HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : سلیم صافی

مسئلۂ افغانستان (۲)

طالبان کا عروج و زوال

طالبان کے قائد ملا محمد عمر ۱۹۵۹ء میں قندہار کے قریب ایک گاؤں نودہ میں پیدا ہوئے ۔ ان کا خاندان غلزئی قبیلے کی ہوتک شاخ سے وابستہ ہے ، تاہم غربت اور پس ماندگی کی وجہ سے ۱۹۹۴ء سے قبل ملا محمد عمر کے نام سے ان کے گاؤں کے لوگوں کے سوا کوئی اور واقف نہ تھا۔ افغان جنگ کے دنوں میں ملا محمد عمر کا خاندان نقل مکانی کرکے نواحی صوبے ارزگان ( حامد کرزئی کا آبائی علاقہ) منتقل ہوا تھا۔ ملا محمد عمر نے ایک مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کی تھی ۔ وہ ابھی جوان تھے کہ والد انتقال کرگئے ، چنانچہ گھر کے اخراجات کا بوجھ اٹھانے کی خاطر انھوں نے صوبہ قندہارکے علاقے میوند کی ایک مسجد میں امامت شروع کی ۔ کمیونسٹوں کے خلاف مجاہدین کی تحریک مزاحمت کے دنوں میں ملا محمد عمر، مولوی یونس خالص کی تنظیم ’’حزب اسلامی‘‘ (خالص) سے وابستہ ہوگئے ۔ وہ اس تنظیم کے نمایاں لوگوں کی صف میں کبھی شامل نہیں ہوئے اور آخری وقت تک انھیں ایک معمولی کمانڈر کی حیثیت حاصل رہی ۔ ۱۹۸۹ء میں جنگ کے دوران میں ان کی ایک آنکھ ضائع ہوئی اور بتایا جاتا ہے کہ تب علاج کی غرض سے وہ پہلی دفعہ پاکستان آئے ۔ نجیب حکومت کے خاتمے کے بعد وہ مجاہدین کی اندرونی لڑائیوں سے کنارہ کش ہوگئے اور کلاشنکوف رکھ کر قندہارکے نواح میں ایک مدرسہ قائم کرکے بچوں کو پڑھانا شروع کیا۔ انھوں نے تین شادیاں کیں اور ان کے بچے بھی اسی مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کرتے رہے ۔ ملا محمد عمر قائدانہ صلاحیتوں سے بالکل محروم تھے ۔ وہ انتہائی شرمیلے اور کم گو انسان تھے ۔افغانستان کا حکمران بن جانے کے باوجود انھوں نے کیمرے کا سامنا کیا نہ کبھی کسی اخبارنویس کو انٹرویو دیا ۔ واحد صحافی جن کو وہ انٹرویو دیا کرتے تھے ، وہ رحیم اللہ یوسف زئی تھے ، لیکن اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ان کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات استوار ہوگئے تھے ۔

طالبان تحریک کے آغاز کے بارے میں کئی قصے مشہور ہیں ، تاہم اصل قصہ جو اس تحریک کے آغاز کا سبب بنا یوں تھا کہ۱۹۹۴ء میں ایک مقامی کمانڈر نے بدفعلی کی غرض سے ایک نوجوان کو اپنے قبضے میں لے رکھا تھا ۔ یہ بات پورے علاقے میں پھیل گئی تھی ، چنانچہ ملا محمد عمر اپنے طالبان اور گاؤں کے لوگوں کو اکٹھا کرکے لڑکے کو چھڑانے کے لیے گئے اور کمانڈر کو قتل کرکے اس کی لاش ایک جگہ لٹکا دی ۔ یہ خالصتاً ایک اتفاقی واقعہ تھا جس کے لیے پہلے سے کوئی منصوبہ بندی کی گئی تھی نہ اس سے پہلے کبھی ملا محمد عمر کے ذہن میں طالبان کی طرح کسی منظم تحریک کو شروع کرنے کا خیال آیا تھا ، لیکن چونکہ قندہارکے لوگ مقامی کمانڈروں کے ظلم سے تنگ آگئے تھے اور وہ ان سے جان چھڑانے کی خاطر کسی مسیحا کی تلاش میں تھے اس لیے لامحالہ قرب و جوار کے لوگوں کی نظریں ملا محمد عمر اور ان کے طالبان کی طرف اٹھنے لگیں ۔اکتوبر ۱۹۹۴ء میں پاکستان کے وزیر داخلہ میجر جنرل(ر) نصیراللہ بابر نے چھ مغربی سفارت کاروں کے ہمراہ قندہار اور ہرات کے راستے وسط ایشیا تک کا سفر کیا ۔ انھوں نے ترکمانستان جاتے ہوئے ہرات کے گورنر اسماعیل خان سے ملاقات کی ۔ ۲۸ دسمبر کو پاکستانی وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے بھی ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں اسماعیل خان اور افغان ازبک لیڈر رشید دوستم سے ملاقات کی ۔ یہ وہ عرصہ تھا کہ جب ربانی حکومت اور پاکستان کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے تھے ۔ کابل حکومت سے مایوسی کے بعد حکومت پاکستان جنوبی افغانستان کے راستے وسط ایشیا کے ساتھ تجارتی روابط استوار کرنے کی خواہش مند تھی ، جبکہ دوسری طرف نصیر اللہ بابر کے ساتھ مغربی سفارت کاروں کے دورۂ افغانستان کو تیل اور گیس کی ان بین الاقوامی کمپنیوں کی کوششوں کا نقطۂ آغاز قرار دیا جاتا ہے جو ترکمانستان سے افغانستان اور پاکستان کے راستے گیس پائپ لائن بچھانے کی آرزومند تھیں۔اسی سال نومبر میں نصیراللہ بابر کے منصوبے کے تحت خیرسگالی کے جذبے کے اظہار کے لیے تیس ٹرکوں پر مشتمل امدادی سامان کا قافلہ کوئٹہ سے ترکمانستان کے لیے روانہ ہوا جسے قندہارمیں مقامی کمانڈروں نے روک لیا ۔ مقامی کمانڈروں سے لڑائی کے نتیجے میں پاکستانی قافلے کے بیس افراد ہلاک ہوئے ۔ اس دوران میں نصیراللہ بابر نے قندہارمیں مقیم پاکستان کے سفارتی عملے کے ذریعے سے ملا محمد عمر سے رابطہ قائم کیا اور ان سے ٹرکوں کے قافلے کو چھڑانے میں مدد کی درخواست کی ۔ اول الذکر واقعے کی وجہ سے چونکہ ملا محمد عمر کا رعب علاقے میں بیٹھ گیا تھا ، اس لیے مجاہد کمانڈروں کے ظلم و ستم سے تنگ آنے والے قندہار کے باشندے بندوقوں سمیت ملا محمد عمر اور ان کے ساتھیوں کی حمایت میں نکل آئے اور ایک ہی دن کے اندر وہ مجاہد کمانڈروں کو ماربھگانے اور پورے قندہار پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوگئے ۔ ملا محمد عمر اور ان کے ساتھی پاکستانی قافلے کو چھڑانے کے بعد قندہارپر اپنا قبضہ مضبوط کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ بیشتر سابق کمانڈر قندہار چھوڑ کر فرار ہوگئے اور جو ہاتھ آئے انھیں قتل کرکے ان کی لاشوں کو چوراہوں میں لٹکا دیا گیا ۔ ملا محمد عمر اور ان کے ساتھیوں کی اس اچانک اور غیرمعمولی کامیابی نے نہ صرف انھیں دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا دیا ، بلکہ پورے علاقے میں ان کی شخصیت کا رعب بھی بیٹھ گیا ۔ صرف بیس روز بعد یعنی ۲۵ نومبر کو طالبان نے قریبی صوبے ہلمند پربھی قبضہ کرلیا اور یوں طالبان کی فتوحات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔

طالبان کے عروج کے بارے میں دو انتہاپسندانہ موقف پائے جاتے ہیں ۔ ان کے حامی کسی بیرونی ہاتھ کی موجودگی کو مکمل رد کرکے طالبان تحریک کو خالصتاً مقامی حالات کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں ، جبکہ دیگر لوگوں کے خیال میں یہ خالصتاً آئی ایس آئی، یونیکال اور سی آئی اے کی پیدا کردہ تحریک ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ طالبان کا عروج مذکورہ دونوں عوامل کے اشتراک کے نتیجے میں سامنے آیا۔ طالبان مقامی حالات کی وجہ سے ایک اتفاقی واقعے کے نتیجے میں سامنے آئے تھے ۔ ملا محمد عمر اور طالبان کے دیگر بیشتر قائدین جو کچھ کہہ اور کر رہے تھے ، وہ ایک کمٹمنٹ کے تحت کہہ اور کررہے تھے ، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس تحریک کو پاکستانی اداروں ، سی آئی اے ، یونیکال ، سعودی عرب ، حتیٰ کہ کسی وقت میں رشید دوستم اور برہان الدین ربانی جیسے لوگوں نے بھی سپورٹ کیا۔دراصل اس وقت امریکی کمپنی یونیکال ترکمانستان سے افغانستان کے راستے پاکستان کے ساحل سمندر تک گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے پر کام کررہی تھی۔ اس غرض کے لیے اسے جنوبی افغانستان میں ایک مستحکم حکومت کی ضرورت تھی ۔ جنرل نصیراللہ بابر ، یونیکال اور سی آئی اے ہی کے اشارے پر طالبان تحریک کو سپورٹ کر رہے تھے ۔ دوسری طرف یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ جب تک یونیکال اور طالبان کے مذاکرات ناکام نہیں ہوئے تھے ، تب تک امریکانے طالبان کے خلاف کسی طرح کا کوئی قدم نہیں اٹھایا ، لیکن جب طالبان نے پائپ لائن کا ٹھیکہ یونیکال کے بجائے ارجنٹائن کی کمپنی بریڈاس کو دینے پر آمادگی ظاہر کردی تو امریکاکی طرف سے طالبان کی مخالفت بڑھ گئی ، حالانکہ طالبان اس سے قبل بھی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کا ارتکاب کررہے تھے ۔

دراصل امریکی سی آئی اے اور پاکستانی ادارے طالبان کے نمودار ہونے سے بہت عرصہ پہلے ایک نئے منصوبے پر کام شروع کرچکے تھے ۔ وہ مجاہدین کی حکومت کو ہٹا کر کسی ایک اتھارٹی کے تحت نئی قوت کو سامنے لانے کے لیے سرگرم عمل تھے ۔ اس غرض کے لیے قندہار اور گردونواح کے علاقوں میں کئی لوگوں کو منظم کیا گیا تھا ۔ ملا محمد عمر کے کئی قریبی ساتھی ، جو اس وقت تک ان سے متعلق نہ تھے ، بھی مذکورہ منصوبے کا حصہ تھے ۔ سی آئی اے ، یونیکال ، سعودی عرب اور پاکستان کے اس مشترکہ منصوبے میں ، بہروز بالول اور گزشتہ لویہ جرگہ میں نمایاں کردار ادا کرنے والی خاتون تاجور کاکڑ کا کردار نمایاں تھا۔ مذکورہ تمام ادارے مل کر نصیراللہ بابر کے ذریعے سے اپنے منصوبے کو آگے بڑھا رہے تھے ، لیکن چونکہ مقامی کمانڈر کے خلاف اچانک اور حیران کن کارروائی کی وجہ سے ملا محمد عمر اور ان کے ساتھی توجہ کا مرکز بن گئے ، اس لیے سی آئی اے ، یونیکال ، سعودی عرب اور پاکستان نے ملا محمد عمر کو لیڈر مان کر اپنے منصوبے کے تحت جمع ہونے والے لوگوں کو بھی ان کے ساتھ ملا دیا اور ان کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے وسائل بھی مہیا کرنے لگے۔

