HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۲۵۷-۲۵۸ (۵۵)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ ) 


اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ، وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِیٰٓئُھُمُ الطَّاغُوْتُ، یُخْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ۔ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ۔{۲۵۷}

اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰھٖمَ فِیْ رَبِّہٖٓ اَنْ اٰتٰہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ، اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ ۔ قَالَ: اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیْتُ ۔ قَالَ اِبْرٰھٖمُ: فَاِنَّ اللّٰہَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ، فَاْتِ بِھَا مِنَ الْمَغْرِبِ، فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَ، وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۔{۲۵۸}

(یہ ہدایت پانا چاہیں تو) اللہ ماننے والوں کا مددگار ہے ۔ وہ اُنھیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے ۔ ۶۸۰؎ (اِس کے برخلاف ) نہ ماننے والوں کے مددگار اُن کے شیاطین ہیں ، وہ اُنھیں روشنی سے اندھیروں کی طرف نکال لے جاتے ہیں ۔ یہی دوزخ کے لوگ ہیں ۔ یہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے ۔ ۶۸۱؎ ۲۵۷ 

(اِس بات کو سمجھنا چاہتے ہو تو اِس کی مثالیں بہت ہیں)۔ کیا ۶۸۲؎ تم نے اُس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے اُس کے پروردگار کے معاملے میں محض اِس لیے حجت کرنا چاہی کہ اللہ نے اُسے اقتدار عطا فرمایا تھا، ۶۸۳؎  اُس وقت جب ابراہیم نے (اُس سے) کہا کہ میرا پروردگار تو وہ ہے جو مارتا اور جِلاتا ہے ۔ ۶۸۴؎ اُس نے جواب دیا کہ میں بھی مارتا اور جلاتا ہوں۔ ۶۸۵؎ ابراہیم نے فوراً کہا : اچھا تو یوں ہے کہ اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے ، تم ذرا اُسے مغرب سے نکال لائو ۔ ۶۸۶؎ سو(یہ سن کر) وہ منکر حق بالکل حیران رہ گیا۔ اور (حقیقت یہ ہے کہ) اِس طرح کے ظالموں کو اللہ کبھی ہدایت نہیں دیتا۔ ۶۸۷؎ ۲۵۸ 

۶۸۰؎  اصل الفاظ ہیں : ’ یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ‘ ۔ اِن میں ’ النُّوْر‘ واحد اور ’الظُّلُمٰت‘ جمع استعمال ہوا ہے ۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جس نور کا یہاں ذکر ہے ، اُس سے مراد علم و عقل اور ایمان و اخلاق کا نور ہے ۔ اِس کے بارے میں بالبداہت واضح ہے کہ اِس کا منبع بھی ایک ہی ہے ، یعنی پروردگار عالم اور اِس میں انتشار و اختلاف بھی نہیں ہوتا۔ اِس کے برخلاف علم و عقل اور ایمان و اخلاق سے محرومی کی ظلمتیں مختلف راستوں سے آتی ہیں اور اِن میں انتشار و اختلاف بھی لازماً ہوتا ہے۔

۶۸۱؎  ہدایت و ضلالت کا جو قانون اِس آیت میں بیان ہوا ہے ، اُس کی وضاحت استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس طرح فرمائی ہے :

’’۔۔۔ہدایت و ضلالت کے معاملے میں اصل اہمیت رکھنے والی شے یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کا دامن پکڑتا ہے یا کسی غیر کا ۔ اگر خدا کا دامن پکڑتا ہے تو خدا اپنے بندے کا کارساز و مددگار بن جاتا ہے اور اپنی توفیق بخشی سے درجہ بہ درجہ اُسے نفس و شہوات کی تمام تاریکیوں اور کفر ، شرک اور نفاق کی تمام ظلمات سے نکال کر ایمان کامل و توحید خالص کی شاہراہ پر لاکھڑا کرتا ہے ۔ اور اگر بندہ اپنے رب سے منہ موڑ کر کسی اور راہ پر جا نکلتا ہے تو پھر وہ شیطان اور اُس کی ذریات کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اور وہ اُس کی نکیل اپنے ہاتھ میں لے کر عقل و فطرت کی ہر روشنی سے دور کرکے اُس کو ضلالت کے کھڈ میں گرا دیتے ہیں ۔ مشہور مثل ہے : ’’خانۂ خالی رادیو می گیرد‘ ‘، جس گھر میں آدمی نہیں رہتا، وہ شیطان کا مسکن بن جاتا ہے ۔ اِسی طرح جو دل ایمان سے خالی ہوتا ہے ، وہ شیطان کا اڈا بن جاتا ہے ، اور پھر شیاطین ایسے شخص کو گمراہی کی وادیوں میں سرگشتہ و حیران رکھتے ہیں ۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۵۹۸)           

