خیال وخامہ
جاوید
O
اس پر ہوا ہے دہر میں اپنا سفر تمام
آشفتۂ فرنگ ہیں علم و ہنر تمام
عالم بھی تھا نگاہ میں ، لیکن زہے نصیب
اب اُن کی نذر کردیا ذوقِ نظر تمام
دیکھا ہے جب بھی حسن کو فطرت میں بے نقاب
زنداں لگے ہیں شہر کے دیوار و در تمام
اُس دن کی خیر جس میں بہ صد شوقِ آگہی
برپا ہوا یہ معرکۂ خیر و شر تمام
سنتے کہیں تو حسن و محبت کی داستاں
اِس شہر کے خطیب ہوئے نوحہ گر تمام
اپنے ہی سنگ وخشت سے ہر سُو اٹا ہوا
صدیوں سے دیکھتا ہوں تری رہ گزر تمام
بزمِ سخن میں تیرگی شب تھی روبرو
لایا ہوں اپنی خاک میں پنہاں شرر تمام
____________