھی، اور ایک وقت آیا کہ اردو مسلم قومیت کی مسلمہ شناخت بن گئی۔
اٹھارہویں صدی کے آغاز میں صورت حال یہ تھی کہ ہند میں مسلمانوں کے ہزار سالہ خارجی اقتدار کے نتیجے میں ایک مسلم قومیت نے جنم لے لیا تھا۔اسلام اس کی گھٹی میں پڑا ہوا تھااور اسی بنیاد پر اس نے، ہندوستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ،مرکزی قومی دھارے میں جذب ہونے سے انکار کردیا تھا۔اسے دنیاے اسلام سے اپنے تعلق پر فخر تھااور وہ خود کو ایک بین الا قوامی ملت کا حصہ سمجھتی تھی،مگر اس کے باجود زمینی حقائق یہ تھے کہ اس نے مقامی ہندو تہذیب کا گہرا اثر قبول کیا تھااور اسی کا نتیجہ تھا کہ مسلم ہندو ثقافت کے امتزاج سے اس کا ایک نیا چہرہ ابھررہا تھا۔اس میں ہندو کلچراوراس کی توہم پرستی کے گہرے اثرات بھی تھے اور مسلمانوں کی مروج مذہبیت، یعنی فقہ، تصوف اور ان کے تہذیبی عناصر بھی شامل تھے۔یہ وہ دور تھا، جب علم کا سورج مغرب سے طلوع ہونے لگا تھا ، مگر یہاں جہالت کی تاریک رات اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔اہل اقتدارکا مقصد اپنی سلطنت کی توسیع و حفاظت اور اہل علم و مذہب کا کام رائج علوم کی تقلید اور انھیں بیوروکریسی مہیاکرنا تھا۔یہ وہ حالات تھے جن میں قوم اپنی زندگی کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوئی۔
تعمیر کا آغاز تخریب سے ہوتا ہے۔یورپ کا دور تعمیر بھی اس وقت شروع ہوا،جب صلیبی جنگوں میں انھیں مسلمانوں کے ہاتھوں بد ترین شکستیں ہوئیں۔یہی ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ ہوا۔ ان کے نئے دور کے آغاز کے لیے ضروری تھا کہ پرانی شکستہ عمارت گرجائے۔ چنانچہ۱۷۰۷ء سے ۱۸۵۷ء تک انہدام کا یہ عمل پورا ہوا۔اس دوران میں نئی عمارت کی تعمیر کا آغاز اس امت کے ایک بطل جلیل نے کردیا تھا ۔ اس کی تفصیل ہم آگے بیان کریں گے۔
ہندوستان پر مسلمانوں کا اقتدار کم و بیش ہزار سال تک رہا،مگر اس اقتدار کا سرچشمہ خارجی تھا، یعنی سارے حکمران باہر سے آئے تھے۔ اورنگ زیب کے بعد اس خارجی قوت کو زوال آنا شروع ہوا۔ یہ دراصل مسلمانوں کے اس بین الاقوامی علمی زوال کا نتیجہ تھا جو بغداد کی تباہی کے بعد شروع ہوا تھا۔ اس کا اثر ہندوستانی مسلمانوں پر بھی پڑا اور وہ بھی شاہ راہ زوال پر گامزن ہوگئے۔اس زوال کا ایک اہم محرک جہانگیر اور شاہ جہاں کے دورمیں پھیلنے والی عیش و عشرت کی فضا بھی تھی جس نے مسلمانوں کے قویٰ کو بالکل ضعیف کردیا۔ آخر سوچنے کی بات ہے کہ مرہٹوں کی جس قوت کو ابدالی نے ایک ضرب لگاکر توڑ ڈالا، اورنگزیب جیسا بہادرحکمران ربع صدی میں اسے کیوں نہ ختم کرسکا؟بہرحال مسلمانوں کی دنیا پرستی رنگ لائی اور کابل سے برما تک پھیلی مسلم حکومت تھوڑے دنوں میں ہی دارالسلطنت دہلی کے اطراف تک محدود ہوگئی۔ اس دور کا ایک جملہ جو زبان زد خاص و عام ہوگیا تھا، صورت حال کی بہت اچھی منظر کشی کرتا ہے، یعنی سلطنت شاہ عالم از دہلی تا پالم۔
اب یہ بات بالکل صاف نظر آرہی تھی کہ دہلی میں بھی مسلم حکومت کے اقتدار اور برصغیر میں مسلم قوم کا خاتمہ قریب آلگا ہے،مگر قدرت کو شاید ابھی اس خطے سے مسلمانوں کا خاتمہ منظور نہ تھا کہ اس دور میں ایک بہت بڑا قائد پیدا ہوگیا۔ ہماری مراد شاہ ولی اللہ سے ہے جو اورنگ زیب کے انتقال سے چار سال قبل ۱۷۰۳ء میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے نہ صرف اس قوم کی شناخت کو ہندو مرہٹوں کے فوری خطرے سے بچانے کے لیے افغانستان سے احمد شاہ ابدالی کو بلایا ، بلکہ اس قوم کے اجتماعی مزاج میں بہت سے تعمیری عناصر داخل کیے ۔ انھوں نے نہ صرف اپنی ذات میں ، بلکہ اپنے خانوادے اور پیرو کاروں کے ذریعے سے اس خطے میں مسلمانوں کے قومی مزاج کو بہت متاثر کیا۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ اس علمی روایت کا احیا ہے جو صدیوں سے مردہ تھی۔دین پر غورو فکر کی جو روایت انھوں نے ڈالی ، اسی کا نتیجہ ہے کہ اس خطے کے مسلمان فکری اعتبار سے پورے عالم اسلام کے لیے امام کی حیثیت رکھتے ہیں۔وہ ایک بہت بڑے عالم تھے۔ تصوف اور فقہ کی قدیم روایت کے ساتھ ساتھ انھوں نے قرآن اور حدیث کو بھی قوم کے دینی مزاج میں شامل کیا۔ ا ن کے کاموں8 کے نتیجے میں مسلمانوں کے قومی مزاج میں مذہب کے اثرات مزید گہرے ہوگئے۔نیز ان کے اثر سے پہلی دفعہ مذہبی قیادت نے سیاسی میدان کی طرف سنجیدگی سے توجہ دی۔
