پچھلے دنوں ایک حادثے میں میری ہنسلی کی ہڈی (Clavicle) ٹوٹ گئی۔ مجھے جسمانی تکلیف کا تو سامنا کرنا پڑا پر میرے لیے زیادہ تکلیف کی بات یہ تھی کہ میری روز مرہ کی سرگرمیوں میں رکاوٹ آگئی۔ میں نے اپنے معمولات ترک نہ کیے، مگر ان کو جاری رکھنا دشوار ہوگیا۔ کچھ وقت گزرا کہ میں نے ایک ٹوٹی ہڈی کو اپنے جسم کا جزو سمجھ لیا۔ اسی کے مطابق اپنا اٹھنا بیٹھنا کر لیا اور اس کے جڑنے کا محض انتظار کرنے کی بجائے اپنے معمولات اس کی سہولت کے مطابق ترتیب دے دیے۔
رفتہ رفتہ اس ہنسلی کے ٹوٹنے نے مجھے کئی سبق دیے۔ ایک آدمی سوچ سمجھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ وہ سوچتا ہے، میں اتنے بجے پہنچوں گا، اپنا کام کروں گا اور اتنے بجے واپسی کی راہ لوں گا۔ مگر کچھ طاقتیں اس کے پروگرام میں حائل ہو جاتیں ہیں۔ وہ اپنی منزل پر پہنچنے کی بجائے اسپتال جا پہنچتا ہے۔ اسے اپنی جان کی فکر پڑ جاتی ہے اور وہ اپنا پروگرام بھول جاتا ہے۔ یہ طاقتیں اللہ تعالیٰ اور اس کے مقرر کردہ کار پردازان قضاوقدر ہیں۔ یعنی ہر ارادے کا پورا ہونا اللہ کی مرضی پر موقوف ہے۔ اسی لیے مسلمان کوئی کام کرنے سے پہلے اللہ سے توفیق مانگتا ہے۔ ارادہ کرنا، اس پر ثابت قدم ہونا، اسے پروے کار لانے کے وسائل مہیا کرنا، اس کی راہ میں درپیش رکاوٹوں سے نپٹنا اور اسے حسن انجام تک پہنچانا یہ سب مراحل اللہ کی توفیق ہی سے طے پاتے ہیں۔ ہمیں زندگی کا کوئی کام کرنے سے پہلے اس حقیقت کو ذہن سے محو نہیں کرنا چاہیے، ورنہ ناخوش گوار اتفاقات پیش آتے رہیں گے اور ان کی تاویل ہماری سمجھ میں نہ آئے گی۔
ایک ٹوٹے عضو کو انسان برداشت کر سکتا ہے، اس کے ساتھ کچھ وقت گزار سکتا ہے اور اس کے صحت مند ہونے تک اس کا لحاظ رکھ سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ ایک مسلمان بھائی کو برداشت نہیں کرتا؟ وہ بھائی جس کے عقائد یا اخلاق میں کچھ شکستگی آگئی ہے۔ جس طرح ایک عضو شکستہ کا دھیان رکھ کر، اسے صحت مند ہونے کی مہلت دے کر ہم اس سے کام لینے کی توقع کر لیتے ہیں ایسے ہی ایک منقطع آدمی کا خیال یا معالجہ کرکے اس کے بحال ہونے کا انتظار کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ایک مفید انسان بن جائے۔
مصیبت بڑی ہو یا چھوٹی ٹل جاتی ہے۔ واویلا کریں یا صبر، بیماری یا پریشانی اپنا وقت گزار کر رخصت ہو جاتی ہے۔ لہٰذا صبر اور وقار کے ساتھ ان کاسامنا کرنا بہتر ہے۔ جو لوگ شوروغل کرتے ہیں ان کاوقت بھی کٹ جاتاہے، لیکن ایسے ان کا ظرف ظاہر ہو جاتا ہے۔
وقت آگے کی طرف بڑھتا ہے۔ ایک حادثہ ہو جانے کے بعد اس کی ’Management‘ (معالجہ اور دوا دارو کی تدبیر) کا خیال کرنا مفید ہوتاہے اور اس سے حادثے کے اثرات زائل کرنے میں مدد بھی ملتی ہے۔ لیکن اگر ہم محض حادثے کے اسباب پر غور کرتے رہیں، ایک دوسرے پر الزام دھرتے رہیں اور آیندہ وقت جو علاج کے کام آسکتا ہے، گنوا دین تو ایک حادثے سے کئی حادثے جنم لیں گے اور ہماری تکلیف کئی چند بڑھ جائے گی۔ خیال ماضی کا فائدہ تبھی ہے اگر وہ آیندہ بچاؤ کی تدبیر کا کام دے، لیکن اگر اس سے محض زخموں پر نمک پاشی ہی ہوتی ہو تو اس سے پرہیز کرنا بہتر ہے۔
ہانس (Clavicle) کا یہ سبق اس وقت میرے ذہن میں خوب تازہ ہے، مگر کچھ وقت گزرے گا کہ میں اسے بھول جاؤں گا۔ ایک ہلکی سی یاد میرے دل میں ہو گی پر بدن پر اثر نہ کرے گی الا کہ کوئی نیا حادثہ (Shock) یہ سبق یاد دلا دے۔ غیر معمولی حالات انسان کے جسم وجان پر گہرا اثر رکھتے ہیں اور کئی بھولے سبق یاد دلا دیتے ہیں، ورنہ حقائق کا ذہن سے محو ہو جانا شاید اس دنیا کا بڑا المیہ ہے۔
____________