[علامہ ابن کثیر کی کتاب ’’سیرت النبی‘‘ سے ماخوذ]
قرآن مجید میں سبا کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے :
’’اور اہل سبا ۸ کے لیے بھی ، ان کے مسکن میں بہت بڑی نشانی موجود تھی ۔ دہنے بائیں ، دونوں جانب باغوں کی دو قطاریں اپنے رب کے بخشے ہوئے رزق سے متمتع ہو اور اس کے شکر گزار رہو!زمین شاداب و زرخیز اور پروردگار بخشنے والا ہے تو انھوں نے سرتابی کی تو ہم نے ان پر بند کا سیلاب بھیج دیا اور ان کے باغوں کو دو ایسے باغوں سے بدل دیا جن میں بد مزہ پھل والے درخت اور جھاؤ اور بیری کی جھاڑیاں رہ گئیں ۔یہ ہم نے ان کی ناشکری کا بدلہ دیا اور ہم برا بدلہ ناسپاسوں ہی کو دیا کرتے ہیں۔
اور ہم نے ان کے درمیان اور ان بستیوں کے درمیان ،جن میں ہم نے برکتیں رکھی تھیں ،سر راہ بستیاں بھی آباد کیں اور ان کے درمیان سفر کی منزلیں ٹھہرادیں۔ان میں رات دن بے خوف و خطر سفر کر و !پس انھوں نے کہا : اے رب ، ہمارے سفروں میں دوری پیدا کردے اور انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے تو ہم نے ان کو افسانۂ پارینہ بنا دیا اور ان کو بالکل تتر بتر کر چھوڑا۔بے شک اس کے اندر نشانیاں ہیں ہر صبر کرنے والے ،شکر کرنے والے کے لیے۔‘‘ ( سبا۳۴: ۱۵۔۱۹) ۹
محمد بن اسحٰق سمیت بہت سے علماے انساب کا کہنا ہے کہ سبا کا پورا نام عبد شمس ۱۰ بن یشجب بن یعرب بن قحطان ہے۔ انھوں نے سبا کے نام کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ عربو ں میں پہلا شخص تھا جس نے لوگوں کو قیدی بنایا(عربی میں سبي کا لفظ قیدی کے لیے استعمال ہوتا ہے ) اس لیے اس کا نام سبا پڑ گیا۔اور اسے ر ایش کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔اس نام سے مشہور ہونے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ اپنا مال لوگوں میں تقسیم کر دیا کرتا تھا۔ عربی میں رایش کا لفظ ایسے شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے جو لوگوں میں بے دریغ اپنا مال لٹاتاہو۔ سہیلی کی رائے میں اس کے اس نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ پہلا بادشاہ ہے جس کی تاج پوشی ہوئی ۔ بعض محققین کی رائے ہے کہ دین ابراہیمی کا پیرو ہونے کے باعث وہ اصلاً مسلمان تھا۔ بعض کتا بوں میں اس کے ایسے اشعار نقل ہوئے ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی بشارت کا بیان ہے ۔ ان میں سے کچھ اشعار کا مفہوم یہ ہے :
ہمارے بعد ایک نبی ایک عظیم مملکت کا حکمران بنے گا جو حدود حرم میں کسی گناہ کی اجازت نہ دے گا۔اس کے بعد،اس کے پیروکاروں میں سے بہت سے حکمران ہوں گے جو قتل و غارت کے بغیر لوگوں کو اپنا مطیع بنائیں گے۔ پھر ان کے بعد ہم میں سے بادشاہ ہوں گے ،اور ہمارے درمیان میں ملک تقسیم ہو جائے گا۔ قحطان کے بعد وہ نبی حکمران ہوگا۔وہ پرہیز گار، کشادہ دل ،منکسر المزاج اور مخلوق میں سب سے بہتر ہوگا۔اس کا نا م احمد ہوگا،کاش میں اس کی بعثت کے بعد کچھ سال زندہ رہتا ۔ تو میں اس کا مددگار بنتااور (اپنے تمام وسائل بروئے کار لاکر ) ہتھیار بندہو کرماہر تیر اندازکی حیثیت سے اس کی حفاظت کرتا۔جب وہ آجائے تو تم اس کے مددگار بننا اور تم میں سے جو اسے ملے ،وہ اسے میر اسلام کہے۔‘‘
