مصنف: ہارون یحییٰ ،
مترجم: علیم احمد،
ضخامت: ۱۹۱،
قیمت:۱۵۰،
ناشر: گلوبل سائنس ملٹی پبلی کیشنز، ۱۳۹۔سنی پلازہ، حسرت موہانی روڈ، کراچی ۷۴۲۰۰۔
خدا کا تصوراس دنیا میں انسا ن کے جینے کی سب سے بڑی اساس ہے۔ نظری طور پر تو خدا کے وجود کے بارے میں ایک سے زیادہ آرا موجود رہی ہیں مگر عملاََ انسانوں کی غالب ترین اکثریت ہمیشہ کسی مافوق الفطری طاقت کو مانتی رہی ہے۔نبیوں نے ہر دور میں آکر لوگوں کو یہ بتایا کہ یہ طاقت اور یہ ہستی اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات ہے۔ تاہم یورپی نشاہ ثانیہ میں مذہبی جمود اور انتہا پسندی کے ردعمل کے طور پر مذہب اور خدا کی گرفت انسانوں پر ڈھیلی پڑگئی اور مادہ پرستی کا چلن عام ہونے لگا۔بالخصوص انیسویں صدی میں سائنسی ترقی جس مقام پر پہنچی اس نے کم و بیش یہ بات طے کردی کہ خدا کا تصور ماضی کا ایک افسانہ تھا جوتوہم پرست انسانوں نے اپنی کم علمی کی بنا پر گھڑ لیا تھا۔یہ کائنات اور جو کچھ اس میں نظر آتا ہے وہ محض بخت و اتفاق کی کار فرمائی ہے جس کے پیچھے کوئی شعور اور ارادہ موجود نہیں۔
یہ صورت حال زیادہ عرصے تک جاری نہ رہ سکی۔بیسویں صدی میں سائنسی تحقیقات نے جو رخ اختیار کیا وہ بالکل برعکس نتائج دینے لگا۔فطرت کے مطالعے کے جدید ترین آلات جب وجود میں آئے تو معلوم ہوا کہ یہ کائنات جن اصولوں پر چل رہی ہے وہ اتنے محکم اور منظم ہیں کہ یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے پسِ پشت کوئی خارجی ارادہ کام نہ کرہا ہو۔ کائنات کا یہ ربط و نظم اتنا حیرتناک تھا کہ اسے صرف کوئی اندھا ہی نظر نداز کرسکتا تھا۔ اسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوے آئن اسٹائن نے کہاتھا:
"There are only two ways to live your life. One is as though nothing is a miracle. The other is as though everything is a miracle."
’’زندگی گزارنے کی دو ہی سطحیں ممکن ہیں۔ ایک وہ جس میں کوئی چیز معجزہ نہیں لگتی۔ دوسری وہ جس میں ہر چیز معجزہ لگتی ہے۔‘‘
دورِ جدید کی ان دریافتوں کی بنیاد پر متعدد غیر مسلم اور مسلم اسکالرز نے مادیت پرستی اور الحاد کے خلاف علمی جنگ کی ہے۔ان میں سے ایک ممتاز نام جناب ہارون یحییٰ کا ہے۔ترکی سے تعلق رکھنے والے ہارون یحییٰ نے یوں تو متعدد میدانوں میں اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں مگرانکا خاص میدان ، جو ان کی اصل وجۂ شہرت بھی ہے ،سائنسی حقائق کے ذریعے خدا کے وجوداور قرآن کی حقانیت کا اثبات ہے۔انہوں نے مثبت طور پر یہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ ان نظریات کے ابطال پر بھی بڑا کام کیا ہے جو انکارِ خدا اور مادیت پرستی کی علمی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا اور مشہور نظریہ ارتقاء کا ہے۔چنانچہ سائنسی بنیادوں پر اس کا رد مصنف کا خصوصی شعبہ رہا ہے۔ اپنے اس کام کو وہ محض ایک تحقیقی عالم کے مقام سے سر انجام نہیں دے رہے بلکہ اسے ایک مشن کے طور ر چلارہے ہیں۔