HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

متفرق مضامین

اے کاش

یہ واقعہ ایک ایسی خاتون کے ساتھ پیش آیا جن کی دین کے ساتھ شعوری وابستگی کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ ایک روز مجھے معلوم ہوا کہ ان کے زیورات چوری ہوگئے ہیں ۔چوری کے واقعے کی تفصیلات کے دوران میں انھوں نے بتایا کہ حادثے کے بعد انھوں نے سوچا کہ اے کاش وہ یہ زیورات اپنے ہاتھ سے کسی ضرورت مند کو دے دیتیں اور یوں آخرت میں اجر کی مستحق قرار پاتیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ خیا ل آتے ہی اے کاش ۔۔۔ اے کاش کی صدائے بازگشت اسے بار بار سنائی دینے لگی ۔ ان کا ذہن اس حقیقت کی طرف منتقل ہوا کہ کہیں آخرت میں نیک اعمال کی کمی کی وجہ سے خداکے حضور بھی یہ کہنے کی نوبت نہ آجائے کہ دنیا کی زندگی میں مجھے خداکو راضی کرنے کا موقع ملا ، مگر میں نے اسے گنوا دیا، اے کاش !میں اس مہلت حیات سے صحیح فائدہ اٹھاتی اور۔۔۔ اور اے کاش میں فلاں فلاں نیک عمل بھی کر لیتی۔ انھوں نے کہا: اس پر مجھے دل میں ایک گونہ اطمینان محسوس ہوا اور میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے متاع دنیا کے نقصان کے عوض میرے اندرابدی زندگی کے خسارے اور اس سے بچنے کا احساس زندہ کردیا ۔

قیامت کا زلزلہ جب انسان کو خواب غفلت سے بیدار کرے گاتولو گ عالم کے پرور دگار سے بے پروائی اور سرکشی کی روش پر اظہار حسرت کریں گے ۔اور اعتراف جرم کے بعد جب انھیں دوزخ کے کنارے پر لا کھڑا کیا جا ئے گا تووہ پکار اٹھیں گے:

’’۔۔۔ اے کاش ہم (دنیا کی زندگی میں) پھر واپس کیے جائیں کہ مانیں اور اپنے رب کی تکذیب نہ کریں اور ایمان والوں میں سے بنیں ۔‘‘(الاانعام۶: ۲۷)

انسان کی بد قسمتی ہے کہ وہ آخرت سے غفلت کے نتیجے میں شیطان کا لقمۂ تر بن کر دنیا کی رنگینیوں میں کھوجاتا ہے اور قیامت میں خدا کے حضور حاضری سے بے پروا ہو جاتا ہے۔اے کاش وہ اللہ کے اس فیصلے کو جان لیتا کہ :

’’جو دنیا کی زندگی اور اس کے سروسامان کے طالب ہوتے ہیں ، ہم ان کے اعمال کا بدلہ یہیں چکا دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی ۔یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور جو کچھ انھوں نے کیا کرایا ہے ، سب حبط ہو جائے گا اور باطل ہے جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں ۔‘‘ (ہود۱۱: ۱۵۔۱۶)

محمد اسلم نجمی

_______

کرنسی ویلیو

میں اپنے کلینک کے لیے دوائیں خریدنے کے لیے میڈیسن مارکیٹ جاتاہوں تو کوشش کرتا ہوں کہ جیب میں موجود سب رقم وہیں استعمال ہو جائے۔مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اس رقم کا بہترین مصرف مارکیٹ میں خرچ ہونا ہے۔ مجھے معلوم ہوتاہے کہ جب واپس جاؤں گا تو ایک روپے والی چیز سو ا یا ڈیڑھ روپے میں ملے گی۔ یوں گھر لوٹتے ہی میری کرنسی کی ویلیو پندرہ سے چالیس فی صد تک کم ہو جائے گی ۔ یہ اس دنیا کا دستور ہے ۔جس کام کا جہاں زیادہ سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے ، ہم اسے وہیں انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔کاروبار اور کام کاج کے لیے گھر سے باہر جاتے ہیں ، کیونکہ گھر میں بیٹھ کر روزی کمانا مشکل ہے۔ آرام اور سونے کے لیے گھر پلٹ آتے ہیں ، اس لیے کہ باہر کیا آرام ملے گا۔ پکنک کے لیے مضافات کا رخ کرتے ہیں۔وجہ یہ ہے کہ شہر کے شوروغوغا میں تفریح نہیں ہوتی ۔

