یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ سیدنا مسیح اصلاً بنی اسرائیل کی طرف ہی مبعوث کیے گئے تھے(اٰل عمران ۳: ۴۹)۔ مگر ان لوگوں کی اکثریت نے آنجناب کا انکار کردیا ۔ تاہم بنی اسرائیل کا ایک گروہ آپ پر ایمان لے آیا۔قرآن نے تصریح کی ہے کہ یہی لوگ آخر کار غالب ہوئے(الصف ۶۱: ۱۴)۔ یہی وہ لوگ تھے جن کے زیر اثر عیسائیت سینٹ پال کی پھیلائی ہوئی گمراہیو ں کے باوجود توحید پر قائم رہی ۔ انھی لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک توحید کا علم سنبھالے رکھا۔ تاہم اس دوران میں گمراہ کن عیسائی فرقوں کے نظریات فروغ پاتے رہے اور سلطنت روما کی شکل میں انھیں اقتدارکا تحفظ بھی حاصل ہوگیا۔ دوسری طرف یہ موحدین عیسائی چھ صدیوں تک توحید کی خدمت سر انجام دینے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ملت اسلامیہ میں جذب ہوگئے۔ اس کے بعد جو عیسائیت بچی اس کا نام کے سوا سیدنا مسیح سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
بنی اسرائیل کی طرح بنی اسماعیل کا آغاز بھی ہدایت ربانی کی روشنی میں ہوا تھا۔ ان کے جد امجد یعنی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل ، دونوں جلیل القدر نبی تھے۔ ان کا ایک اضافی اعزاز یہ تھا کہ انھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے گھربیت اللہ کے پاس بسایا تھا۔ تاہم بنی اسرائیل کے برعکس ان کے درمیان نبی نہیں بھیجے گئے اور انھیں فطرت کے ماحول میں تقریباََ دو ہزار برس تک پروان چڑھاکر ایک قوم بنادیا گیا۔ ان کی حیثیت آج کی زبان میں بیک اپ (Back up) کی سی تھی۔ یعنی جب بنی اسرائیل اپنے منصب کو ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوجائیں توانھیں معزول کرکے امامت عالم کا منصب بنی اسماعیل کی طرف منتقل کیا جائے گا ۔جس طرح حضرت موسیٰ کو بنی اسرائیل میں مبعوث کرکے اللہ تعالیٰ نے ان سے عہد لیا تھا اسی طرح بنی اسماعیل میں اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری رسول اور نبی مبعوث کیا تاکہ اب یہ عہد ان سے باندھا جاسکے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حیثیت کہ وہ حضرت موسیٰ کی مانند ہیں ، بائیبل اور قرآن دونوں میں بیان ہوئی ہے (استثنا ۱۸:۱۵ ۔۱۸، المزمل ۷۳:۱۵)۔
چنانچہ رفع مسیح کے تقریباََ چھ صدیوں بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی اسماعیل کی طرف مبعوث کیا گیا۔آپ نے عرب کی قیادت یعنی قریش کے سامنے دین حق کی دعوت رکھی۔ قریش کی قیادت نے آپ کی دعوت رد کردی۔آپ چونکہ ایک رسول بھی تھے ، اس لیے آپ کے مخالفین پر اس قانون کا اطلاق ہوگیا جو ہم نے رسولوں کے ضمن میں اوپر بیان کیا ہے۔ یعنی اتمام حجت کے بعد آپ کے مخالفین کو موت کی سزا سنادی گئی۔ جنگ بدر میں قریش کی قیادت کو چن چن کر ختم کردیا گیا۔ اس کے بعد سات برس کی مختصر مدت میں پورے عرب پر آپ کا اقتدار قائم ہوگیا۔ تمام بنی اسماعیل آپ پر ایمان لے آئے۔ اسی دوران میں ان سے شریعت کا وہ عہد و پیمان لیا گیا جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے آخری درجہ میں اس عہد کو پورا کیا جس کے نتیجے میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دور تک پوری متمدن دنیا کا اقتدار انھیں سونپ دیا گیا۔یہی وہ دورہے جس میں بنی اسماعیل نے اپنی فتوحات کے ذریعے سے مشرکانہ اقتدار کو بالجبر مٹا ڈالااور انسانیت کے سامنے ایک حقیقی توحید پرستانہ معاشرہ کا نقشہ قائم کردیا۔
اس کے بعد کم وبیش اگلے ہزار سال اس نشیب و فراز کی داستان ہیں جو کہ بنی اسماعیل کی تاریخ میں آتے رہے۔ انھوں نے جب کبھی اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کی تو انھیں سخت سزا دی گئی اور جب جب خدا کی فرماں برداری کی روش اختیار کی تو خدا کی رحمت فوراََان کی طرف متوجہ ہوئی۔ انھیں عزت اقوامِ عالم پر غلبہ و اقتدار کی شکل میں دی گئی اور عذاب باہمی جنگوں اور بیرونی حملہ آوروں کی شکل میں دیا گیا۔
اوپر ہم بیان کرچکے ہیں کہ سیدنا ابراہیم کو جو مقام و مرتبہ ملا وہ آزمایش سے گزر کر ملا اور یہی آزمایش کا سلسلہ ان کی اولاد میں رکھ دیا گیا۔ بنی اسماعیل کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ابتدائی نسلوں میں توحید و شریعت سے وابستگی کے معاملے میں ان سے کوتاہی نہیں ہوئی ، البتہ اقتدار کا معاملہ ان کے لیے زبردست آزمایش بن گیا۔ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ خدا کی منشا بھی یہی تھی۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جانشین کی صراحت کیے بغیر دنیا سے رخصت ہوئے۔پہلی دفعہ جب یہ آزمایش سقیفہ بنی ساعدہ میں سامنے آئی تو صحابۂ کرام کی اکثریت ہونے کی بنا پر بنی اسماعیل بڑی کامیابی سے اس آزمایش سے سرخ رو ہوگئے۔ اس کا نتیجہ خدا کی غیرمعمولی نصرت کی شکل میں نکلا اور پوری متمدن دنیا پر بنی اسماعیل کا اقتدار قائم ہوگیا۔ تاہم اس کے بعد صحابۂ کرام کی تعداد کم ہوتی چلی گئی۔اور پھر جو ہوا وہ تاریخ کی ایک معلوم داستان ہے۔ اس کا نتیجہ بھی ایک معلوم حقیقت ہے۔ جب کبھی اس معاملے میں بنی اسماعیل نے درست رویہ اختیار کیا تو وہ آندھی طوفا ن کی طرح دنیا پر چھاتے چلے گئے اور جب کبھی انحراف کیاتو نہ صرف ان کی بیرونی یلغار رکی ، بلکہ ایک دوسرے کی تلواروں کا ذائقہ بھی انھیں چکھنا پڑا۔ اختصار کے پیش نظر ہم اس سلسلے کے نشیب و فراز کا اشارہ دینے پر ہی اکتفا کریں گے۔ان کی تفصیل بالعموم لوگوں کو معلوم ہے۔ شہادتِ عثمان اورخلافتِ راشدہ کے آخری ایام میں باہمی جنگ و جدل کا نشیب، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ(اس نام میں دو نقطے غلطی سے نہیں چھوٹے )کی عظیم قربانی کے بعد بنی اسماعیل کا عروج، یزید کی جانشینی کے بعد پھر خلفشار ، عبدالملک کے بعد کا استحکام اور عمر بن عبدالعزیز کے دور میں خلافتِ راشدہ کا احیا، یہ سب اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔
حضرت عمر بن عبد العزیزکو محض ڈھائی سال کے اندر زہر دے کر اقتدار سے ہٹادیا گیا۔ یہ بنی امیہ کا ایسا جرم تھا جس کے جواب میں خداوند بنی اسماعیل کے خدا نے ان پر عذاب کا کوڑا برسادیا۔آپ کے بعد بنو امیہ انتہائی مردم خیز ہونے کے باوجود کوئی بڑی فتح حاصل نہ کرسکے۔ پھرتھوڑے ہی عرصہ میں جس طرح بنو امیہ کو بنو عباس نے ان کے عین عروج میں اقتدار سے ہٹایا ہے ، وہ تاریخ کا انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے۔ہم سیاسی قیادت کے ضمن میں اس کی کچھ تفصیل پچھلے باب میں بیان کرچکے ہیں۔ بنو امیہ کے ایک ایک فردکو چن چن کر ہلاک کردیا گیا سوائے ایک اموی شہزادہ عبدا لرحمن کے جس کے ذریعے سے خدا نے بنوامیہ کو ایک موقع پھر عنایت کیا کہ وہ بنو اسماعیل کے سلسلۂ اقتدار کو مغرب میں پھیلائیں۔
دوسری صدی ہجری کے آغاز میں صورت حال یہ ہوچکی تھی کہ بنی اسماعیل کی ایک شاخ بنوامیہ اندلس میں حکمران تھی اور بقیہ عالم اسلام میں ان کی دوسری شاخ بنو عباس کا سکہ چل رہا تھا۔ہارون الرشید کے دور تک بنو عباس کے اقتدار کا سورج نصف النہار کو چھورہا تھااور قیصر روم کی حیثیت خلیفہ کے باج گزار کی تھی۔ دوسری طرف بنو امیہ کے عبدالرحمن کے دور تک جنوبی یورپ کی تمام عیسائی ریاستیں اپنے وجود کے لیے بنو امیہ کے نظرکرم کی محتاج تھیں۔ تاہم حدیث کے الفاظ میں جسے خیر القرون کہا گیا تھا ، وہ دور اب ختم ہونے لگا تھا۔ شریعت کی پاس داری اب ماضی کا قصہ بننے لگی اور توحید کے فروغ کے بجائے، یونانی افکار کے زیر اثر ، لایعنی مباحث اسلامی معاشرے کا موضوع سخن بن گئے۔اسی دور میں خلقِ قرآن کا فتنہ پیدا ہوا۔ مامون اور معتصم کے دور میں امام احمد بن حنبل کو بے پناہ سختیاں جھیلنی پڑیں۔رفتہ رفتہ صورت حال مزید خراب ہوئی ۔شریعت کی حقیقی پاس داری کی جگہ ظاہر پرستی اور توحید و آخرت کی جگہ دنیا پرستی نے لے لی۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا سے ان کارعب و وقار رخصت ہونا شروع ہوگیا۔ خلافت کی توسیع تو دور کی بات ہے خود بنو عباس دوسروں کی بیساکھیوں کے سہارے حکومت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ انھیں آخری سزا دینے سے قبل دو دفعہ تنبیہ کی گئی۔ پہلے مغربی صلیبی حملہ آوروں کے ذریعے شام و فلسطین کی تباہی کے ذریعے سے اور پھر مشرق سے تاتاریوں کے ہاتھوں خوارزم شاہ کی حکومت کی تباہی سے۔ انھوں نے دونوں کو نظر انداز کردیا۔آخرکار جب ان کے رویے میں اصلاح کا کوئی عنصر باقی نہ رہا تو خدائی عذاب ہلاکو خان کی شکل میں ان کی طرف متوجہ ہوا۔ بغداد میں آخری خلیفہ مستعصم کے ساتھ جو معاملہ ہوا ، وہ خدا کی بے لاگ سنت کا اظہار تھا۔
