(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: ۱۰۶۔۱۰۷)
عن ابن عمر رضی اﷲ عنہ قال: سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقول: یکون فی أمتی خسف و مسخ ۔ وذلک فی المکذبین فی القدر۔
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت کے (بعض گروہوں کے) لیے زمین میں دھنسا دینے اور شکل بگاڑ دینے کی سزا ہوگی۔ اور یہ معاملہ تقدیر کے منکروں کے ساتھ ہو گا۔‘‘
خسف: ’خسف‘ کے معنی زمین میں دھنسا دینے کے ہیں۔ شارحین نے اس روایت میں اس کا اطلاق قارون کے لیے اختیار کیے گئے طریقے پر بھی کیا ہے اور ’خسف القمر‘ کی رعایت سے چہرے اور جسم کا سیاہ ہونا بھی مراد لیا ہے۔ بعض شارحین اسے آخرت سے متعلق کرتے ہیں اور ان کے نزدیک ’یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ‘ (آل عمران۳: ۱۰۶) کے تحت اس سے اس دن چہرے سیاہ پڑنا مراد ہے ۔
مسخ: ’مسخ‘ کا مطلب صورت بگاڑنا ہے۔ شارحین نے اس کا اطلاق بھی ظاہری جسم کی تبدیلی، دل کی بربادی اور آخرت میں ناکامی پر کیا ہے۔ یعنی بعض کے نزدیک اس سے بندر اور سؤر بنانے کے طریقے پر شکل کی تبدیلی مراد ہے ۔ بعض کے نزدیک دل کا مسخ ہونا مراد ہے ۔ مطلب یہ کہ دل نور ہدایت سے محروم ہو جائے گا۔اور آخرت میں وہ مسخ کا اطلاق پل صراط سے جہنم میں گرنے پر کرتے ہیں۔
متون
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی یہ روایت ترمذی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں نقل ہوئی ہے۔ صرف اسی روایت میں یہ تصریح ہے کہ ’خسف اور مسخ‘ کی سزا منکرین قدر کو دی جائے گی ۔
اس روایت کے متون میں کوئی اہم فرق نہیں ہے۔ابن ماجہ کی روایت میں ’خسف‘ اور ’مسخ ‘کے ساتھ ’قذف‘ کا بھی ذکر ہے۔ منقولہ بالا روایت میں منکرین قدر کے لیے ’مکذبین فی القدر ‘کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ ابن ماجہ میں ان کے لیے صرف ’اہل القدر‘ کے الفاظ آئے ہیں۔احمد کی روایت میں قدریہ کے ساتھ زندیقیہ کا بھی ذکر ہے۔
خسف و مسخ کے وقوع کے بارے میں کتب حدیث میں ایک اور روایت بھی موجود ہے۔اس روایت کا مضمون ایک دوسری بات بیان کرتا ہے۔ ہم یہاں اس روایت کا ایک مفصل متن نقل کر رہے ہیں:
عن عائشۃ قالت: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یکون فی آخر الأمۃ خسف ومسخ وقذف۰ قالت: قلت: یارسول اﷲ، أنہلک وفینا الصالحون؟ قال: نعم، إذا ظہر الخبث.(ترمذی، رقم ۲۱۱۱)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس امت کے آخر میں زمین میں دھنسنے، شکلوں کے بگڑنے اور پتھروں کی مار کے واقعات پیش آئیں گے۔ کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ سے پوچھا: کیا ہم ہلاک ہو جائیں گے جب کہ ہمارے درمیان صالحین موجود ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، جب برائی غالب ہو جائے گی۔‘‘
اسی مضمون کی حامل ایک اور روایت میں برائی کے غلبے کی مجمل تعبیر کے بجائے گانے والیوں ، موسیقی اور شراب نوشی کی مجلسیں عام ہو جائیں گی کے واضح الفاظ آئے ہیں۔
کتب روایت میں اس حوالے سے ایک ایسی روایت بھی منقول ہے جس میں اس امت کے لیے خسف و مسخ کے نہ ہونے کی نوید ہے:
عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قال: دعوت اﷲ أن یرفع عن أمتی أربعا۰ فرفع عنہم ثنتین وأبی أن یرفع عنہم اثنتین۰ دعوت اﷲ أن یرفع عنہم الرجم من السماء والخسف من الأرض وأن لا یلبسہم شیعا ولا یذیق بعضہم بأس بعض۰ فرفع اﷲ عنہم الخسف والرجم وأبی أن یرفع الأخریین.(بحوالہ فتح الباری ۸/ ۲۹۲)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ ان سے چاروں ۱ اٹھا لے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دو اٹھالیں اور دو کو اٹھانے سے انکار کر دیا۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ وہ ان سے آسمان سے سنگ باری اور زمین میں دھنسنا اٹھا لے اور ان کو گروہ در گرو ہ کرکے آپس میں نہ بڑھا دے اور نہ انھیں ایک دوسرے کے تشدد کا مزا چکھائے۔ ( میری دعا کے نتیجے میں ) اللہ تعالیٰ نے ان سے خسف اور رجم کو اٹھا لیا اور دوسری دونوں کو اٹھانے سے انکار کر دیا۔‘‘
