HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ریحان احمد یوسفی

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

’’سقوط بغداد سے سقوط ڈھاکہ تک‘‘

مصنف: میاں محمد افضل

ضخامت: ۵۶۵

قیمت:۳۶۰روپے

ناشر: الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، اردو بازار، لاہور


تاریخ کا علم کئی اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اہمیت کا سب سے نمایاں پہلو غالبا یہ ہے کہ اس علم سے انسان نہ صرف اپنا رشتہ ماضی سے جوڑے رکھتا ہے ، بلکہ مستقبل کی رہنمائی بھی انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ مزید براں یہ کہ تاریخ ماضی کی ایک داستان ہے اور داستان سننا اور سنانا ہمیشہ سے ایک دلچسپ امر رہا ہے۔ مسلمانوں کے لیے تاریخ سے دلچسپی کا ایک اضافی سبب بھی پایاجاتاہے۔ عام انسانوں کے برعکس جنھیں صرف اپنے خطے ، نسل اور قوم کی تاریخ سے تعلق ہوتا ہے، مسلمان دنیا کے ہر اس علاقے کی تاریخ کو جس سے کبھی بھی امت مسلمہ کا واسطہ رہا ہو، اپنی تاریخ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ پاکستان کا مسلمان بغداد واسپین کی تاریخ میں بھی اتنی ہی دلچسپی رکھتا ہے جتنی ہندوستان کی مغل حکومت کی تاریخ میں۔

ہماری اس تمہید کا سبب یہ ہے کہ زیرتبصرہ کتاب تاریخ سے متعلق ہے اور اس میں قارئین کی دلچسپی کے وہ تمام پہلو پائے جاتے ہیں جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے۔ کتاب کا نام ’’سقوط بغدادسے سقوط ڈھاکہ تک ‘‘ ہے اور کتاب کے مصنف میاں محمد افضل صاحب ہیں۔

عام طور پر ایک تاریخی کتاب میں کسی خاص دور کے تمام واقعات زمانی ترتیب سے بیان کردیے جاتے ہیں۔تاہم اس کتاب میں مصنف نے اسلامی تاریخ کے انھی واقعات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جن کا تعلق ، جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے، مسلمانوں کے زوال سے ہے۔ اس سے مصنف کا مقصود قدرت کے اس قانون کا بیان ہے جو قوموں کے زوال کے پس پشت ہمیشہ سے کار فرما رہا ہے۔چنانچہ وہ کتاب کی ابتدا میں قانون خداوندی کے عنوان سے لکھتے ہیں :

’’قانون خداوندی ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں سے محبت نہیں کرتا، حد سے باہر نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا خواہ وہ مسلم ہوں یاغیر مسلم۔قانون الہٰی یہ بھی ہے کہ دنیا میں کسی قوم یا حکمران کو ہمیشہ غلبہ حاصل نہیں ہوتااور قوموں کے درمیان ایام میں تغیرو تبدل ہوتا رہتا ہے، قانون قدرت یہ بھی ہے کہ جب تک کوئی قوم خود اپنے اندر تبدیلی کا خیال پیدا نہیں کرتی اس کی حالت تبدیل نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔ خرابی ہمیشہ اندر سے واقع ہوتی ہے اور پھر سرطان کی طرح پورے نظام کو لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جب پھوڑا متعفن ہوجاتا ہے توپھر نشتر اور آپریشن ناگزیر ہوجاتا ہے، قدرت کا کوڑا برستا ہے اورآنے والی نسلوں کے لیے عبرت کے نشان چھوڑ جاتا ہے۔ یہ کوڑا کبھی چنگیز کی شکل میں نمودار ہوتا ہے ، کبھی ہلاکو کی صورت میں، کبھی تیمور کی صورت میں، کبھی نادر شاہ کی صورت میں اور کبھی آپس میں لڑ لڑ کر مرنے کی صورت میں۔ قدرت کی طرف سے یہ عذاب اس وقت نازل ہوتے ہیں جب اصلاح کا جذبہ اجتماعی طور پر ختم ہوجائے یا اصلاح کی طرف متوجہ کرنے والے مٹھی بھر عناصر کی بات نہ سنی جائے ، بلکہ ان کی تذلیل کی جائے۔ قدرت جلدی کسی قوم سے ناامید نہیں ہوتی ، انتظار کرتی ہے۔ آخری اور کاری ضرب اس وقت لگائی جاتی ہے جب خیر کا عنصر قومی جسد سے خارج ہوجاتا ہے۔‘‘ (۱۷)