تاہم اس دور کے مسلم معاشرے پر زوال کا وہ عمل شروع ہوچکا تھا جو ایک دفعہ جاری ہوجائے تو بڑے سے بڑا آدمی اسے اپنے منطقی انجام تک پہنچنے سے نہیں روک سکتا۔چنانچہ اسی دور زوال میں سید احمد شہید ، شاہ اسماعیل شہیداوران کے جاں نثار رفقا جیسے لوگ بھی جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ صحابۂ کرام کے بعد ان کی نظیر نہیں ملتی ، اس زوال کوروک نہ سکے۔دوسری طرف انگریز اپنی تمام ترعلمی و حربی ترقی اور حوصلہ مندی کے ساتھ ہند میں قدم جماچکے تھے۔مسلمانوں کی خارجی قوت کا یہ زوال ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے موقع پرنقطۂ عروج پر پہنچ گیا۔ قدرت کا قانون اٹل ہوتا ہے۔ یہ قانون حرکت میں آیا اورگناہ گار و بے گناہ، سب اس قانون کی زد میں آگئے۔ مسلمانوں کے ہاتھ سے اقتدار ہی نہیں گیا ، بلکہ کے ان کے بہترین لوگ اس ہنگامہ کی نظر ہوگئے۔ہندوستان کا مسلم معاشرہ خاک کا ڈھیر بن گیا۔
تاہم یہ زوال خارجی قوت کا تھا۔ ہندوستان میں ایک مسلم قوم جنم لے چکی تھی جو گرچہ اپنے دور طفولیت میں تھی ، مگر تقدیر اس قوم پر مہربان تھی کہ اس موقع پر اس قوم میں ایک بہت بڑا لیڈر پیدا ہوا۔یہ سر سید احمد خان تھے۔وہ شاہ ولی اللہ کے بعد اس قوم کے دوسرے بڑے قائد تھے جس نے اس کے قومی مزاج کو بے انتہا متاثر کیا۔ ان سے اختلاف کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ خصوصاً ان کے بعض مذہبی خیالات کے حوالے سے ان پر بڑی تنقید ہوئی ہے۔ ہمیں بھی ان کے بعض مذہبی افکار ، بلکہ ان کی قومی رہنمائی کے بعض پہلوؤں سے بھی اتفاق نہیں۔ لیکن ہمارے نزدیک ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اس وقت قوم کو ایک واضح نقطۂ نظر اور راہ عمل دی، جب اس کے قویٰ آخری حد تک معطل ہوچکے تھے۔ تاریخ کی روشنی میں ہم نے یہ سیکھا ہے کہ زوال کی اس انتہا پر پہنچے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ قوم کو امید دلاکر متحرک کرنے کا ہوتا ہے ۔۔۔ صحیح رہنمائی کرنے کا نہیں۔ ایک دفعہ قوم میں زندگی کی لہر دوڑ جائے، اس کے بعد غلطیوں کی اصلاح ہوسکتی ہے، لیکن اگر قوم مردہ ہو تو صحیح یا غلط عمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بلکہ اکثر تو ایسی قوم زندگی کے دھارے سے کٹ کر ماضی کا ایک قصہ بن کر رہ جاتی ہے۔زوال کی انتہا کو پہنچی ہوئی ایک قوم کو اپنے دور کی سب سے بڑی طاقت کے مقابلہ کی سعی لاحاصل سے ہٹاکر آنے والے دنوں کی تیاری کی مہلت حاصل کرنا ، ان کا ایک عظیم کارنامہ ہے۔ا ن کی فکر کاایک دوسرا پہلو جو بڑا مستحسن ہے ، وہ یہ ہے کہ اس پورے عمل میں انھوں نے اسلام کو بالکلیہ رد کرنے کے بجاے اسے اس دور کے علمی انکشافات کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ہر چند کہ اس کوشش میں وہ بہت کچھ ایسی باتیں کرگئے جو اسلام سے انحراف کے مترادف تھیں ، تاہم جب اس دور کے حالات، ان کے کام کی نوعیت، دین پر اس دور میں ہونے والے محدود کام ، انیسویں صدی کی سائنسی فکراور دیگر عوامل کو ذہن میں رکھا جائے تو اسے بھی ان کے کارناموں کی صف میں ڈالنا چاہیے۔ ان کے بعد آنے والوں نے ان کی تصحیح کردی، لیکن ان کے اس طرز عمل کے نتیجے میں قوم نہ صرف متحرک ہوگئی ، بلکہ اسلام کو اس کے قومی مزاج میں مرکزی حیثیت حاصل رہی، اور یہ ان کی بڑی خدمت ہے۔ اس کے علاوہ یہ انھی کی رہنمائی تھی جس کی بنا پر مسلمانوں نے ہندوؤں سے جدا اپنا ایک تشخص برقرار رکھا، وگرنہ اس دور کی ہماری دوسری قیادت تو ذہناً اس چیز کے لیے تیار تھی کہ انگریزوں کے خلاف جنگ اصل مقصد ہے چاہے، اس کے بعد ہندوؤں کے ساتھ ایک ثانوی درجہ کی حیثیت میں رہنا پڑے۔ہندوستان جس جمہوری نظام کی طرف بڑھ رہا تھا اور جس طرح ہماری مذہبی قیادت ہندوؤں سے کسی قسم کا معاہدہ کیے بغیر ان کے ساتھ شامل ہوگئی تھی، اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ اس خطے کے مسلمان ہمیشہ کے لیے اپنا قومی وجود کھودیتے ۔