یہ روایت اہل قدر کے دنیوی انجام کو بیان کرتی ہے۔یہ روایت اسی پہلو سے محل نظر ہے۔ اس معاملے میں ابن قیم رحمہ اللہ کی تنقید بالکل درست ہے۔ ان کی رائے یہ ہے کہ وہ گروہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد پیدا ہوئے ہیں ، ان کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی تبصرے کا کوئی محل نہیں ہے۔ یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ تقدیر کے یہ منکرین دور صحابہ میں پیدا ہوئے اور انھی کو ان سے واسطہ پڑا۔ چنانچہ کوئی بات اگر ان کے حوالے سے بیان کی جائے تو وہ قابل قبول ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اس طرح کی کوئی بات قرین قیاس نہیں ہے۔
متون کی بحث سے بھی واضح ہے کہ اس معاملے میں روایات میں واضح تضاد ہے ۔ ابن عمر سے منسوب روایات اہل قدر کو آسمانی عذاب کا مستحق بناتی ہیں۔ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمانی عذاب کے اس طرح کے واقعات قرب قیامت میں پیش آئیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا والی روایت سے واضح ہوتا ہے کہ عذاب کی یہ دونوں صورتیں اس امت کو پیش ہی نہیں آئیں گی۔یہ تضاد یہ مسئلہ پیدا کرتا ہے کہ یہ تینوں باتیں بیک وقت درست نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ یا تو ان میں سے کسی ایک بات کو درست قرار دے کر باقی کونا قابل قبول مان لیا جائے، یا ان کی توجیہ کرکے ان میں موافقت کی کوئی صورت پیدا کی جائے۔
بعض شارحین نے موافقت کی یہ صورت نکالی ہے کہ خسف و مسخ سے بریت صرف صحابہ تک محدود ہے ، بعد کے ادوار میں یہ عذاب آ سکتے ہیں۔ روایت کے الفاظ میں اس تحدید کا کوئی قرینہ نہیں ہے۔ چنانچہ روایات کا تضاد اصلا حل نہیں ہوتا۔
مزید برآں قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نوع کے عذاب رسولوں کی تکذیب کرنے والی قوموں پر آئے ہیں۔ تقدیر کا انکار ہو یا اخلاقی برائیوں کا غلبہ محض ان کی وجہ سے کسی قوم پر آسمانی عذاب آنے کی مثال قرآن مجید میں بیان نہیں ہوئی۔ قانون رسالت کی رو سے بھی ایسا صرف مکذبین رسول کے ساتھ ہی ہونا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم آپ پر ایمان لے آئی تھی۔ چنانچہ وہ اس طرح کے عذاب سے مامون رہی۔ آپ کے ماننے والے خواہ کیسے ہی گنہ گار ہوں ، یقیناً اس طرح کے عذاب سے مامون ہیں۔یہی حقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا والی روایت سے بھی واضح ہوتی ہے۔ اوپر بیان کیے گئے نکات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اہل قدر کے حوالے سے مروی روایت راویوں کی تصنیف ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بات ابن عمر نے سخت تبصرے کی صورت میں کہی ہو اور راویوں نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع کر دیا ہو۔ قرب قیامت کے حوالے سے روایات غالبا احوال قیامت سے متعلق ہیں۔ البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا والی روایت حقائق کے عین مطابق ہے۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ معمول میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر آنے والی مصیبتیں آزمایش اور تنبیہ کے لیے ہوتی ہیں۔ انھیں وہ عذاب یا سزا قرار دینا درست نہیں ہے جو کسی قوم یا جماعت کے استیصال کے لیے آتا ہے ۔
ترمذی، رقم ۲۰۷۹، ۲۱۱۱، ۲۱۳۸۔ ابن ماجہ، رقم ۴۰۵۰، ۴۰۵۱۔ احمد، رقم ۶۲۳۵، ۵۹۳۱۔ ابن حبان، رقم ۶۷۵۹۔ المستدرک، رقم ۸۳۷۵۔
_______
۱ چاروں سے یہاں سورۂ انعام کی آیت ۶۵میں بیان کی گئی عذاب کی چار صورتیں ہیں، جن کی تفصیل روایت میں بھی موجود ہے۔
__________
عن ابن عمر رضی اﷲ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: القدریۃ مجوس ہذہ الأمۃ، إن مرضوا لا تعودوہم، وإن ماتوا لا فلا تشہدوہم۔
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قدریہ اس امت کے مجوس ہیں۔ اگر یہ بیمار ہوں تو ان کی عیادت نہ کرو اور اگر مرجائیں تو ان کے جنازے میں شرکت نہ کرو۔‘‘