یہ پوری کتاب ماضی میں مسلمانوں میں پیدا ہوجانے والے مذکورہ بالا سرطان اور اس کے نتیجے میں کیے جانے والے فطرت کے آپریشن کی روداد ہے۔ اس روداد کو دہرانے سے مصنف کا مقصد مسلمانوں کو ان رویوں پر متنبہ کرنا ہے جن کی بنا پر وہ ماضی میں شکست، تباہی اور رسوائی کا شکار ہوئے۔لہٰذا مصنف نے ان تمام موقعوں پر جب کہ مسلمانوں کو شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا، تباہی ، بربادی اور رسوائی کے واقعات کے ساتھ ساتھ اس دور میں مسلمانوں کے رویوں اور حالات کا بھی تفصیلی نقشہ کھینچا ہے۔کتاب کا آغاز سقوط بغداد کی داستان سے ہوتا ہے اور اختتام سقوط ڈھاکہ پر۔ بیچ میں تیمور کے ہاتھوں عالم اسلام کے مشرقی ممالک، عیسائیوں کے ہاتھوں مسلمانانِ اندلس، زارِ رروس کے ہاتھوں وسط ایشیائی ریاستوں، انگریزوں کے ہاتھوں مسلمانان ہند اور یورپی اقوام کے ہاتھوں ترکان عثمانی کی تباہی کی سرگزشت بھی بیان ہوئی ہے۔

مسلمانوں کی تاریخ کا پہلا اور غالبا سب سے بڑا زوال، جس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں ، وہ تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد اور خلافت عباسیہ کی تباہی ہے۔ یہ صرف عربوں کی حکومت کا ہی خاتمہ نہ تھا ، بلکہ علم و فن کے میدان میں مسلمانوں کی برتری کا خاتمہ تھا۔ تاتاری یلغار کا آغاز چنگیز خان سے ہوا۔ خوارزم شاہ کی ایک حماقت کی بنا پر کہ اس نے چنگیز خان کے سفیروں کو قتل کرادیاتھا ، چنگیز خان کو اہل اسلام پر حملے کا جواز مل گیا۔اس کے بعد اس نے اور اس کی اولاد نے مسلمانوں پر تباہی اور ہلاکت کے وہ دروازے کھولے جس کی مثال تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔اس تباہی کا نقطۂ عروج سقوط بغداد تھا۔ مصنف نے اسی سانحہ کے بیان سے کتاب کا آغاز کیا ہے اور اسے مسلمانوں پر عذاب الہٰی کا پہلا کوڑا قرار دیا ہے۔

سقوط بغداد کا فوری سبب مصنف نے بجا طور پر مسلمانوں کے باہمی افتراق کو قرار دیا ہے جس کے نتیجے میں ایک فریق خلافت کی بربادی پر آمادہ ہوگیا ۔ یہ دوسری بات ہے کہ تاتاری قتل عام کرتے وقت لوگوں کا مسلک نہیں پوچھتے تھے۔ تاہم خلافت بنو عباس کے پیچھے زوال کی ایک طویل داستان تھی جس نے بتدریج اس کی سلطنت کو کھوکھلا کردیا تھا۔ مصنف نے دوسرے باب میں مختصراً اسی داستان کو بیان کیا ہے کہ کس طرح خلفاے بنو عباس نے اپنے اپنے دور اقتدار میں اخلاقی طور پر پست کرداری کا ثبوت دیا۔