ان کے یہ اشعار ابن دحیہ نے ’’التنویر فی مولد البشیر والنذیر‘‘ میں نقل کیے ہیں۔
امام احمد نے حضرت عبداللہ ابن عباس سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سبا کے بارے میں پوچھاکہ یہ کون ہے ؟ یہ کسی آدمی کانام ہے ،کوئی عورت ہے ،یا یہ لفظ کسی جگہ کے نام کے طور پر استعمال ہوتا ہے ؟نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:یہ نہ عورت ہے ، نہ کوئی جگہ ہے ، بلکہ یہ ایک آدمی کانام ہے جس کے دس بیٹے تھے،ان میں سے چھ یمن میں بس گئے تھے اور چار شام میں آباد ہوئے۔مذحج ، کندہ ،ازد ،اشعری ، انمار اور حمیریمنی تھے ، جبکہ شام میں آباد ہونے والوں میں لخم ، جذام ، عاملۃ اور غسان شامل ہیں۔
امام ابن کثیر فرماتے ہیں ہم نے اپنی تفسیر’’ تفسیر القرآن العظیم‘‘ میں بیان کیا ہے کہ سائل کا نام فروہ بن مسیک الغطیفی تھا۔ہم نے وہاں اس حدیث کے تمام طرق اور پورے الفاظ نقل کردیے ہیں۔ ۱۱
اس ساری بحث کا مقصود یہ بتانا ہے کہ سبا میں یہ سارے قبائل شامل ہیں ۔ یمن کے رہنے والے تبابعہ کا شمار بھی انھی میں ہوتا ہے۔بتابعہ تبع کی جمع ہے۔ اس نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ چونکہ تبع ایک خاص قسم کے تاج کو کہتے ہیں اور ان کے بادشاہ تخت حکومت پر براجمان ہوتے وقت یہ تاج پہنا کرتے تھے، اس لیے اس تاج کی رعایت سے ان کا لقب تبع پڑ گیا۔ اسی طرح کی تاج پوشی ایران کے اکاسرہ ۱۲ یعنی شاہان فارس کا بھی دستور تھا۔ عرب ہر اس بادشاہ کو تبع کہتے تھے جو یمن ،شحر اور حضرموت کا حکمران ہوتا تھا،یہ ایسے ہی تھاجیسے وہ شام اور الجزیرہ کے فرماں روا کو قیصر کے نام سے پکارتے تھے۔اسی طرح وہ ملوک فارس کو کسریٰ ، مصر کے بادشاہوں کو فرعون ،حبشہ کے حکمران کو نجاشی اور ہند کے بادشاہ کو بطلیموس کہتے تھے۔اورحضرت سلیمان علیہ السلام کے دورکی ملکہ بلقیس کا شمار بھی یمنی حکمرانوں میں ہوتا تھا۔
قوم سبا کے لوگ بڑی قابل رشک زندگی بسر کرتے تھے۔ان کے ہاں دولت کی ریل پیل اور پھلوں کی کثرت تھی۔ ان کے کھیت نہایت وسیع و عریض اور سرسبز و شاداب تھے۔اور اس پر مستزاد یہ کہ قوم سبا کے لوگ محنتی اور مستقل مزاج تھے۔ وہ صراط مستقیم پر گام زن اور رشد و ہدایت پر قائم تھے، لیکن جب انھوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کی ، کفر کا راستہ اختیار کیااور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر جہنم میں لا اتارا تو ان پر اللہ کی لعنت ہوئی ۔وہ سب نعمتوں سے محروم کردیے گئے اور آخرت میں خدا کے غضب کے مستحق قرار پائے۔
محمد بن اسحٰق نے وہب بن منبہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں تیرہ نبی بھیجے،جب کہ سدی کی روایت ہے کہ ان میں بارہ ہزار انبیا مبعوث ہوئے۔
حاصل بحث یہ ہے کہ یہ لوگ رشد و ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی کے راستے پر چل نکلے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت ترک کرکے سورج کی پرستش کرنے لگے۔گمراہی کا پہلے سے جاری یہ سلسلہ ملکہ بلقیس ۱۳ کے دور میں بھی قائم رہا۔قوم سبا کے لوگ گمراہی اور نافرمانی کی اس روش پربڑی بے باکی سے قائم رہے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر عرم ۱۴ کا سیلاب بھیجا۔