افغانستان کے اندر حکومتوں کو لانے اور گرانے میں تاجر، اسمگلر اور ڈرگ مافیا سے وابستہ لوگ بھی بنیادی کردار ادا کرتے چلے آرہے ہیں ۔اس وقت یہ لوگ مختلف علاقوں میں مختلف کمانڈروں کے کنٹرول سے تنگ آگئے تھے ۔ واحد اتھارٹی اور ادارہ نہ ہونے کی وجہ سے انھیں متعدد کمانڈروں کو راضی کرنا پڑتا تھا ، جس کی وجہ سے ان سب عناصر کا کاروبار بری طرح متاثر ہورہا تھا ، چنانچہ جب انھوں نے دیکھا کہ طالبان کی صورت میں افغانستان کے اندر سنگل اتھارٹی کی حکومت قائم ہوسکتی ہے تو انھوں نے بھی طالبان کو سپورٹ کرنا شروع کردیا۔ مجاہدین کے دور میں افغانستان کے راستے انتہائی غیرمحفوظ ہوگئے تھے جس کی وجہ سے تاجر اور اسمگلر شدید عدم تحفظ سے دوچار تھے ، دوسری طرف طالبان نے اپنے زیرتسلط علاقوں میں سخت قوانین کے نفاذ کے ذریعے سے امن قائم کیا تھا اور تمام تجارتی روٹ محفوظ بنادیے تھے ۔ اس وجہ سے بھی تاجر اور اسمگلر طالبان کو سپورٹ کرتے رہے ۔ اسی طرح افغان عوام بھی مجاہد تنظیموں کے دور کی انارکی اور رشوتوں سے تنگ آگئے تھے اور طالبان کے بارے میں چونکہ یہ تاثر عام تھا کہ ان کی حکومت میں رشوت نہیں چلتی ، اس لیے عوام نے بھی طالبان کو سپورٹ کیا۔ ملا محمد عمر سمیت طالبان کے بیشتر لیڈر دیگر حکمرانوں کی طرح شان و شوکت سے زندگی گزارنے کے قائل نہ تھے ، بلکہ ملا محمد عمر کی زندگی تو فقر کا بہترین نمونہ تھی ۔ طالبان کی یہ خوبی بھی عوام کو ان کی طرف متوجہ کرنے کا باعث بنی ۔

طالبان تحریک چونکہ دینی مدارس میں پڑھنے والے طالبان نے شروع کی تھی اور اس کی لیڈرشپ میں غلبہ بھی انھی لوگوں کاتھا ،اس لیے اسے آخری وقت تک محض طالبان کی تحریک ہی تصور کیا جاتا رہا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بڑی تعداد میں سابق کمیونسٹ اور سابق جہادی کمانڈر بھی اس تحریک کا حصہ بن گئے تھے۔ طالبان کے ساتھ مل جانے کے بعد یہ لوگ اپنی ڈاڑھیوں کو بڑھا کر سر پر ٹوپی کے بجائے پگڑی باندھنے لگے جس کے بعد انھیں بھی طالبان کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ خود ملا محمد عمر ماضی میں مجاہد تنظیم حزب اسلامی (خالص) سے وابستہ رہے تھے ۔ وزیراعظم کی حیثیت کے حامل طالبان کی کابل شوریٰ کے چیئرمین ملا محمد ربانی جو ۲۰۰۱ء میں انتقال کرگئے تھے ، کا تعلق بھی اسی تنظیم سے تھا۔ طالبان حکومت کے اہم وزرا ملا محمد حسن اخوند، ملا محمد غوث ، ملارحمت اللہ اخوند، ملا محمد عباس اخوند، ملا داداللہ اور اسی نوع کے دیگر طالب قائدین ماضی میں جہادی تنظیموں سے وابستہ رہے تھے ۔ مشہور جہادی کمانڈر جلال الدین حقانی طالبان حکومت میں نہ صرف قبائلی امور کے وزیر تھے ، بلکہ امریکی حملوں کے بعد انھیں سپریم کمانڈر بھی بنا دیا گیا تھا ۔ اسی طرح متعدد سابق کمیونسٹ بھی اپنے مخالف مجاہدین کے مقابلے میں ابھرنے والی اس نئی قوت کے ساتھ مل گئے تھے اور ڈاڑھیاں رکھ کر وہ بھی اپنے آپ کو طالب مشہور کررہے تھے ۔ اس صورت حال کوواضح کرنے کے لیے یہاں میں ایک ذاتی مشاہدے کو نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اگست ۱۹۹۹ء میں شمالی اتحاد کے علاقوں سے واپسی پر طالبان نے مجھے میرے دوست محمد اعظم خان سمیت گرفتار کر لیا۔ریڈیو تہران کے لیے رپورٹنگ کرنے کی بنا پر طالبان قیادت ان دنوں مجھ سے سخت ناراض تھی ۔ دوسری طرف وہ چاہتے تھے کہ احمد شاہ مسعود کے علاقوں میں بنائی گئی ویڈیو فلم مجھ سے حاصل کر لیں، چنانچہ مجھے واپسی پر گرفتار کرکے اسد آباد کے انٹیلی جنس (استخبارات) کے عقوبت خانے میں بند کردیا گیا۔ دن رات کونڑ صوبے کے انٹیلی جنس شعبے کا سربراہ مجھ سے تفتیش کرتا رہا ۔ ابتدائی تفتیش کے موقع پر اس نے پاکستان کے بارے میں غلط الفاظ استعمال کیے جس پر ان کے ساتھ میری تلخ کلامی ہوگئی ۔ ایک طالب رہنما کا پاکستان سے نفرت کا اظہار مجھے بہت عجیب لگا۔ دو روز بعد ہماری نگرانی پر مامور طالبان میں سے ایک طالب نے مجھے بتایا کہ ان کا تعلق دراصل حزب اسلامی (حکمت یار ) سے ہے ، لیکن اب وہ مجبوراً طالبان کا ساتھی بن گیا ہے ۔ وہ دل سے طالبان کا شدید مخالف تھا اور دوران حراست میں ہمارے ساتھ درپردہ تعاون کرتا رہا۔ میں نے جب ان سے ان کے ادارے کے سربراہ کے بارے میں معلوم کیا تو انھوں نے بتایا کہ دراصل وہ کمیونسٹ ہے اور ماضی میں خاد تنظیم کا عہدے دار تھا ، اس لیے وہ پاکستان سے نفرت کرتا ہے ۔کمیونسٹوں اور سابق مجاہد لیڈروں کے علاوہ ایک اور عنصر جو طالبان تحریک کی تقویت کا باعث بنا، وہ پختون قوم پرستی کی بنیاد پر پختون قبائل کی طرف سے اس کی سپورٹ تھی۔ برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود ، جو تاجک نسل سے تعلق رکھتے ہیں ، پختون مخالف تصور کیے جاتے تھے اور چونکہ طالبان پختون علاقے یعنی قندہارسے اٹھے تھے ، اس لیے پختونولی کی بنیاد پر بھی پختون علاقوں سے اسے غیرمعمولی سپورٹ ملتی رہی ۔

قندہار اور نواحی صوبوں کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان کابل کی طرف بڑھنے لگے ۔ ۲ فروری ۱۹۹۵ء کو انھوں نے ارزگان کے راستے کابل سے ۲۵ میل کے فاصلے پر واقع وردک صوبے پر قبضہ کرلیا۔ ۴ فروری کو انھوں نے کابل کے نواح میں واقعہ پہاڑی علاقے چہارسیاب پر بڑا حملہ کیا جہاں گلبدین حکمت یار اپنے مخالف احمد شاہ مسعود کے خلاف کابل پر حملوں کے لیے براجمان تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس روز طالبان نے حکمت یار کو قتل کرنے کی تمام منصوبہ بندی کررکھی تھی ، تاہم حکمت یار بغیرکسی مزاحمت کے چہارسیاب کو طالبان کے حوالے کرکے جان بچانے کی خاطر وہاں سے نکل گیا۔ ۷ مارچ کو احمد شاہ مسعود نے جوابی حملہ کرکے طالبان کو چہارسیاب سے پیچھے دھکیل دیا ۔اس دوران میں کابل کے مغربی حصہ پر قابض حزب وحدت کے سربراہ عبدالعلی مزاری نے طالبان کواپنے علاقوں میں آکر کابل کے اندر گھسنے کی دعوت دی ۔ طالبان شیعہ حزب وحدت کے زیرقبضہ علاقوں میں داخل ہوگئے اور عبدالعلی مزاری کو ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر مذاکرات کے بہانے قندہارلے جانے لگے ، لیکن راستے میں ان کا ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہواجس میں وہ ہلاک ہوگئے ۔ افغانستان کی شیعہ برادری ہیلی کاپٹر کے حادثے کو حادثہ قرار دینے سے انکاری ہے اوراس کا خیال ہے کہ ان کے لیڈر کو طالبان نے دھوکا دے کر منصوبے کے تحت قتل کیا۔ دوسری طرف ہرات کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے طالبان نے ۴ اپریل کو ایرانی سرحد کے قریب شین ڈنڈ کے اہم ہوائی اڈے پر قبضہ کرلیا۔ ۲۹ اپریل کو اسماعیل خان کی فوجوں نے طالبان کو واپس شین ڈنڈ کے علاقے سے نکال دیا۔ ۵ ستمبر کو طالبان نے حیرت انگیز طور پر پیش قدمی کرکے ہرات کو قبضے میں لے لیا اور اسماعیل خان بغیر کسی مزاحمت کے شہر سے نکل گئے۔ اسماعیل خان جس طرح بے پناہ جنگی قوت کے حامل تھے اور جس طرح انھیں مقامی آبادی کا تعاون بھی حاصل تھا ، اس کے باوجود بغیر کسی مزاحمت کے ہرات پر طالبان کے قبضے نے ان کے حامی اور مخالف سب لوگوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ۔ دوسری طرف کٹر حنفی اور شیعہ و ایران مخالف نظریات رکھنے والے طالبان کی اپنی سرحد کے قریب مسلسل کامیابیوں نے ایران کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا اور وہ طالبان مخالف قوتوں کو بھرپور طریقے سے سپورٹ کرنے لگا۔ اسی سال ۶ ستمبر کو کابل میں پاکستانی سفارت خانے کو جلادیا گیا ۔اس عمل کو کابل انتظامیہ کی شہ حاصل تھی جو کابل حکومت کا پاکستان کی طرف سے طالبان کی سپورٹ پر ناراضی کا اظہار تھا ۔ دوسری طرف ایران نے طالبان کو متنبہ کیا کہ وہ ایرانی سرحد کو عبور کرنے سے گریز کرے ۔ اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں طالبان نے کابل پر میزائلوں سے حملوں کا سلسلہ جاری رکھا اور اس دوران میں وہ تواتر کے ساتھ اپنی قوت کو قندہارسے کابل منتقل کرتے رہے ۔ ۲۰ مارچ ۱۹۹۶ء کو قندہارمیں ایک ہزار علما اور قبائلی سرداروں کی شوریٰ کا اجلاس شروع ہوا ۔ ۴ اپریل کو اس شوریٰ نے اپنے اختتامی اجلاس میں ملا محمد عمر کو امیرالمومنین منتخب کرکے ربانی حکومت کے خلاف جہاد کااعلان کیا ۔ ۱۱ ستمبرکو طالبان افغانستان کے مشرقی شہر جلال آباد پر قابض ہوگئے اور گورنر حاجی قدیر فرار ہوکر پاکستان آن پہنچے ۔ پاکستان ٹیلی وژن پر بیان دیتے ہوئے حاجی قدیر نے کہا کہ اس نے رضاکارانہ طور پر جلال آباد طالبان کے حوالے کیا ۔ جلال آباد پر قبضے کے چند روز بعد طالبان نے کونڑ صوبے کے مرکز اسد آباد پر بھی قبضہ کرلیا ، جبکہ دوسری طرف کابل کی طرف پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے ۲۵ ستمبر کو وہ دفاعی لحاظ سے اہم علاقے سروبی پر قابض ہوگئے ۔ ان لڑائیوں میں طالبان کے سپریم کمانڈر ملا بورجان ہلاک ہوگئے ، لیکن ان کی ہلاکت سے بھی طالبان کے حوصلے پست نہ ہوئے اور وہ مسلسل کابل کی طرف بڑھتے رہے ۔ ۲۶ ستمبر کو طالبان اچانک کابل میں داخل ہوگئے اور پروفیسرربانی ، حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کابل چھوڑ کر شمالی افغانستان منتقل ہوگئے ۔ احمد شاہ مسعود اپنے مرکز پنج شیر جاکر طالبان کے خلاف اپنی قوت کو ازسرنو منظم کرنے لگے ، لیکن گلبدین حکمت یار مزاحمت چھوڑ کر ابتدا میں کندوز اور بعدازاں ایران چلے گئے۔ احمد شاہ مسعود کے ساتھ جو دیگر لوگ طالبان کی مزاحمت کرنے لگے ، ان میں استاد سیاف واحد نمایاں پختون کمانڈر تھے ۔ اسی طرح حزب اسلامی (حکمت یار ) کے کئی اہم کمانڈر جن میں سابق وزیردفاع وحیداللہ سباؤن اور سابق مرکزی تنظیمی امیر حاجی کشمیر خان قابل ذکر ہیں، نے حکمت یار کی پالیسی کے برعکس احمد شاہ مسعود کے اتحادی بن کر طالبان کے خلاف مزاحمت جاری رکھی ۔ ننگرہار کے سابق گورنر حاجی عبدالقدیر بھی کچھ عرصہ دوبئی اور یورپ میں گزارنے کے بعد تاجکستان کے راستے واپس افغانستان آئے اور لغمان کے شمال میں کانتی وا کے مقام پر اپنا مرکز قائم کرکے مزاحمت میں حصہ لینے لگے۔ شیعہ دھڑے بھی آخری وقت تک طالبان کی مزاحمت جاری رکھے ہوئے تھے ۔ کابل سے نکالے جانے کے باوجود تالقان میں اپنا مرکز قائم کرکے برہان الدین ربانی نے اپنے آپ کو صدر کہلوانے پر اصرار جاری رکھا، جبکہ اقوام متحدہ سمیت ، پاکستان اور سعودی عرب کے علاوہ دنیا کے باقی تمام ممالک بھی آخری وقت تک ربانی کی حکومت کو تسلیم کرتے رہے ۔