اس مقصد کے لیے انہوں نے ترکی میں ایک ادارہ ’’سائنس ریسرچ فاؤنڈیشن ‘‘کے نام سے قائم کیا ہے جو بین اقوامی سطح کی کانفرنسیں منعقد کرتا رہتاہے۔کتابوں کے علاوہ مصنف نے آڈیو، ویڈیو، سی ڈی اور ویب سائٹس وغیرہ کے ذریعے اس کام کو بڑے پیمانے پر پھیلایا ہے۔ ان کی اس کاوش کو بین القوامی طور پر بڑی پزیرائی حاصل ہوئی ہے۔دنیا بھر کے ممتاز ٹی وی چینلز ان کے ویڈیو دکھاتے ہیں۔ ان کے مضامین اہم جرائد و رسائل اور ویب سائٹس کی زینت بنتے ہیں۔انہوں نے ۱۷۰ سے زائد کتب تحریر کی ہیں اور دنیا کی بیس زبانوں میں ان کی کتابوں کا ترجمہ ہوچکاہے۔ جس میں ہماری اردو زبان بھی شامل ہے۔
زیرِ نظر مضمون میں ہم ان کی کتاب The Creation of The Universe کے اردو ترجمہ کا ایک تعارف قارئین کے سامنے پیش کررہے ہیں جو حال ہی میں ’’گلوبل سائنس ملٹی پبلی کیشنز‘‘نامی ادارے نے کیا ہے۔مترجم علیم احمد ہیں۔جنہوں نے بہت عمدہ طریقے سے ایک مشکل موضوع کا سادہ ، آسان اور رواں ترجمہ کیا ہے۔ترجمے میں بعض اضافے اور تصیحات بھی کی گئیں ہیں جو مصنف ہارون یحییٰ کی نظرِ ثانی کے بعد کتاب کا حصہ بنادی گئی ہیں۔
کتاب آٹھ ابواب ، تعارفی اور اختتامی مباحث اور ایک خصوصی ضمیمہ پر مشتمل ہے جو نظرےۂ ارتقا کے رد میں لکھا گیا ہے۔کتاب کے آخر میں اشاریہّ (Index) بھی دیا گیا ہے۔کتاب کا آغازبگ بینگ (Big Bang)کے اس دھماکے کی تفصیلات سے ہوتا ہے جس کے نتیجے میں کائنات وجود میں آئی۔پھر ایک ایک کرکے کائنات کے مختلف مظاہرمثلاََ ایٹم، آسمان، زمین ، پانی، روشنی وغیرہ کا بیان ہے۔ مصنف کا طریقہ یہ ہے کہ ہر باب کے آغاز میں پہلے کسی سائنس دان کی رائے نقل کی جاتی ہے ۔ یہ سائنسدان متلعقہ شعبے کا کوئی ماہر ہوتا ہے ۔اپنے علم کی روشنی میں وہ جو رائے بیان کرتا ہے اس سے فاضل مصنف کے استدلال کو تقویت ملتی ہے۔ اس کے بعد مصنف سائنسی تحقیقات کی روشنی میں بالتفصیل یہ بیان کرتے ہیں کہ کائنات میں کوئی واقعہ کس طرح رونما ہورہا ہے۔وہ سائنسی حقائق بیان کرتے ہوئے اس مظہر میں کارفرمانظم اور اور ربط واضح کرتے ہیں۔جس سے یہ بات بالکل نمایاں ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ اس سب کے پیچھے ایک ارادہ اور شعور کام کررہا ہے۔ باب کے آخر میں مصنف قرآن کی کچھ متعلقہ آیات بیان کرتے ہیں جو واضح کردیتی ہیں کہ یہ ارادہ اور شعور خدا کا ہے۔
کتاب کا بنیادی خیال مادہ پرستوں کی ان دونوں دلیلوں کی بے معنویت واضح کرنا ہے جن کی بنیاد پر انکارِ خدا کا تصور عام ہوا۔یعنی کائنات ہمیشہ سے ہے اور اس زمین پر نظر آنے والی زندگی کسی اتفاق کا نتیجہ ہے۔ وہ جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں یہ واضح کرتے ہیں کہ یہ کائنات ابدی نہیں بلکہ ابدی خدا کی تخلیق ہے۔اسی طرح یہاں موجود زندگی اتفاق سے وجود میں نہیں آئی بلکہ ان موزوں حالات کا نتیجہ ہے جو ایک خالق نے یہاں قائم کررکھے ہیں۔