سلف و خلف میں سے بے شمار مفسرین اور بہت سے دوسرے اہل علم نے بیان کیا ہے کہ سد مأرب دو پہاڑوں کے درمیان میں سے بہنے والے پانی کو روک کر بنایا گیا تھا۔یہ بند قدیم زمانے میں تعمیر ہوا۔بند بنانے والوں نے بڑے بڑے ستون بنائے اور اسے نہایت محکم او رمضبوط بنیادوں پر استوار کیا،یہاں تک کہ (اس بند کے باعث ) پانی کی سطح بلند ہو گئی۔ اس طرح اس کے پانیوں کی رسائی پہاڑوں کے اوپر کی زمین تک ہو گئی ۔انھوں نے اس بند کے دونوں اطراف میں باغات اور پھل دار درخت لگا دیے اور پانی کی نعمت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ وسیع رقبے پر کھیتی باڑی کرنے لگے۔
کہا جاتا ہے کہ پہلے پہل شخص جس نے اس بندکی بنیاد رکھی وہ سبابن یعرب تھا۔اس نے ستر وادیوں کے پانی کا بہاؤ اس طرف کو موڑا تھا اور اس کے بیس در بنائے تھے جن میں سے پانی خارج ہوتا تھا۔وہ اپنی زندگی میں اس بند کی تعمیر مکمل نہ کرسکا اور مر گیا۔اس کے بعد حمیر نے اسے پایۂ تکمیل کو پہنچایا۔یہ بند ایک مربع فرسخ ۱۵ کے علاقے میں پھیلا ہوا تھا۔
مأرب کے باشندوں کے ہاں رزق کی فراوانی تھی ،وہ نہایت پر آسایش زندگی گزار رہے تھے اور ان کا دور نہایت خوش حالی کا دور تھا۔ ان کے باغات کی زرخیزی اور شادابی کا عالم بیان کرتے ہوئے قتادہ روایت کرتے ہیں کہ کوئی عورت اگر خالی ٹوکری سر پر رکھے باغ میں سے گزرتی تووہ ٹوکری پھلوں سے،ان کے انتہائی پکے ہوئے اور کثیر مقدار میں ہونے کے باعث ہاتھوں سے توڑے بغیر،ان کے خود بخود گرنے سے بھر جاتی تھی ۔اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آب و ہوا کے انتہائی صاف اور ماحول کے نہایت پاکیزہ اور صاف ستھراہونے کے باعث ان کے علاقے میں مکھی ، مچھر اور دوسرے حشرات نام کو نہ تھے۔
اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’اور یاد کرو جب تمھارے رب نے آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکر گزار رہے تو میں تمھیں بڑھاؤں گا اور اگر تم نے نا شکری کی تو میرا عذاب بھی بڑا سخت ہوگا۔‘‘ ۱۶
وہ جب اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کی پرستش کرنے لگے اور انھوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اپنی بستیوں میں سہولتوں اور سامان زندگی کی فراوانی، باغوں کی دل آویز فضاؤں اور پر امن راستوں کی دستیابی کے باوجود اس بات کی خواہش کرنے لگے کہ انھیں دور دراز کے سفر درپیش ہوں اور مزید یہ کہ وہ سفر پر مشقت اور تھکا دینے والے ہوں ۔گویا وہ یہ چاہتے تھے کہ اعلیٰ اور عمدہ سہولیات کو ادنیٰ اور گھٹیا چیزوں سے بدل دیں۔یہ ایسی ہی خواہش تھی جیسے بنی اسرائیل نے من و سلویٰ کے عوض میں سبزیاں ،ککڑیاں ،لہسن،مسور اور پیاز مانگے تھے۔سو ان کی اس ناسپاسی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ بے مثال نعمتیں چھین لیں اور انھیں اپنی بے پایاں رحمت کے سایے سے محروم کر دیا۔ان کے شہر برباد ہو گئے اور وہ پراگندہ حالی میں منتشر ہو گئے ۔
_______
حواشی