اس میں شک نہیں کہ بغداد کی تباہی ایک عظیم سانحہ تھی ،تاہم اس کے بعد ہونا یہ چاہیے تھا کہ مسلمانوں میں کوئی اصلاحی تحریک اٹھتی جو ان اسباب و عوامل کا گہرا تجزیہ کرتی جن کی بنا پر مسلمان اس حال کو پہنچے، لیکن اس کے بجائے مسلمانوں نے بے عمل تصوف کی ردا اوڑھ کر خود کو گردش دوراں سے الگ کرلیا۔ اگلی دو تین صدیوں میں، چند مستثنیات کو چھوڑ کر، علم وفن، تہذیب و تمدن، سیاست و مذہب غرض ہر میدان میں مسلمانوں پر موت طاری ہوگئی۔ چنانچہ قدرت کا طاقت ور ہاتھ ایک دفعہ پھر حرکت میں آیا۔ اس دفعہ اس نے ہاتھ میں جو کوڑا اٹھایا وہ گرچہ مسلمان تھا ، مگر تھا تاتاری ۔ دنیا اسے تیمور لنگ کے نام سے جانتی ہے۔ تیمور کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں:

’’اس نے چھتیس سال حکومت کی اور اس عرصے میں دیوار چین سے ماسکو اور جنوب میں دریائے گنگا کے ساحل سے لے کر دریائے نیل تک کے وسیع وعریض علاقے کو فتح کیا اور اپنے تابع کیا۔دنیا میں وہ اس اعتبار سے ایک بے مثال فاتح ہے کہ مشہور فاتحین عالم جیسے خسروئے اعظم، اسکندر یونانی، چنگیز خان، ہلاکو، ایٹلا، شارلمین اور نپولین وغیرہ میں سے کسی نے بھی اتنے زیادہ ملک فتح نہیں کیے تھے۔ چنگیز خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تیمور ان بستیوں اور شہروں کو بالکل برباد کردیتا تھا جو ا س کے سامنے ذرا بھی مزاحمت کرتے تھے۔‘‘

مصنف نے تیسرے اور چوتھے باب میں بالتفصیل اس تباہی کی داستان بیان کی ہے جو تیمور کے ہاتھوں، عثمانی حکومت، ایران اور ہندوستان کے لوگوں پر مسلط ہوئی۔ ساتھ ساتھ اس دور کے لوگوں کی اخلاقی حالت کا تفصیلی نقشہ بھی کھینچا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تباہی کی یہ داستان پڑھنا بڑے حوصلے کا کام ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جب کسی معاشرے میں اجتماعی اخلاقیات دم توڑنے لگتی ہیں اور لوگ اجتماعی خیر و شرسے بے نیاز ہوکر اپنے اپنے معاملات میں مگن ہوجاتے ہیں تو اس کے لازمی نتیجے کے طور پر کوئی بڑی اور عظیم الشان تباہی جنم لیتی ہے۔ پہلے ان پر ظالم اور بدکردار حکمران مسلط ہوتے ہیں اور اس کے بعد باہمی خانہ جنگی یا کسی بیرونی طاقت کی یلغار سے ہر نیک و بد بلا تفریق بربادی کا شکار ہوجاتاہے۔