سر سید کا ایک اور قومی کارنامہ یہ ہے کہ وہ اور ان کے رفقا نے اردو زبان کو بہت مختصر عرصے میں اس قابل بنادیا کہ وہ دنیا کی جدید اور ترقی یافتہ زبانوں کی صف میں آگئی اور اس میں ہر قسم کے مضامین کو ادا کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی، وگرنہ اس سے قبل خواص کے لیے یہ شعر وادب کی زبان اور عوام کے لیے محض ایک بولی تھی۔ بہت سے لوگوں کو اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد مسلمان جس طرح فارسی زبان سے کاٹ دیے گئے تھے ، اس کے نتیجے میں وہ اپنے بہت بڑے تہذیبی اور علمی سرمایہ سے محروم ہوگئے تھے۔ مگر اردو کی بروقت ترقی نے مسلمانوں کو نہ صرف علمی طور پر بنجر ہونے سے بچالیا ، بلکہ ہندوستان کی مسلم قوم کو ایک ترقی یافتہ مشترکہ زبان عطا کی۔زبان قومی اشتراک کی بہت بڑی وجہ ہوتی ہے۔
سر سید کے کارناموں کے یہ چندپہلو ہیں جن کی بنا پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہندوستان کی ملت اسلامیہ کے باوا آدم ہیں، تاہم ان کی کوششوں کے بعض ایسے پہلو بھی تھے جن کے نتیجے میں ہمارے قومی مزاج میں بعض منفی چیزیں شامل ہوگئیں۔ ان میں سب سے نمایاں مغرب پرستی کا رجحان تھا۔ بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ر جحان کم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اپنے نتائج کے اعتبار سے یہ ایک انتہائی تباہ کن رویہ ہے جس پر ہم آگے چل کر گفتگو کریں گے۔
بیسویں صدی کا نصف اول انسانیت کی تاریخ کا بہت ڈرامائی عرصہ رہا ہے۔ جس میں رونما ہونے والے واقعات کی نظیر پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ دو عظیم اورتاریخ انسانی کی سب سے تباہ کن جنگیں اسی عرصہ میں ہوئیں۔پہلی جنگ عظیم کے بعد اس خطہ کے مسلمانوں نے علی برادران کی قیادت میں تحریک خلافت میں بھر پور طریقے سے حصہ لیا۔اس تحریک کا مقصد خلافت عثمانیہ کا تحفظ تھا۔یہ اپنا مقصد تو حاصل نہیں کر سکی، مگر اس سے مسلمانان ہند کی امت مسلمہ سے وابستگی کا اظہار ضرور ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک تو تاریخ کا یہی وہ مقام ہے جہاں پاکستان کی حقیقی اساسات آسمان اور زمین ، دونوں میں نمودار ہوئیں۔قومی زندگی میں اس تحریک کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مغربیت کا جو فروغ عوام میں شروع ہوا تھا ، اس پر بند لگ گیا اور مغرب کے شکنجے میں جکڑے ہوئے پورے عالم اسلام کے برخلاف ہمارے ہاں مغربیت صرف طبقۂ اشرافیہ تک محدود ہوگئی اور مغربی تہذیب کی موجودہ یلغار تک، اس کا نفوذ عوام میں نہیں ہو سکا۔ اس کے علاوہ حکمرانوں کے سامنے کھڑے ہونے کا حوصلہ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خود اعتمادی بھی اسی تحریک کی دین ہے۔
یہی وہ عرصہ ہے جس میں برصغیر کی مسلم قوم اپنے لیے ایک الگ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی جو سب سے بڑی اسلامی مملکت اور دنیا کی پانچویں بڑی ریاست بھی تھی۔اس مقصد کے حصول کے لیے ایک دفعہ پھر قدرت نے اس قوم میں ایک بہت بڑا لیڈر پیدا کردیا۔دنیا اسے سرمحمد اقبال کے نام سے جانتی ہے۔ مجدد الف ثانی سے شروع ہونے والے مسلمانوں کے علیحدہ تشخص کے عمل کو انھوں نے ہی ایک وطن کی صورت دی۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے سے اس خطے کے مسلمانوں کو ایک جوش و ولولہ دیا ۔ انھوں نے مغربی فکر پر تنقید کرکے مسلمانوں کو ان کی ذہنی غلامی میں جانے سے روکا۔ انھوں نے ہی اجتہاد کی روایت کو مسلمانوں میں بھر پور طور پر زندہ کرنے کی طرف توجہ دلائی۔یہ اقبال تھے جنھوں نے مسلمانوں کے ایک خود مختار وطن کا تصور دیا، انھی نے اس ناممکن کو ممکن بنانے کے لیے ایک بہترین قائد ،یعنی محمد علی جناح کا انتخاب کیا۔ ان تمام اعتبارات سے اقبال کی خدمات بے مثل ہیں اور بلاشبہ وہ مفکر پاکستان کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہ ولی اللہ ، ان کے خانوادے، رفقا اور متوسلین ، پھر سر سید اور ان کے رفقا کے بعد اقبال نے مسلمانوں کے قومی مزاج کو بہت متاثر کیا، تاہم اقبال نے قوم کے مزاج میں موجود جذباتیت کے عنصر کو بہت بڑھادیا۔ وہ یہ نہ دیکھ سکے کہ یہ قوم حال ہی میں ایک بڑے زوال سے گزری ہے۔ زوال کا آنا معمولی بات ہوتا ہے اورنہ بلاوجہ قوم کو زوال آتاہے۔ زوال کا مطلب یہ ہے کہ قوم مردہ ہوچکی ہے۔اس مردہ قالب میں نئی روح صرف جذباتی باتوں سے نہیں پیدا کی جا سکتی۔ حقیقت پسندانہ بنیادوں پر اس کی تربیت و تیاری بہت ضروری ہے، تاہم اس سے اقبال کی عظمت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ تاریخ کے ایک نازک لمحے میں موجود تھے۔اس زمانے کے حالات کا پہلا تقاضا یہ تھاکہ مسلمانوں کو ہندوؤں کی غلامی میں جانے سے بچایا جائے،کیونکہ ایک زوال پذیر قوم اگر کسی دوسری تہذیب کے زیرسایہ آجائے تو پھر لازماً اس کے بہت گہرے اثرات قبول کرتی ہے۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا تھا کہ بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلاؤ۔ایک الگ وطن کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ قوم کے تن مردہ میں حرارت پیدا کی جائے۔ اس عمل کے نتیجے میں اگر ایک خطۂ ارضی میسر آجاتا ہے تو پھر آنے والوں کے لیے یہ امکان باقی رہے گا کہ وہ ملت کے قومی تشخص کے بارے میں پریشان ہوئے بغیر اس کی تربیت کر سکیں گے۔ہمارا حسن ظن ہے کہ اقبال کو اس چیز کا احساس تھا۔ہمیں اس کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ اقبال نے جس طرح قائد اعظم کو اس قوم کے سیاسی لیڈر کے طور پر چنا تھا ، اسی طرح انھوں نے قومی تربیت کے لیے ایک اور بڑے آدمی کا انتخاب کیا تھا۔ہماری مراد مولانا مودودی سے ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مولانابعد میں آنے والے وقتوں میں سیاسی مصالح سے خود کو الگ کرکے قوم کی تربیت کے لیے خاص نہ کرسکے ، بلکہ بہت سطحی بنیادوں پر عملی سیاست کے میدان میں اتر گئے۔ جس کے بعد نہ خداہی ملانہ وصال صنم۔
اس دور میں سیاسی ہنگامہ آرائی بہت زیادہ رہی، لیکن دوسرے میدانوں میں بھی کام کا سلسلہ جاری رہا، اردو زبان کے حوالے سے شعر و ادب کی طرف ہم پیچھے اشارہ کرچکے ہیں۔مسلمانوں کی علمی اور دینی روایت میں بھی ارتقا ہوا ۔علی گڑھ، دیوبند اور ندوہ صرف تین اداروں کے نام ہی نہیں، بلکہ تین دینی، علمی، تہذیبی روایات کے نام ہیں جوبعد میں پاکستانی قوم کے مزاج پر بھرپور طریقے سے اثر انداز ہوئے۔ یہ بالترتیب مغربیت، قدامت پرستی اوردین و دنیا کی یکجائی میں ڈھل گئے۔ تاہم جیسا کہ ہم آگے بتائیں گے کہ فی الوقت اول الذکر دو انتہائیں ہی باقی رہ گئی ہیں اور عملاًاعتدال کی راہ مفقود ہوچکی ہے۔
بہرحال، قیام پاکستان تک قوم کے مزاج میں جو مزید عنصر داخل ہو گئے ، ان میں سب سے اہم مسلم قوم کی مذہبی فکر کو مضبوط علمی بنیادوں کا میسر ہونا تھا۔علم کی روایت دین و دنیا، دونوں اعتبارات سے مستحکم ہوئی۔ایک طرف قرآن کریم اور بالخصوص حدیث کا چلن عام ہوا تو دوسر ی طرف مغربی تعلیم کے زیر اثر ہماری اشرافیہ میں مغربی تہذیب وفکر کا نفوذبہت زیادہ ہو گیا۔ تاہم ایک بڑا طبقہ ان لوگوں کا تھاجو قدامت اور جدت میں ایک توازن قائم رکھنے میں کامیاب رہا تھا۔اس عرصہ میں مسلمان اقتدار کے تحفظ سے محروم اور اکثریتی فرقہ کی طرف سے خدشات میں مبتلا تھے، اس لیے ہندوؤں کے بالمقابل ایک قومی عصبیت نے ان تمام اندرونی اختلافات کو ڈھانک دیا جو آنے والے دنوں میں پوری طرح نمایاں ہوکر سامنے آئے۔اس دور میں ہندی مسلمانوں کی طرح پوری ملت اسلامیہ سامراجی شکنجے میں جکڑی جاچکی تھی ،اس لیے یہاں کے مسلمانوں نے ان کے درد کو اپنا درد جانااور امت سے ان کی وابستگی میں اضافہ ہوا،تاہم بدقسمتی سے گہرے تجزیہ کے بجاے مسلمانوں کی قیادت پر جذباتی انداز سے معاملات کو دیکھنے کارجحان غالب رہا اور وہ یہ نہ جان سکے کہ ماضی میں زوال کیوں آیا تھا اور مستقبل اپنے دامن میں کیا مسائل لیے آرہا ہے۔
قیام پاکستان کے سا تھ اس خطے کی مسلم قومیت کو ایک الگ وطن اور علیحدہ شناخت مل گئی۔ ایک عظیم تہذیب ، ایک سپر پاور کے ظہورکے تمام امکانات جمع ہوچکے تھے۔یہ اتنی بڑی کامیابی تھی کہ جب اسے سنبھالا نہ گیاتو اس کا ردعمل شروع ہوا اور آخر کار قوم کو ایک دوسری انتہا تک لے گیا۔ بدقسمتی سے ہم اس بلند چوٹی کو عبور کرنے کے بعد اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے۔ ہم لڑکھڑاکر گرے اور دور تک لڑھکتے چلے گئے۔ہمارے قومی خمیر میں بتدریج کچھ ایسے منفی عناصر جمع ہوگئے جو نتائج کے اعتبار سے تباہ کن ثابت ہوئے اور ہورہے ہیں۔ان میں قومی حوالے سے سب سے نمایاں چیز قومی عصبیت کی جگہ علاقائی عصبیت کا فروغ تھا۔جس کے نتیجے میں صرف ربع صد ی میں بنگلہ قومیت کی بنیاد پر ہمارا ایک حصہ ٹوٹ کر علیحدہ ہوگیا۔