کابل پر قبضے کے بعد طالبان نے اپنے زیرقبضہ علاقوں میں اپنے فہم کے مطابق شریعت کے نام پر سخت قوانین کو رائج کیا۔ خواتین کی تعلیم اور مردوں کے ساتھ ان کے اختلاط پر پابندی عائد کردی گئی ۔ مردوں کے لیے لمبی ڈاڑھیوں کو رکھنا لازمی قرار دیا گیا ۔ مختلف شہروں میں شرعی حدود کی خلاف ورزی کے الزام میں لوگوں کو سزائیں دینا روز کا معمول بن گیا۔ ٹی وی اسٹیشن بند کرکے ٹی وی دیکھنے پر پابندی لگا دی گئی ۔ ریڈیوکابل کا نام تبدیل کرکے ریڈیو شریعت رکھ دیا گیا جس پر صرف خبریں، تلاوت قرآن ، نظمیں اور طالبان رہنماؤں کی تقریریں نشر کی جاتی تھیں ۔ موسیقی کو خلاف قانون قرار دیا گیا۔ اسی طرح متعدد کھیلوں پر بھی پابندی عائد کی گئی۔ طالبان اپنی حکومت اور پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے ساتھ کسی قسم کی نرمی برتنے کے روادار نہ تھے ۔ کابل پر قبضے کے فوراً بعد طالبان نے سابق صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کو اقوام متحدہ کے دفتر سے نکال کر بھائی سمیت ، جو ان سے ملاقات کے لیے آئے تھے ، پھانسی دے کر لاشوں کو کابل کے ایک چوک میں تین روز تک لٹکائے رکھا۔ اس کے بعد جس بھی فرد کو طالبان حکومت کا مخالف قرار دیا گیا ، طالبان قیادت نے اسے گرفتار کرنے اور سنگین سزا دینے میں دیر نہیں لگائی۔ اس صورت حال کی وجہ سے کابل اور دیگر شہروں سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرنے لگے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ پشاور اور دیگر خطوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ۔

طالبان کی بڑھتی ہوئی قوت کی وجہ سے ایران کے ساتھ ساتھ وسط ایشیائی ریاستیں بھی تشویش میں مبتلا ہونے لگیں اور ۴ اکتوبر ۱۹۹۶ء کو الماتے میں ہونے والے وسط ایشیائی ریاستوں کے سربراہوں کے اجلاس میں طالبان کو متنبہ کیا گیاکہ وہ وسط ایشیا میں مداخلت سے باز رہیں ۔ دوسری طرف یہ ریاستیں بالخصوص تاجکستان اور ازبکستان طالبان کا زور توڑنے کی خاطر شمالی اتحاد کو سپورٹ کرنے لگیں۔ ستمبر ۹۶ء میں کابل پر قبضے کے بعد سے لے کر ۹۷ء کے اواخر تک طالبان نے احمد شاہ مسعود کے مرکز پنج شیر پر قبضے کے لیے متعدد حملے کیے ، لیکن انھیں کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ اس دوران میں طالبان اور مسعود کے مابین زیادہ تر جنگیں چاریکار اور باگرام کے علاقوں میں ہوتی رہیں ۔ مئی ۱۹۹۷ء میں طالبان کو شمالی محاذ پر ایک بڑی کامیابی نصیب ہوئی۔ ازبک کمانڈر جنرل رشید دوستم کے ایک اہم کمانڈر جنرل مالک نے ان کے خلاف بغاوت کرکے فریاب صوبے پر قبضے کے ساتھ ساتھ طالبان کی حمایت کا اعلان کیا۔ ۲۰ مئی کو بادغیس اور سرائے پل صوبوں پر قبضے کے بعد اس نے ہرات کے سابق گورنر اسماعیل خان سمیت شمالی اتحاد کے سات سو قیدیوں کو طالبان کے حوالے کیا۔ اسماعیل خان ایک لمبے عرصے تک قندہارکی جیل میں رہے اور ۲۰۰۰ء میں بعض طالبان رہنماؤں کورشوت دے کر جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے ۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد اسماعیل خان ایک بار پھر ہرات کے گورنر بن گئے ہیں ۔

۲۴ مئی کو جنرل مالک کی مدد سے طالبان رشید دوستم کے ہیڈکوارٹر مزار شریف پر قابض ہوگئے ، لیکن صرف چند روز بعد یعنی ۲۸ مئی کو جنرل مالک اور طالبان کے مابین اختلافات پیدا ہوگئے اور اس کی فوجوں نے طالبان کو مزار شریف سے نکال دیا۔ جنرل مالک نے طالبان کے دو وزرا سمیت متعدد لوگوں کو گرفتار کرلیا ، جبکہ ہزاروں کی تعداد میں طالبان قتل کر ڈالے ۔ مئی ۹۶ء میں پاکستان نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرلیا جس کی پیروی کرتے ہوئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ ۱۲ ستمبر کو جنرل دوستم ترکی سے واپس مزار آئے اور شیعہ دھڑے حزب وحدت کے تعاون سے جنرل مالک کو نکال کر شہر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ ۱۶ نومبر کو جنرل رشید دوستم نے شبرغان کے علاقے میں واقع تیس اجتماعی قبروں سے دو ہزار طالبان کی لاشیں نکالیں جنھیں جنرل مالک نے قتل کیا تھا۔

۷ اگست ۱۹۹۸ء کو طالبان اور باقی دنیا کے تعلقات اس وقت ایک نیا رخ اختیارکرنے لگے ، جب کینیا اور تنزانیہ میں ہونے والے بم دھماکوں کے لیے اسامہ بن لادن جو اپنی تنظیم القاعدہ کے ہزاروں ارکان سمیت طالبان کے علاقوں میں مقیم تھے ، کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ دوسری طرف ۸ اگست کو مزار شریف پر طالبان کے قبضے کے بعد بڑی تعداد میں ہزارہ قوم کے شیعوں کے ساتھ ساتھ گیارہ ایرانی سفارت کاروں اور ایک صحافی کو بھی قتل کردیا گیا ، جس سے ایران اور طالبان کے تعلقات میں بے انتہاکشیدگی پیدا ہوئی اور ایران نے افغان سرحد کے ساتھ فوجی مشقوں کا آغاز کرکے طالبان پر دباؤ بڑھانا شروع کیا۔ دوسری طرف طالبان کے حامی پاکستان پر بھی عالمی دباؤ بڑھنے لگا۔ اسی سال گیارہ اگست کو روس نے پاکستان کو متنبہ کیا کہ وہ طالبان کی مدد سے باز آجائے ۔ ۱۸ اگست کو ایران نے امریکااور پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ طالبان کو ایران کے خلاف استعمال کررہا ہے ۔ ادھر امریکاکی طرف سے بھی اسامہ بن لادن کے سلسلے میں پاکستان پر دباؤ بڑھنے لگا۔ ۲۰ اگست کو امریکانے جلال آباد اور خوست میں اسامہ بن لادن کے ٹھکانوں پر ۷۵ کروز میزائل فائر کیے ، تاہم اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھی وہاں موجود نہ تھے ، اس لیے انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ طالبان نے اسامہ بن لادن کو افغانستان سے نکالنے کے مطالبے کو رد کرتے ہوئے موقف ظاہر کیا کہ وہ بہرصورت اس کی حفاظت کریں گے ۔ ۲۶ اگست کو ایک امریکی عدالت نے اسامہ بن لادن کو دہشت گردی کا ملزم قرار دے دیا۔ ۱۳ ستمبرکو طالبان وسطی افغانستان کے صوبے بامیان پر قابض ہوئے ، جہاں کی شیعہ آبادی کو شدید بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق طالبان نے یکاولنگ کے پورے گاؤں کو نذرآتش کیا اور سیکڑوں شیعہ ہزارہ میں قتل کردیے گئے۔ ۲ فروری ۱۹۹۹ء کو امریکی نائب سیکرٹری خارجہ سٹروب ٹالبوٹ نے اپنی حکومت کی طرف سے ایک خط طالبان رہنماؤں کو پہنچایا جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اسامہ بن لادن کو امریکاکے حوالے کردیں ، لیکن طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر نے اس مطالبے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسامہ بن لادن ان کے مہمان ہیں اور افغان اپنے مہمان کو کبھی جانے کا نہیں کہا کرتے ، تاہم انھوں نے یقین دلایا کہ وہ اسامہ بن لادن کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کریں گے ۔ ۶ جولائی ۱۹۹۹ء کو امریکانے طالبان کے خلاف تجارتی اور اقتصادی پابندیاں عائد کرکے امریکامیں ان کے اثاثے منجمد کردیے ۔ ۲۴ اگست کو طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کے گھر کے سامنے بم دھماکا ہوا جس میں ان کے دو سوتیلے بھائی ، ایک عرب باشندہ اور ۳۷ دیگر افراد ہلاک ہوئے۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق اسی عرصے میں میاں نواز شریف کی حکومت نے امریکی سی آئی اے کے ساتھ مل کر اسامہ بن لادن کو کمانڈوز کی کارروائی کے ذریعے سے گرفتار یا ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ، لیکن قبل اس کے کہ یہ منصوبہ روبہ عمل ہوتا ،پاکستان میں ان کی حکومت ختم کردی گئی۔