قرون وسطیٰ میں مسلمانوں پر جو ہمہ گیر غفلت طاری ہوئی ، اس کے نتیجے میں کم و بیش تمام متمدن اسلامی دنیا پر خدا کے قہر کا کوڑا برس چکا تھا۔ تاہم ابھی تک مسلمانوں کے مغربی حصے میں واقع اسپین کی عظیم الشان حکومت کو خدا کی طرف سے ڈھیل مل رہی تھی۔ مگر کب تلک؟ آخر کار اس کا نمبر بھی آگیا۔ مصنف نے اگلے تین ابواب اسی عظیم الشان مسلم تہذیب کی نذر کیے ہیں جس نے آٹھ صدیوں تک یورپ میں اسلام کی شمع جلائے رکھی۔ مصنف نے انتہائی تفصیل سے مسلم اسپین کے عروج و زوال کا نقشہ کھینچا ہے۔ابتدائی تین صدیاں جن میں اسپین پر اموی خلفا بر سر اقتدار رہے مسلمانوں کے عروج کا زمانہ تھا۔ ان کے آخری دور میں مسلمانوں کے زوال کا آغاز ہوگیا۔ لیکن قدرت مسلمانوں کو مہلت دینے پر آمادہ تھی ۔ چنانچہ افریقہ سے پہلے مرابطین اور پھر موحدین کی مدد کے سہارے مسلمانان اندلس اپنے وجود کو عیسائی مگر مچھوں سے بچانے میں کامیاب رہے۔ تاہم جب کوئی قوم اندر سے کمزور ہوجائے تو خارجی سہارے زیادہ دیر تک اس کو زندگی نہیں دے سکتے۔ ۱۲۱۲ء میں موحدین کی شکست کے بعد مسلمان اندلس میں بتدریج سکڑتے چلے گئے۔ شائد قدرت مسلمانوں کو ایک ساتھ پوری دنیا میں تباہ نہیں کرنا چاہتی تھی وگرنہ یہ وہی دور تھا جس میں چنگیزکے لشکر مشرقی ممالک کی مسلم بستیوں کو کھنڈروں میں بدل رہے تھے۔ چنانچہ پورے اسپین پر عیسائیوں کے قبضے کے باوجود ڈھائی صدی تک غرناطہ مسلمانوں کی واحدجائے پناہ بنا رہا اور آخر کار ۱۴۹۲ء میں غرناطہ میں بھی مسلم اقتدار کا سورج ڈوب گیا۔ مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھائے گئے۔ انھیں بے دریغ قتل کیا گیا ۔جبرا ان کا مذہب تبدیل کرایا گیا۔۱۶۰۹ء میں عیسائیوں نے آخری مسلمانوں کو بھی اسپین چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ یوں عیسائیوں نے اسپین کی زمین کو مسلمانوں کے وجود سے ’’پاک‘‘ کردیا۔

یہ وہ کہانی ہے جو مصنف نے ان تین ابواب میں بیان کی ہے۔اسپین کی اس دردناک کہانی پر مسلمانوں نے بہت مرثیے کہے، مگر غالبا سبق کوئی حاصل نہیں کیا۔ ایسا ہوتا تو یہ کتاب یہاں ختم ہوجاتی ۔بہرحال قدرت نے مسلمانوں کو کچھ صدیوں کی مہلت عثمانیوں کی عظیم الشان حکومت کی شکل میں دے دی، مگر اس کی کوئی تفصیل کتاب میں درج نہیں ، کیونکہ اس کا موضوع مسلمانوں کا عروج نہیں ، بلکہ زوال ہے۔ زوال کی اس داستان کا اگلا عنوان مصنف نے روس کے مسلمانوں کے حوالے سے باندھا ہے اور اگلے دو ابواب میں وسط ایشیائی مسلمانوں کی اس داستان کا احاطہ کیا ہے جس کے بعد وہ روسی اژدہے کے چنگل میں پھنس گئے۔ یہ حصہ اس اعتبار سے بڑا اہم ہے کہ ہمارے ہاں بالعموم اس خطے کے مسلمانوں کے زوال پر بہت زیادہ نہیں لکھا جاتا۔

مصنف نے کتاب کے اگلے پانچ ابواب میں ہند میں مغلیہ سلطنت، اس کے زوال اور اس دوران میں مسلمانوں پر ٹوٹنے والے مصائب وآلام کی داستان رقم کی ہے۔ نادر شاہ کے قتل عام سے لے کر جنگ آزادی کے بعد انگریزوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر توڑے جانے والے مظالم کی یہ داستان انتہائی دردناک ہے۔یہ کہانی اس بات کا اظہار بھی ہے کہ قانون قدرت بدلا نہیں کرتے۔ قرآن جب یہ کہتا ہے کہ اگر تم اپنی حرکتیں دہراؤگے تو ہم بھی اپنی سزا دہرائیں گے۔ (الاسراء ۱۷:۸) تو یہ تاریخ اس کی سچائی کی سب سے بڑی گواہ بن جاتی ہے۔

