بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ )
وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْٓئٍ ، وَلَا یَحِلُّ لَھُنَّ اَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِیْٓ اَرْحَامِھِنَّ ، اِنْ کُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ، وَبُعُوْلَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ، اِنْ اَرَادُوْ ٓاِصْلَاحاً، وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ، وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ، وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔ {۲۲۸}
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍوَلَایَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ شَیْأً ، اِلَّا ٓاَنْ یَّخَافَآ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ، فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ، فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ ، تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَا، وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ ، فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ{۲۲۹}
اور (یہ دوسری صورت پیدا ہوجائے تو) جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو ، وہ اپنے آپ کو تین حیض ۶۰۰ تک انتظار کرائیں ۔ ۶۰۱ اور اگر وہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں تو اُن کے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ اللہ نے اُن کے پیٹ میں پیدا کیا ہے ، اُسے چھپا ئیں ۔ ۶۰۲ اور اُن کے شوہر اگر معاملات کی اصلاح چاہیں ۶۰۳ تو اِس (عدت کے ) دوران میں زیادہ حق دار ہیں کہ اُنھیں لوٹا لیں اور (یہ اِس لیے ہے کہ اِس میں تو شبہ نہیں کہ) اِن عورتوں پر دستور کے مطابق جس طرح (شوہروں کے) حقوق ہیں، اُسی طرح اُن کے بھی حقوق ہیں ، ۶۰۴ لیکن مردوں کے لیے (شوہر کی حیثیت سے) اُن پر ایک درجہ ترجیح کا ہے ۔ ۶۰۵ (یہ اللہ کا حکم ہے) اور اللہ زبردست ہے ، وہ بڑی حکمت والا ہے۔۶۰۶ ۲۲۸
یہ طلاق (ایک رشتۂ نکاح میں) دو مرتبہ (دی جا سکتی ) ہے ۔ ۶۰۷ اِس کے بعد پھر بھلے طریقے سے روک لینا ہے یا خوبی کے ساتھ رخصت کر دینا ہے ۔ اور (رخصت کر دینے کا فیصلہ ہو تو) تمھارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم نے اِن (عورتوں) کو دیا ہے ، اُس میں سے کچھ بھی (اِس موقع پر) واپس لو۔ ۶۰۸ یہ صورت ، البتہ مستثنیٰ ہے کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ وہ حدود الہٰی پر قائم نہ رہ سکیں گے ۔ پھر اگر تمھیں بھی اندیشہ ہو کہ وہ حدود الہٰی پر قائم نہیں رہ سکتے تو (شوہر کی دی ہوئی) اُن چیزوں کے معاملے میں اُن دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہے جو عورت فدیے میں دے کر طلاق حاصل کر لے ۔ ۶۰۹ یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں ، سو اِن سے آگے نہ بڑھو اور (جان لو کہ)جو اللہ کے حدود سے آگے بڑھتے ہیں ، وہی ظالم ہیں ۔ ۶۱۰ ۲۲۹
