[اس روایت کی ترتیب وتدوین اور شرح ووضاحت جناب جاوید احمد غامدی کی رہنمائی میں ان کے رفقا معز امجد، منظور الحسن، محمد اسلم نجمی اورکوکب شہزاد نے کی ہے۔]
روی ۱ انہ کن نساء المؤمنات ۲ یشھدن مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۳ صلاۃ الفجر ۴ متلفعات ۵ بمروطھن ثم ینقلبن ۶ الی بیوتھن حین یقضین الصلاۃ ۷ لا یعرفھن احد ۸ من الغلس۹ .۱۰
روایت ہے کہ مسلمان عورتیں چادریں اوڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز فجر ادا کرتی تھیں۔ پھر نماز ادا کر لینے کے بعد جب وہ گھروں کو لوٹتیں تو اندھیرے کی وجہ سے کوئی انھیں پہچان نہ پاتا۔ ۱
۱۔ معلوم ہوتا ہے کہ راوی اس بارے میں آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کس وقت ادا فرمایا کرتے تھے۔ ان کے مشاہدے کے مطابق آپ صبح کی روشنی نمودار ہونے سے پہلے ہی نماز سے فارغ ہو جاتے تھے۔
۱۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ بخاری کی روایت، رقم ۵۵۳ ہے۔ معمولی اختلاف کے ساتھ یہ حسب ذیل مقامات پر نقل ہوئی ہے:
بخاری، رقم ۳۶۵،۸۲۹،۸۳۴۔ موطا، رقم ۴۔ مسلم، رقم، ۶۴۵۔ ترمذی، رقم ۱۵۳۔ نسائی، رقم ۵۴۵، ۵۴۶، ۱۳۶۲۔ ابو داؤد، رقم ۴۲۳۔ ابن ماجہ، رقم ۶۶۹۔ دارمی، رقم ۱۲۱۶۔ احمد ابن حنبل، رقم ۲۴۰۹۷، ۲۴۱۴۲،۲۵۴۹۳ ۲۶۱۵۳، ۲۶۲۶۵۔ ابن حبان، رقم ۱۴۹۸، ۱۴۹۹، ۱۵۰۰، ۱۵۰۱۔ ابن خزیمہ، رقم ۳۵۰۔ نسائی سنن الکبریٰ، رقم ۱۲۸۵، ۱۵۲۷،۱۵۲۸۔ بیہقی، رقم ۱۹۷۲، ۱۹۷۳، ۱۹۷۴، ۱۹۷۵، ۳۰۸۵۔ ابو یعلیٰ، رقم ۴۴۱۵، ۴۴۱۶، ۴۴۹۳۔ حمیدی، رقم ۱۷۴۔ ابن ابی شیبہ، رقم ۳۲۳۳، ۳۲۳۴۔ عبدالرزاق، رقم ۲۱۸۱۔
۲۔ روایات میں ’نساء المؤمنات‘ (مسلمان خواتین) کا ٹکڑا مختلف انداز سے روایت ہوا ہے۔ بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم ۳۶۵ میں ’النساء من المؤمنات‘ (مسلمان خواتین میں سے بعض ) کے الفاظ آئے ہیں۔مسلم، رقم ۶۴۵ میں ’نساء من المؤمنات‘ (مسلمان خواتین میں سے کچھ خواتین) کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔ بعض روایات مثلاً نسائی، رقم ۵۴۶ میں ’النساء‘ (خواتین) کا لفظ آیا ہے۔ دارمی، رقم ۱۲۱۶ کے الفاظ ہیں: ’نساء النبی‘ (نبی کی بیویاں)۔ بعض روایات مثلاً ابو یعلیٰ، رقم ۴۴۱۵ میں یہ حصہ ان الفاظ میں نقل ہوا: ’نساء من نساء المؤمنات‘ (مومن خواتین میں سے کچھ خواتین)۔
۳۔’یشھدن مع رسول اللّٰہ‘ (وہ رسول اللہ کے ساتھ نماز میں شریک ہوتیں) کا جملہ روایتوں میں مختلف اسلوب میں نقل ہوا ہے۔ مسلم، رقم ۶۴۵ (ب) میں ’یصلین مع النبی‘ (وہ نبی کریم کے ساتھ نماز ادا کرتیں) کے الفاظ آئے ہیں۔ بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۳۶۵ میں ’فیشھد معہ النساء‘ (خواتین آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہوتیں) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔ اسی طرح بخاری، رقم ۳۰۸۵ میں یہ بات بیان ہوئی ہے: ’فیشھدھا معہ النساء‘ (خواتین آپ کے ساتھ اسے ادا کرتیں)۔
۴۔ بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۳۶۵ میں ’صلاۃ الفجر‘ (نماز فجر) کے بجائے ’الفجر‘ (فجر) کا لفظ آیا ہے۔ بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۸۲۹ میں اس کے بجائے لفظ ’الصبح‘ (صبح) نقل ہواہے۔ ابن ماجہ، رقم ۶۶۹ میں ’صلاۃ الصبح‘ (صبح کی نماز) اور احمد ابن حنبل، رقم ۲۴۰۹۷ میں ’الغداۃ‘ (صبح) کے الفاظ آئے ہیں۔ اس کے برعکس ابو یعلیٰ، رقم ۴۴۱۵ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہاں کسی خاص نماز کا ذکر نہیں ہے، بلکہ یہ بات کسی بھی ایسی نماز سے متعلق ہے جو اندھیرے میں ادا ہوتی ہے۔