یہ دنیا دارا لعمل ہے اور آخرت دار الجزا ۔ دنیا میں جو کام کریں گے اگلے جہاں میں اسی کا بدلہ پائیں گے۔یہاں عمل نہ کیا ہو گا تو صلہ ملنے کا سوال ہی نہیں۔لیکن ہماری بے عملی دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم نے عمل آیندہ جہان کے لیے اٹھا رکھا ہے ۔ اس جگہ جہاں کام کرنے کو کہا جائے گا نہ اس کا بدلہ ملے گا ۔ ہمارا خیال ہے کہ اس جہان میں نماز پڑھیں گے، روزہ رکھیں گے اور مخلوق کی بھلائی کے بارے میں سوچیں گے ۔ اس دروغ گو دنیا میں جہاں زاہد وفاسق سب جھوٹ بولتے ہیں، ہم بھی جھوٹ سے کام چلاتے ہیں ، کیونکہ ہمارا ارادہ ہے کہ جنت میں جا کر سچ بولا کریں گے ۔ اس ڈنڈی مار بازار میں ہم کم تو لتے ہیں، نیت ہے کہ بازارِ عقبیٰ میں پورا تو ل تولیں گے۔ یہاں رشوت دیتے دلاتے ہیں ، کیونکہ معلوم ہے کہ بہشت کے رضوان کو رشوت دینے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔

شاید ہمیں معلوم نہیں کہ کام کرنے کی جگہ دنیاہے آخرت نہیں اور دنیا میں کیے ہوئے عملوں کو آخرت میں بدلا جاسکے گانہ اس بات کی سہولت ملے گی کہ اچھے اعمال بجا لا کر برے اعمال کے اثرات کو زائل کیا جائے۔ ہاں دنیا میں توبہ اور اچھے اعمال کے ذریعے سے ایسا کرنے کی سہولت ہمیں حاصل ہے۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناکہ توبہ کا سلسلہ ختم نہ ہوگاحتیٰ کہ سورج مغرب سے نکل آئے۔حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نام لوگوں کو بتاتے ہوئے محمداور احمد کے ساتھ نبی توبہ بھی ارشاد فرماتے۔ دنیا میں ہماری کرنسی عمل اور صرف عمل ہی ہے اور نماز ، روزہ ، حج اور دوسری عبادات کی طرح توبہ بھی ہماری کرنسی کی ایک شکل ہے۔ہمیں اس دنیا ہی میں اسے خرچ کر لینا چاہیے ، اس لیے کہ اگلے جہان میں اسے ڈی ویلیو ہونا ہے۔

محمد وسیم اختر مفتی

_______

اسباب اور مسبب الاسباب

چیزیں جس طرح اپنے بننے میں اللہ کی محتاج ہیں ، اسی طرح اپنے استعمال ہونے میں بھی اللہ ہی کی محتاج ہیں ۔ حالات جہاں آنے میں اللہ کے محتاج ہیں ، وہاں جانے میں بھی اللہ کے محتاج ہیں ۔چنانچہ جس طرح انسان کا یہ یقین اور علم درست ہونا ضروری ہے کہ بجلی بلب کی طاقت سے نہیں ، بلکہ اس کے پس منظر میں کسی ڈیم یا بجلی گھر کے نظام کی طاقت سے آ رہی ہے ، اسی طرح ، بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ اس کا یہ یقین رکھنا بھی ضروری ہے کہ پانی میں بذات خود پیاس بجھانے کی طاقت نہیں ، بلکہ یہ طاقت پانی بنانے والے کے پاس ہے۔ آگ میں خود سے جلانے کی طاقت نہیں ، بلکہ وہ بھی اپنے اس فعل میں اللہ کی محتاج ہے ۔ انسان کی آنکھ اصل میں ہر چیز کی ابتدا اور انتہا کو نہیں دیکھتی ، بلکہ درمیان کو دیکھتی ہے ۔ یہ دنیا حقیقت میں درمیان ہے ۔ انسان آج اپنی ابتدا اور انتہا سے بے خبر اس وادی وسط کی رنگینی میں کھو چکا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان کو ذرا سا بھی شعور اپنی حقیقت اور حیثیت کا ہو جائے تو وہ بے شک اسباب کو اختیار تو کرے گا ، لیکن ایک لمحے کو بھی اس کی نظر اور توجہ مسبب الاسباب سے ہٹنے نہ پائے گی ۔ بلکہ اس کا رواں رواں یہ پکار اٹھے گا کہ یا اللہ آپ جتنے غنی ہیں ، میں اتنا ہی محتاج ہوں، آپ جتنے علیم ہیں ، میں اتنا ہی بے خبر ہوں ،آپ جتنے بصیر ہیں میں اتنا ہی اندھا ہوں، آپ جتنے قوی ہیں ، میں اتنا ہی کمزور و ناتواں ہوں اور آپ جتنے قادر ہیں ، میں اتنا ہی بے بس و عاجز ہوں ۔ اور پھر یہ اعتراف حقیقت کرتے ہوئے اگر انسان اپنے مالک سے یوں کہہ دے کہ میرے مالک میری بے بسی اور ضعف پر رحم فرما تو یقین جانیے کہ کچھ دیر نہ ہو گی کہ رب رحیم کی رحمت اسے بڑھ کر تھام لے گی۔

صدیق شاہ بخاری

____________

B