۶۸۲؎  سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا یہ مناظرہ ’’تالمود‘‘ میں بھی نقل ہوا ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ابراہیم علیہ السلام کے ہم عصر بادشاہ نمرود کا ذکر ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اِس مناظرے کی وجہ غالباً یہ ہوئی کہ اُس زمانے کے بادشاہ اپنے آپ کو اوتار بادشاہ سمجھتے تھے ۔ قدیم صحیفوں میں ذکر ہے کہ نمرود کی قوم جن دیوتاؤں کو پوجتی تھی، اُن میں سب سے بڑے دیوتا کا درجہ سورج کو حاصل تھا۔ نمرود کو بھی لازماً اِسی کا اوتار مانا جاتا رہا ہو گا ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے دعوت توحید کے بعد یہ مناظرہ اِسی پس منظر میں ہوا ہے ۔ نمرود نے کہا ہو گا کہ سورج دیوتا کے اوتار کی حیثیت سے تمھارا رب تو میں ہوں۔ مجھے چھوڑ کر یہ تم کس رب کو ماننے کی دعوت دے رہے ہو ۔

 ۶۸۳؎  اصل میں ’ اَنْ ٰاتٰہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ اِن میں ’اَنْ ‘ سے پہلے ’ ب‘ عربی قاعدے کے مطابق حذف ہو گئی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جو اقتدار اُسے عطا فرمایا تھا، وہی اُس کے لیے فتنہ بن گیا اور اُس پر خدا کا شکر ادا کرنے کے بجاے اُس نے اپنے آپ کو خدا کے اوتار کی حیثیت سے پیش کرنا شروع کر دیا۔

۶۸۴؎  اللہ تعالیٰ کی تعریف میں سب سے زیادہ واضح بات یہی ہو سکتی تھی جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمائی ہے ۔ اِس میں شبہ نہیں کہ آدمی کے دماغ میں خلل نہ ہو تو زندگی اور موت کے سوال پر ادنیٰ تامل بھی اُسے خدا کے ماننے پر مجبور کر دیتا ہے ۔

۶۸۵؎  یعنی جس کا چاہوں، سر قلم کر دیتا ہوں اور جس کو چاہوں ، بخش دیتا ہوں ۔

۶۸۶؎  نمرود کا معارضہ سراسر احمقانہ تھا، لیکن انبیا علیہم السلام چونکہ مناظر نہیں ، بلکہ داعی ہوتے ہیں، اِس لیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اُس کو مزید کٹ حجتی کا موقع دینے کے بجاے اپنے پروردگار کی ایک ایسی صفت بیان کر دی جس میں وہ بحث کے لیے کوئی راہ نہیں پا سکتا تھا۔

              استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس حجت ابراہیمی کے ایک دوسرے پہلو کی وضاحت میں لکھا ہے :

’’۔۔۔یہاں بلاغت کا یہ نکتہ ملحوظ رہے کہ حضرت ابراہیم نے خاص طور پر سورج کی تسخیر کا ذکر فرمایا جس کو نمرود کی نظر میں معبود اعظم کی حیثیت حاصل تھی اور وہ اپنے آپ کو اِسی معبود اعظم کا مظہر بنائے ہوئے بیٹھا تھا۔ بہترین استدلال اور لطیف ترین طنز کی یہ ایک نہایت خوب صورت مثال ہے ۔ ‘‘ (تدبرقرآن ۱/ ۶۰۰)

۶۸۷؎  یہ اُس مدعا کا بیان ہے جسے واضح کرنے کے لیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا یہ واقعہ سنایا گیا ہے ۔ استاذ امام لکھتے ہیں :

’’۔۔۔اِس میں ظالم کا لفظ خاص طور پر قابل غور ہے ۔ قرآن کی اصطلاح میں ظالم سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ کی نعمتوں اور اُس کی بخشی ہوئی قوتوں اور صلاحیتوں کو بے جا استعمال کرتے ہیں، جو اللہ کے انعامات کو اُس کا فضل قرار دینے کے بجاے اُن کو اپنا حق سمجھتے ہیں ، جو نعمتوں پر خداے منعم کے شکر گزار ہونے کے بجاے غرور اور گھمنڈ میں مبتلا ہوتے اور ابلیس کی طرح اکڑتے ہیں، جو خدا کی بندگی اور فرماں برداری کی روش اختیار کرنے کے بجاے خود اپنی خدائی کے تخت بچھاتے اور اپنے کو رب ٹھیراتے ہیں۔ فرمایا کہ جو لوگ اِس ظلم میں مبتلا ہوتے ہیں، اُن پر ہدایت کی راہ نہیں کھلا کرتی۔ ایسے لوگوں کے سامنے حق کتنے ہی واضح طریقے پر آئے ، وہ اُس کو قبول کرنے کے بجاے بحث اور کٹ حجتی کی کوئی نہ کوئی راہ ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر اُن کو اِس کی کوئی راہ ملتی نظر نہیں آتی تو وہ نمرود کی طرح ہکے بکے اور ششدر ہو کر تو رہ جاتے ہیں ، لیکن حق کو قبول پھر بھی نہیں کرتے۔‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۶۰۰)

[باقی]

ــــــــــــــــــ

B