اس کے بعد عثمانیہ سلطنت کی داستان زوال ہے۔ چھ سو سال تک دنیا کے تین براعظموں پر اسلام کا پرچم لہرانے کے بعد عثمانی حکومت ختم ہوگئی۔ مصنف نے کمال و زوال کی اس داستان کو ایک باب میں نمٹایاہے۔کتاب کا آخری موضوع مملکت خداداد پاکستان کے باسیوں پر پڑنے والے اس خدائی کوڑے سے متعلق ہے جسے مصنف نے بہت جزئی تفصیلات کے ساتھ چار ابواب میں بیان کیا ہے۔ یہاں بھی مصنف نے سار ا پس منظر و پیش منظر، حالات واقعات اسباب ونتائج دقیقہ رسی کے ساتھ بیان کیے ہیں۔

یہ کتاب کئی اعتبار سے بہت مفید اور معلوماتی کتاب ہے۔ ہمارے ہاں بالعوم ماضی پر فخر کی روایت ہے یا مرثیہ گوئی کی۔ واقعات کے تحلیل و تجزیہ کا طریقہ ہمارے ہاں رائج نہیں ہے۔ اس کتاب میں یہ کمی دور کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ زوال دوسروں کی سازشوں سے نہیں آتا ، بلکہ اپنی کوتاہیوں اور بدعملیوں کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے۔مصنف نے کتاب میں مختلف مقامات پر زوال کے متعدداسباب بیان کیے ہیں ، مگر ہمارے نزدیک قوموں کے زوال کا اصل سبب اخلاقی انحطاط ہے۔ خود مصنف نے بھی کتاب میں اس بات کا اقرار کیا ہے۔ مثلا وہ اندلسی مسلمانوں کے زوال کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’تباہی یونہی نہیں آیا کرتی۔مکمل تباہی سے پہلے قوموں کی اخلاقی زندگی ختم ہوجایا کرتی ہے۔ ‘‘ (۱۳۸ )

اسی طرح وہ سقوط بغداد کے ضمن میں خانہ جنگی اور فرقہ پرستی کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں:

’’لیکن یہ حقیقت نفس الامری اپنی جگہ ہے کہ یہ آویزش اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے واقعات غم اس وقت کی مسلمان امت کے وجود میں اخلاقی سرطان کی نشان دہی کرتے ہیں۔‘‘ (۲۶)

اس آئینے میں ہم امت مسلمہ اور اہل پاکستان دونوں کا مرض و علاج دیکھ سکتے ہیں۔ لوگ عام طور پر اس حقیقت کا ادراک اس بنا پر نہیں کرپاتے کہ بالعموم تباہی کے ہر واقعہ کا کوئی نہ کوئی فوری اور ظاہری سبب بھی ہوتا ہے۔ اس لیے لوگ یہی خیال کرتے ہیں ہیں کہ اگر فلاں واقعہ نہ ہوتا یا فلاں شخص اس طرح کے رویے کا مظاہرہ نہ کرتا تو یہ سانحہ نہ ہوتا۔ یہ خیال درست نہیں ۔جن انسانی معاشروں کو اخلاقی زوال کی دیمک لگ جائے تو ان کی تباہی مقدر ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد مسئلہ صرف دیر سویر کا ہوتا ہے جس کا تعلق انسانوں کے بارے میں خدا کی وسیع تر حکمت سے ہوتا ہے۔ جب خدا کا اذن ہوتا ہے تو کوئی نہ کوئی فوری محرک رونما ہوجاتا ہے اور معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے۔ عام آدمی اپنی کوتاہ بینی کی بنا پر تباہی کی تمام ذمہ داری اسی فوری محرک پر ڈال دیتے ہیں۔