نواز شریف حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل پرویز مشرف کی حکومت دنیا میں واحد حکومت تھی ، جو طالبان کے ساتھ قریبی روابط کے لیے مشہور تھی ۔ اگرچہ چین اور ترکمانستان جیسے بعض پڑوسی ممالک بھی رفتہ رفتہ طالبان کے ساتھ روابط استوار کرنے لگے تھے ، لیکن طالبان اپنی پالیسیوں کی وجہ سے روز بروز اپنے دشمنوں میں اضافہ کرتے رہے ۔ اسامہ بن لادن کی تنظیم میں ایک طرف اگرچیچن باشندے شامل تھے تو دوسری طرف چینی صوبے سنکیانگ کے بعض لوگ بھی یہاں آن پہنچے تھے۔ عرب ممالک میں تو شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو، جس کے باشندے ، جو زیادہ تر اپنی حکومتوں کو مطلوب تھے ، افغانستان میں اسامہ بن لادن کی تنظیم سے وابستہ نہ تھے ۔ ۲۰۰۱ ء کے سال کا سورج طالبان کے لیے زوال کا پیغام لے کر طلوع ہوا۔ سال کے آغاز میں بامیان میں بدھا کے تاریخی مجسمے کو بم سے اڑانے کی وجہ سے طالبان کی عالمی بدنامی میں مزید اضافہ ہوا اور جاپان و تھائی لینڈ جیسے ممالک بھی مخالف بن گئے ۔ اس دوران میں اسامہ بن لادن کے ایشو پر اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے بھی طالبان کے خلاف پابندیاں عائد کر رکھی تھیں اور امریکاکی شہ پر طالبان کے خلاف عالمی دباؤ میں روزبروز اضافہ ہوتاجارہا تھا۔ کابل میں عیسائیت کی تبلیغ کے الزام میں ایک این جی او سے وابستہ امریکی اور آسٹریلوی باشندوں کی گرفتاری نے جلتی پر تیل کا کام کیا، تاہم دوسری طرف طالبان دباؤ کے آگے جھکنے کے بجائے طیش میں آکر روز بروز عالمی برادری کو طیش دلانے والے مزید اشتعال انگیز اقدامات کرتے رہے ۔ گیارہ ستمبر کے واقعات سے چند روز قبل شمالی اتحاد کے اہم کمانڈر احمد شاہ مسعود کو صحافیوں کے روپ میں آنے والے دو عربوں نے بم کے ایک خودکش حملے کے ذریعے سے قتل کیا۔ شمالی اتحاد نے اس کے لیے اسامہ بن لادن اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی کو مورد الزام ٹھہرا دیا۔ طالبان کے رہنماؤں نے احمد شاہ مسعود کے قتل پر خوشی کا اظہار کیا ، لیکن ان کی یہ خوشی بڑی عارضی ثابت ہوئی اور گیارہ ستمبر کو امریکامیں دہشت گردی کے واقعات افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کی تمہید ثابت ہوئے ۔ گیارہ ستمبر کے واقعات کے لیے اسامہ بن لادن کومورد الزام ٹھہرا کر امریکانے طالبان سے القاعدہ کے اہم ممبران کو امریکاکے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ، لیکن طالبان نے اس مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کرکے امریکاسے مقابلے کا عزم ظاہر کیا۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے قرارداد کے ذریعے سے امریکااور اس کے اتحادیوں کو طالبان کے خلاف کارروائی کا اختیار دے دیا اور ۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو امریکانے شمالی اتحاد کی مدد سے طالبان کے خلاف باقاعدہ جنگ کا آغاز کردیا ۔ شدید امریکی بمباری کے نتیجے میں طالبان بہت جلد کابل چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔ ابتدائی طور پر شمالی اتحاد کے سربراہ پروفیسر برہان الدین نے کابل کا کنٹرول سنبھالا ، تاہم بعدازاں ۲۰ دسمبر ۲۰۰۱ء کو بون معاہدے کی رو سے حامد کرزئی عبوری حکومت کے سربراہ مقرر ہوئے ۔ جون ۲۰۰۲ء میں کابل میں، اقوام متحدہ کی نگرانی اور بین الاقوامی امن فوج کی حفاظت میں لویہ جرگہ منعقد ہوا جس میں حامد کرزئی کو مزید اٹھارہ ماہ کے لیے عبوری حکومت کا سربراہ منتخب کرلیا گیا ۔امریکااور اس کی اتحادی افواج اگرچہ طالبان حکومت کے خاتمے اور اپنے حامیوں کی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئیں ، تاہم وہ نہ صرف ملا محمد عمر اور اسامہ بن لادن کو ہلاک یا گرفتار نہیں کرسکے ، بلکہ ایک سالہ جنگ کے بعد بھی اب افغانستان میں جگہ جگہ انھیں طالبان اور القاعدہ کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔

اسامہ بن لادن

اسامہ بن محمد بن لادن ۱۹۵۵ء میں سعودی عرب کے شہر جدہ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد محمد بن لادن کسی زمانے میں یمن سے سعودی عرب منتقل ہوکر کاروبار میں بے پناہ وسعت کی وجہ سے ارب پتی بن گئے تھے ۔ وہ بن لادن کنسٹرکشن کمپنی کے مالک اورشاہ فیصل کے قریبی دوستوں میں سے تھے ۔ مکہ معظمہ میں مسجدالحرام اور مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی توسیع کا کام بھی اسی بن لادن کمپنی نے کرایا ۔ سعودی عرب سے باہر بھی کئی ممالک میں تعمیرات کے متعدد منصوبے مکمل کرکے اس نے بین الاقوامی شہرت حاصل کرلی تھی ۔ اسامہ بن لادن کے باپ نے کئی شادیاں کی تھیں ۔ محمد بن لادن کی ستاون اولادوں میں اسامہ بن لادن کا سترہواں نمبر ہے ، تاہم اپنی والدہ کا وہ اکلوتا بیٹا ہے۔ ابتدا میں اسامہ بن لادن نے جدہ یونیورسٹی میں بزنس ایڈمنسٹریشن کی ماسٹر ڈگری لینے کے لیے داخلہ لے رکھا تھا ۔ وہاں وہ سعودی عرب کے مشہور دینی اسکالر ڈاکٹر سفرالحوالی کے نظریات سے متاثر ہوئے جس کی وجہ سے ان کا دین کی طرف رجحان پیدا ہوا اور انھوں نے بزنس ایڈمنسٹریشن چھوڑ کر اسلامک اسٹڈیز میں داخلہ لے لیا۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسامہ بن لادن عبداللہ عزام کے نظریات سے متاثر ہوکر جہاد کی طرف راغب ہوئے تھے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عبداللہ عزام کے ساتھ جدہ یونیورسٹی میں اسامہ بن لادن کی صرف علیک سلیک رہی تھی ۔ دراصل یہ ڈاکٹر سفرالحوالی تھے ، جن کے نظریات نے اسامہ کی زندگی بدل دی ۔ ڈاکٹر سفرالحوالی سعودی عرب کے نامور مذہبی اسکالر اور درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں ۔ ان کے نظریات کی بنا پر سعودی حکومت نے انھیں کئی سال جیل میں رکھا اور اس وقت بھی وہ جیل سے تو باہر آگئے ہیں ، لیکن بدستور گھر پر نظربند ہیں ۔جب افغانستان میں سوویت فوجیں داخل ہوئیں اور اس کے جواب میں مجاہدین نے اپنی مزاحمت کو جہاد کا نام دیا تو اسامہ بن لادن بھی اس میں حصہ لینے کے لیے پشاور چلے آئے۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکی سی آئی اے افغان جہاد کی سپورٹ کے لیے دنیا بھربالخصوص عرب ممالک سے لوگوں کو افغانستان لانے میں خصوصی دلچسپی لے رہی تھی ۔یہاں بھی عام مغالطہ یہ پایا جاتا ہے کہ اسامہ بن لادن کو عبداللہ عزام نے جہاد کے لیے مدعو کیا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے بالکل برعکس اسامہ بن لادن کی ترغیب پر عبداللہ عزام اس طرف متوجہ ہوئے ۔ پشاور آکر اسامہ بن لادن مجاہدین لیڈروں سے ملے اور ۱۹۸۰ء میں افغان مجاہدین کی امداد کے لیے ، عبداللہ عزام کے ساتھ مل کر’’مکتب الخدمت‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور اپنے وسائل کے ساتھ ساتھ عرب ممالک سے عطیات لاکر مجاہدین کی امداد میں لگ گئے۔ کچھ عرصہ بعد عبداللہ عزام کے ساتھ اسامہ بن لادن کے اختلافات پیدا ہوگئے اور آہستہ آہستہ وہ’’ مکتب الخدمت ‘‘سے الگ ہوکر اسے عبداللہ عزام کے سپرد کرگئے ۔ اختلافات کی وجوہات میں سرفہرست وجہ یہ تھی کہ عبداللہ عزام ’’مکتب الخدمت‘‘ کو سیاسی رنگ دے رہے تھے ، جبکہ اسامہ بن لادن اسے خالص جہادی سرگرمیوں تک محدود رکھنا چاہتے تھے ۔ اس تنظیم میں ان دونوں کے ہمراہ ایک اور نمایاں شخصیت شیخ تمیم عدنانی بھی تھے ۔ عبداللہ عزام کی طرح وہ بھی فلسطینی تھے اور امریکا سے لوٹ کر پشاور آئے تھے ۔ کہاجاتا ہے کہ عبداللہ عزام روز بروز مکتب الخدمت پر اپنی گرفت مضبوط کررہے تھے ۔ انھوں نے اپنے چار دامادوں اور دو بھانجوں کو بھی بلا کر اس میں ذمہ داریاں سونپ دیں۔ ان کے ایک بھانجے جو فرانسیسی شہریت رکھتے تھے ، کے احمد شاہ مسعود کے ساتھ تعلقات تھے ، چنانچہ وہ زیادہ سے زیادہ امداد کا رخ احمد شاہ مسعود کی طرف موڑنا چاہتے تھے جس پر اسامہ بن لادن خوش نہیں تھے ۔ خود اسامہ بن لادن زیادہ امداد کے مستحق گلبدین حکمت یار اور جلال الدین حقانی جیسے جہادی لیڈروں کو گردانتے تھے ۔ اسامہ بن لادن نے شروع سے یہ پالیسی اپنا رکھی تھی کہ وہ اپنے آپ کو کسی خاص تنظیم کے ساتھ نتھی کرنے سے گریز کررہے تھے اور اس کے بجائے ہر تنظیم میں موثر اور اپنے نظریات سے قریبی لوگوں کے ساتھ روابط رکھ رہے تھے ۔ عبداللہ عزام سے الگ ہوجانے کے بعد اسامہ بن لادن نے افغان سرحد سے متصل کرم ایجنسی کے علاقہ سدہ میں اپنا مرکز قائم کیا جسے ’’معسدۃ الانصار‘‘کا نام دیا گیا ۔ یہاں وہ عرب دنیا سے نوجوانوں کو بلا کر تربیت دیتے اور افغانستان بھجواتے رہے ۔