مصنف کی پوری کتاب انہی دو باتوں کی تفصیل کرتی ہے۔وہ کتاب میں مختلف مظاہر کائنات کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے اپنے نقطۂ نظر کو سائنسی بنیادوں پر ثابت کرتے ہیں۔ ان کے استدلال کا اندازہ درج ذیل اقتباس سے کیا جاسکتا ہے جو کتاب کے آخر ی باب سے لیا گیا ہے ۔جہاں وہ اپنے دلائل کا خلاصہ بیان کرتے ہیں۔
’’بگ بینگ سے ہونے والے کائناتی پھیلاؤ سے لے کر ایٹموں کے طبیعی توازنوں تک، چاروں کائناتی قوتوں میں مضبوطی کے فرق سے لے کر ستاروں میں بھاری عناصر کی تیاری تک، خلا کی جہتوں میں عیاں پراسراریت سے لے کر نظام شمسی کی ترتیب و تنظیم تک۔۔۔ہم کائنات کے جس گوشے کی طرف بھی نظر اٹھاتے ہیں، وہاں ہمیں ایک جچا تلا اور غیر معمولی نظم و ضبط دکھائی دیتا ہے۔۔۔مختصر یہ کہ ہے جب بھی ہم کائنات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہمارا سامنا ایک غیر معمولی صورت گری سے ہوتا ہے۔جس کا مقصد انسانی حیات کی نشوونما کرنا اور اسے تحفظ فراہم کرنا ہے۔۔۔اس صورت گری کے نتائج بھی بہت واضح ہیں۔ کائنات کی تمام تر جزئیات میں پوشیدہ یہی ڈیزائن یقینی طور پر ایک عظیم ترین خالق کی موجودگی کا ثبوت ہے جو کائنات کے ایک ایک جز کو قابو کیے ہوئے ہے۔اور جس کی قدرت اور دانائی لامحدود ہے۔ بگ بینگ کے نظریے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وہی خالق ہے جس نے کائنات کو عدم سے تخلیق کیا۔‘‘(صفحہ ۱۴۲ تا ۱۴۳)
جیسا کہ مندرجہ بالا اقتباس سے ظاہر ہے کہ مصنف نے کائنات میں موجود نظم(Design) کو اپنے بنیادی استدلال کے طور پر پیش کیا ہے۔مصنف کے اس استدلال کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دور جدید کے عظیم ملحد فلسفی برٹینڈ رسل نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب Why I am not a Cristian کے دیباچے میں میں اسی Argument of Design کو خدا کے وجود پر سب سے مضبوط دلیل قرار دیاہے۔گو وہ ڈارون کے نظرےۂ ارتقا کی بنیاد پر اس دلیل کو رد کرتا ہے مگر جیسا کہ قارئین دیکھیں گے کہ مصنف نے کتاب کے آخر میں نظرےۂ ارتقا کی عدم صحت کے تمام دلائل بخوبی جمع کردیے ہیں۔جہاں تک نظم کے استدلال کی مضبوطی کا تعلق ہے تو قارئین کو اس کا اندازہ اس وقت ہوگا جب وہ کتاب میں دی گئی ان تفصیلات کو پڑھیں گے جو کائنات میں موجود نظم کے حوالے سے مصنف نے جمع کی ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ خدا کے وجود کے حق میں جدید سائنس نے اتنی شہادتیں جمع کردی ہیں کہ خدا کو کو نہ ماننا اب سائنس نہیں بلکہ توہم پرستی کی بنیادوں پر ہی ممکن ہے۔اس بات کو بیان کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں۔
’’آج نوبت یہ آگئی ہے کہ مادہ پرستی بجائے خود توہمات اور غیر سائنسی عقیدے پر مشتمل نظام میں تبدیل ہوچکی ہے۔امریکی ماہرِ جینیات رابرٹ گرفتھس اس روش کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ہمیں بحث کرنے کے لیے کسی ملحد کی ضرورت پڑی تو میں شعبۂ فلسفہ کا رخ کروں گا۔ اس کام کے لیے شعبۂ طبیعیات کچھ کام کا نہیں۔‘‘(صفحہ ۳۶)