۸۔سباکا علاقہ یمن میں ہے ۔مأرب اسی کا شہر ہے۔ایک روایت کے مطابق اس علاقے کایہ نام اس لیے پڑا کہ یہاں پہلے پہل سبا بن یشجب بن قحطان کی اولاد آباد ہوئی تھی ۔
۹۔یہ آیا ت سورۂ سبا میں جس پیرے میں وارد ہوئی ہیں ،اس میں قریش کے متمردین کے سامنے دو مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک مثال حضرت داؤو اور حضرت سلیمان علیہما السلام کی ہے جب کہ دوسری مثال قوم سبا کی پیش کی گئی ہے۔ یہ مثالیں پیش کرکے بنی اسمٰعیل کے منکرین کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ ان کے سامنے دونوں راہیں کھلی ہوئی ہیں : وہ چاہیں تو پیغمبروں کی طرح خدا کے شکر گزار اور اطاعت شعار بندے بن کر آخرت میں جنت کے حق دار بن جائیں ، اور یا پھر قوم سبا کی طرح عالم کے پروردگار سے بے پروائی اور سرکشی کا راستہ اختیار کرکے اس کے قہر کو دعوت دیں ۔
سورۂ سبا میں یہ پیرا آیات ۱۰تا ۲۱ پر مشتمل ہے ۔
۱۰۔عبدشمس نامی یہ شخص ،جیسا کہ اس کے نسب سے ظاہر ہے ،قو م سبا کا جداعلیٰ ہے۔ قحطانیوں اورعدنانیوں کے جد امجد کا نام بھی عبدشمس ہے ۔
قحطان کا سلسلۂ نسب یہ ہے:
قحطان بن عابر بن شالح بن ارفخشذ بن سام بن نوح۔
قحطانی عبد شمس حمیری ہے ۔ اس کا سلسلۂ نسب یہ ہے :
عبد شمس بن وائل بن قطن۔
عدنانی عبد شمس کا شجرۂ نسب یہ ہے:
عبد شمس بن عبد مناف بن قصی۔
اس سلسلۂ نسب کا تعلق قریش سے ہے ۔ عبد شمس کی اولاد میں سے جن کے نام تاریخ و اعلام کی کتابوں میں ملتے ہیں ، ان میں امیہ، حبیب، عبد امیہ ،نوفل ، ربیعہ ، عبد العزیٰ اور عبداللہ وغیرہ شامل ہیں۔ابن حبیب کی تحقیق کے مطابق عبد شمس اصحاب ایلاف میں سے ہیں۔ ان کی وفات مکہ میں ہوئی ۔
مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عدنان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد سے تھا۔اہل حجاز کے بہت سے عرفا اور شرفا کا سلسلۂ نسب انھی سے ملتا ہے ۔اس کا ایک بیٹا معد تھا۔اس سے نزار پیدا ہوا،اور اس کے آگے دو بیٹے مضر اورربیعہ تھے۔عرب کے اکثر قبائل نزار کے انھی دو بیٹوں سے آگے پھیلے ۔بنو اسد ، بنو عبدالقیس ، بنو عنزۃ ، بنو بکر ، بنو تغلب ، بنو وائل وغیرہ بنو ربیعہ کی نسل سے ہیں ۔ بنو مضر شروع میں دو بڑے قبیلوں بنو قیس اور بنوالیاس میں منقسم ہوئے ۔بنو غطفان ، بنو سلیم ، بنو قیس کی اولادسے ہیں۔ بنو غطفان آگے بنو غیض ، بنو عبس ، بنو ذبیان میں تقسیم ہوئے۔ان میں سے بنو سلیم سے بہثہ اور ہوازن کے قبیلوں نے جنم لیا ۔اسی طرح بنو تمیم ، بنو ھذیل ، بنو اسد اور بنو کنانہ کی نسبت بنو الیاس کی طرف کی جاتی ہے ۔قریش بنو کنانہ سے ہیں ۔قریش آگے بنو جمع ، بنو سہم، بنو عدی ، بنو مخزوم ، بنو تیم، بنو زھرہ بنو عبد الدار ، بنو اسدبن عبدالعزیٰ اور بنو عبد مناف میں تقسیم ہو گئے ۔عبد شمس ، نوفل، مطلب ، اور ہاشم عبدمناف کی اولاد ہیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور بنو عباس ہاشم کی اولاد سے ہیں ۔ اور بنو امیہ عبد شمس کی اولاد ہیں ۔
عدنان کی ساری اولاد حجاز ، نجد ، تہامہ ، عراق اور یمن کے علاقوں میں آباد ہوئی ۔بنی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سلسلۂ نسب کو عدنان تک ہی ثابت قرار دیتے تھے ۔
۱۱۔تفسیر ابن کثیر ۳ /۵۳۰ ۔ مطبوعہ امجد اکیڈمی ،لاہور۔