دوسری طرف بنی اسماعیل کی دوسری شاخ بنو امیہ نے بھی جب یہی رویہ اختیار کیا تو عیسائیوں کے ذریعے سے ان پر ویسا ہی عذابِ استیصال آیا۔ اور اندلس سے ان کا نام و نشان تک مٹادیاگیا۔ اس کے ساتھ ہی آل ابراہیم کے بارے میں خدا کا قانون فیصلہ کن طور پر نافذ ہوا۔
یہ بحث اس وقت تک مکمل نہ ہوگی جب تک کہ اس بات کی وضاحت نہ ہوجائے کہ کیا وجہ تھی کہ بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا نہ کرسکے۔ وہ کون سے امراض تھے جن کا لاحق ہونا امت امسلمہ کے لیے موت کا پیغام ثابت ہوتا ہے۔ تاہم اس سے قبل یہ واضح کرنا مناسب ہوگا کہ ہم آل براہیم اور امت مسلمہ کو متبادل اصطلاحات کے طور پر کیوں بیان کر رہے ہیں۔ اصل میں خدا کا عہد تو آل ابراہیم کے ساتھ ہی تھا ، مگر ان کے ساتھ دوسرے لوگ بھی شامل ہو گئے۔ اور یہی مطلوب بھی تھا کہ یہ لوگ حق کی شمع جلائیں اور دوسری اقوام ان سے فیض پائیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے ساتھ جن ’’پردیسی‘‘ لوگوں کا ذکر بائیبل میں ملتا ہے ،یہ وہی دوسری اقوام کے لوگ تھے۔اور بنی اسماعیل جو عربوں کے نام سے معروف تھے ، ان کے ساتھ عجمی مسلمان اسی حیثیت میں شامل تھے۔ یہ سب مل کر امت مسلمہ بناتے ہیں، مگر بغداد کی تباہی تک امت مسلمہ کی امامت و قیادت آل ابراہیم کے ہاتھ میں رہی ۔ اسی لیے ہم ان دونوں کو متبادل اصطلاحات کے طور پر استعما ل کرہے ہیں ۔
جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں امت مسلمہ کی اساس اصلاََ دو چیزوں پر ہوتی ہے۔ ایک توحید سے وفاداری اور دوسری شریعت کی پاس داری۔ ہر وہ بیماری جو ان دو وظیفوں کی راہ میں رکاوٹ بنے امت مسلمہ کے لیے تباہی کا پیغام لاتی ہے۔ قرآن و تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کو لگنے والا پہلا مرض جس نے انھیں بار بار توحید سے دور کیا ، وہ شرک تھا۔ اس دور کی بین الاقوامی تہذیب میں شرک جس طرح داخل تھا اور بالخصوص مصریوں کی غلامی میں رہنے کے بعد ان کے اذہان پر اس کے کتنے اثرات تھے ، اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انھوں نے مصر سے نکلتے ہی حضرت موسیٰ سے ایک خدا بنانے کی فرمایش کی (الاعراف ۷: ۱۳۸)۔ آپ کے طور پر جانے کے بعد بچھڑے کو خدا بنا بیٹھے(الاعراف ۷: ۱۴۸)، قرآن کے الفاظ میں ان کے دلوں میں بچھڑے کی محبت پلا دی گئی(البقرہ ۲: ۹۳)۔ شرک کے ان اثرات نے فلسطین میں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑااور انبیائے بنی اسرائیل نے اس معاملے میں جس طرح انھیں شدید تنبیہ کی ہے ، وہ بائبل میں جگہ جگہ دیکھی جاسکتی ہے ۔
ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ توحید کے فروغ کے جس مشن پر وہ مامور تھے ، انھوں نے بار بار اس سے روگردانی اختیار کی۔ ایک دوسرا مرض جو ان کو لاحق ہوا اور جو ان کی تاریخ کے آخری دور میں شرک سے بھی زیادہ بڑھ گیا ، وہ ظاہر پرستی کا تھا۔ اس نے انھیں شریعت کی پاس داری کی عظیم ذمہ داری کو پورا کرنے کے قابل نہ چھوڑا۔وہ شریعت اور اس کے مصالح کو چھوڑ کر فقہ کے ظاہری سانچے کے اسیر ہوگئے۔ قرآن ان کے اس فقہی سانچے کو بوجھ اور بیڑیوں سے تعبیر کرتا ہے (الاعراف۷:۱۵۷)۔ اس صورت حال کو اگر درست طور پر سمجھنا ہے تو ا س کے لیے انجیل کامطالعہ بے حد مفید ہوگا۔فقیہوں اور فریسیوں نے شریعت کے نام پر جو صورت حال پیدا کردی تھی سیدنا عیسٰی علیہ السلام نے اس پر شاہ کا ر تنقید کی ہے۔ تاہم یہودی علما اپنی اصلاح کے بجائے ان کے دشمن بن گئے اور ان کی جان کے درپے ہوگئے۔
کچھ ایسی ہی صورت حال بنی اسماعیل اور دیگر مسلمان اقوام کے ساتھ پیش آئی۔ شرک کے خلاف قرآن کا مورچہ اتنا مستحکم تھا کہ بنی اسماعیل میں وہ بآسانی داخل نہ ہوسکا۔تاہم اکابر پرستی کا مرض جس میں مبتلا ہوکر عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹاقرار دے دیا تھا ، اس امت میں بھی خوب پھیلا۔دورِ جدید میں شرک کی جگہ اب الحاد (atheism) نے لے لی ہے۔ موجودہ دور میں الحاد وہ رویہ بن گیا ہے جس میں براہِ راست خدا کا انکار نہ بھی کیا جائے تب بھی اپنی خواہشات کو معبود اور دنیا کی زندگی کو نصب العین بناکر جیا جاتا ہے۔ یہ رویہ اس امت میں بڑا عام رہا ہے ۔قرآن اس رویہ کو اس طرح بیان کرتا ہے:
’’کیا تم نے دیکھا اس شخص کو جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے۔اور جس کو اللہ نے، علم رکھتے ہوئے، گمراہ کردیااور اس کے کان اور اس کے دل پر مہر کردی۔اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا؟بھلا ایسوں کو کون ہدایت دے سکتا ہے، بعد اس کے کہ اللہ نے (اس کو گمراہ کردیا ہو)؟ کیا تم لوگ دھیان نہیں کرتے؟ اور وہ کہتے ہیں کہ ہماری زندگی تو اسی دنیا کی زندگی تک ہے۔(یہیں) ہم مرتے اور جیتے ہیں اور ہم کو بس گردشِ روزگار ہلاک کرتی ہے۔ اور ان کو اس باب میں کوئی علم نہیں ہے ، محض اٹکل کے تیر تکے چلارہے ہیں۔ ‘‘ (الجاثیہ ۴۵: ۲۳ ۔ ۲۴)
دنیا پرستی کی یہی وہ فکر ہے جس کی قرآن و حدیث میں سختی سے مذمت کی گئی ہے ۔کیونکہ یہ سوچ شرک کی طرح انسان کو توحید سے کاٹ دیتی ہے۔اس میں مبتلا ہونے کے بعد ایک مسلمان توحید و آخرت ، دونوں کے تقاضے بھول جاتا ہے۔
ظاہر پرستی کا مرض اس امت میں بنی اسرائیل کی طرح پوری شدت سے ظاہر ہوا۔ فقہ کا فن ایک بنیادی انسانی ضرورت تھا ۔ یہ ضرورت ابتدائی صدیوں میں اسلامی اقتدار کے غلبے کے ساتھ ہی تیزی سے نمودار ہوئی۔مگر تھوڑے عرصے میں ہی شریعت اور اس کے احکام کی روح فقہی انبار کے نیچے ایسی دبی کہ آج ہزار سال بعد کسی کو یہ سمجھانا بہت مشکل ہے کہ خدا کی بھیجی ہوئی مقدس شریعت ،جو خدا کے عہد ومیثاق کی بنیاد ہے، فقہ سے بلند تر چیز ہے ۔ لوگ فقہ کے انسانی کام اور مقدس شریعت میں جب فرق نہیں کرتے تو یہ بات وہ کیسے مان لیں کہ فقہی کام حالات سے متعلق ہوتا ہے اور شریعت مقدس اور غیر متبدل ہے۔ آہستہ آہستہ اس کے نتیجے میں شریعت ، اس کی روح اور اخلاقی اصول تو دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور فقہی موشگافیاں عین مطلوب بن جاتی ہے۔ غالباََ ایسی ہی صورت حال میں سیدنا مسیح نے یہ کہا ہوگا کہ تم لوگ مچھروں کو چھانتے ہو اور اونٹوں کو نگل جاتے ہو(متی ۲۳ :۲۴)۔
شرک و الحاد، اکابر پرستی وحب دنیا اور ظاہر پرستی ہی وہ امراض ہیں جو جب کبھی امت مسلمہ کو لاحق ہوتے ہیں ، اسے ان فرائض کی ادائیگی سے روک دیتے ہیں جن کے لیے اس کی تشکیل کی گئی ہے۔ یعنی توحید سے وفاداری اور شریعت کی پاس داری۔
ہم نے اوپر امت مسلمہ کی تاسیس کے پس منظر میں یہ واضح کیا ہے کہ آل ابراہیم کی ذمہ داری دہری تھی۔ایک یہ کہ شرک کو بالجبر ختم کرنا تاکہ لوگ حق کے ردوقبول کا فیصلہ آزادانہ بنیادوں پر کر سکیں۔دوسرے الہامی شریعت کی بنیاد پر ایک خدا پرستانہ معاشرے کا قیام تاکہ حق کی شمع لوگوں کی ہدایت کے لیے ہمیشہ روشن رہے۔یہ دوسری ذمہ داری غیر مشروط اور ہر حال میں مطلوب تھی ، جبکہ پہلی صرف نبیوں اور رسولوں کی رہنمائی میں ہی سر انجام دی گئی ۔ جنھوں نے یا تو خود اس کام کو خدا کی نگرانی میں سر انجام دیا یا باصراحت اپنی امتوں کو یہ بتایا کہ انھیں کن علاقوں میں شرک کو بالجبر ختم کرنا ہے۔۔ چنانچہ بائیبل میں فلسطین کے علاقہ کو بنی اسرائیل کا میدان عمل قرار دیاگیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف بادشاہوں کو خطوط لکھ کر صحابۂ کرام (بنی اسماعیل) کا میدان عمل طے کیا تھا۔موجودہ دور میں مشرقِ وسطیٰ اور اس کے قریبی علاقے ہی وہ جگہیں ہیں جو صحابۂ کرام کا میدان عمل تھیں اور جنھیں خلافت راشدہ میں فتح کرلیا گیا تھا۔تاہم ختم نبوت و رسالت کے بعدشرک کو بالجبر دنیا سے مٹانے کا معاملہ بھی ختم ہوگیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ذمہ داری صحابۂ کرام کو سونپی تھی جنھوں نے ہمیشہ کے لیے شرک کو اقتدار سے جدا کردیا ۔صحابۂ کرام کے بعد بھی بنی اسماعیل امت مسلمہ کی امامت کے منصب پر فائز رہے۔ بغداد و اسپین کے ساتھ یہ معاملہ بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا اور بنی ا سرائیل کی طرح بنی اسماعیل بھی آخر کار منصب امامت سے معزول کردیے گئے۔یوں تقریباََ تین ہزار سال تک جاری آل ابراہیم کی امامت کا یہ دور ختم ہوگیا۔
تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کل عالم کے لیے ہے اور آپ کی شریعت قیامت تک کے لیے آخری شریعت ہے ، اس لیے بہرحال اس کے وارث بنی اسماعیل کے خاتمہ کے بعد بھی باقی رہے۔اسی طرح امت مسلمہ پر ایک خدا پرستانہ معاشرے کے قیام کی غیر مشروط ذمہ داری بھی اپنی جگہ پورے طور پر باقی ہے۔ جہاں تک امت مسلمہ کی امامت کا تعلق ہے تو آل براہیم کے بعد اس کا انحصار اس عہد و پیما ن پر ہے جو کو ئی قوم خود آگے بڑھ کر خدا سے باندھ لے ۔ بنی اسماعیل کے بعد اب تک دو قوموں نے آگے بڑھ کر یہ عہد باندھا ہے۔ پہلی قوم ترک تھی۔ سلطان سلیم نے سن ۱۵۱۷ء میں مصر فتح کیا اور رسمی طور پر خلافت کا بار اپنے سر پر لے لیا۔ جس کے بعد وہ سیاسی اور روحانی طور پر امت مسلمہ کے امام قرار پائے۔ یہ ان کا عہد تھا جو انھوں نے خدا سے باندھ لیا تھا۔جب تک انھوں نے اس کا حق ادا کیا عروج ان کا مقدر رہا اور جب کوتاہی کی تو زوال کی کھائی میں انھیں گرناپڑا۔ کئی صدیوں تک یہ بار اٹھانے کے بعد کمال اتاترک کی قیادت میں ترکوں نے خلافت کا خاتمہ کرکے اس عہد کو رسمی طور پر ختم کردیا۔
جس وقت ترکی میں اتا ترک اسلام اور خلافت کو دیس نکالا دے رہے تھے، ہزاروں میل کے فاصلے پر واقع ہندوستان میں امت مسلمہ کاایک غلام گروہ ، خلافت کی بقا کے لیے اپنے انگریز آقاؤں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ایسی جنگ کے لیے جس میں انھیں کچھ نہیں ملنا تھا ، ان لوگوں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیا۔خلافت ختم ہوگئی۔ ان لوگوں کے ہاتھ عالم اسباب میں کچھ نہ آیا۔ مگر شاید ان کی بے پناہ قربانیوں کا اثر تھا کہ یہ قوم خدا کی نگاہ میں آگئی۔
آنے والے سالوں میں حیرت انگیز طور پر حالات اس قوم کے سیاسی اقتدار کے حق میں ہموار ہوتے چلے گئے ...جب اس قوم کی فکری و سیاسی قیادت ، عوام الناس اور بڑی حد تک مذہبی قیادت نے یک سو ہوکر خدا سے یہ عہد کیا کہ اگر وہ انھیں زمین میں اقتدار دے گا تو وہ اسلام کا بہترین نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں گے۔ یہ کم وبیش وہی صورت حال تھی جسے قرآن بنی اسماعیل کے حوالے سے یوں بیان کرتا ہے:
’’یہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو سر زمین میں اقتدار بخشیں گے تو وہ نماز کا اہتمام کریں گے، زکوٰۃ ادا کریں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے۔‘‘(الحج ۲۲: ۴۱)
اہل پاکستان کا معاملہ بھی یہی ہوگیا ۔صرف اس فرق کے ساتھ کہ اس دفعہ یہ بات خدا کی طرف سے نہیں کہی گئی ، بلکہ لوگ آگے بڑھے اور خدا سے یہ عہد کرلیا۔خدا نے ان کے قائدین کی درخواست منظور کرکے راہ کی ہر مشکل کو آسان کیا اور یوں دنیا کی سب سے بڑی مسلم حکومت اور پانچویں عظیم سلطنت کے طور پرپاکستان دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا۔اس طرح اہل پاکستان حضرت موسیٰ کی اس تنبیہ کا مصداق بن گئے جو انھوں نے اپنی غلام قوم یعنی بنی اسرائیل سے کہی تھی:
’’امید ہے کہ تمھارا رب تمہارے دشمن کو پامال کرے گا اور تم کو ملک کا وارث بنائے گاکہ دیکھے تم کیا روش اختیار کرتے ہو۔‘‘(الاعراف۷: ۱۲۹)
اگلے باب میں اسی قوم کے حالات و تاریخ کا ایک تجزیاتی مطالعہ ، عروج و زوال کے قوانین کی روشنی میں، ہمارے پیش نظر ہے۔
[باقی]
____________