۵۔ بعض روایات مثلاً ترمذی ،رقم ۱۵۳ میں لفظ ’متلفعات‘ (اوپر لپیٹنے) کا مترادف لفظ ’متلففات‘ نقل ہوا ہے۔
۶۔ بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۳۶۵ میں ’ثم ینقلبن‘ (پھر وہ لوٹتیں) کی جگہ ’ثم یرجعن‘ (پھر وہ لوٹتیں) کے الفاظ آئے ہیں۔ بعض روایات میں ان سے مختلف الفاظ نقل ہوئے ہیں۔ مثلاً بخاری، رقم ۸۲۹ میں ’ فینصرف النساء‘ (جب خواتین رخصت ہوتیں)، بخاری، رقم ۸۳۴ میں ’فینصرفن‘ (جب وہ رخصت ہوتیں)، نسائی، رقم ۵۴۶ میں ’فیر جعن‘ (جب وہ لوٹتیں)، احمد ابن حنبل، رقم ۲۴۰۹۷ میں ’ثم یخرجن‘ (پھر وہ نکلتیں) او ر ابن حبان کی روایت ۱۵۰۰ میں ’ثم تخرج نساء المومنین‘ (پھر مومنین کی بیویاں نکلتیں) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
۷۔ بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۸۲۹ میں ’الی بیوتھن‘ (اپنے گھروں کی طرف) کے الفاظ نقل ہوئے، جبکہ بعض روایات مثلاًابن ماجہ، رقم ۶۶۹ میں ان کے بجائے ’الی بیوتھن‘ (اپنے گھروالوں کی طرف) کے الفاظ نقل ہوئے ہیں اور بیہقی، رقم ۱۹۷۳ میں ’الی اھلیھن‘ (اپنے خاندانوں کی طرف) کے الفاظ آئے ہیں۔
نسائی، رقم ۱۳۶۲ میں ’ثم ینقلبن الی بیوتھن حین یقضین الصلاۃ‘ (نماز ادا کرنے کے بعد وہ گھروں کو لوٹتیں) کے بجائے ’فکان اذا سلم انصرفن‘ (پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرتے اور وہ چلی جاتیں) کا جملہ نقل ہوا ہے۔
۸۔ بخاری، رقم ۸۲۹ میں ’لا یعرفن احد‘ (کوئی انھیں پہچان نہ پاتا) کی جگہ ’ما یعرفن‘ (وہ پہچانی نہ جاتیں) کے الفاظ آئے ہیں۔ جبکہ بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۸۳۴ میں ’لا یعرفن‘ (وہ پہچانی نہ سکتیں) کا جملہ اس اضافے کے ساتھ نقل ہوا ہے: ’لا یعرفن بعضھن بعضا‘ (وہ ایک دوسرے کو پہچان نہ پاتیں)۔ ابن ماجہ، رقم ۱۲۱۶ میں اس کے بجائے ’قبل ان یعرفن‘ (اس سے پہلے کہ وہ پہچان لی جاتیں) کا جملہ نقل ہوا ہے۔ نسائی، رقم ۳۰۸۵ میں یہ بات ان الفاظ کے ساتھ روایت ہوئی ہے: ’اوما یعرفھن احد من الناس‘ (لوگوں میں سے کوئی انھیں پہچان نہ پاتا)۔
۹۔ ’من الغلس‘ (اندھیرے کی وجہ سے) کے الفاظ بخاری، رقم ۳۶۵ سے لیے گئے ہیں۔ بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۶۴۵ میں یہی بات ان الفاظ میں آئی ہے: ’من تغلیس رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بالصلاۃ‘ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندھیرے میں نماز ادا کرنے کی وجہ سے)۔
بعض روایات مثلاً ابن ماجہ، رقم ۶۶۹ میں ’من الغلس‘ کے الفاظ اصل متن کی حیثیت سے نہیں، بلکہ بعد کے کسی راوی کی توضیح کے طور پر آئے ہیں۔
۱۰۔ ابو یعلیٰ، رقم ۴۴۹۳ میں یہ روایت بالکل مختلف مفہوم میں نقل ہوئی ہے۔ روایت درج ذیل ہے:
لو رای رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من انساء ما تری لمنعھن من المساجد کما منعت بنو اسرائیل نساء ھا لقد رایتنا نصلی مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الفجر فی مروطنا وننصرف وما یعرف بعضنا وجوہ بعض.
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر عورتوں کی وہ حالت دیکھتے جو ہم دیکھتے ہیں تو انھیں اسی طرح مسجدوں میں آنے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل نے اپنی عورتوں کو روک دیا تھا۔ ہمارا حال تو یہ تھا کہ اپنی چادریں اوڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز فجر ادا کرتیں اور نماز ادا کر کے اس طرح رخصت ہوتیں کہ ایک دوسرے کے چہروں کو پہچان نہ سکتی تھیں۔ ‘‘
____________