تحریک پاکستان کو اگرایک جملے میں بیان کیا جائے تو یہ ملی بنیادوں پر ایک قوم کی تشکیل اور اس کے لیے جغرافیہ کے حصول کا عمل تھا۔اس عمل کے بنیادی محرکات دو تھے: ایک اسلام سے وابستگی اوردوسرے ہندو اکثریت کا خوف۔قیام پاکستان کے ساتھ ہی دوسرا محرک جو زیادہ قوی تھا، ختم ہوگیا،جبکہ پہلے محرک کا شعور ابھی اتنا مضبوط نہ ہوا تھا کہ تنہا ایک نئی قوم کی تعمیر کرسکتا۔ اسلام کی واحد مشترکہ اساس جس پر پاکستانی قوم کی تعمیر و تشکیل کی جانی تھی، اس کا گہرا شعور مسلم اکثریت کے ان علاقوں جن میں پاکستان قائم ہوا ، موجود نہ تھا،اور اس کا سبب یہ تھا کہ یہاں کے مسلمان تعمیر ملت کے اس پورے عمل میں شریک ہی نہیں تھے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا۔
مسلم سلطنت کے آغاز ہی سے مسلم اقتدار کا مرکز ان علاقوں میں رہا جہاں مسلمان اقلیت میں تھے۔ مسلمانوں نے وہیں عروج حاصل کیا، وہیں زوال آشنا ہوئے اور تعمیر ملت کا کام شروع ہوا تو اس کا مرکز بھی وہی علاقے رہے۔ مسلم اکثریت کے علاقے ہندوستان کے وہ سرحدی صوبے تھے جہاں ابتدائی دور میں اہل علم و فضل اور مہاجرین کی آمد کے نتیجے میں اسلام تیزی سے پھیل گیا،مگر بعد میں یہ علاقے، مسلم سلطنت کا مرکزی حصہ نہ ہونے کی بنا پر، اہل علم و فضل کا مرکز نہ رہے اور نہ یہاں کے لوگوں کی تربیت ہوسکی ۔ خصوصاً بعد کے ادوار میں جب مجدد الف ثانی کے بعد سے ملی تشخص اور اسلامی حمیت کاایک گہرا احساس نمایاں ہوکر سامنے آنے لگا تھا۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سید احمد شہید کے ساتھ جو کچھ ہوا، ایک مسلم اکثریتی علاقے میں ہی ہوا۔
مزید براں یہ کہ ان علاقوں میں جاگیرداری اور قبائلی طرز زندگی کی گرفت بہت مضبوط رہی ہے۔ جاگیردار اور قبائلی سرداروں کو یہ گوارا نہیں کہ ان کے زیردست علاقوں میں کسی قسم کا بھی شعور عام ہو، خواہ وہ اسلامی شعور ہی کیوں نہ ہو۔عوام کے بے شعور رہنے میں ہی ان کا مفاد وابستہ ہے۔ بدقسمتی سے شہری علاقوں کے مقابلے میں ان کی اکثریت ہے ، اس لیے قیام پاکستان سے لے کر آج تک یہ لوگ ملک کے سیاسی منظر نامے پر چھائے ہوئے ہیں۔
ان حالات میں قوم کی تعمیروتشکیل کے لیے دو چیزوں کی موجودگی لازمی تھی:ایک یہ کہ سیاسی قیادت کے پاس قومی تعمیر کا واضح نقشہ موجود ہو،مگر معاملہ یہ تھا کہ پاکستان اتنی جلدی میں بنا کہ تعمیر قوم کا کوئی نقشہ سامنے تھا نہ اسے بنانے کا وقت کسی کے پاس تھا۔تحریک پاکستان کی بنیاد جذبات پر رکھی گئی تھی۔مثلاً اسلام کے نفاذ کا جذبہ ، ہندوؤں اور انگریزوں سے نجات کا جذبہ۔ تاہم قوم کی تعمیر جذباتیت پر نہیں ، ٹھوس منصوبہ بندی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ بالخصوص قوم کے مختلف گروہوں کے حقوق و فرائض کا مسئلہ بڑا اہم ہوتا ہے، مگر پاکستان حاصل کرنے والی قیادت کے پاس اتنا وقت نہیں تھا اور قیام پاکستان کے ساتھ ہی وہ فطری یا غیر فطری موت کے بعد ایسی قیادت کے لیے جگہ خالی کرگئی جو انتہائی نااہل ، کم حوصلہ اور مفاد پرست لوگوں پر مشتمل تھی۔ وہ لوگ قومی تعمیر کا صبر آزما کام کیا کرتے جو ایک فالج زدہ گورنر جنرل کو سیاسی عمل میں بے جا مداخلت سے نہ روک سکے۔