۶۰۰؎ اصل میں لفظ ’قروء‘ آیا ہے ۔ یہ ’قرء‘ کی جمع ہے ۔ عربی زبان میں یہ لفظ جس طرح حیض کے معنی کے لیے آتا ہے ، اسی طرح طہر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ میں اس کی تحقیق یہ بیان فرمائی ہے :
’’اس کے اصل مادہ اور اس کے مشتقات پر ہم نے جس قدر غور کیا ہے ، اس سے ہمارا رجحان اسی بات کی طرف ہے کہ اس کے اصل معنی تو حیض ہی کے ہیں ، لیکن چونکہ ہر حیض کے ساتھ طہر بھی لازماً لگا ہوا ہے ، اس وجہ سے عام بول چال میں اس سے طہر کو بھی تعبیر کر دیتے ہیں ، جس طرح رات کے لفظ سے اس کے ساتھ لگے ہوئے دن کو یا دن کے لفظ سے اس کے ساتھ لگی ہوئی رات کو ۔ اس قسم کے استعمال کی مثالیں ہر زبان میں مل سکتی ہیں ۔ ‘‘ (۱/ ۵۳۲)
ہم نے اسے حیض کے معنی میں لیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں اصل مسئلہ ہی یہ متعین کرنے کا ہے کہ عورت حاملہ ہے یا نہیں ، اور اس کا فیصلہ حیض سے ہوتا ہے ، نہ کہ طہر سے ۔ پھراس کے لیے توقف کی مدت مقرر کی گئی ہے اور یہ بھی حیض سے بالکل متعین ہو جاتی ہے ، اس لیے کہ اس کی ابتدا کے بارے میں کسی کو کوئی شبہ نہیں ہوتا۔
۶۰۱؎ سورۂ طلاق میں جس عدت کے لحاظ سے طلاق دینے کا حکم دیا گیا ہے ، یہ قرآن نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ وہ تین حیض ہے ۔ عام حالات میں عدت یہی ہے ۔ عورت کی بعض دوسری حالتوں کے لحاظ سے اس کے احکام سورۂ طلاق (۶۵) کی آیات ۱۔۷ اور سورۂ احزاب (۳۳) کی آیت ۴۹ میں بیان ہوئے ہیں ۔
۶۰۲؎ عدت کا حکم دیا ہی اس لیے گیا ہے کہ عورت کے حاملہ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہو جائے ۔ لہٰذاوہ اگر اپنے پیٹ کی حالت چھپائے گی تو اس سے ان تمام مصالح کو سخت نقصان پہنچے گا جو اللہ تعالیٰ نے اس حکم میں ملحوظ رکھے ہیں ۔
۶۰۳؎ شوہر کے لیے رجوع کا جو حق اس آیت میں بیان ہوا ہے ، اس پر یہ شرط اس لیے عائد کی گئی ہے کہ رجوع اس ارادے سے نہیں ہونا چاہیے کہ بیوی کو اپنی خواہش کے مطابق اذیت دی جا سکے ، بلکہ محبت اور سازگاری کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے ہونا چاہیے ۔
۶۰۴؎ عورتوں کے ان حقوق و فرائض کی تفصیل اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء (۴) کی آیات ۱۹اور ۳۴ میں فرمائی ہے ۔
۶۰۵؎ یعنی طلاق سے رجوع کا یہ حق شوہر کو اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ خاندان کا قوام ہے اور قوام کی حیثیت سے خاندان کے نظم کو قائم رکھنے کے لیے یہ حق اسے لازماً حاصل ہونا چاہیے ۔
۶۰۶؎ اس طرح کے معاملات چونکہ جذبات پر مبنی اقدامات اور افراط و تفریط کے رویوں کا باعث بن سکتے ہیں اور لوگ اس میں چند در چند غلطیوں کا ارتکاب کر سکتے ہیں ، اس لیے آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنی دو صفات ـــــ عزیزو حکیم ــــــ کا حوالہ دیا ہے ۔ استاذ امام ان کی وضاحت میں لکھتے ہیں :
’’خدا عزیز ہے ، اس وجہ سے اسی کو حق ہے کہ وہ حکم دے اور وہ حکیم ہے ، اس وجہ سے جو حکم بھی اس نے دیا ہے ، وہ سراسر حکمت پر مبنی ہے۔ بندوں کا کام یہ ہے کہ ا س کے احکام کی بے چون و چرا اطاعت کریں۔ اگر وہ اس کے احکام کی مخالفت کریں گے تو اس کی غیرت و عزت کو چیلنج کریں گے اور اس کے عذاب کو دعوت دیں گے اور اگر خدا سے زیادہ حکیم اور مصلحت شناس ہونے کے خبط میں مبتلا ہوں گے تو خود اپنے ہاتھوں اپنے قانون اور نظام ، سب کا تیا پانچا کر کے رکھ دیں گے۔‘‘(تدبر قرآن ۱/ ۵۳۳)