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کے متوقع قارئین کی توجہ بعض باتوں کی طرف مبذول کرادی جائے۔موجودہ دور میں مادیت پرستی نے جس طرح پوری دنیا کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے اس میں لوگ خدا کو مان کر بھی اس کا انکار کردیتے ہیں۔یہ کتاب پڑھ کر لوگوں کا اندازہ ہوگا کہ جس ہستی کو خدا کہا جاتا ہے وہ کس قدر طاقتور، ہیبت ناک حد تک بلند و عظیم اور صاحب جبروت و صاحب اقتدار ہے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی اندازہ ہوگا کہ کیسی حکیم ،علیم ، کریم ، حلیم اور مہربان ہستی ہے۔جب کوئی صاحب دل انسان ایسی کسی چیز کا مطالعہ کرتا ہے تو اس سے فوری طور پر صرف دو درعمل متوقع ہیں۔ یا تو اس کی زبان بند ہوجائے گی، ہونٹ سل جائیں گے اور وہ گنگ ہوکر رہ جائے گا۔ یا پھر وہ اس طرح چیخیں مار کر روئے گا کہ ہچکیاں اور آنسو تھمنے کا نام نہ لیں گے۔بیشک اللہ کے بندوں میں سے وہی اس سے ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔
بدقسمتی سے آج کا مسلمان ایسی چیزوں سے بھی بڑی غلط غذا لیتا ہے۔ ایسی کتابیں مسلمانوں میں صرف اس لیے مقبول ہیں کہ وہ انکے جذبہ فخر کی تسکین کرتی ہیں۔ مسلمانوں پر ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ پیدائشی طور پر حق پر ہیں اور باقی تمام لوگ باطل پر ہیں۔حالانکہ قرآن ایسی صورتحال میں عقل والوں کا رویہ یوں بیان کرتا ہے کائنات میں خدا کی نشانیاں دیکھ کر ان کاذہن بے اختیار آخرت کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’بے شک آسمانوں اور زمین کی خلقت اور رات اور دن کی آمد و شد میں اہل عقل کے لیے بہت سے نشانیاں ہیں۔ ان کے لیے جو کھڑے، بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر خدا کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی خلقت پر غور کرتے رہتے ہیں۔(وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ ) اے ہمارے پروردگار تونے یہ کارخانہ بے مقصد پیدا نہیں کیا ہے۔ تو اس بات سے پاک ہے (کہ کوئی کام بے وجہ کرے)۔ سو تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔‘‘(آل عمران ۳: ۱۹۰۔۱۹۱)
ہم نے برسرِ موقع یہ تنبیہات اس لیے کیں کہ کتاب کے تعارف کے ساتھ کتاب پڑھنے کا صحیح طریقہ بھی واضح رہے۔
کتاب ان قارئین کے لیے تھوڑی سی مشکل ثابت ہوگی جن کی ابتدائی تعلیم سائنس میں نہیں ہوئی۔ گو تصاویر، سادہ زبان اور عام فہم مثالوں کے ذریعے یہ مشکل کافی حل ہوجاتی ہے۔کتاب کا سرورق عمدہ ، کاغذ اور طباعت کا معیار بہت اعلیٰ ہے۔البتہ فونٹ قدرے چھوٹا ہے جس سے بعض لوگوں کو پڑھنے میں دقت پیش آسکتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کتاب اپنے مقصد کے اعتبار سے ایک انتہائی کامیاب تصنیف ہے۔ ضروری ہے کہ اسے جدید تعلیم یافتہ طبقے تک پہنچایا جائے۔
____________