دوسری چیز جس کی عد م موجودگی صورت حال کو سنگین کرنے کا سبب بنی، وہ اسلامی بنیادوں پر قومی شعور اور ثقافت کی تشکیل تھی۔جس طرح ہماری سیاسی قیادت قومی تعمیر کے معاملے میں ناکارہ ثابت ہوئی ، اسی طرح ہماری مذہبی اور فکری قیادت اس میدان میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی، بلکہ یہ لوگ تو اس کام کی اہمیت کا ادراک بھی نہ کرسکے۔ بدقسمتی سے ان لوگوں نے قوم کے بجاے آئین کو اور اصلاح کے بجاے اقتدار کو اپنی منزل بنالیا۔یہ لوگ اگر مثبت بنیادوں پر قوم کی تربیت شروع کردیتے تو قیام پاکستان کے ربع صدی بعد ہماری تاریخ میں ۱۹۷۱ء نہیں آتا ، بلکہ قوم کی تعمیر و شناخت کا مرحلہ بہت جلد دور ترقی واستحکام میں تبدیل ہوجاتا، مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا۔ملی احساس کو جب شعوری بنیادیں میسر نہ ہوئیں تو قومی یکجہتی مدھم پڑنے لگی۔سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ مغربی پاکستان کی کوتاہ بین سیاسی قیادت نے بنگالی اکثریت میں شدید احساس محرومی پیدا کردیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قوم اور جغرافیہ ، دونوں تقسیم ہوگئے۔سقوط ڈھاکہ کے نتیجے میں ہماری قومی عصبیت کے پرخچے اڑ گئے۔ وہ عصبیت جس کے بغیر کوئی قوم دنیا میں سرفرازی حاصل نہیں کرسکتی۔ بدقسمتی سے سیاسی ، مذہبی اور فکری طبقات اپنی پرانی روش پر ابھی تک گامزن ہیں، اس لیے بچے کھچے پاکستان میں بھی قومی عصبیت کے بجاے صوبائی اور لسانی عصبیت غالب ہے اور یہ رجحان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جارہا ہے۔
قومی زندگی کے ساتھ مزید حادثہ یہ ہوا کہ مغرب پسند اشرافیہ اور سیاسی قیادت کا ٹکراؤ فکری اور مذہبی قیادت سے شروع ہوگیا۔ان کے ٹکراؤ سے نہ صرف قومی تعمیر و ترقی کا عمل متاثر ہوا ، بلکہ ہمارے قومی مزاج میں دو انتہائی تباہ کن رجحانات داخل ہوتے چلے گئے۔ایک مغربی فکروعمل کامعاشرے میں نفوذ دوسرے مذہبی جمود اور انتہا پسندی کا فروغ۔یہ بات چونکہ بڑی اہم ہے ، اس لیے ہم اس کی ذرا تفصیل بیان کرنا چاہیں گے۔
تحریک پاکستان میں اسلام کا نعرہ لگنے سے ہماری مذہبی قیادت کویہ خیال ہوا کہ یہاں کے عوام اجتماعی زندگی میں اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں۔ دوسری طرف اقتدارایسے مغرب پرست لوگوں کے ہاتھ میں ہے جونفاذ اسلام کی اہلیت رکھتے ہیں اور نہ اس میں مخلص ہیں ۔ چنانچہ اقتدار ان سے چھین کر اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہیے۔بدقسمتی سے ان دونوں باتوں سے متعلق بعض اہم پہلو ان کی نظر میں نہ رہے۔یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے مقتدر طبقات ذہناً مغرب سے مرعوب تھے اور ہیں ، مگر اسلام کا جو تصور مذہبی طبقات پیش کرتے رہے ، اس سے متعلق بعض حقیقی سوالات تھے جن کا مدلل اور تسلی بخش جواب دینا اہل مذہب کی ذمہ داری تھی جسے پورا کیے بغیر انھیں مغرب کی ذہنی غلامی سے نکالنا ممکن نہ تھا۔اس کے بجاے ہمارے اہل علم نے مغربی معاشرے کے بعض منفی پہلوؤں کو اجاگر کرکے یہ سمجھنا شروع کردیا کہ انھوں نے مغرب زدہ اشرافیہ پر اتمام حجت کردیا ہے۔حالاں کہ یہ روش دانائی ہی کے نہیں خیرخواہی کے بھی اس جذبے کے خلاف تھی جو پیغمبرانہ دعوت کا شیوہ رہا ہے۔دوسری طرف عوام کے بارے میں بھی ان کا اندازہ درست نہ تھا۔ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ عوام الناس کی تربیت نہ ہونے کی بنا پراسلام سے ان کی وابستگی جذبات کی حد تک تھی او ر ان کا اسلامی شعور بہت پختہ نہ تھا۔مزید یہ کہ صرف مذہبی بنیادوں پر دینی قیادت کو سیاسی اقتدار دینا اس قوم کی روایت نہ تھی۔چنانچہ انھیں مؤثر عوامی تائید نہ مل سکی۔اقتدار کے سر چشموں کو بھرپور عوامی تائید کے بغیر ہٹانا ممکن نہیں ہوا کرتا۔ ان حقائق کو نظر انداز کرکے مغرب زدہ اشرافیہ کے خلاف محاذ قائم کرلیاگیا۔جس کے نتیجے میں ایک بے فائدہ ٹکراؤ شروع ہوگیا ۔
اہل مذہب کی پالیسی شروع دن سے یہ رہی کہ دستور کی سطح پر اسلامی احکامات کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔وہ بھول گئے کہ قوم دستور سے نہیں ، بلکہ دستورقوم سے بنتا ہے۔بہرحال آئین کی کاغذی سطح پر مغرب زد ہ اشرافیہ نے اسلام کی رسمی موجودگی کو گوارا توکرلیا ، لیکن معاشرتی سطح پر انھوں نے خواتین کے حقوق اور پردہ وغیرہ کے عنوانات سے بعض مباحث چھیڑدیے۔ تاہم میڈیا کی طاقت نہ ہونے کی بنا پر ان کے اثرات زیادہ نہ بڑھ سکے ۔ دوسرے یہ کہ ان کا جواب دینے کے لیے علما نے ایک بھرپور اور منظم علمی تحریک چلائی جس نے ان کے تھوڑے بہت اثرات کو بھی غیر مؤثر کردیا۔