بے پناہ مالی وسائل اور افرادی قوت کے حامل ہونے کی وجہ سے اسامہ بن لادن نے بہت جلد مجاہد لیڈروں میں محبوبیت حاصل کی ، جبکہ امریکی سی آئی اے اور پاکستانی ادارے بھی ان کو خاص اہمیت دیتے رہے ۔ انھوں نے پشاور میں کئی دفاتر قائم کررکھے تھے اور اپنی تعمیراتی کمپنی کے بعض انجینئر وں اور تعمیراتی مشینری کو بھی یہاں منتقل کیا تھا جو افغانستان میں مجاہدین کو سڑکوں اور غاروں کی تعمیر میں خصوصی مدد دیتے رہے۔ ۱۹۸۶ء میں اسامہ بن لادن نے خوست کی پہاڑیوں میں مجاہدین کے لیے خوست ٹنل کمپلیکس تعمیر کیا جو کابل حکومت کی بمباری کے مقابلے میں مجاہدین کے لیے محفوظ ٹھکانے اور ڈپو کا کام دیتا رہا۔ ۱۹۸۹ء میں مجاہدین حکومت کے قیام تک اسامہ بن لادن عرب ممالک سے ہزاروں نوجوانوں کو لاکر افغانستان میں جنگی تربیت فراہم کرچکے تھے ۔یہ وہ عرصہ تھا جب امریکی ہدایت پر پاکستان نے عرب ملکوں میں اپنے سفارت خانوں کو اجازت دے رکھی تھی کہ وہ جہاد میں شرکت کے خواہش مندلوگوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے ویزے جاری کردیا کریں ۔ پاکستان میں ان عربوں کو گھومنے پھرنے کی نہ صرف مکمل آزادی حاصل تھی ، بلکہ انھیں جماعت اسلامی کی صورت میں موثر اور منظم میزبان بھی میسر تھے ۔ اس دوران میں مصر کی ’’اخوان المسلمون‘‘ ، ’’الجماعۃ اسلامیہ‘‘ اور عرب ملکوں میں خلاف قانون قرار پانے والی کئی تنظیموں کے عہدہ دار بھی اسامہ بن لادن کے ساتھ اس عمل میں برابر کے شریک رہے ۔ ۱۹۸۸ء میں اسامہ بن لادن نے القاعدہ کے نام سے عرب اور غیرافغان مجاہدین کی ایک تنظیم قائم کرکے خوست کے قریب پہاڑی غاروں کو اپنا مرکز بنالیا ۔ ۱۹۸۹ء میں عبداللہ عزام پشاور میں اپنے دو بیٹوں کے ہمراہ ایک بم دھماکے میں انتقال کرگئے ۔ عبداللہ عزام کے قاتل آج تک معلوم نہ ہوسکے ، تاہم بعض حلقے ان کے قتل کو بھی عرب مجاہدین کے اندرونی اختلافات کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ جب کہ کچھ ذرائع ان کے قتل کو احمد شاہ مسعود سے ان کی قربت اور ایک مجاہد تنظیم اور ایرانی انٹیلی جنس کی مشترکہ کارروائی کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں ۔ عبداللہ عزام کے انتقال کے بعد باقی ماندہ عرب مجاہدین بھی اسامہ کے گرد جمع ہونے لگے ۔ نجیب حکومت کے خاتمے اور مجاہدین کے اقتدار کے بعد ۱۹۸۹ء میں اسامہ بن لادن واپس جدہ چلے گئے ، لیکن ان کے نظریات اور سرگرمیاں سعودی حکومت کو راس نہ آئیں۔ انھیں ایک بار سعودی حکومت نے گرفتار بھی کیا ، لیکن وزیرداخلہ جنرل خالدجو اسامہ کے قریبی دوست تھے ، نے انھیں رہائی دلائی ۔ سعودی حکومت نے ان کا پاسپورٹ بھی ضبط کررکھا تھا اور جب ۱۹۹۱ء میں وہ سوڈان جانے لگے تو جنرل خالد نے ہی انھیں خصوصی جہاز میں بٹھا کر سوڈان روانہ کیا۔ سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے دباؤ بڑھ جانے کے بعد وہ اپنے ملک کو چھوڑ کر سوڈان چلے گئے جہاں سوڈانی لیڈر عمرالبشیراور حسن ترابی ان کے میزبان بنے ۔ ان دنوں سوڈانی حکومت وہاں پر موجود عیسائیوں سے برسرپیکار تھی ۔ اسامہ بن لادن نے اپنے مجاہدین کو سوڈان بلانا شروع کیا اور ’’افتال السودان‘‘ کے نام سے تنظیم قائم کرکے عیسائیوں کے خلاف جہاد میں حصہ لینا شروع کیا۔ سعودی عرب کے شاہی خاندان کے بارے میں اسامہ بن لادن کا رویہ روز بروز سخت ہوتا جارہا تھا ۔ وہ عرب سرزمین پر امریکی فوجوں کے قدم جمانے کی اجازت دینے پر اپنی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے چنانچہ ۱۹۹۴ء میں سعودی عرب نے ان کی سعودی شہریت ختم کردی۔ اس عرصے میں امریکا کی طرف سے اسامہ بن لادن کو نکالنے کے لیے سوڈان کے خلاف دباؤ بڑھتا گیا اور بالآخر ۱۹۹۶ء میں سوڈانی حکومت نے امریکی پابندیوں کے خوف سے اسامہ بن لادن کو سوڈان چھوڑنے کا حکم دیا۔ اسامہ بن لادن نے واپس افغانستان جانے کا فیصلہ کیا۔

مئی ۱۹۹۶ء میں گلبدین حکمت یار نے ان کو لانے کے لیے اپنے تین قریبی ساتھیوں فضل حق مجاہد، استاد سازنور اور انجینئرمحمود کو سوڈان بھیجا ، جہاں سے ایک خصوصی چارٹرڈ طیارے کے ذریعے سے اسامہ بن لادن اپنے اہل خانہ اور قریبی ساتھیوں کے ہمراہ جلال آباد منتقل ہوئے ۔ جلال آباد پہنچ کر اسامہ بن لادن نے ایک بار پھر اپنے تربیت یافتہ لوگوں کو جمع کرنا شروع کیا اور ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے تمام مالی وسائل بھی افغانستان منتقل کرنے لگے ، لیکن اب کی بار ان کا ٹارگٹ سوویت یونین نہیں ، بلکہ امریکا تھا۔

اسامہ بن لادن جلال آباد پر طالبان کے قبضے تک اس شہرکے پارمیڑہ نامی علاقے میں اپنے ساتھیوں سمیت مقیم رہے ۔ ابتدا میں طالبان اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کے شدید مخالف تھے۔وہ اسامہ بن لادن کو گلبدین حکمت یار اور استاد سیاف کا آدمی تصور کررہے تھے ۔ طالبان کٹر حنفی اور دیوبندی تھے ، جبکہ اسامہ بن لادن اور دیگر عرب غیرمقلد یعنی اہل حدیث تھے ۔ طالبان کا یہ خیال تھا اور جو واقعی درست خیال تھا کہ اسامہ اور ان کے ساتھی افغانستان میں وہابیت پھیلارہے ہیں ،یہ عنصر بھی اسامہ بن لادن سے ان کی نفرت کا باعث تھا ۔ حیرت انگیز طور پر جب طالبان اسامہ بن لادن کے میزبانوں یعنی گلبدین حکمت یار اور مشرقی شوریٰ کو شکست دے کر جلال آباد پر قابض ہوگئے تو اسامہ بن لادن کے ساتھ ان کی دوستی استوار ہوئی ۔ حنفی مسلک کے طالبان اور وہابی مسلک کے اسامہ بن لادن کی دوستی کی یہ اچانک استواری بظاہر تو بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے ، لیکن حقائق جاننے والے لوگوں کے لیے یہ کسی اچنبے کی بات نہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل میں سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ ترکی الفیصل نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ ترکی الفیصل نہ صرف اسامہ بن لادن سے گہری ہمدردی رکھتے تھے ، بلکہ شروع سے لے کر آخر تک اسامہ بن لادن کے ساتھ قریبی رابطے میں بھی رہے ۔

جلال آباد پر طالبان کے قبضے سے دو روز قبل اسامہ بن لادن ’’تورہ بورہ‘‘ کے پہاڑوں میں منتقل ہوگئے تھے ، لیکن جلال آباد پر قبضے کے بعد ملامحمد عمر نے جو فرمان جاری کیا ، اس کا پہلا حصہ تو جلال آباد کے عام شہریوں کے لیے معافی کے اعلان پر مشتمل تھا ، لیکن دوسرے حصے میں اسامہ بن لادن کو مہمان قراردے کر قندہارمنتقل کرنے کا بھی ذکر کیا گیا تھا ، تاہم اس وقت فرمان کے اس دوسرے حصے کو مشتہر نہیں کیا گیا۔ جلال آباد پر طالبان کے قبضے کے بعد اسامہ بن لادن کے تین میزبانوں میں سے دو یعنی استاد سازنور اور انجینئر محمود کو ایک اور شمالی کمانڈر کے بھائیوں نے موقع سے فائدہ اٹھا کر قتل کیا ، جبکہ ان کے تیسرے میزبان فضل حق مجاہد بھاگ کر پشاور چلے آئے جو بعد میں یہیں قتل کردیے گئے۔ دو روز بعد طالبان کے اس وقت کے سپریم کمانڈر ملا بورجان نے اسامہ کو تلاش کرکے جلال آباد منتقل کیا اور وہاں موجود میرے ایک افغان دوست کے بقول جب اسامہ بن لادن کو جلال آباد لایا گیا تو وہ اپنے قریبی دوستوں استاد سازنور اور انجینئر محمود کی ہلاکت پر اتنے غم زدہ تھے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔ اس موقع پر ایمن الظواہری اور ابوزبیدہ بھی اسامہ بن لادن کے ساتھ تھے ۔ ملا بور جان نے ملا محمد عمر کے حکم پر اسامہ بن لادن کو قندہارمنتقل کیا اور یوں طالبان اور اسامہ کی دوستی کا آغاز ہوا۔

اسامہ بن لادن کے حوالے سے سعودی حکومت کا کردار انتہائی دلچسپ ہے ۔ باوجود اس کے کہ وہ اسامہ بن لادن کو اپنا دشمن سمجھ رہی تھی ، آخری وقت تک اس نے اسامہ بن لادن کو بچانے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ اس غرض سے وہ طالبان کو بھرپور مالی امداد بھی فراہم کرتی رہی ، جبکہ پاکستانی اداروں نے بھی اگر امریکی دباؤ کے باوجود ، اسامہ بن لادن کے خلاف آخری وقت تک کوئی قدم اٹھانے سے گریز کیا تو وہ سعودی حکومت کے دباؤ کا ہی نتیجہ تھا ۔ سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ ترکی الفیصل ہر موقع پر اسامہ بن لادن کے ساتھ رابطے میں رہے اور بظاہر دشمن بن کر وہ طالبان کے ذریعے سے اسامہ بن لادن کو ہر طرح کی سپورٹ فراہم کرتے رہے ۔ طالبان حکومت کے باخبر لوگ ایک لمبے عرصے تک اسامہ بن لادن کو اپنے پاس سعودی حکومت کی ایک امانت تصور کرتے رہے ۔ سعودی حکومت کی اس گیم کا بخوبی اندازہ اس واقعے سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ اگست ۹۸ء میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعدامریکی حکومت کے دباؤ پر ایک روز سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ ترکی الفیصل طالبان کے امیر المومنین ملا محمد عمر سے ملنے قندہارگئے ۔ وہ اپنے ساتھ اسامہ کو لے جانے کے لیے ایک خالی جہاز بھی لے گئے تھے اور چونکہ وہ جانتے تھے کہ اسامہ بن لادن کو انھوں نے ہی طالبان کے حوالے کیا ہے ، اس لیے انھیں پکا یقین تھا کہ ان کے مطالبے پر ملا عمر اسامہ کو ان کے حوالے کردیں گے ۔ قندہارجاکر انھوں نے طالبان کے سربراہ کو انتہائی تحکمانہ انداز میں کہا کہ اسامہ کو ان کے حوالے کیا جائے ، لیکن جواب میں ملا محمد عمر نے انکار کرتے ہوئے ترکی الفیصل کو کھری کھری سنائیں۔ ملا عمر نے ان سے کہا کہ اسامہ اب ان کے لیے عزت اور غیرت کا مسئلہ بن گیا ہے اور وہ کسی بھی صورت اسے ان کے حوالے نہیں کرسکتے ۔ کہا جاتا ہے کہ ملا عمر نے ترکی الفیصل سے یہ بھی کہا کہ وہ سعودی عرب کے نہیں ، بلکہ افغانستان کے سربراہ ہیں اور یہاں اس طرح کی بے غیرتی کے کام نہیں ہوسکتے ۔ اس واقعے کے بعد سعودی عرب نے طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ، تاہم خفیہ روابط ، ان کی حکومت کے خاتمے تک استوار رہے۔

یہاں فطری طور پر یہ سوال جنم لیتا ہے کہ سعودی حکومت کس لیے اس دہرے کردار کا مظاہرہ کررہی تھی؟ اس سوال پر جتنا بھی غور کیا جائے تو اس کی دو وجوہات سامنے آتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ سعودی عرب کا شاہی خاندان اسامہ جیسے اپنے کسی اہم شہری کے امریکا کے ہاتھوں میں چلے جانے کو اپنی غیرت اور وقار کے منافی سمجھتا تھا ۔ دوسری طرف انھیں ڈر تھا کہ اگر اسامہ بن لادن امریکا کے حوالے کیا گیا تو اس کا خود سعودی عرب کے اندر شدید ردعمل ہوگا ۔ چونکہ اسامہ بن لادن کاخاندان سعودی عرب میں بے پناہ احترام اور سماجی او رمالی حیثیت کا حامل ہے ، اس لیے ان کی گرفتاری کا ملک کے اندر شدید ردعمل کا امکان تھا ۔ شاہی خاندان کی نظر میںبن لادن خاندان کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل اسامہ کے ایک رشتہ دار وفات پاگئے تھے جس کی نماز جنازہ میں نہ صرف شاہ فہد نے علالت کے باوجود شرکت کی ، بلکہ شاہی خاندان کے تقریباً تمام افراد اس میں شریک تھے۔

