[ان روایات کی ترتیب و تدوین اور شرح و وضاحت جناب جاوید احمد غامدی کی رہنمائی میں زاویۂ فراہی کے رفقا معزا مجد ، منظور الحسن ، محمد اسلم نجمی اور کوکب شہزاد نے کی ہے ۔]
روی ۱ انہ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الایمان بضع و سبعون ۲شعبۃ ، ۳ فافضلھا قول لا الہ الا اللّٰہ وادناھا اماطۃ الاذی ۴ عن الطریق۔ والحیاء شعبۃ من الایمان۔ ۵
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کے ستر سے زیادہ اجزا ہیں ۱ ۔ (اِس وقت) ان میں سے افضل اس بات کا اظہار ہے ۲ کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں ہے۳ اور ادنیٰ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے ۔ ۴ اور حیا بھی ایمان ہی کا ایک جز ہے۔
۱۔دین کا باطن ایمان ہے۔ یہ جب انسان کے دل میں اترکراس کے وجود سے ظاہر ہوتا ہے تو زندگی کے ہر گوشے میں اس کے اثرات نمایاں ہو جاتے ہیں ۔اس کے بعد شب و روز میں انسان جو عمل بھی کرتا ہے، وہ کسی نہ کسی پہلو سے اس کے ایمان کا آئینہ دارہوتا ہے۔ ستر سے زیادہ اجزا سے مراد زندگی کے کثیر التعداد گوشوں میں ایمان کا ظہور پزیر ہونا ہے۔
۲۔ اجزاے ایمان میں توحید کا درجہ سب سے افضل ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ دین کا مطلوب توحیدکا قلب و روح میں جاگزیں ہونا ہے، مگر بعض موقعوں پر اس کا زبانی اظہار ایمان کا سب سے بڑا مظہر بن جاتا ہے۔اسلام کے ابتدائی زمانے میں ایسی ہی صورت حال تھی۔ کلمۂ توحید کہنا، درحقیقت اپنے لیے قوم کی نفرت خریدنے، اپنا گھر در برباد کرنے، اپنا دھن دولت لٹانے اور بسا اوقات اپنی جان گنوانے کے مترادف تھا۔ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں لا الہ الا اللہ کا قول ایمان کی سب سے افضل علامت قرار پاتا ہے۔
۳۔ ایمان کا ہر جزاللہ کے ہاں اجر اور دین میں اہمیت کے لحاظ سے کسی نہ کسی درجے کا حامل ہوتا ہے۔ بعض اجزا بلند درجات رکھتے ہیں اور بعض ان کے مقابلے میں کم تر درجے کے حامل ہوتے ہیں۔ تاہم، ایمان کاکوئی جز زیادہ اہمیت کا حامل ہو یا کم اہمیت کا، اسے جب صرف اور صرف اللہ کی رضا جوئی کے لیے اختیار کیا جائے تووہ حقیقی ایمان ہی کا مظہرہوتا ہے ۔
۱۔ یہ مسلم کی روایت ، رقم۳۵ ہے۔ کچھ اختلاف کے ساتھ یہ حسب ذیل مقامات پر نقل ہوئی ہے:
بخاری، رقم۹۔ ابوداؤد، رقم ۴۶۷۶۔ نسائی، رقم ۵۰۰۴، ۵۰۰۵، ۵۰۰۶۔ احمد بن حنبل، رقم۸۵۷۰، ۸۹۹۳، ۹۳۷۱، ۹۳۷۲۔ ابن حبان، رقم۱۶۶، ۱۶۷، ۱۸۱، ۱۹۰، ۱۹۱۔ نسائی، سنن الکبریٰ ، رقم ۱۱۷۳۵، ۱۱۷۳۶، ۱۱۷۳۷۔ابن ابی شیبہ، رقم ۲۵۳۳۹، ۲۵۳۴۱، ۲۶۳۴۳، ۳۰۴۱۶۔ عبدالرزاق، رقم۲۶۳۴۳، ۳۰۴۱۶۔
۲۔ مسلم کی روایت ، رقم ۳۵میں راوی اس بارے میں واضح نہیں ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’بضع و سبعون‘ (ستر سے زائد) فرمایا تھا یا ’بضع و ستون‘ (ساٹھ سے زائد)۔ بعض دوسری روایتوں میں اعداد کا فرق سامنے آیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہاں بیان عدد اپنے لفظی مفہوم میں نہیں، بلکہ بیان کثرت کے لیے ہے۔
۳۔ بعض روایات مثلاً احمد بن حنبل، رقم ۳۹۵۰ میں ’شعبۃ‘ (جز ) کی جگہ ’بابا‘ (باب) کا لفظ آیا ہے۔
۴۔ بعض روایات ، مثلاً احمد بن حنبل، رقم ۳۹۵۰میں ’الاذی‘ (تکلیف دہ چیز ) کی جگہ ’العظم‘ (ہڈی) کا لفظ آیا ہے۔
۵۔ اسی طرح کی بات اس روایت سے بھی واضح ہوتی ہے:
روی ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مر علی رجل و ھو یعاتب اخاہ فی الحیاء یقول انک لتستحی حتی کانہ یقول قد اضر بک فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم دعہ فان الحیاء من الایمان ۔ (بخاری، رقم۵۷۶۷)
’’بیان کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے۔ وہ اپنے بھائی کو حیا کے معاملے میں سرزنش کر رہا تھا۔ وہ اس سے کہہ رہا تھاکہ تم اس قدر زیادہ شرم و حیا کا لحاظ کرتے ہو کہ اس کے لیے نقصان تک اٹھا لیتے ہو۔ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، اس لیے کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔‘‘
یہ روایت کچھ فرق کے ساتھ ان مقامات پر بھی نقل ہوئی ہے:
موطا،رقم۱۶۱۱۔ بخاری، رقم۲۴۔ مسلم، رقم۳۶۔ ترمذی، رقم۲۶۱۵۔ ابوداؤد، رقم۴۷۹۵۔ نسائی،رقم۵۰۳۳۔ ابن ماجہ، رقم۵۸۔احمدبن حنبل ، رقم۴۵۵۴، ۵۱۸۳، ۶۳۴۱۱۔ ابن حبان، رقم۶۱۰۔ سنن الکبریٰ، رقم۱۱۷۶۴۔ ابن ابی شیبہ، رقم ۲۵۳۴۰۔ ابو یعلیٰ، رقم۵۴۲۴، ۵۵۳۶۔
اس کے بعض طرق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے بھائی کو سرزنش کر رہا تھا، اس کا تعلق انصار سے تھا۔ مثال کے طور پر بخاری ،رقم ۲۴ میں یہ روایت ’مر علی رجل من الانصار‘ (آپ انصار کے ایک شخص کے پاس سے گزرے) کے الفاظ سے شروع ہو رہی ہے۔
مزید براں بعض روایات مثلاً بخاری، رقم۲۴ میں ’یعاتب‘ (سرزنش کر رہا تھا) کی جگہ ’یعظ‘ (نصیحت کر رہا تھا) کا لفظ آیا ہے اور ’انک لتستحیی حتی کانہ یقول قد اضربک‘ ( تم اس قدر زیادہ شرم و حیا کا لحاظ کرتے ہو کہ اس کے لیے نقصان تک اٹھا لیتے ہو ) کا جملہ موجود نہیں ہے۔
____________