ایوب خان کے دور میں قانون کی سطح پر کچھ ایسے اقدامات کیے گئے جو رائج اسلامی تصورات سے بعید تھے، تاہم عوام میں مغربیت کے نفوذ کی کوئی کوشش ابھی تک کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ دوسری طرف دستوری سطح پر اسلام کی اہمیت کو چیلنج نہیں کیا گیا۔یہ صورت حال آج کے دن تک برقرار ہے۔اس کے دو تین اسباب ہیں: ایک تو تحریک پاکستان کا پس منظر،دوسرے عوام الناس کی اسلام سے جذباتی وابستگی اور تیسرے یہ حقیقت کہ بہرحال ہماری اشرافیہ نظریاتی طور پر ہی سہی اسلام کے دین حق ہونے کی قائل ہے۔ اس کی ایک نمایاں مثال غلام احمد پرویز صاحب کا اشرافیہ میں نفوذ تھا۔ پرویزصاحب کا نقطۂ نظر ایک جملے میں اگر بیان کیا جائے تو وہ اس طرح ہے کہ ہر حقیقت قرآن کی بارگاہ میں سجدہ کرتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب کبھی قرآنی بیانات اور مغربی مسلمات میں ٹکراؤ ہوتا تو وہ اپنی مخصوص لغت کی مدد سے قرآن کومغربی افکار کے تابع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے خیالات دراصل اشرافیہ کے اس ذہن کے عکاس تھے کہ اسلام حق تو ہے ، مگر اس کی کوئی ایسی بات قابل قبول نہ ہوگی جو مغربی اقدار و روایات کے خلاف ہو۔ چنانچہ اسلام کی وہ تعبیر ہماری اشرافیہ کو بڑی پسند آئی جس میں اسلام کے حق ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں تھا ، مگر زندگی کے عملی میدان میں اس کا کوئی کردار نہ تھا۔
تاہم جب ٹی وی کا آغاز ہوا تو صورت حال میں آہستہ آہستہ تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ یہ بات اب ریکارڈ پر آچکی ہے کہ مقتدر طبقات کے ذہن میں ٹی وی کو معاشرے میں متعارف کرانے کاپس پردہ مقصد یہ تھا کہ مغربی اقدار کو معاشرے میں رائج کیا جائے۔ٹی وی کو عام ہوتے ہوتے مزید دس سال بھٹو صاحب کے دور میں لگے ۔اس دور میں پوری قوت کے ساتھ ٹی وی کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا، تاہم مقتدر طبقات اس معاملے میں ذرا جلدی کرگئے ۔ چنانچہ ربع صدی قبل جب وہ کچھ سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے لگا جو آج بھی نہیں ہوتا تو ردعمل ہونا لازمی تھا۔ یہی ردعمل آگے بڑھا اورضیاء الحق کے اسلامی نظام کی صورت میں ظاہر ہوا، جب تحریک پاکستان کے بعد ایک دفعہ پھر اسلام کے نام پرایک مہم چلائی گئی۔اسی دوران میں ہمارے پڑوس میں ایک دو ایسے واقعات ہوئے جن سے اسلامی نظام کے نفاذ کی تحریک کو بہت مہمیز ملی۔ ان میں سے ایک ایران کا اسلامی انقلاب تھا اور دوسرا افغانستان میں روسی فوج کے قبضہ کے بعد جہاد کا آغاز۔
اس دور میں یوں محسوس ہوتا تھا گویا اسلام و مغرب کی اس کشمکش میں مذہبی حلقوں کو فیصلہ کن فتح حاصل ہوگئی ہے اور مغرب زدہ طبقہ بہت ہی محدود ہو چکا ہے۔ تاہم یہی دور مذہبی حلقوں کے لیے سب سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوا۔ بقول مولانا ابوالحسن علی ندوی ترکش کا یہ واحد تیر نشانے پر نہ لگا تو لوگوں کی ساری امیدیں ختم ہوگئیں۔اسلام کے نام پر کیے گئے فلاحی ریاست کے وعدے ہوا ہوگئے۔ اسلام کے نام پر جو کچھ وجود میں آیا، اس سے معاشرے میں صرف منافقت کا اضافہ ہوا۔ دستوری ، معاشی اور معاشرتی سطح پر جو اسلامی اقدامات کیے گئے ، ان میں سے اکثر اسلام کی بدنامی کا باعث بن گئے۔ اس صورت حال کے نتیجے میں عوام کا اسلام سے وہ رومانس ختم ہوگیا جس کے لیے انھیں نصف صدی سے تیار کیا جارہا تھا۔
نفاذ اسلام کی ناکامی سے زیادہ بڑا مسئلہ افغان جہاد کی کامیابی نے پیدا کردیا۔ہماری مذہبی قیادت کا المیہ ہے کہ یہ بہت سادہ لوگ ہیں۔تحریک پاکستان کی کامیابی سے انھیں یہ غلط فہمی ہوئی تھی کہ اہل پاکستان پکے ’’اسلامی‘‘ لوگ ہیں جن کے لیے مذہب سے بڑا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ افغان جہاد کی کامیابی سے انھیں یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی کہ مسلمانوں نے جہاد کے ذریعے سے ایک سپرپاور کو ختم کرڈالاہے۔ اس سے انھوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اب جہاد سے تمام مقبوضہ مسلم علاقوں کو نہ صرف بازیاب کرایا جا سکتا ہے، بلکہ دوسری سپر پاور جو اب تنہا سپر پاور تھی ، اس کے پرخچے بھی اڑائے جاسکتے ہیں :
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