طالبان سے دوستی استوار ہونے کے بعد اسامہ بن لادن نے دنیا بھر سے جہاد کے شوقین نوجوانوں اور امریکا مخالف عناصر کو افغانستان میں اکٹھا کرنا شروع کیا ۔ انھوںنے اپنے تمام وسائل بھی افغانستان منتقل کردیے ۔ کابل کے قریب ریشخور، خوست ، کندوز ، قندہاراور جلال آباد سمیت کئی علاقوں میں انھوں نے اپنے ٹریننگ کیمپ بنالیے ، جن میں عرب دنیا اور دیگر خطوں سے آنے والے جوانوں کو عسکری ٹریننگ دی جاتی تھی ۔ ان ٹریننگ کیمپوں میں پڑھنے والوں کے لیے باقاعدہ ایک کورس تیار کیا گیا تھا۔ کئی سو صفحات پر مشتمل تیرہ کتابوں کا یہ کورس ہر جوان کو پڑھایا جاتا تھا ، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کو نظریاتی اور عملی تربیت بھی دی جاتی تھی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اسامہ بن لادن امریکا کے دشمن نمبر ون کے طور پر ابھرتے رہے ۔ ابتدا میں نیویارک کی ایک عدالت نے اسامہ بن لادن کو دہشت گردی کا ملزم قرار دے دیا۔ امریکا نے ۳۹۹۱ء میں صومالیہ میں ہلاک ہونے والے اٹھارہ امریکی سپاہیوں کے قتل کی ذمہ داری بھی اسامہ پر ڈال دی۔ ۵۹۹۱ء میں ریاض میں پانچ امریکیوں کی ہلاکت ، ۳۹۹۱ء میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں بم دھماکوں ، ۴۹۹۱ء میں فلپائن میں بل کلنٹن کے قتل کے ناکام منصوبے اور اسی طرح کے دیگر متعدد واقعات کے لیے بھی اسامہ بن لادن کو ذمہ دار قراردے دیا گیا ۔ادھر ۳۹ء کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر دھماکوں میں عمر قید کی سزا پانے والے مصر کی ’’الجماعۃ الاسلامیہ‘‘ کے نابینا رہنما عمر عبدالرحمان، جنھیں امریکی عدالت نے عمرقید کی سزا سنائی ہے ، کے دونوں بیٹے اور دیگر قریبی ساتھی بھی افغانستان آکر اسامہ بن لادن کے ساتھ مل گئے ۔ اسی طرح امریکا مخالف اور اپنے ملکوں میں خلاف قانون قرار پانے والی متعدد دیگر اسلامی تنظیموں کے عہدہ دار اور رہنما بھی افغانستان آکر اسامہ بن لادن کے گرد جمع ہوگئے ۔ ۷۹۹۱ ء میں اسامہ بن لادن کو قتل کرنے کے لیے جلال آباد میں بم دھماکے کرائے گئے جس میں پچاس کے قریب افراد ہلاک ہوئے ، لیکن اسامہ بن لادن یا اس کے کسی قریبی ساتھی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اس واقعے کے بعد اسامہ بن لادن نے اپنی حفاظت پر خصوصی توجہ دی اور اپنی سرگرمیوں کو زیرزمین بنا نے کے ساتھ ساتھ مزید تیز کردیا۔ امریکا نے ۶۹۹۱ء میں سعودی عرب کے علاقے دہران میں اپنے فوجیوں پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری بھی اسامہ بن لادن پر ڈال دی ۔ اسی سال اسامہ بن لادن نے امریکا کے خلاف علانیہ طور پر جہاد کا اعلان کیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ وہ امریکا کے خلاف چھوٹے پیمانے پر کارروائیوں کے اہل ہیں ۔ نومبر ۶۹۹۱ء میں انھوںنے ریاض اور سعودی عرب میں امریکیوں کے خلاف ہونے والے حملوں کی ستائش کی ۔ اگلے سال ایک انٹرویو میں اسامہ بن لادن نے کہا کہ ’’اگر کوئی (مسلمان) کسی امریکی فوجی کو قتل کرسکتاہے تو اس کے لیے مناسب نہیں کہ وہ کسی اور کام میں اپنا وقت ضائع کرے۔‘‘ ۸۹۹۱ء میں امریکی حکومت نے پاکستان کی تنظیم ’’حرکۃ الانصار‘‘ سمیت دنیا بھر میں متعدد مجاہد تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے دیا ۔ اسی سال فروری کے مہینے میں افغانستان کے پکتیا صوبے میں اسی طرح کی متعدد تنظیموں کاایک اجلاس منعقد کیا گیا جنھوں نے القاعدہ کی سرکردگی میں ایک اتحاد بنا کر امریکا کے خلاف جہاد جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر القاعدہ میں جن تنظیموں کو مدغم کیا گیا ان میں مصر کی ’’الجماعۃ الاسلامیہ‘‘ ، مصر ہی کی ’’اسلامی جہاد‘‘ ،پاکستان کی ’’حرکۃ الانصار‘‘ ، فلپائن کی ’’مورو‘‘ اور ’’ابوسیاف گروپ‘‘کے علاوہ شام کی ’’حزب نصر‘‘ اور یمن کے ’’زندانی گروپ‘‘ سمیت متعدد دیگر تنظیمیں شامل تھیں۔ 

اگست ۸۹۹۱ء میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں میں زبردست بم دھماکے ہوئے جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوگئے ۔ امریکا نے ان دھماکوں کے لیے اسامہ بن لادن کو ذمہ دار قرار دے کر طالبان کی حکومت سے ان کی سپردگی کا مطالبہ کیا ، لیکن طالبان حکومت نے اس مطالبے کو سختی کے ساتھ رد کردیا۔ اس سلسلے میں امریکی حکومت نے سعودی عرب پر بھی دبائو بڑھا دیا ، لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہ آیا ۔ چنانچہ اس کے چند روز بعد امریکا نے خوست اور جلال آباد میں اسامہ بن لادن کے کیمپوں پر کروز میزائل فائر کیے ، جس میں بائیس افراد جو زیادہ تر ’’حرکۃ الانصار‘‘ کے کارکن تھے ،ہلاک ہوئے ، لیکن اسامہ بن لادن اور ان کے عرب ساتھیوں میں سے کسی کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ان حملوں کے بعد اسامہ بن لادن نے اپنی سرگرمیاں مزید تیز کردیں ۔ افغانستان میں عرب مجاہدین کی آمد اور تربیت کا سلسلہ زور پکڑ گیا ۔ طالبان حکومت میں اسامہ بن لادن کا اثرورسوخ بڑھنے لگا۔ ان کے مجاہدین طالبان کے ہمراہ احمد شاہ مسعود کی فوجوں کے خلاف جنگ میں حصہ لینے لگے ۔ دوسری طرف عرب ممالک میں امریکا مخالف شیوخ اور زیرزمین تنظیموں نے بھی اسامہ بن لادن کو امریکا کا حقیقی دشمن سمجھ کر سپورٹ کرنا شروع کردیا ۔ وہ اپنے ملکوں میںبھاری رقومات اکٹھی کرکے اسامہ بن لادن کو بھجواتے رہے ۔ دوسری طرف امریکا مخالف ممالک کے انٹیلی جنس ادارے بھی اسامہ بن لادن کی مدد کے لیے آگے بڑھے ۔ سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ ترکی الفیصل کی امداد اس کے علاوہ تھی ۔ چنانچہ اکاؤنٹ منجمد ہونے کے باوجود اسامہ بن لادن کے مالی وسائل روز بروز بڑھتے رہے ۔ اپنی تنظیم کی سرگرمیوںاور لوگوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ وہ یہ رقم طالبان حکومت کو بھی فراہم کرتے رہے جس کی وجہ سے طالبان کا وقت کے ساتھ ساتھ ان پر انحصار بڑھتا گیا۔ عالمی پابندیوں کا اگر طالبان پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اسامہ بن لادن بڑی حد تک ان کے اخراجات پورے کرتے رہے ۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ طالبان تحریک کے متعدد رہنما بالخصوص کابل میں براجمان لوگ اسامہ بن لادن کے مخالف تھے ، لیکن اسامہ بن لادن کی مذکورہ حیثیت کی وجہ سے وہ ملا محمد عمر کو اسامہ سے متعلق پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور نہ کرسکے ۔

فروری ۹۹۹۱ء میں عالمی دبائو میں کمی لانے کے لیے ایک روز اچانک طالبان نے اعلان کیا کہ اسامہ بن لادن افغانستان چھوڑ کر چلے گئے ہیں ، لیکن کچھ عرصہ بعد اسامہ دوبارہ نہ صرف منظر عام پر آئے ، بلکہ اپنے ٹریننگ کیمپوں کی ایک ویڈیو بھی ریلیز کرائی ۔ اسامہ بن لادن ، ستمبر ۱۰۰۲ء تک امریکا اور طالبان کے مابین وجہ نزاع بنے رہے کہ امریکا میں گیارہ ستمبر کی دہشت گردی کے ہول ناک واقعے نے امریکا سمیت پوری دنیا کو لرزا دیا ۔ امریکیوں نے ان حملوں کے لیے اسامہ بن لادن کو ذمہ دار قرار دے دیا ۔ طالبان کی طرف سے اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کی وجہ سے امریکا نے افغانستان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ۔ اس کارروائی کے لیے اس نے اقوام متحدہ کی نیشنل سیکورٹی کونسل سے منظوری بھی حاصل کرلی ، جبکہ دوسری طرف امریکا نے دبائو ڈال کر پاکستان جیسے ممالک کو بھی طالبان کی حمایت سے دست بردار کرا دیا۔ چین اور روس جیسے ممالک نے بھی اس کارروائی میں امریکا کی حمایت کی ۔ اس سب کچھ کے باوجود طالبان اسامہ بن لادن کے معاملے پر کسی قسم کی سودے بازی کرنے پر آمادہ نہ ہوئے ۔ ۷ اکتوبر ۲۰۰۲ء کو امریکا نے طالبان کے خلاف باقاعدہ جنگ شروع کی۔جس کے نتیجے میں طالبان کی حکومت تو ضرور ختم ہوئی ، تاہم اسامہ بن لادن اور ملا محمد عمر بدستور زندہ ہیں ۔ امریکی اب بھی اسامہ بن لادن کو اپنے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں اور افغانستان میں وقتاً فوقتاً القاعدہ کے وابستگان کی جانب سے مختلف پاکٹس کی صورت میں مزاحمت بھی ہورہی ہے ۔ افغانستان کی حالیہ جنگ میں اسامہ بن لادن کے نو قریبی لوگوں میں سے کوئی بھی ہلاک یا گرفتار نہیں ہوسکا ۔ صرف ابوزبیدہ پاکستان کے شہر فیصل آباد سے گرفتار ہوئے ہیں ، تاہم درحقیقت اسامہ کی تنظیم میں وہ اس قدر اہم نہیں تھے جس طرح کہ امریکا کی طرف سے تاثر دیا جاتا ہے ۔

طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد اسامہ بن لادن ساتھیوں سمیت پاکستانی سرحد کے قریب واقع ننگرہار صوبے کے پہاڑی علاقے تورہ بورہ میں پہلے سے بنی ہوئی غاروں میں منتقل ہوئے ۔ شمالی اتحاد اور امریکا کی فوجیں شدید بمباری کے بعد اس علاقے پر قابض ہوگئیں، تاہم اس وقت کے ننگرہار کے کورکمانڈر حاجی محمد زمان جو کمانڈر حضرت علی کے ہمراہ تورہ بورہ آپریشن کی نگرانی کررہے تھے ، کے بقول اسامہ بن لادن اپنے اہم ساتھیوں سمیت بحفاظت نکلنے میں کامیاب ہوگئے ۔ حاجی محمد زمان نے مجھے بتایا کہ کمانڈر حضرت علی کے فوجی جو تورہ بورہ سے نکلنے والے راستوں پر مامور تھے ، نے رشوت لے کر اسامہ اور ان کے ساتھیوں کونکلنے کا راستہ دیا۔ تورہ بورہ کے بعد پکتیا صوبے کے علاقے شاہی کوٹ میں بھی امریکی افواج کو القاعدہ اور طالبان کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ، لیکن شدید بمباری اور اس کے نتیجے میں متعدد افراد کی ہلاکت کے بعد اس علاقے کو بھی امریکی فوجوں نے قبضے میں لے لیا۔ 