۱۲۔اکاسرہ کسریٰ کی جمع ہے۔
۱۳۔ملکہ بلقیس کا تعلق ملک یمن سے ہے ۔یہ حضرت سلیمان علیہ السلام ( ۹۶۵ تا ۹۲۶قبل مسیح )کی ہم عصر تھیں ۔
اس کی سلطنت پر یمن ہی کے ایک علاقے غمدان کے حکمران عمرو بن ابرھہ (ذوالازعار) نے چڑھائی کی ،ملکہ بلقیس کی سپاہ نے انھیں شکست دی ۔اس کے بعد اس نے ایک اعرابی کا بھیس بدل کر احقاف کی طرف کوچ کیا ۔اسے ذوالازعار کے لوگوں نے گھیر لیا ، اسے اطاعت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور نشے میں چور ہو کر اس کے ساتھ بیہودگی کا مظاہرہ کیا۔اس جسارت پر اس نے ان لوگوں کے ساتھ ذو الازعار کو قتل کرکے اس کے علاقے پر قبضہ کر لیا اور اس طرح پورے یمن پر اس کی عمل داری قائم ہو گئی اور حمیر کے سارے سردار اس کے مطیع بن گئے ۔یہاں سے فارغ ہو کر اس نے اپنے لشکر قاہرہ کے ساتھ بابل او رفارس پر چڑھائی کی ۔وہاں کے لوگوں نے مزاحمت کیے بغیر اطاعت قبول کر لی ۔ان مہمات سے فارغ ہو کر وہ واپس لوٹی اور مقام سبا کو اپنا دار السلطنت بنایا ۔یہی وہ وقت تھا جب حضرت سلیمان علیہ السلام کی بادشاہت قائم ہوئی ۔
حضرت سلیمان علیہ السلام اہل یمن کو خدا کے سچے دین کی دعوت دینے کے لیے نکلے ۔یہ لوگ سورج کی پرستش کرتے تھے ۔ آپ جب سباپہنچے تو ملکہ بلقیس نے اپنے خدم و حشم کے ساتھ ان کا پر تپاک استقبال کیا ۔اس نے خدا کے پیغمبر کی دعوت قبول کرلی اور مسلمان ہوگئی ۔ اس کے اسلام لانے کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس سے شادی کرلی ۔ملکہ بلقیس کی آپ کے ساتھ رفاقت کا عرصہ کم و بیش آٹھ سال اور کچھ مہینوں پر محیط ہے ۔شادی کے بعدوہ حضرت سلیمان کے ساتھ ان کے دارالحکومت تدمر منتقل ہو گئی اور وفات کے بعد اسے تدمر ہی میں دفن کیا گیا ۔
اس کا تابوت اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک کے زمانے میں دریافت ہوا۔جب اس کے تابوت کا ڈھکنا اٹھایا گیا تو انکشاف ہوا کہ اس کی لاش بالکل ترو تازہ ہے اور اس کے جسم کوکوئی نقصان نہیں پہنچا ہے ۔اسے ولید کے سامنے پیش کیا گیا ۔اس نے حکم دیا کہ تابوت اسی جگہ دفن کر دیا جائے جہاں سے اسے نکالا گیاتھا اور اس پر قبہ تعمیر کرنے کاحکم دیا۔
۱۴۔عرم کے بارے میں مختلف اقوال ہیں ۔ایک قول کے مطابق یہ قوم سبا کی وادی کا نام ہے ۔یہ بھی کہاجاتا ہے کہ عرم در اصل ایک خاص قسم کے چوہے کو کہتے ہیں ۔یہی چوہا تھا جس نے سد مأرب میں اپنے بل بنائے ،جن کی وجہ سے یہ بند تباہ ہوا۔
۱۵۔ایک فرسخ بارہ ہزار مربع گز یا تقریباً ۸ کلومیٹر کے برابر ہوتا ہے۔
۱۶۔ابراھیم ۱۴:۷۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے فرعونیوں کے پنجہ ستم سے نجات پانے کے بعد بنی اسرائیل کو یہ خدا کی نصیحت ہے کہ وہ اپنے رب کی نعمتوں کی قدر کریں اور اس کے شکر گزار بندے بن کر رہیں۔انھوں نے اگر ناشکری کا رویہ اختیار کیا تو وہ سخت عذاب سے دو چار ہوں گے۔
قرآن میں اس یاد دہانی کا مقصد اس دور کے یہود کو متنبہ کرنا ہے جو اسلام کی مخالفت میں اندھے ہو کراپنا سارا وزن مشرکین بنی اسمعٰیل کے پلڑے میں ڈال رہے تھے اور ملت ابراہیمی کی تعلیمات کو فراموش کرچکے تھے۔
[باقی]
____________