اس کتاب سے قدرت کے بارے میں ایک منفی تاثر بھی زائل ہوتا ہے جو تاریخ کے ایسے جاں گسل واقعات پڑھ کر ایک قاری کے ذہن میں بعض اوقات پیدا ہوجاتاہے ۔ وہ یہ کہ قدرت شاید بڑی ظالم ہے جو ایسے سفاک لوگوں کو معصوم عوام پر مسلط کردیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کے درست مطالعہ سے خدا کا وہ قانون واضح ہوتا ہے جو اس نے سورۂ انفال (۸) کی آیت ۲۵ میں بیان کیا ہے کہ ڈرو اس فتنے سے جو صرف گنہ گاروں ہی کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے گا۔ اصل میں ہم لوگ حکمرانوں پر ساری ذمہ داری ڈال کر فارغ ہوجاتے ہیں۔حالانکہ یہ عوام الناس ہوتے ہیں جو اپنی مذہبی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو جب فراموش کرتے ہیں تو قدرت سزا کے طور پر ظالموں کو ان پر مسلط کردیتی ہے۔ یہ کتاب خدا کے اس قانون کی تفصیل کرتی ہے۔

کتاب کی ایک بڑی خوبی اس کی جامعیت ہے ۔ مصنف نے تمام موقعوں پر زوال کی داستان بیان کرنے سے قبل مختصرا اس علاقے میں مسلمانوں کی پوری تاریخ بیان کردی ہے جس سے قاری کی نگاہ میں پورا پس منظر آجاتا ہے۔کتاب کا اسلوب بہت سادہ اوررواں ہے اور ایک عام ذہنی سطح کا قاری بھی بڑی روانی سے یہ کتاب پڑھتا چلا جاتا ہے۔ البتہ مصنف بعض جگہ بہت جذباتی ہوجاتے ہیں۔ اس کیفیت میں کسی مصنف کا قلم غیر جانب دار اور حقیقت پسندنہیں رہ سکتا۔ اسی طرح کتاب میں ایک نقص یہ ہے کہ مصنف نے مسلمانوں کی مجموعی تاریخ بیان کرتے وقت بڑی مایوسی کا اظہار کیا ہے ۔جس سے قاری کے ذہن میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں کوئی خیر ہی نہیں گزرا ، بلکہ ہر حال میں وہ منفی رویے کے حامل رہے ہیں۔ یہ تاثر قطعاََ درست نہیں ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ دنیا کی درخشاں ترین تاریخ ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں زوال کے دو ہی ادوار آئے ہیں۔ ایک قرون وسطیٰ کا دور اور دوسرا موجودہ دور۔ ان کو چھوڑ کر تقریباََ ہزار سال تک مسلمانوں نے سیاست میں ہی نہیں ، بلکہ زندگی کے ہر میدان میں اعلیٰ ترین روایات کو فروغ دیا ہے۔ مسلمان حکمرانوں کا موازنہ ہم ہمیشہ خلفاے راشدین سے کرتے ہیں ، اس لیے ہمیں اچھے محسوس نہیں ہوتے ، وگرنہ اپنے ہم عصرغیرمسلم حکمرانوں کے اعتبار سے وہ بہت بہتر تھے۔

مصنف نے جتنی عرق ریزی سے کتاب لکھی ہے ، وہ قابل قدر ہے ، لیکن انھوں نے تاریخوں کے بیان میں کچھ کمی کی ہے۔ ایک تاریخی کتاب میں سنین کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ اگر فراہم نہ کی جائیں تو قاری زمانے کی تعیین میں واضح نہیں ہوپاتا۔ کتاب کی قیمت بھی ہمارے نزدیک کچھ زیادہ ہے۔ اس دور میں جب کہ لوگ کتاب پڑھنے سے ویسے ہی بھاگتے ہیں، زیادہ قیمت کتب بینی کی راہ میں ایک اضافی رکاوٹ بن جاتی ہے۔

بہرحال یہ اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک کامیاب کاوش ہے اور اس قابل ہے کہ تاریخی مطالعہ کا شوق اور مسلمانوں کا درد رکھنے والا ہر شخص اس کا مطالعہ کرے۔

____________

B