امریکا افغانستان میں 

اقبال نے افغانستان کو ایشیا کا دل قرار دیا تھا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ ایک صدی میں افغانستان ایشیا کا ہی نہیں ، بلکہ پوری دنیا کا دل بنا رہا۔ ۷۱۹۱ء میں روس میں کمیونسٹ انقلاب برپا ہونے کے بعد سے اسے دنیا کے دوبڑے بلاکوں کے درمیان بفر سٹیٹ کی حیثیت مل گئی ۔ ایک طرف سوویت یونین نے افغانستان پہ نظریں جمالیں تو دوسری طرف سرمایہ دار دنیا کا لیڈر برطانیہ ، پہلے آئو پہلے پائو، کے محاورے کو ذہن میں رکھ کر بھوکے پیاسے ، مگر غیور افغانوں کی سرزمین پر حملہ آور ہوا۔ تب افغانستان دنیا کی دو سپرطاقتوں کی جنگ کا اکھاڑا بن گیا۔ دوسری جنگ عظیم تک یہ حالت رہی کہ ملک افغانوں کا تھا، لیکن اس کی سرحدوں کے تعین کے معاہدات سوویت یونین اور سلطنت برطانیہ کے مابین ہوتے رہے ۔ جنگ عظیم کے بعد مغربی دنیا کی قیادت برطانیہ سے چھن کر ، امریکا کے ہاتھ آئی تو سپرپاور کا منصب سنبھالتے ہی اس نے بھی اولین فرصت میں سوویت بلاک کے اس آخری مستقر پر نظریں جمالیں ۔ دوسری طرف سوویت یونین گرم پانی تک پہنچنے کے لیے راستے میں حائل اس رکاوٹ کو عبور کرنے کے لیے پے درپے قدم اٹھا رہا تھا۔ بظاہر تو امریکا سوویت یونین کی فوج کشی کے بعد کھل کر افغانستان میں دخیل ہونے لگا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے بہت پہلے سے افغانستان کے اندر متحرک تھی ۔ اسی طرح سفارتی محاذوں پر بھی وہ افغانستان کو اپنا مہرہ بنانے کے لیے کوشاں رہا ، لیکن چونکہ سوویت یونین افغانستان کی سرحد پر ، جبکہ امریکا سات سمندر پار واقع تھا اور کمیونسٹ نظریات بھی بڑی حد تک افغان لیڈرشپ میں سرائیت کرچکے تھے ، اس لیے امریکا کا کردار اس قدر نمایاں نہیں رہا ، جیسا کہ سوویت یونین کا تھا۔ امریکا اور افغانستان کے مابین سفارتی تعلقات ۴۳۹۱ء میں قائم ہوئے ۔ اگرچہ ۰۵۹۱ء میں امریکا نے افغانستان کی طرف سے دفاعی شعبے میں تعاون کی درخواست مسترد کردی ، لیکن اقتصادی شعبے میں تعاون جاری رکھا۔ ۰۵۹۱ء سے لے کر ۹۷۹۱ء تک امریکا نے افغانستان کو قرضوں ، گرانٹس اور دیگر شعبوں میں تقریباً پانچ سو ملین ڈالر اقتصادی امداد فراہم کی تھی ۔ پلڑا سوویت یونین کا ضرور بھاری رہا ، لیکن ۸۷۹۱ء تک افغانستان کی حکومت غیرجانب دار پالیسی پر عمل پیرا رہ کر دونوں بلاکوں کے ساتھ بہتر تعلقات کے قیام کے لیے کوشاں رہی ، تاہم کمیونسٹ انقلاب کے بعد امریکا اور افغانستان کے تعلقات نہ صرف انتہائی کشیدہ ہوگئے ، بلکہ فروری ۹۷ء میں کابل میں امریکی سفیر کے قتل کے ساتھ افغانستان کو تقریباً ہر قسم کی مالی امداد کی ترسیل بھی بند کردی گئی۔ افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی مداخلت کے بعد امریکا کھل کر میدان میں آگیا اور مزاحمت کے لیے پاکستان کو بیس کیمپ بنا کر اس نے مجاہدین کی سپورٹ کے لیے نہ صرف ڈالروں کے انبار لگا دیے ، بلکہ اپنے بلاک میں شامل عرب اور مغربی ممالک کے عسکری اور مالی وسائل کو بھی افغان جہاد میں جھونک دیا ۔ امریکا نہ صرف افغانستان میں ویت نام کا بدلا لینا چاہ رہا تھا ، بلکہ دیگر مغربی اتحادیوں کے ساتھ مل کر وہ افغانستان کو اپنے لیے وقت کے سب سے بڑے خطرے یعنی کمیونزم کا قبرستان بھی بنانا چاہ رہا تھا ۔ اس دوران میں امریکا نے افغانستان کی جہادی قوتوں کو کھل کر سپورٹ کیا ۔ اسی طرح اسامہ بن لادن کی طرح ہزاروں عرب مجاہدین کو ترغیب دلانے ، افغانستان لانے اور سپورٹ کرنے میں بھی امریکی سی آئی اے کا کردار بنیادی نوعیت کا رہا ۔ پاکستان میں امریکا نے جہاد افغانستان کے سب سے بڑے علم بردار جنرل محمد ضیاء الحق کی فوجی حکومت کو اسی طرح بسروچشم قبول کر لیا جس طرح وہ اب جنرل پرویز مشرف کی حکومت کو کر رہا ہے ۔ جنرل ضیاء کی حکومت کو ہرقسم کی فوجی اور سفارتی مدد فراہم کی گئی ۔ یہ اسی افغان جہاد کی برکت تھی کہ امریکا نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر چشم پوشی کا رویہ اختیار کیے رکھااور ایف سولہ طیاروں سمیت انواع واقسام کے جنگی سازوسامان سے بھی پاکستان کو مسلح کرتا رہا۔ امریکا ، افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار تھا ۔یہاں تک کہ اس نے افغان جہاد کو سپورٹ کرنے والی پاکستان کی مذہبی تنظیموں کو بھی کھل کر سپورٹ کیا۔ ان تنظیموں کو براہ راست سپورٹ کرنے کے بجائے امریکا نے زیادہ تر اپنے اتحادی عرب ملکوں کے روٹ کا سہارا لیا اور یہی وہ دور تھا جب پاکستان میں دینی مدارس کی عمارتیںبلند ہونے لگیں اور مذہبی رہنما پجارو گاڑیوں اور ڈبل ڈور ڈاٹسنوں میں محافظین سمیت پھرتے نظر آنے لگے ۔ امریکی سی آئی اے نے افغان جہادی گروپوں کو مالی سپورٹ فراہم کرنے کی خاطر ہیروئن کی پیداوار اور سمگلنگ پر نہ صرف چشم پوشی کا رویہ اختیار کیے رکھا ، بلکہ بڑی حد تک خود بھی اس دھندے میں ملوث رہی ۔ 

فروری ۹۸ء میں افغانستان سے سوویت افواج کی واپسی اور بعدازاں گورباچوف کی پرسٹرائیکا کے نتیجے میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرجانے کی صورت میں امریکا کی مراد بھر آئی ۔ کمیونزم کے خطرے کے ٹل جانے کے بعد اس نے افغان مجاہدین اور مہاجرین کے لیے اقتصادی امداد کی بندش اور فرنٹ لائن سٹیٹ یعنی پاکستان کو آنکھیں دکھانے میں دیر نہیں لگائی۔ بظاہر تو امریکا افغان معاملات سے لاتعلق ہوگیا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دوران میں بھی وہ افغانستان میں خفیہ ، مگر بھرپور طریقے سے سرگرم عمل رہا ۔ کمیونزم کے خطرے سے بے فکر ہوکر جب امریکی تھنک ٹینک سرجوڑ کے بیٹھ گئے تو انھیں احساس ہوا کہ افغانستان کے اندر وہ مجاہدین اور ہیروئن کی صورت میں نئے خطروں کو پروان چڑھاچکے ہیں ۔ چنانچہ اب امریکا ان دونوں چیزوں کو ٹارگٹ بنا کر ان کے پیچھے پڑ گیا۔ لاکھوں مہاجرین کو پاکستان کے گلے ڈال دیا گیا ۔ وہ مجاہدین ، جنھیں مغربی میڈیا نے ہی مجاہدین کے خطاب سے نوازا تھا ، رفتہ رفتہ گوریلے اور انتہاپسند بننے لگے ۔ امریکا گلبدین حکمت یار جیسے بے لچک اور عالمی سوچ کے حامل لوگوں کو افغانستان کے حکمران نہیں دیکھنا چاہتا تھا ، چنانچہ اس نے اقوام متحدہ کے ذریعے سے ظاہر شاہ اور مغرب کے لیے قابل قبول دیگرلوگوں کو تخت کابل پر بٹھانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ امریکی سی آئی اے نے متحارب مجاہد دھڑوں کو ایک دوسرے کے خلاف ابھارنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جس کے ذریعے سے ایک طرف ان قوتوں کو کمزور کرنا مقصود تھا تو دوسری طرف اس عمل کا ٹارگٹ وہ اسلحہ اور سٹنگر میزائل تھے ، جو سوویت یونین کے خلاف امریکا ہی نے مجاہدین کو فراہم کیے تھے ۔ اسی طرح امریکا نے ہیروئن کی پیداوار اور سمگلنگ ، جو اہل مغرب اپنے لیے اپنا ہی پیداکردہ خطرہ سمجھ رہے تھے ، کو روکنے کے لیے دن رات ایک کیے رکھا۔ پاکستان کے اندر پہلی فرصت میں مجاہدین افغانستان کے سب سے بڑے پشتیبان اور وسط ایشیا تک عظیم اسلامی بلاک بنانے کے آرزو مند جنرل محمد ضیاء الحق کو ان کے قریبی ساتھیوں سمیت ٹھکانے لگا دیا گیااور بعدازاں آئی ایس آئی سے اسی سوچ کے علمبرداروں کو چن چن کر نکالا گیا۔ 