مجوس: مجوسیت ایران کا قدیم مذہب تھا۔ اس کے ماننے والوں کو اہل عر ب مجوس کے نام سے موسوم کرتے تھے۔اہل قدر کو مجوس قرار دینے کی وجہ مجوسیت کی ثنویت کے ساتھ مشابہت ہے۔ مجوس نور اور ظلمت کو اصل مانتے تھے اور نور کو خیر کا خالق اور ظلمت کو شر کا خالق قرار دیتے تھے۔اسی طرح قدریہ خیر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف اور شر کی نسبت غیر اللہ کی طرف کرتے تھے۔
لا تشہدوہم: ’شہد‘ کا مطلب ہے حاضر ہونا۔ یہاں اس سے جنازے میں شرکت مراد ہے۔
یہ روایت حضرت ابن عمر، حضرت ابوہریرہ، حضرت عمر اورحضرت جابر رضی اللہ عنہم کی نسبت سے روایت کی گئی ہے۔کچھ کمی بیشی کے ساتھ ان روایات میں ایک ہی بات بیان ہوئی ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی منقولہ بالا روایت میں ’القدریۃ مجوس ہذہ الأمۃ‘ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جملے کا آغاز ہوا ہے ۔ جبکہ ابن عمر ہی سے منسوب ایک دوسرے متن کے مطابق اس سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’لکل أمۃ مجوس‘ کا قاعدہ بھی بیان فرمایا تھا۔ اسی روایت میں اہل قدر کو دجال کے ساتھی بھی قرار دیا گیا ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں اسلوب مختلف ہے۔ اس روایت میں ’القدریۃ مجوس ہذہ الأمۃ‘ کے بجائے ’إن مجوس ہذہ الأمۃ المکذبون بأقدار اﷲ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔اسی طرح ایک روایت میں یہی بات ’مجوس أمتی الذین یقولون لا قدر‘ کے الفاظ میں نقل ہوئی ہے۔ اہل قدر سے قطع تعلق کی ہدایت بھی تین طرح سے نقل ہوئی ہے ۔ایک متن کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عیادت اور جنازے سے روکا تھا۔ جبکہ ایک متن میں یہ بھی ہے کہ جب آمنا سامنا ہو تو سلام بھی نہ کیا جائے۔ اسی طرح ایک روایت میں ’لا تجالسوا أہل القدر ولا تفاتحوہم‘ کے الفاظ میں قطع معاشرت کی تلقین کی گئی ہے۔
اس روایت کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت بھی اوپر والی روایت کی طرح قبول نہیں کی جا سکتی۔ ایک نقص تو اس میں وہی ہے جسے ہم اوپر والی روایت کے ضمن میں ابن قیم رحمہ اللہ کے حوالے سے بیان کر چکے ہیں۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے بعد میں پیدا ہونے والے کسی گروہ کے بارے میں اس کا نام لے کر اس کی تغلیط کرنا آپ کے عمومی طرز عمل کے خلاف ہے۔ دوسری خرابی اس تلقین میں ہے جو اہل قدر کے بارے میں کی گئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مکہ میں کفار مکہ کے ساتھ اور نہ مدینہ میں یہود ومنافقین کے ساتھ اس طرح سماجی مقاطعہ کیا اور نہ صحابہ کو ایسا کرنے کی تلقین کی ۔جب یہ گروہ واضح دشمنی پر اتر آئے تو ان کے خلاف کارروائی ضرور کی گئی اور صحابہ کو بھی ان سے ہمدردی کا تعلق رکھنے سے روک دیا گیا ، لیکن یہ معاملہ بھی اسی وقت تک رہا جب دشمنی کی یہ حالت قائم رہی ۔ ظاہر ہے، اہل قدر کے ساتھ اس طرح کی کوئی صورت تصور بھی نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے کہ ان کا اختلاف کلامی نوعیت کا ہے اور وہ پوری طرح امت کا حصہ رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر ان کے بارے میں کوئی بات کہی ہوتی تو وہ ان کے خیال کی غلطی واضح کرنے کے لیے ہوتی یا ان کی اصلاح کی سعی کے لیے ہوتی ۔ جو کچھ اس روایت میں ہے ، وہ مخالفین کے غصے کا اظہار ہے ، اسے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ماننا بہت مشکل ہے۔
شارحین نے اس مشکل کا حل یہ نکالا ہے کہ یہ الفاظ محض اہل قدر کی غلطی کی شناعت واضح کرنے کے لیے ہیں ۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ انھیں امت سے کاٹ دیا جائے۔ پیغمبر کا کلام مان کر اس کے ساتھ اس سلوک سے اتفاق کرنا ممکن نہیں ہے۔
ابوداؤد، رقم ۴۰۷۱۔ احمد، رقم ۵۳۲۷۔ مستدرک، رقم ۲۸۶۔ بیہقی، رقم ۲۰۶۵۸، ۲۰۶۵۹، ۲۰۶۸۸۔ ابن ماجہ، رقم ۹۲۔مسند البزار، رقم ۲۹۳۷۔
____________