مصنف: محمد رفیع مفتی،
ضخامت: ۹۶ صفحات،
قیمت: ۵۰ روپے،
ناشر: ادارہ علم وتحقیق المورد۔ ۵۱ کے ماڈل ٹاؤن لاہور،
ملنے کا پتا: ۱۲۳ بی ماڈل ٹاؤن لاہور۔
اس بات پر سبھی اہل علم کا اتفاق ہے کہ دنیا کی تمام قدیم زبانوں کے حروف ابجد اشیا کی تصویروں کی ارتقائی شکل ہیں۔ یہ بات بھی ایک طے شدہ تاریخی حقیقت ہے کہ ہر دور میں تحریر کے ساتھ ساتھ تصویر کسی نہ کسی شکل میں ذریعۂ ابلاغ رہی ہے۔ اور اس بات پر بھی کوئی اختلاف نہیں کر سکتا کہ سائنسی علوم کی ترقی میں خاکوں اور تصویروں کا وہی کردار ہے جو ریاضی میں صفر کا ہے۔ پھر فنون لطیفہ میں مصوری کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود انسان کی تاریخ۔ انسانی تہذیب وتمدن کے ارتقاء میں تصویر کے اس ناقابل انکار کردار کے علی الرغم اسلامی شریعت میں اسے عام طور پر حرام ہی سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ ماضی کے مسلمان سائنس دانوں کی طرح جب دور جدید کے تقاضوں نے عملاً ، اس حکم کو ماننے پر اپنے عجز کا عملی اظہار کردیا تو بعض اہل علم نے اس مسئلے کو تحقیق کا موضوع بنایا۔ اس موضوع پر قلم اٹھانے والے بعض علماء نے کیمرے کی تصویر کو حالات کا جبر قرار دے کر اہتاً جائز قرار دیا اور بعض نیا سے عکس ثابت کر کے حرمت کے دائرہ سے نکال کر عام مسلمانوں کی مشکل حل کر دی۔لیکن اس سے نوعیت مسئلہ جوں کا توں رہی، یعنی کیا واقعی اسلام کے نزدیک اصلاً تصویر کا بنایا ایک اخلاقی یا عقیدے کی برائی ہے؟ کیا تصویر سے متعلق تمام فنون لطیفہ کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں؟ کیا سائنس وٹیکنالوجی کی موجودہ ترقی اسلام کے نزدیک ناپسندیدہ ہے، کیونکہ ایک حرام اور شیطانی فعل یعنی تصویر کو استعمال کیے بغیر حاصل ہی نہیں کی جاسکتی تھی۔ آخر ان احادیث کا کیا مطلب ہے جن میں جان دار اور بے جان کی تخصیص کیے بغیر علی الاطلاق ہر قسم کی تصویر حرام قرار دے دی گئی ہے؟ زیر تبصرہ کتاب میں موضوع زیر بحث پر متذکرہ سوالات سمیت ہر قابل ذکر پہلو پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔
مصنف نے پہلے تصویر کے رائج نقطۂ نظر کا اس کے استدلال سمیت ذکر کیا ہے۔ احناف کی رائے کے لیے انھوں نے بخاری کی شرح عمدۃ القاری سے علامہ بدر الدین عینی اور شافعی مسلک کا موقف پیش کرنے کے لیے امام نووی کی شرح مسلم سے اقتباس نقل کیے ہیں۔ ان آرا کا بناے استدلال واضح کرتے ہوئے انہوں نے ثابت کیا ہے کہ یہ نقطۂ نظر احادیث اور قرآن کے تصور تماثیل سے معارض ہے۔ صحیح نقطۂ نظر پیش کرنے کے لیے پہلے سورۂ سبا کی آیت ۱۳ اور سورۂ انبیا کی آیات ۵۲ تا ۵۴ میں قرآن کے تصور تماثیل کو متعین کیا ہے اور پھر تئیس (۲۳) احادیث کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے حرمت تصویر کی علت متعین کی ہے۔ تصاویر کے بارے میں فہم صحابہ پر بحث کرتے ہوئے انھوں نے دو حدیثوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس میں بخاری کی وہ مشہور روایت بھی شامل ہے جس میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک مصور کے پوچھنے پر اسے مصوری کے بارے میں فتویٰ دیا تھا اور یہی وہ روایت ہے جو ہمارے فقہا کے مسلک کی بنیاد بنی ہے۔ مصنف نے بادلائل ثابت کیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت سے وہ مطلب اخذ نہیں کیا جاسکتا ہے جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ اپنے موقف کے حق میں انھوں نے صحابہ کا عمل پیش کیا ہے۔ مصنف نے آٹھ مثالوں سے واضح کیا ہے کہ صحابہ کا عمل اس فہم سے مختلف ہے جو عام طور پر ان سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد تابعین کا فہم اور عمل پیش کر کے انھوں نے اس بات کو مزید موکد کیا ہے کہ وہ بھی صرف انھی تصاویر وتماثیل کو ممنوع سمجھتے تھے جو مظہر شرک ہوں۔ صفحہ ۷۳ پروہ اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ہمارے خیال میں تصویر کے بارے میں مذہب کا موقف سمجھنے میں فقہاسے غلطی نہیں ہوئی، بلکہ ہمارے علما سے فقہا کا موقف سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔
ہماری ساری تنقید دراصل فقہا کے موقف کی اس وضاحت پر ہے جو اس کو پیش کرنے والے علما کے ہاں پائی جاتی ہے۔ اگر فقہا کی بیان کردہ، وہ عبارات جنھیں ہم نے مقالے کی ابتدا میں بیان کیا ہے، ان کا تجزیہ ان کے ظاہر الفاظ سے ہٹ کر کیا جائے، تو یہ بات اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ فقہا کے ہاں دراصل، وہ موقف پایا ہی نہیں جاتا جو علما نے ان کی عبارات سے اخذ کیا ہے۔ فقہا کا اصل موقف کیا ہے؟ ہمارے خیال میں ان کا موقف بھیوہی ہے جسے ہم نے اپنی اس تحریر میں ثابت کیا ہے کہ صحابۂ کرام اور تابعین کا موقف ہے، یعنی یہ کہ دین میں صرف وہی تصاویر ممنوع ہیں جو مظہر شرک ہیں۔ البتہ مسئلہ یہ ہے کہ فقہانے بھی اپنا یہ موقف انھی الفاظ میں بیان کیا ہے جن میں ابن عباس نے اپنے سائل کو یہ فتویٰ دیا تھا کہ تم بس بے جان چیزوں ہی کی تصاویر بنایا کرو، ان الفاظ کو اگر اسی فضا میں رکھ کر سمجھا جائے جس میں یہ بولے گئے تھے تو پھر ان سے ہمارے خیال میں فقہا کا صحیح موقف سامنے آتا ہے۔
فقہا کا زمانہ صحابۂ کرام سے قریب تر تھا۔ اس میں تصویر کے بارے میں ابھی وہ فضا تبدیل نہیں ہوئی تھی، جس میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے سائل کو فتویٰ دیا تھا۔ وہ فضا کیا تھی؟ وہ فضا یہ تھی کہ تصویر کا اکثر استعمال شرک کی خدمت کے لیے ہوا کرتا تھا چنانچہ یہی وجہ ہے کہ تصویر میں عام طور پر روح کا اثبات کیا جاتاتھا۔ اس ماحول میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے زندہ وجود کی تصویر ہی کو وہ تصویر قرار دیا جس کے بارے میں وہ مشرکانہ تصور کے پیدا ہونے کا امکان سمجھتے تھے، لہٰذا انھوں نے اسے ممنوع قراردے دیا۔ اسی فضا میں فقہا نے تصاویر کے بارے میں اپنا موقف بیان کیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کے استعمال کردہ الفاظ کواختیار کرتے ہوئے ، انھوں نے بھی زندہ وجود ہی کی تصویر کو ممنوع قرار دے دیا، تاکہ وہ ان الفاظ سے ہر ممنوع تصویر کو حرام قرار دے دیں۔ ان کے بیان حرمت کے اس اصول سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے اُس زندہ وجود ہی کی تصویر کو حرام قرار دے دیا جس تصویر میں روح کا وجود مانا جاتا تھا یا کل کلاں مانا جانا ممکن تھا کیونکہ اس روح ہی کی بنا پر اس کا مصور خدا کی نقالی کرنے والا شمار ہوتا تھا۔ چنانچہ فقہا کے بارے میں یہ خیال درست ہے کہ انھوں نے بھی درحقیقت صرف انھی تصاویر کو ممنوع قرار دیا ہے جو مظہر شرک ہیں۔‘‘ (۷۳)
کتاب کے آخری حصے میں مصنف انسانی فطرت کے ساتھ اور دوسرے فنون لطیفہ کے تعلق کو زیر بحث لائے ہیں۔ انسانی نفسیات کا بڑے ادبی پیراے میں تجزیہ کرتے ہوئے انھوں نے تصویر سمیت تمام فنون لطیفہ کو انسان کے طبعی ذوق کا ظہور قرار دیا ہے اور اپنی اس رائے پر قرآن اور اسوۂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت پیش کی ہے۔
مصنف کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تصویر کا شرک کے ساتھ یہ تعلق ایک ثابت شدہ حقیقت ہے اور اسی وجہ سے احادث میں تصاویر کی س قدر ممانعت آئی ہے، جبکہ موجودہ دور میں تصویر ومجسمے کا بالکل دوسرا استعمال ہے۔
بحث کو اس مقام پر پہنچا کر مصنف نے تصویر کے حوالے سے دین کا وہ موقف پیش کیا ہے جو ان کے نزدیک اسلام کا اصل منشا ہے۔ یہ رائے چونکہ عام نقطۂ نظر سے مختلف ہے، اس لیے مناسب یہی ہے کہ قارئین اسے مکمل دلائل کے ساتھ کتاب ہی میں ملاحظہ کریں۔
کتاب کا موضوع اس لحاظ سے بڑا نازک ہے کہ مصنف نے رائج اور کم وبیش متفقہ نقطۂ نظر سے مختلف رائے بیان کی ہے، لیکن طرزِ استدلال اس قدر متاثر کن ہے کہ کوئی بھی غیر متعصب قاری اسے ایک دقیع تحقیقی مقالہ قرار دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مصنف کے استدلال کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے احادیث کے انکار کی روش اپنانے کے بجائے اس کا صحیح مفہوم جاننے کی کوشش کی ہے۔ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے نہ انھوں نے الفاظ کے ہیر پھیر سے کام لیا ہے اور نہ منطقی موشگافیوں سے ۔ وہ عقل عام کو مخاطب کرتے ہوئے بڑے سائیٹفک انداز میں اپنی بات منواتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
مصنف کے اسلوب کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ کئی جگہوں پر وہ تحریر کے بجائے گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔ بعض مقامات پر قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ بات واضح ہو چکی ہے، لیکن مصنف کا یہ خدشہ کہ شاید ابھی ابلاغ میں کوئی کمی ہے، غیر ضروری طوالت کا باعث بھی بنا ہے۔ مصنف نے کتاب میں موسیقی کا ذکر اس طرح کیا ہے جیسے ان کا قاری اسے مباح سمجھتا ہو، حالانکہ عام طور پر اسے بھی تصویر ہی کی طرح حرام کے درجے کی چیز سمجھا جاتا ہے۔ امید ہے اگلے ایڈیشن میں ان پہلووں کی طرف توجہ دی جائے گی۔ بے شک یہ کتاب اس قابل ہے کہ اسے دین کا ہر طالب علم پڑھے، سمجھے اور استدلال کی ایک نئی دنیا سے آشنائی حاصل کرے۔
____________