۴۹۹۱ء تک مجاہد تنظیموں کو ایک دوسرے سے خوب اچھی طرح پٹوایا گیا۔ افغانستان کے کونے کونے سے بیشتر سٹنگر میزائل اکٹھے کرکے سی آئی اے نے بھاری رقومات کے عوض مجاہد لیڈروں سے واپس خرید لیے اورجب مجاہدین کے ہاتھوں عالمی عزائم رکھنے والی اسلامی حکومت کے قیام کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ٹل گیا تو امریکا نے اپنی توجہ وسط ایشیا کے معدنی ذخائر کی جانب مبذول کردی ۔ اس کے لیے واحد میسر روٹ افغانستان ہی تھا ، اس لیے اپنے زیردست واحد سیاسی اتھارٹی کے قیام کے لیے امریکا نے پاکستان اور سعودی عرب جیسے زیردست ممالک کے ساتھ مل کر طالبان کی صورت میں ایک نئی قوت کو ابھارنا شروع کردیا۔ ان کے ذریعے سے مجاہدین کی رہی سہی قوت بھی پارہ پارہ کردی گئی ، لیکن یہاں بھی امریکا ایک بار پھر اس صورت حال سے دوچار ہوا جس سے وہ مجاہدین کے معاملے میں دوچار ہوا تھا ۔ ترکمانستان سے گیس کی پائپ لائن بچھانے کے لیے امریکی کمپنی یونیکال کے بجائے ،بریڈاس کو ترجیح دے کر طالبان نے امریکا پر واضح کر دیا کہ وہ اس کی توقعات کے مطابق نہیں چل سکتے۔ اسی طرح طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے فہم کے مطابق جس نظام کو رائج کیا ، وہ مجاہدین کے تصور سے بھی دو قدم آگے تھا۔طالبان کے اس رجحان کے ساتھ ساتھ ایک اور رجحان بھی برابر جاری رہا اور وہ یہ کہ اسامہ بن لادن کی زیرقیادت ، امریکی سی آئی اے کی شہ پر جو عرب مجاہدین افغانستان میں تربیت پاگئے تھے ، افغانستان سے فراغت کے بعد فطری طور پر ان کی نظریں فلسطین جیسے مسائل کی طرف اٹھنے لگیں ۔ دوسری طرف اسامہ بن لادن نے سعودی حکومت کے ساتھ اپنے تنازعے کی وجہ عرب سرزمین پر امریکی فوجوں کی موجودگی بتائی اور وہ ان کو نکالنے کے عزم کے ساتھ سرگرم عمل ہوگئے۔ تیسری بات یہ تھی کہ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں نے جہاد کے جس تصور کو اپنایا تھا ، وہ ان کے ایمان و یقین کا حصہ بن گیا تھا۔ وہ تصور جہاد صرف سوویت یونین تک محدود نہیں تھا ، بلکہ اس کی زد میں ہر طاغوت نے آنا تھا اور چونکہ سوویت یونین کے بعد امریکا واحد سپرطاقت بن گیا ، اس لیے فطری طور پر سب سے بڑے طاغوت کی جگہ اس نے لے لی ۔ ادھر یہ حقیقت اپنی جگہ موجود تھی کہ عربوں کے سب سے بڑے دشمن یعنی اسرائیل کا اصل سرپرست امریکا تھا چنانچہ اس حوالے سے بھی امریکا ان عرب مجاہدین کا دشمن نمبر ون قرار پایا ۔ ادھر خود امریکی دانش وروں نے سوویت یونین کے زوال کے بعد اس جہادی کلچر ، جسے کسی زمانے میں خود انھوںنے پروان چڑھایا تھا ، کو اپنی سلامتی کے لیے مستقبل کا سب سے بڑا خطرہ قرار دینا شروع کیا اور ان کی حکومت جہادی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے کران کے خلاف کارروائیوں میں مگن ہوگئی۔ ماضی میں امریکا کے حلیف ، لیکن حال کے یہ دشمن ، عرب مجاہد اسامہ بن لادن کی قیادت میں افغانستان میں جمع ہوگئے تھے ۔گزشتہ صدی کے آخری عشرے کے آغاز سے ہی یہ لوگ امریکا کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کی مختلف کارروائیوں کے ملزم قرار دیے جانے لگے ۔ دوسری طرف انھوںنے بھی جوابی کارروائیاں تیز کرتے ہوئے اپنی قوت کو افغانستان میں جمع کرنا شروع کیا۔ امریکا کے یہ شدید ترین مخالف ، مجاہدین سے ہوتے ہوئے طالبان کے پاس آپہنچے اور طالبان نے نہ صرف انھیں اپنے ہاں پناہ دے دی ، بلکہ بڑی حد تک اپنے معاملات کو بھی ان کے سپرد کرڈالا۔ ان لوگوں کی وجہ سے ایک بار پھر امریکا افغانستان میں خصوصی دلچسپی لینے لگا۔ اسامہ بن لادن کے ایشو پر وہ طالبان کے خلاف مختلف اطراف سے دبائو ڈالتا رہا ، لیکن طالبان کسی صورت سودے بازی پر آمادہ نہ ہوئے ۔ اگست ۸۹ء میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں کے اندر بم دھماکوں کے بعد امریکا نے افغانستان میں اسامہ بن لادن کے ٹھکانوں پر میزائلوں کے حملے کیے ، جس کے بعد طالبان اور اسامہ بن لادن کے ساتھ امریکا کی دشمنی میں مزید شدت آگئی۔ امریکا اور طالبان کے درمیان یہ کشمکش ستمبر ۱۰۰۲ء تک جاری رہی ۔ اس دوران میں طالبان شمالی اتحاد سے بھی برسرپیکار رہے ۔ امریکا طالبان کی حکومت کو ہٹانا چاہ رہا تھا ، لیکن وہ طالبان مخالف شمالی اتحاد کو سپورٹ کرنے سے بھی گریزاں تھا ۔ شمالی اتحاد چونکہ بڑی حد تک روس اور ایران کے زیراثر تھا ، اس لیے امریکا نے طالبان کے مقابلے میں اس کی طرف ہاتھ بڑھانے کے بجائے ، ایک تیسری قوت کو ابھار کر طالبان کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی درپردہ کوششیں جاری رکھیں، لیکن گیارہ ستمبر کو امریکا میں دہشت گردی کے واقعات نے امریکا سمیت تمام فریقوں کے منصوبوں کو تلپٹ کرکے رکھ دیا ۔ امریکا نے گیارہ ستمبر کے واقعات کے لیے اسامہ بن لادن کو ذمہ دار ٹھہرا دیا اور ۷ اکتوبر ۱۰۰۲ سے طالبان اور القاعدہ کے خلاف بھرپور جنگ کا آغاز کردیا گیا۔ طالبان اور القاعدہ کو بہرصورت زیر کرنے کی خاطر امریکا نے نہ صرف شمالی اتحاد کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا ، بلکہ عالمی سطح پر ایک اتحاد قائم کرکے دنیا کے کئی دیگر ممالک کو بھی اپنا ہم نوا بنا لیا ۔ امریکی کارروائیوں کے نتیجے میں ۱۰۰۲ء کے اواخر میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ امریکا کی اشیرباد سے دسمبر ۱۰۰۲ء میں جرمنی کے شہر بون میں طالبان اور ان کے حامیوں کے سوا تقریباً تمام افغان دھڑوں کا نمائندہ اجلاس منعقد ہوا جس میں اگلے چھ ماہ کے لیے حامد کرزئی کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس حکومت میں فیصلہ کن اور موثر حصہ وزیر دفاع جنرل قاسم فہیم کی زیر قیادت شمالی اتحاد کے اس گروپ کو دیا گیا جو ماضی میں احمد شاہ مسعود سے متعلق تھا۔ کرزئی حکومت کے قیام کے بعد بھی امریکی اور برطانوی افواج القاعدہ اور طالبان کے بقایاجات کے خلاف سرگرم عمل رہیں۔ اس کے بی ۲۵ طیارے بھی وقتاًفوقتاً مختلف علاقوں میں بمباری کرتے رہے جس میں بعض اوقات معصوم اور بے گناہ شہری بھی بڑی تعداد میں نشانہ بنتے رہے ۔ طالبان کے خلاف کارروائی کے آغاز سے قبل امریکا نے ایک بار پھر اپنے ماضی کی تاریخ دہرا دی اور ہر طرح کی اخلاقی اقدار کو پامال کرتے ہوئے ہر اس چھوٹی بڑی قوت کا سہارا لیا جو اس عمل میں اس کے کام آسکتی تھی۔ ماضی کی طرح پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کو شرف قبولیت بخش دی گئی اور دبائو ڈال کر طالبان کے اس دیرینہ دوست کو بھی اپنے ساتھ ان کے خلاف لاکھڑا کیا۔ پاکستان نے امریکا کو لاجسٹک اور انٹیلی جنس کے میدانوں میں مدد فراہم کی ۔ امریکی فوجیں پاکستان کے ہوائی اڈوں پر بدستور موجود ہیں جب کہ القاعدہ کے خلاف پاکستانی قبائلی علاقوں میں ، پاکستانی ادارے امریکی کمانڈوز اور ایف بی آئی کی نگرانی میں آپریشن کررہے ہیں ۔ 

بون کانفرنس میں طے پانے والے معاہدے کی رو سے جون ۲۰۰۲ء میں ، افغانستان کے مستقبل کی عبوری حکومت کی تشکیل کے لیے کابل میں لویہ جرگہ طلب کیا گیا ۔ جرگے کے انعقاد اور فیصلوں میں فیصلہ کن کردار امریکا ہی ادا کرتا رہا اور افغانستان کے لیے امریکی صدر بش کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد مختلف عہدوں کے لیے افراد کو نامزد کرکے لویہ جرگہ سے اس کی توثیق کراتے رہے ۔ لویہ جرگے کے فیصلے کی رو سے حامد کرزئی کو اگلے اٹھارہ ماہ کے لیے عبوری سربراہ مقرر کیا گیا ، جن کی حکومت اس دوران میں عام انتخابات کی راہ ہموار کرے گی ۔ اس حکومت میں بھی وزیر دفاع جنرل فہیم کی زیرقیادت شمالی اتحاد ہی کو فیصلہ کن کردار دیا گیا ہے ۔ 

طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد عملاً افغانستان پر امریکی کنٹرول قائم ہوگیا ہے ، لیکن جہاں ایک طرف روپوش اسامہ بن لادن اور طالبان امریکا کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں وہاں دوسری طرف ایک بار پھر افغانستان کے اندر عالمی قوتوں کی کھینچا تانی زور پکڑ گئی ہے ۔ امریکا نے بادل ناخواستہ شمالی اتحاد کو تو بطور اتحادی قبول کر لیا ہے ،اور اس وقت برسرزمین وہی سب سے موثر قوت ہے ، اس لیے اس کے ساتھ ٹکرنہیں لی جا رہی ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکا اس کے اثر کو گھٹاکر ان کے مقابلے میں حامد کرزئی اور اسی نوع کے دیگر مغرب کے زیراثر لوگوں کو آگے لانا چاہتی ہے ۔ دوسری طرف روس شمالی اتحاد کو سپورٹ کررہا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ افغانستان پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے ۔ اسی طرح ایران شیعہ دھڑوں کے ساتھ ساتھ اسماعیل خان جیسے اپنے اتحادیوں کو محتاط ، مگر انتہائی موثر طریقے سے سپورٹ کرنے لگا ہے ۔ گیارہ ستمبر کے بعد افغان پالیسی میں یوٹرن لینے کے بعد اگرچہ پاکستان یوں تو افغانستان سے ہاتھ اٹھا چکا ہے جب کہ اس کے سلامتی کے اداروں کو مشرقی سرحد پر ہندوستان نے بھی بری طرح مصروف کردیا ہے ، لیکن وہ بھی افغانستان کی صورت حال سے آنکھیں بند کرکے نہیں بیٹھا ہے اور کسی حد تک اس کے متعلقہ ادارے ایک بار پھر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے انگڑائیاں لینے لگے ہیں ۔خود یورپی یونین کے ممالک اگرچہ جنگی کارروائیوں میں امریکا کے شانہ بشانہ رہے ، لیکن افغانستان کے سیاسی مستقبل کے لیے وہ جو ایجنڈا اپنے ذہن میں رکھتے ہیں ، وہ بڑی حد تک امریکا کے ایجنڈے سے متصادم نظر آتا ہے ۔ اسی طرح ترکی ، جس نے برطانیہ کے بعد امن فوج کی قیادت سنبھال لی ہے ، افغانستان کے اندر رشید دوستم کی صورت میں اپنا پسندیدہ گروپ رکھتا ہے۔ گیارہ ستمبر کے بعد جو جذباتی فضا پیدا ہو گئی تھی ، اس نے افغانستان کے اہم پڑوسی ممالک مثلاً ایران، چین اور روس کو نہ صرف وقتی طور پر خاموش رکھا ، بلکہ انھوںنے افغانستان پر مکمل امریکی کنٹرول جیسے اہم واقعے پر بھی آنکھیں بند کیے رکھیں ، لیکن امریکا خطے میں مستقبل کے جوعزائم رکھتا ہے ، ان کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ ممالک بہت جلد خاموشی کا روزہ توڑ دیں گے۔ اس تجزیے سے اگر اتفاق کر لیا جائے تو یہ کہنا بالکل بجا نظر آتا ہے کہ مستقبل میں افغانستان ایک بار پھر عالمی شاطروں کے کھیل کا اکھاڑہ بننے والا ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B