۶۰۷؎ یعنی یہ طلاق جس کا ذکر اوپر ہوا ہے اور جس میں شوہر اپنا یہ فیصلہ زمانۂ عدت میں واپس لے سکتا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ طلاق کے بعد اگر کسی شخص نے رجوع کر لیا ہے اور اس کے بعد بھی نباہ نہیں ہو سکاتو اسی رشتۂ نکاح میں اس کو ایک مرتبہ پھر اسی طرح طلاق دے کر عدت کے دوران میں رجوع کر لینے کا حق حاصل ہے ، لیکن ایک رشتۂ نکاح میں دو مرتبہ اس طرح طلاق اور طلاق سے رجوع کے بعد یہ حق کسی شخص کے لیے باقی نہیں رہتا۔
۶۰۸؎ اچھے طریقے سے رخصت کر دینے کی جو ہدایت اس سے پہلے بیان ہوئی ہے ، یہ اس کی وضاحت ہے کہ بیوی کو کوئی مال ، جائداد ، زیورات اور ملبوسات وغیرہ ، خواہ کتنی ہی مالیت کے ہوں ، اگر تحفے کے طور پر دیے گئے ہیں تو اس موقع پر ان کا واپس لینا شوہر کے لیے جائز نہیں ہے ۔ نان نفقہ او رمہر تو عورت کا حق ہے ، ان کے واپس لینے یا کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کے علاوہ جو چیزیں دی گئی ہوں ، ان کے بارے میں بھی قرآن کا حکم ہے کہ وہ ہرگز واپس نہیں لی جا سکتیں۔
۶۰۹؎ یہ دی ہوئی چیزیں نہ لینے کے حکم سے استثنا ہے کہ میاں بیوی میں اگر حدود الہٰی کے مطابق نباہ ممکن نہ رہے ، معاشرے کے ارباب حل و عقد بھی یہی محسوس کریں ، لیکن میاں صرف اس لیے طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو کہ اس کے دیے ہوئے اموال بھی ساتھ ہی جائیں گے تو بیوی یہ اموال یا ان کا کچھ حصہ واپس کر کے شوہر سے طلاق لے سکتی ہے ۔ اس طرح کی صورت حال اگر کبھی پیدا ہو جائے تو شوہر کے لیے اسے لینا ممنوع نہیں ہے ۔
۶۱۰؎ یہ جملہ اوپر کے تمام احکام و ہدایات سے متعلق ہے ۔ استاذ امام اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں :
’’فرمایا کہ یہ تمھاری ازدواجی زندگی سے متعلق خدا کی حد بندیاں ہیں ، جس طرح تم اپنے رقبوں اور اپنی چراگاہوں کے اردگرد حدبندیاں کرتے ہو اور یہ نہیں چاہتے کہ کوئی ان حدوں کو توڑے اور اگر کوئی ان حدود میں مداخلت کرتا ہے تو تم اس کو اپنی ملکیت میں مداخلت اور اپنی عزت و غیرت کے لیے ایک چیلنج سمجھتے ہو ، اسی طرح خدا نے بھی اپنے محارم کے ارد گرد یہ حدیں قائم کر دی ہیں ۔ تم ان سے باہر آزاد ہو ، لیکن ان کے اندرتمھیں مداخلت کی اجازت نہیں ہے ۔ اگر کسی نے ان حدوں کو توڑنے یا لانگنے کی جسارت کی تو وہ یاد رکھیں کہ وہی لوگ ظالم ہیں ۔ یعنی اس کے نتیجے میں جو کچھ اس دنیا میں یا آخرت میں ان کے سامنے آئے گا ، اس کی ساری ذمہ داری خود انھیں پر ہے ، خدا پر نہیں ہے اور اس سے وہ اپنی ہی جانوں پر ظلم ڈھائیں گے ، خدا کا کچھ نہیں بگاڑیں گے ۔ خدا کے قوانین تمام تر فطرت انسانی کے تقاضوں اور بندوں کے اپنے مصالح پر مبنی ہیں ۔ اسی وجہ سے جو لوگ ان کو توڑتے ہیں ، وہ اپنی ہی فطرت اور اپنے ہی مصالح کی دھجیاں خود اپنے ہی ہاتھوں بکھیرتے ہیں۔ ‘‘(تدبر قرآن ۱/ ۵۳۶)
[باقی]
ــــــــــــــــــــــ