روس کے خلاف جذبہ یقیناًہمارا تھا، مگر تلوار مغرب کی ۔جب مغرب ہمارے مد مقابل آیا تو طالبان کے اس المیہ نے جنم لیا جس میں سب نے دیکھا کہ بہت بہادر لوگ بھی ’’تلوار‘‘ کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد عراق کے سانحہ نے آخری کیل کا کام کردیا، تاہم ابھی تک بہت سے لوگ ’’مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘ پر یقین رکھتے ہیں۔
بہرحال، جہادی اور نظامی اسلام پر مبنی فکرنے انتہا پسندی کی ایک زبردست لہر کو فروغ دیا۔ قوم میں موجود جذباتی انداز فکر نے، جس کی موجودگی میں تحقیق و تجزیہ کا مزاج جنم نہیں لے سکتا، اس انتہا پسندی کو بہت فروغ دیا۔ہمارے بہترین دماغ، زندگیاں اور سرمایہ انتہا پسندی کی نظر ہوگئے۔جس کے نتیجے میں علمی احیا کا عمل بدترین جمود میں بدل گیا۔ اور اب ان دونوں تجربوں کی مکمل شکست کے بعد بھی اس فکر کے پیش کرنے والے اپنی غلطی ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے دو اسباب ہیں اول یہ کہ ہر سمجھانے والے کا منہ بند کرنے کے لیے ایک بہت آسان راستہ دستیاب ہے، وہ یہ کہ اسے منکر جہاد، منکر اسلام، مغرب کا ایجنٹ قرار دے دیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ جان سے مار دینے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ بدقسمتی سے ہمارے اہل علم کو سیرت پاک کے اس پس منظر سے غلط فہمی ہوگئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگی میں ہی عرب پر اقتدار حاصل ہوگیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ آپ جیسی جدوجہد کرکے ہم بھی اقتدار حاصل کرسکتے ہیں اور اس طرح اسلام کا غلبہ ممکن ہوجائے گا۔ یہ ایک اجتہادی خطا تھی۔ جیسا کہ ہم نے پیچھے بیان کیا ہے کہ یہ دراصل رسولوں کے باب میں خدا کا قانون تھا جو عام قوانین کو معطل کرکے حرکت میں آیا تھا۔ جس میں اتمام حجت کے بعد تمام تر بے سروسامانی کے باوجود رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی قوم کے خلاف کامیابی یقینی تھی،حتیٰ کہ اپنے معاصرین کے خلاف صحابۂ کرام اور بنی اسرائیل کے جہاد کی نوعیت بھی ہم نے واضح کردی کہ یہ بھی آسمانی رہنمائی کے بغیر نہیں کیا جاسکتااور ختم نبوت کے بعد اس طرح کے جہاد کا دروازہ بھی بند ہوگیا ہے۔
یہ تو مذہبی انتہا پسندی کی کہانی تھی۔ دوسری طرف نوے کی دہائی شروع ہوئی تو تاریخ کا ایک عظیم انقلاب آیا،یعنی انفارمیشن ایج کا آغاز ہوا۔اس کے نتیجے میں دنیا حقیقی معنوں میں ایک بین الاقوامی گاؤں بن گئی۔مغرب کی تہذیب جو سوویت یونین کے خاتمے اور گلف وار میں اپنی فتح کے بعد خود اعتمادی کے نشے سے چور تھی ، دنیا میں اپنے سیاسی، معاشی اور سب سے بڑھ کر تہذیبی و فکری غلبہ کے لیے نکل کھڑی ہوئی۔ تادم تحریر اسے تینوں محاذوں پر شان دار کامیابی نصیب ہورہی ہے۔ حالات یہ بتارہے ہیں اور جائزے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان کے سیاسی اور معاشی غلبے پر تو اہل اسلام اور دیگر لوگوں کو کچھ تشویش ہے ، مگر ان کے تہذیبی غلبے کو سب لوگ خوش دلی سے قبول کررہے ہیں۔
پیو گلوبل ایٹیٹیوٹ پراجکیٹ سروے کے مطابق ایک امریکی ادارے نے دنیا کے ۴۴ ملکوں کے ۳۸ ہزار افراد کے انٹرویو کیے، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوری دنیا خاص طور پر مسلم ممالک میں امریکا مخالف جذبات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ سروے کے مطابق پاکستان کے ۶۹ فی صد لوگ امریکا سے نفرت کرتے ہیں جو کہ دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ہم جس چیز کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ جائزے کے مطابق اس نفرت کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد امریکی ٹی وی، فلمیں اور موسیقی پسند کرتے ہیں۔یہ جائزہ نہ بھی ہوتا تب بھی پاکستان کی حد تک ہم میں سے ہر باخبر شخص اس رجحان سے اچھی طرح واقف ہے کہ کس طرح امریکی فلمیں اورموسیقی ہمارے ہاں پسند کی جاتی ہے ۔ امریکی فاسٹ فوڈاور مشروبات ہمارے ہاں بے انتہا مقبول ہیں۔ ان کے تنگ و مختصر لباس ہمارے مردوں سے گزر کر عورتوں میں بھی عام ہورہے ہیں۔
____________